Saturday, July 27, 2024
homeدنیاآرفن گنج مویشی مارکیٹ آخر بند کیوں ہوگیا؟

آرفن گنج مویشی مارکیٹ آخر بند کیوں ہوگیا؟

مسلمانوں کی معیشت پرحملہ

گزشتہ صفحات میں جو اعدادو شمار آئے ہیں وہ یہ بتاتے ہیں مسلمانوں کی بیشتر آبادی یومیہ مزدوری پر منحصر ہے ۔سرکاری و منظم سیکٹر میں شرح نمائندگی بہت ہی کم ہے ۔بقیہ آبادی چھوٹے اور غیرمنظم کاروبارسے وابستہ ہوکر اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ایسے چھوٹے اور درمیانی درجے کی صنعت تو ملک کی معیشت کےلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔مسلمانوں کےلئے بھی یہ صنعت ریڑھ کی ہڈی ہے ۔مگر حالیہ دنوں میں کئی ایسی رپورٹیں سامنے آئی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے چھوٹے اور درمیانی درجے کی صنعتوں میں بھی مسلمان پیچھے جارہے ہیں ۔جس میں’’ کلکتہ کی لیڈر انڈسٹری ‘‘ قابل ذکر ہے ۔دودہائی قبل تک لیڈر انڈسٹری کچے مال سے لے کر پروڈکشن تک میں مسلم کاروباریوں کا دبدبہ تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ مسلم کاروباری پیچھے جارہے ہیں۔جب کہ اس انڈسٹری میں بھی ملازمت کرنے والوں میں بیشتر مسلمان ہیں ۔با ت 2010کی ہے، جنوبی 24پرگنہ کے برئی پور کے دیہی علاقے میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، جس میں مسلمانوں کی دوکانوں کو جلا دئے گئے تھے۔تنازع بہت ہی معمولی بات پر شروع ہوا تھا۔ مگر دھیرے دھیرے حالات خراب ہوگئے ۔اس واقعہ کی رپورٹنگ کے دوران ایک حقیقت سامنے آئی کہ دیہی علاقوں میں واقع مارکیٹ اور بازروں میں ایسے بھی مسلمانوں کی دوکانیں بہت ہی کم ہیں ، کچھ دوکانیں ہیں توانہیں کسی نہ کسی بہانےسے تباہ وبرباد کردئے جاتے ہیں ۔
ملک بھرمیں فرقہ وارانہ فسادات بھی اسی تناظر میں ہوتے تھے جن شہرو ں اور صنعتوں میں مسلمانوں کو دبدبہ تھا ان شہروں اور صنعت کا تباہ وبرباد کردیاگیا ہے ۔علی گڑھ، مرادآباد، میرٹھ، فیروز آباداور بھاگلپور جیسے شہر جہاں کی صنعتوں پرمسلمانوں کا دبدبہ تھا اس کو فسادات کےذریعہ تباہ وبرباد کردیا گیا ہے ۔ایک سیمینار میں ایک غیرمسلم دانشورنے راجستھان میں بہلول خان کی موب لنچنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘‘یہ مسلمان پر حملہ نہیں ہے مگر گائے کے نام پر مسلمانوں پر حملہ صرف اس لئے نہیں کیا جارہا ہے وہ مسلمان ہے ۔بلکہ یہ کاروبار پر حملہ ہے ۔یہ کوشش ہے مسلمان، پسماندہ طبقات اور غریب افراد کو روزگار سے محروم کرنے کی کوشش ہے ۔انہوں نے کہا کہ دیہی علاقوں میں کم پونجی والے افراد عام طور پر جانوروں کی تجارت سے وابستہ ہیں ۔یہ تمام حملے اسی کڑی کا حصہ ہے۔ ‘‘غیر مسلم دانشور کی یہ بات کسی حدتک صحیح ہے دراصل2014کے بعد گئوکشی کے نام جس طریقے سے مسلم نوجوانوں کی موب لنچنگ ہوئی ہے اس سے مویشی اور دودھ کے کارروبارسے جوڑے لوگوںکی زندگی عدم تحفظ کا شکار ہوگئی ہے ۔
کلکتہ شہر کے خضرپور کے قریب کلکتہ میونسپل کارپوریشن کے تحت چلنے والا ’’آرفن گنج مویشی ‘‘ مارکیٹ کو کلکتہ ہائی کورٹ کےایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے بند کردیا گیا تھا۔ جب کہ عدالت نے مارکیٹ کو بند کرنے ہدایت دی ہی نہیں تھی بلکہ حکومت کو ہدایت دی تھی کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ 14سال کی کم عمر اور دودھ دینے والے جانوروں کی قربانی نہ ہو۔مگر ممتا بنرجی کی قیادت ولی حکومت نے مارکیٹ کو ہی بند کردیا ۔اس کی وجہ ےہزاروں افراد بے روزگار ہوگئے ۔اس مارکیٹ میں بنگال بھر سے جانور لائے جاتے تھے ۔ایک اندازے کے مطابق 50ہزار افراد وابستہ تھے۔مگر مارکیٹ بند ہونے کی وجہ سے جانورکے تاجر وں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔2011سے 2021کے درمیان مارکیٹ کے گدی نشینوں نے مارکیٹ کو کھلوانے کی ہزار جتن کئے مگر ناکام رہے ۔اس درمیان مارکیٹ بند کئے جانے کے خلاف کلکتہ ہائی کورٹ میں عرضی دی گئی۔2018میں کلکتہ ہائی کورٹ نے اس معاملے پرفیصلہ سناتے ہوئے کلکتہ میونسپل کارپوریشن کو ہدایت دی کہ مارکیٹ کو دبارہ کھولے جائیں اور اس کےلئے کلکتہ میونسپل کارپوریشن کو انتظامات کرنے کی ہدیت دی گئی مگر تین سال بیت گئے اب تک اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوسکی۔


کلکتہ ہائی کورٹ میں اس معاملے کی پیروی کرنے والے سید شاہد امام کہتے ہیں کہ ہم نے عدالت سے کہا کہ عدالت نے اپنے گزشتہ فیصلے یہ بات کہی تھی کہ’’ مغربی بنگال انیمال سلائوٹر کنٹرول ایکٹ 1950‘‘ کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیےاور یہ ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے۔ مگر حکومت نے 2011میں مارکیٹ کو ہی بند کردیا ۔جب کہ جانوروں کی خرید وفرخت پر کہیں پر پابندی عاید نہیں کی گئی ہے۔شاہدامام کہتے ہیںکہ عدالت نے اپنے فیصلے میںتسلیم کیا کہ آرفن گنج میں جانوروں کی خریدو فروخت تاجروکا بنیادی حق ہے اس لئے کلکتہ کارپوریشن مارکیٹ کو تیارکرے اور جانوروں کی خریدوفروحت کےلئے انفراسٹکچر تیار کرے۔شاہدامام کہتے ہیں کہ دو سال بیت چکے ہیں اب تک اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے ۔جب کہ کلکتہ میونسپل کارپوریشن کے میئر اور شہری ترقیادت کے وزیر فرہاد حکیم کا تعلق اسی حلقے انتخاب سے ہے ۔


مارکیٹ کے تاجر سراج الدین نے کہا کہ دراصل مارکیٹ کی زمین پربلڈر مافیائو ں کی نظر ہے۔یہ ہزاروں کروڑ کی جگہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ انتظامیہ ، مقامی لیڈران کی ملی بھگت سے مارکیٹ کی بیشترزمینوں پر ناجائز قبضہ کرلیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس مارکیٹ کو کھلوانے کےلئے حکومت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیامگر کوئی بھی ہماری مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔جب کہ یہ مارکیٹ ایک صدی قدیم ہے اور اس سے کم وبیش 50ہزار افراد جڑے ہوئے تھے۔انہوں نے کہا کہ حکمراں جماعت کے لیڈرو ں سے بار بار ملاقات کے بعد سے ہم لوگوں کی امیدیں ٹوٹ چکی ہیں ۔اب ایک بار پھر ہم عدالت سے رجوع کرنے پر مجبور ہیں کہ عدالت کے فیصلے کو حکومت نافذ کرنے میں حکومت ناکام رہی ہے ۔کلکتہ ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کو بہانہ بناکر پوری مارکیٹ کو ہمیشہ کےلئے بند کرنے کافیصلہ کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے ۔ہم خود اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ حکومت کے قوانین کی خلاف ورزی نہ ہو۔محمد سراج کہتے ہیں کہ یہاں کئی ایسے لوگ ہیں جن کی نسلیں اس کاروبار سے وابستہ رہے ہیں ۔
یہ صورت حال صرف آرفن گنج مارکیٹ کا نہیں ہے بلکہ اترپردیش، جھار کھنڈ او ر دیگر ریاستی حکومتوں کے ذریعہ گائے کی تجارت کو لے کر سخت پابندی کی وجہ سے بیربھوم ضلع کے علم بازار میں واقع مویشی بازار کی رونق ختم ہوچکی ہے ۔ہفتے میں ایک دن لگنے والی اس مارکیٹ میں ریاست بھرکے جانور یہاں آتے تھے مگر ریاستی حکومتوں کے ذریعہ پابندی عائد کئے جانے کی وجہ سے تاجروں کی آمد کم ہوگئی ہے ۔سمیت ہلدار جو ایک مٹھائی کی دوکان چلاتے ہیںنے کہا کہ ہفتے میں مارکیٹ لگنے کی وجہ سے آس پاس کے علاقوں کے لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہوگئی تھی کیوں کہ تاجروں کی بڑی تعداد میں آنے کی وجہ سےآس پاس کے علاقے کی مارکیٹ میں رونق آگئی تھی مگر مودی حکومت کی غلط پالیسیوں اور بنگال حکومت کے ذریعہ مدد نہیں کئے جانے کی وجہ سے ہماری معیشت ڈوبتی جارہی ہے ۔
ایک طرف ممتا بنرجی اپنے اس سیاسی موقف کو باربار دہرانے سے گریز نہیں کرتی ہیں کہ ’’ہرایک کو کھانے کی آزادی ہے ، جو چاہے وہ کھائے،‘‘ مگر دوسری طرف مودی حکومت کے طرز پر ریاست بھر کے مویشی مارکیٹوں سے صرف نظر کرلیا گیا ہے ۔آرفن گنج مارکیٹ کے تاجر اور کسانوں بھی حکومت کی اسی دورخی سیاست کے شکار ہیں ۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین