کلکتہ31جولائی (انصاف نیوزآن لاین)
15سالہ فاطمہ(نام تبدیل)اس سال دسویں جماعت میں کامیابی حاصل کی ہے،والدین کی معاشی حالت بہتر نہیں ہونے کی وجہ سے وہ کسی اچھے اسکول میں نہ داخلہ لے سکتی ہے اور نہ اس کے والدین دودراز کسی اسکول میں داخلہ کرانے کی اجازت دے رہے تھے۔اس کیلئے گھر کے قریب واقع ”اے کے فضل الحق گرلس ہائرسیکنڈری اسکول“امیدوں کا مرکز تھا کیوں کہ اسی اسکول سے اس نے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔مگر یہاں گیارہویں جماعت میں داخلہ کیلئے 34ہزار سے زاید رقم بطور فیس ہونے کی وجہ سے وہ یہاں داخلہ لینے سے قاصر ہے۔ایسے میں فاطمہ کیلئے آگے کی تعلیم جاری رکھنا مشکل ہورہا ہے۔
”اے کے فضل الحق گرلس ہائرسیکنڈری اسکول“کلکتہ یتیم خانہ اسلامیہ کے زیر انتظام چلنے والا اسکول ہے۔یہاں عام طور پر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی فیملی کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ مرکزی کلکتہ میں آباد مسلم خاندان اپنی بچیوں کو اے کے فضل الحق گرلس ہائرسیکنڈری اسکول میں داخلہ کرانے کو ترجیح دیتے ہیں۔مسلم علاقے میں واقع ہونے کی وجہ سے انہیں لگتا ہے کہ ماحول اور سیکورٹی کے لحاظ سے یہ اسکول ان کی بچیوں کیلئے مناسب ہوگا۔مگر بھاری فیس والدین کے سامنے مشکلات کھڑا کردی ہے۔
بیٹی کے داخلہ کیلئے اسکول سے رابطہ کرنے والے محمد احسان اللہ کہتے ہیں ” اے کے فضل الحق گرلس ہائرسیکنڈری اسکول“چوں کہ یتیم خانہ اسلامیہ کی ملکیت ہے اور یہ فلاحی ادارہ ہے اس کا مقصد تجارت کرنا نہیں ہے۔اس لئے ہمیں اندازہ تھا یہاں فیس مناسب ہوگا اور داخلہ کی کارروائی آسانی سے ہوجائے گی۔مگر کامرس اور آرٹس میں داخلہ کیلئے 35سے 37ہزار تک کی فیس سے متعلق جان کر ہمارے پاؤں کے نیچے سے مٹی کھسک گئی۔انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے روزگار بہت ہی زیادہ متاثر ہوا ہے۔ایسے میں اتنی بڑی رقم دینا ہمارے لئے کافی مشکل ہے۔
احسان اللہ بتاتے ہیں دیگر کمیونیٹی کے اسکولوں کی فیس کافی کم ہے۔انہوں نے کہا کہ کالج اسٹریٹ میں واقع ”سیٹھ سورج مل جالان“ اسکول کی فیس صرف7ہزار ہے-سنٹرل ایونیو میں واقع ایس وی ایس ہائر سیکنڈری اسکول میں داخلہ فیس دس ہزار سے بھی کم ہے۔کلکتہ شہر کے بہتر ین اسکولوں میں سے ایک خالصہ ہائی اسکول(اقلیتی)میں فیس 15ہزار ہے۔اس اسکول کا اپنے معیار اور سہولیات کی وجہ سے شہرکے بہترین اسکولوں میں شمار ہوتا ہے۔ایسے میں یتیم خانہ اسلامیہ کے زیر انتظام چلنے والے اسکول کی فیس اتنی زیادہ کیوں ہے یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
” اے کے فضل الحق گرلس ہائرسیکنڈری اسکول“کی پرنسپل فرزانہ سلیم 30ہزار سے زاید فیس ہونے پر وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں حکومت سے کوئی مدد نہیں ملتی ہے۔اسکول کے سارے اخراجات اسکول انتظامیہ خود برداشت کرتی ہے۔اس کے باوجود ہم ان والدین کی درخواست پر غور کررہے ہیں جوداخلہ فیس جمع کرنے کے اہل نہیں ہے۔تاہم فرزانہ سلیم نے یہ نہیں بتائی اب تک کتنے طلبا کی فیس میں رعایت برتی گئی ہے۔
خیال رہے کہ 2021میں پہلی مرتبہ اے کے فضل حق ہائر سیکنڈری اسکول میں گیارہویں جماعت میں داخلہ ہورہا ہے۔اطلاعات کے مطابق کئی سال قبل ہی ہائر سیکنڈری کیلئے منظوری مل گئی تھی۔مگرانتظامیہ داخلہ نہیں لے پارہے تھے۔اے کے فضل حق ہائی گرلس اسکول کے ماہانہ فیس سے متعلق بھی کئی گارجین کی شکایت ہے کہ گیارہویں جماعت میں 1400 روپے ماہانہ جمع کرنا کافی مشکل ہے۔
رپن اسٹریٹ میں رہنے والے ایک عالم دین جو ایک مسجد کے امام بھی ہیں کی بیٹی اے کے فضل حق گرلس ہائی اسکول سے ہی دسویں جماعت میں تعلیم حاصل کی ہے۔گھر کے قریب ہونے کی وجہ سے وہ یہیں سے ہی گیارہویں جماعت میں بیٹی کا داخلہ کرانے چاہتے تھے مگر 35ہزار سے زایدداخلہ فیس ان کی استطاعت سے باہر تھا۔انہوں نے مجبوری میں اپنے گھر سے کئی کلو میٹر دور کلکتہ سی ایم او ہائی اسکول میں داخلہ کرایا ہے۔
”اے کے فضل الحق گرلس ہائرسیکنڈری اسکول“میں گیارہویں جماعت میں داخلہ کی بھاری فیس سے گارجین پریشان یتیم خانہ اسلامیہ کے زیرا نتظام چلنے والے اسکول کو تجارتی انداز میں چلائے جانے پر گارجین برہم۔—————–۔۔فیس سے ہی اسکول کے اخراجات چلتے ہیں:اسکول پرنسپل
متعلقہ خبریں