Saturday, July 27, 2024
homeخصوصی کالمنکاح اور ہمارا معاشرہ----------------------------- ...

نکاح اور ہمارا معاشرہ—————————– محمود عالم

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَا لَمِیْنَ،وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَا مُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَلِیْنَ
وَعَلٰی آلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ۔اَمَّا بَعْدُ…!

خاندان کی بنیادنکاح:
اللہ تعالیٰ نےدنیا کو وجودمیں لاکر اپنی شان کے مطابق زینت بخشی، حضرات آدم و حوا؉کو جنت سے اس دنیا میں منتقل فرمایا ، دنیا کا کاروبار چلانے اور اس کو آباد رکھنے کے لئے ان سےتوالد و تناسل کا سلسلہ جاری کیا ، جس سے خاندان ، خاندان سے گاؤں ، گاؤں سےقصبہ ،قصبہ سے شہر اور شہر وں سے ممالک وجود میں آئے۔
انسان سماجی حیوان ہے ، جواپنی بہت سی ضروریات کے لئے دوسروں کا محتاج ہے،اسے ضرورت ہے کہ خاندان کے زیر سایہ زندگی گذارے،؛ تاکہ حفاظت کی ایک حصار اسے چاروں طرف سے گھیرے رہے۔ خاندان کی بنیاد نکاح پر ہے، نکاح کے ذریعہ ہی مختلف رشتے وجود میں آتے ہیں؛ جو اس کے لئے حصار کا کام کرتے اور دکھ سکھ میں کام آتے ہیں ۔
نکاح انبیاء کرام؊ کی سنت:
نکاح انبیاء کرام؊ کی سنت ہے،حضرات یحیٰ اور عیسیٰ؉ کےعلاوہ تمام انبیاء؊ نے نکاح کئے ہیں،حضرت آدم؈ سے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ تک کوئی شریعت نکاح سے خالی نہیں ، ہر شریعت میںمرد و عورت کے جنسی تعلقات قائم کرنےکے لئے ایک خاص معاہدہ ہوتا تھا، اس خاص معاہدہ کےبغیرکسی شریعت نے مرد و عورت کے اس تعلق کوجائز نہیں رکھا؛البتہ اس معاہدہ کی صورتیں اور شکلیں بدلتی رہیں۔
نکاح ایک دائمی عبادت:
فقہاء نے لکھا ہے کہ جو عبادتیں ہمارے لئے ضروری قرار دی گئی ہیں ان میں کوئی ایسی عبادت، نکاح اور ایمان کے علاوہ نہیں ہے جو حضرت آدم؈ سے شروع ہوئی ہو اور جنت تک ساتھ چلی جائے ۔
نکاح ہمیشہ قائم رہنے والی عبادت ہے،تمام عبادتیں اپنے وقتوں کے ساتھ خاص ہیں؛ مثلاًانسان جب تک نمازمیں ہوتا ہے عبادت میں مشغول رہتا ہے ؛ لیکن سلام پھیرتے ہی نماز کی عبادت ختم ہوجاتی ہے،روزہ رکھتا ہے تو صبح صادق سے غروب آفتاب تک عبادت میں رہتا ہے ؛لیکن افطار شروع کرتے ہی روزہ کی عبادت ختم ہوجاتی ہے، زکوٰۃ نکال کر محتاج فقیر کے حوالہ کرتے ہی زکوٰۃ کی عبادت ختم ہوجاتی ہے، حج کی نیت سے ا حرام میں داخل ہوتے ہی حج کی عبادت شروع ہوجاتی ہے اور پھر اس کا آخری رکن ادا کرتے ہی یہ عبادت بھی ختم ہوجاتی ہے ؛لیکن نکاح ان تمام عبادتوں سے قدرے مختلف ہے ، ایجاب و قبول کے بعدسے نکاح کےقائم رہنے تک زن و شوہر پورے طور پر عبادت میں رہتے ہیں،خواہ کھانے پینے کی حالت میںہو ںیا سونے جاگنے کی، گھر کے اندر ہوں یا باہر، ہر حال میں دونوں عبادت میں مشغول رہتے ہیں،اس طرح دیکھیں تو یہ ایک مسلسل عبادت ہے۔
اسلام میں نکاح کوبڑی اہمیت حاصل ہے،رسول اللہ ﷺ نے اسے خود اپنی اور اپنے سے پہلے کے انبیاء ؊کی سنت قرار دیا ہے اور تجرد کی زندگی کو ناپسند فرمایا ہے؛کیوں کہ اس سے نہ صرف نسل انسانی کی بقا متعلق ہے؛ بلکہ یہ رشتہ انسان کو ذہنی اور قلبی سکون سے ہمکنار کرتا ہے اور معصیت اور بے عفتی سے بچاتا ہے ۔
مرد اورعورت کا غیر قانونی رشتہ حرام :
اسلامی شریعت نےزنا اور مرد و عورت کے غیر قانونی تعلق کو حرام قرار دیتے ہوئے نہ صرف یہ کہ نکاح کی اجازت دی؛ بلکہ اس کی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے کہیں تویہ فرمایا گیاہےکہ تمہارے جوڑوں کو اس لئے پیدا کیا کہ تم ان سے سکون حاصل کرو، کہیں یہ فرمایا گیاکہ تم ایک دوسرے کے لباس ہو اور کہیں یہ فرمایا گیاکہ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیںاورایک حدیث میں ہے کہ جس نے نکاح کرلیا اس نے آدھا دین مکمل کرلیا ۔
نکاح ایک مقدس عمل:
اسلام میں نکاح کو ایک مقدس عمل بتایا گیا ہے ،یہ زوجین کے درمیان الفت و محبت، اتحاد و اتفاق کے ساتھ رہنے اور سکون کے ساتھ عمدہ زندگی بسر کرنے کا ایک پختہ معاہدہ ہے ، اسی سے پاکیزہ معاشرتی نظام قائم ہوتا ہے جس پر نسل انسانی کی بقا و قیام کا انحصار ہے، نکاح ایک قابل احترام رشتہ ہے جو مرد و زن کے درمیان اتحا د و محبت پیدا کرکے ایک عمدہ و پاکیزہ معاشرہ پیش کرتا ہے ،زوجین کی باہمی ارتباط و احتیاج سے گھر کانظام نیز اولاد کے نظام تربیت کی درستگی وجود میں آتی ہے جو معاشرہ و ملت کی سر بلندی کا سبب ہے۔
نکاح وقتی لطف اندوزی کا معاہدہ نہیں:
شریعت کی نگاہ میں نکاح وقتی لطف اندوزی کا معاہدہ نہیں ؛بلکہ یہ ایک پاکیزہ ، ٹھوس اور پائیدار رشتۂ الفت و محبت ہے ،اس کی وجہ سے دو دل ہی نہیں ملتے ؛ بلکہ دواجنبی خاندان ایک دوسرے کے قریب آجاتے ہیں اور ان کے درمیان الفت و محبت پیدا ہوجاتی ہے،یہ رشتہ جہاں ایک طرف معاشرے میں بہت سی اچھائیاں لاتا ہے، خدانخواستہ اگر ٹوٹ جائے تو اتنے ہی زیادہ مفاسد اور بگاڑکا ذریعہ بھی بن جاتا ہے ، اس رشتہ کے ٹوٹنے کے نتیجہ میںدوزندگیاں ویران ہو جاتی ہیں،دوخاندان دشمن بن جاتے ہیں، معصوم بچوں کو باپ کی شفقت یا ماں کی ممتا دونوں میں سے کسی ایک سے محروم ہوجانا پڑتا ہے جس سےان کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے، اسی لئے اسلام نے ابتدا ہی سے ان تمام دروازوں کو بند کردیا ہے جو اس رشتہ کے ٹوٹنے کا ذریعہ بنیں ، چنانچہ نکاح میں لڑکا اور لڑکی کی رضامندی کو ضروری قرار دیا ہے؛بلکہ اس رشتہ کے استحکام و بقاء کے لئے اسلام نے بعض ایسی باتوں کو بھی گوارہ کرلیا ہے جو اسلام کی عمومی تعلیمات ونظریات سے میل نہیں کھاتیں مثلاً اسلام میں پردہ کی کتنی اہمیت ہے ، وہ سب پر واضح ہے ؛لیکن منگیتر کو دیکھنے کی نہ صرف اجازت دی گئی ہے ؛ بلکہ اسے بہتر قرار دیا گیا ۔
اسلام میں نکاح کا بندھن نہ تو قدیم ہندو مت اور قدیم عیسائیت کی طرح اٹوٹ بندھن ہے اور نہ موجودہ مغربی ممالک کے رواج کی طرح ایک تاجرانہ معاہدہ کہ جب اور جس طرح چاہا اسےتوڑ کر محض اپنی خود غرضی کی خاطر آزاد ہو گئے، اسلام کی نظر میں نکاح اٹوٹ بندھن تو نہیںہے؛ مگر مکڑی کے جالے کی طرح کمزور بھی نہیں ہے کہ جب اور جس طرح چاہا اسے توڑ کر رکھ دیا ؛بلکہ اس رشتہ میں بہت حد تک تقدس اوردائمیت(ہمیشگی) کا تصور بھی پایا جاتا ہے،چنانچہ اسلامی نکاح کے دوامی بندھن ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس کی نظر میں محض جنسی لطف اندوزی کی خاطر کسی عورت سے نکاح کرنے اور پھر چند دن لطف اندوز ہونے کے بعد طلاق دے کر اسے چلتا کردینے کو سخت ناپسندیدہ فعل قرار دیا گیا ہے اور اس کی مذمت کی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس امت کو خیر امت کے لقب سے نواز کر اس کے کندھوں پر عام انسانوں کی سربراہی و رہنمائی کی ذمہ داری ڈال دی،یہ ذمہ داری کس طرح اور کیسے ادا ہو گی اسے بتانے کے لئے آنحضرت ﷺ کو قرآن حکیم کے ساتھ مبعوث فرمایا،آنحضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اپنے نورانی قول وعمل اور پاکیزہ زندگی سے اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ زندگی کا مکمل طریقہ، تمام ترقوانین کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش فرمادیا اور انسانی زندگی کا کوئی ایساپہلو نہ چھوڑا جس میں پیش آنے والے مسائل کا حل موجود نہ ہو ۔
اس بے مثال پاکیزہ طریقۂ حیات اور قانون کامل کو پیش نظر رکھتے ہوئے جب ہماری نظر ان رسوم و رواج اور غیر اسلامی طرز زندگی پر پڑتی ہے جو ہمارے معاشرہ میں وبا کی طرح عام ہیں تو حیرت و افسوس ہوتا ہے کہ جس خیر امت کے سر پر سربراہی کا تاج اس لئے رکھا گیا تھا کہ عوام الناس اس کے طور طریقے کو دیکھ اورسیکھ کر عملی زندگی میں شامل کرےوہ اسے چھوڑ کر ہلا ک ہونے والی قوموں کی نقالی میں اپنی مقرر کردہ بیہودہ رسموں اور خانہ ساز خرافات میں گرفتار ہے ؛ بلکہ حرام و حلال کی تمیز بھی کھو بیٹھی ہے اور ان کی ایسی پابندی کی جاتی ہے؛ گویا یہ ان پرفرض یا واجب ہو، ان جاہلانہ رسم و رواج اور غیر اسلامی افعال میں کس قدر وقت،محنت اور دولت کی بربادی کی جاتی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
اسلام میں نکاح کو بہت آسان بنایا گیا ہے ،سادگی کی تلقین اور فضول خرچی سے بچنے کی سخت تاکید کی گئی ہے اوریہ فرمایا گیا ہے کہ سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں خرچ کم سے کم ہو۔نکاح میں اصل چیز دولہے دلہن کا ایجاب وقبول،نکاح کے گواہان،مہر کی وضاحت اور ایک درجہ میں نکاح کا اعلان ضروری ہےمگر افسوس کہ برادران وطن کے سماجی رسم ورواج سے متاثر ہوکردوسرے اعمال کی طرح مسلمانوں نے نکاح کو بھی مشکل بنا دیا ہے۔
نکاح کا سب سے پہلامرحلہ لڑکے یا لڑکی کی تلاش ہے ، لڑکیوں کے لئے دیندار اور خوش خلق شوہر تلاش کرنے کے لئے کہا گیا اور مردوں کو دیندار عورت تلاش کرکے اپنے نکاح میں لانے کی بات کہی گئی ہے۔ اگر شوہر میں دینداری نہیں ہوگی تو وہ بیوی کو بھی دین پر چلنے نہیں دے گا،حرام کمائے گا، حرام کھلائے گا،میاں بیوی دونوں آخرت کے عذاب میں مبتلا ہوںگےاور اگر بیوی خوش خلق اور دیندار نہیں تو نہ خانگی زندگی سکون سے گذرے گی اور نہ بچوں کی تربیت ہی دین کی روشنی میں ہوسکے گی ، اس طرح زندگی اجیرن بن کر رہ جائے گی۔
نکاح کے لئےلڑکے یا لڑکی کے انتخاب کا معیار:
سر ور کونین ﷺ نے ارشادفرمایا کہ جب کوئی ایسا شخص تمہارے پاس نکاح کا پیغام بھیجے جس کے اخلاق اور دینداری سے تم خوش ہوتو اس کا پیغام رد نہ کرو؛ بلکہ جس عورت سے نکاح کا پیغام دیا ہے اس سے نکاح کردواگر تم ایسا نہ کروگے تو زمین میں بڑا فتنہ وفساد ہوگا ۔اگر پیغام دینے والے مرد میں دینداری اور خوش اخلاقی نہ دیکھی ؛ بلکہ صرف مال یا حسن و جمال یا دنیوی منصب و مرتبہ دیکھ لیا اور ان چیزوں کے پیش نظر نکاح کردیا تو اس عورت کی دینداری تو تباہ ہو گی ہی ، آخرت بھی برباد ہوگی اور دنیا بھی آرام سے نہ گذرے گی۔
آج کل دین کو نہیں دیکھا جاتادوسری چیزیں دیکھ کر لڑکی بیاہ دی جاتی ہے ، یہ لوگ مسائل نہ جاننے کی وجہ سےتین طلاق دے کر بھی عورت کو رکھے رہتے ہیںاور ان میں ایسےبھی ہوتے ہیں جو سال دوسال تعلقات ٹھیک رکھ کرعورت کو چھوڑ دیتے ہیں،نہ طلاق دیتے ہیں نہ نفقہ اور بعض بد اخلاق توبیجا مار پیٹ بھی کرتے ہیں ۔
بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنھیںخدا ترس اوردیندارلوگوں کی داڑھیوں سے ڈرلگتا ہے کہ اگر ان کو بیٹی دیدی تو داڑھی کے بوجھ تلے دب جائے گی یا داڑھی والے کو داماد بنانے کی وجہ سے ان کی جگ ہنسائی ہو گی کہ مولوی کو داماد بنایا۔
جس طرح شوہر دیندار اور خدا ترس تلاش کرنے کی ضرورت ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ بیوی بھی دیندار تلاش کی جائے،بہت سے لوگ خوبصورت عورت پر ریجھ جاتے ہیں،اس کاخوبصورت چہرہ تو دیکھ لیتے ہیں ؛لیکن دین سے دوری نہیںدیکھتےکہ نہ تونماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ کااہتمام کرتی ہے بس دن بھر لغویات میں مبتلا رہتی ہے۔ماں کی گودبچوں کا پہلا مدرسہ ہوتا ہے، ماں دین دار ہوگی تو قوی امید ہے کہ بچوں کی پرورش بھی دینی انداز پر ہوگی ورنہ اللہ ہی حافظ ہے۔
جو لوگ اونچی تعلیم ہی کو لڑکی کے انتخاب کا معیار سمجھتے ہیں وہ غالباً دو وجہ سے ایسا چاہتے ہیں ،ایک تویہ کہ عورت بھی حصول معاش کی مختلف صورتوں کواپنا کرکے شوہر کی معاشی ذمہ داریوں کو ہلکا کردےگی ،دوسرے یہ کہ ان کے علمی ذوق کی تسکین بھی ہو جائے گی، اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دونوں خواہشوں کے پورے ہونے پر مادی فائدے کے ساتھ ایسی خواہش رکھنے والوں کے جذبات کی کچھ نہ کچھ تسکین ہوجاتی ہے ؛ لیکن اس تھوڑے سےمادی فائدے اور عارضی تسکین کی وجہ سے بے شمار اخلاقی، معاشرتی نقصانات اور گھریلو بے اطمینانیاں پیدا ہوتی ہیں، ان کی موجودگی میں نہ تو کوئی اچھا خاندان ہی وجود میں آسکتا ہے اور نہ قرآن کی زبان میں داخلی طور پر میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے لباس اور وجہ سکون بن سکتے ہیں، ارد گرد کے حالات سے اس بات کابخوبی اندازہ لگا یاجاسکتا ہے۔
لڑکیوں کی عصری تعلیم:
میں لڑکیوں کی اونچی عصری تعلیم کامخالف نہیں ؛لیکن عصری تعلیم کے ساتھ دینی تربیت بھی ضروری ہے؛تاکہ اسلامی تہذیب کا دامن ہاتھ سےنہ چھوٹے، تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے بھی اپنی تہذیب کا دامن چھوڑا ہے ، اس کا وجود ہی ختم ہوگیاہے۔
کچھ لوگ مغربی ماحول کے زیر اثرعورتوں کومردوں کے شانہ بشانہ چلانا چاہتے ہیں اوراس کے لئے ہر اس کام کی وکالت کرتے ہیں جو مغرب والے کررہے ہیں؛ حالاں کہ مغرب میںعورتوں کی حیثیت کسی شو روم یا دوکان میں بکنے والے سامان سے زیادہ نہیں رہ گئی ہے ۔
رفیق سفر چننے کی آزادی:
حیرت کی انتہا نہ رہی جب اپنے ہی ملک کے ایک مسلمان نےمجھ سےیہ کہا کہ آج کل کی لڑکیاں اپنا جوڑ اخود تجویزکرلیتی ہیں ،اگر ان سے پوچھا جائے کہ اپنی زندگی کا رفیق سفر داڑھی والا پسند کروگی یا بغیر داڑھی والا؟ تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بغیر داڑھی والے کو پسند کریں گی ،دیندار کو پسند نہیں کرتیں؛اس لئے مجبوراً فاسق سے بیاہ دیتے ہیں،میں ان سے پوچھتا ہوں کہ لڑکیوں کو یہ جرأت کیسے ہوئی کہ اپنا جوڑا خود تلاش کریں؟اور فاسق و فاجر کودیندار اور صالح مرد پر ترجیح دیں؟ دراصل بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے گھر کا ماحول خود ہی خراب کر رکھا ہے،نہ بچوں کودین سکھاتے ہیں اورنہ انہیں دینی کتابیں پڑھاتےہیں، ہوش سنبھالتے ہی اسکول پہنچا دیاپھر اسکول سے فارغ ہوتے ہی کالج کی راہ دکھا دی ،دین سکھانے اور حیاء و شرم کے تقاضے سمجھانے اور تربیت کا تو خیال ہی نہیں آیا۔ مخلوط تعلیم ،اینڈرؤیدموبائیل، فحش فلمیں اور ٹی وی ایسے ذرائع ہیں جولڑکے اور لڑکیوں کو بے شرم بنا رہے ہیں اور دین اور دین داروں سے دور کررہے ہیں۔
بچوں کی تربیت اور والدین:
کچھ سالوں قبل تک بچے اپنے فاضل اوقات والدین کے ساتھ ہی گذارا کرتے تھے اور وہ بھی انھیں پورا وقت دیتے تھے ،جس سے ان کی تربیت ہوجاتی تھی ؛ لیکن لہوو لعب کے جدید ایجادات نےوالدین اور بچوں کے بیچ ایک دیوار کھڑی کردی ہے؛ والدین بھی انہی لغویات میں مشغول نظر آتے ہیں،ہر گھر کا یہی حال ہے ، اتنی فرصت کہاں کہ کوئی کسی سے بات کرے۔اگر دین ،تہذیب اور ثقافت کو بچا نا ہے تو ضروری ہے کہ گھرکا ماحول دینی بنا یا جائے جس میں تفریح کے بھی اوقات ہوں۔
نکاح کے پیغام پر پیغام:
جب نسبت کی بات آتی ہے اور لڑکے کی بات کہیں چل رہی ہوتی ہے تو دوسری لڑکی والے اس رشتہ کو اچک لینے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے لئے لڑکے والوں کی ناجائز مانگ کومانتے اور اس سے زیادہ مال دینے کا وعدہ کرتے ہیں، ایسی حالت میںبعض دیندارگھرانے بھی پھسل جاتے ہیں، مفت کا مال؛ خواہ حرام ہی کیوں نہ ہو، اسےکوئی بھی ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتا ؛اس لئے وہ بھی اپنے دونوں ہاتھ پھیلاکر بیٹھ جاتے ہیں،پھر دونوں لڑکیوں کے ولیوں کے درمیان بولی لگنی شروع ہوجاتی ہے ، جس میں جتنا زیادہ دم خم ہوتا ہے ،وہ اتنی زیادہ بولی لگاکر لڑکے کو خرید لیتا ہے؛جبکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہےکہ کوئی شخص کسی کے(نکاح کے) پیغام پر پیغام نہ دے؛تا وقتیکہ جس نے پیغام دیا ہے وہ اپنا ارادہ ترک نہ کردے یا دوسرے شخص کو اجازت نہ دیدے[بخاری]
منگنی اور اس کے بعد کی خرابیاں:
عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ رشتہ اور منگنی کے موقع سے بے شمار بیہودہ رسم و رواج پر عمل کیا جاتا ہے ،منگنی کی رسم میں دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے کے یہاں بڑی تعداد میں آتے جاتے اور کھاتے پیتے ہیں،جس میں ایک کثیر رقم اس دعوت کی نذر ہوجاتی ہے ؛حالانکہ شریعت میں منگنی کی حیثیت صرف ایک وعدہ کی ہے؛ جس کے لئے کسی جم غفیر کی ضرورت ہی نہیں ،یہ کام تو چند ذمہ دار لوگوں کے مشورہ سے بھی نہایت آسانی اور سادگی کے ساتھ بحسن و خوبی انجام پا سکتا ہے۔
آج کل یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ منگنی کے بعد ہی لڑکا اور لڑکی ،میاں بیوی کی طرح آزادانہ گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں،منگنی نکاح کاصرف وعدہ ہے،نکاح نہیں ، نکاح سے قبل دونوں ایک دوسرے کے لئے اجنبی اور نامحرم ہیں،ان کا اس طرح ملنا جلنا شرعاًقطعی حرام ہے اورسب سے بڑے تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ سب ولیوں کی اجازت سے ہوتا ہے ، خدانخوستہ غلط قدم اٹھ گیا تو سوائے شرمندگی اور پچھتاوے کے کچھ حاصل نہ ہوگا،آج کل ایسے بہت سے واقعات سنے جا رہے ہیں۔
نکاح کے لئے مخصوص تاریخوں یا مہینوں کو منحوس سمجھنا:
بعض لوگ مخصوص دنوں،تاریخوں اور مہینوں میں نکاح کرنا منحوس سمجھتے ہیں خصوصاً سعد، نحس اور عقرب جو شیعوں کے عقائد کے مطا بق ہیں، اس میں نکاح نہیں کرتے، محرم ، صفر اوردوعیدوں کے بیچ نکاح نہیں کرتے،اسی طرح مخصوص تاریخوں میں بھی نکاح کرنامنحوس سمجھتے ہیں،یہاں تک کہکسی کی موت پرتو رشتہ کو ہی منحوس سمجھا جاتا ہے ، کسی کی موت،دن، تاریخ یا مہینہ کو منحوس سمجھنا نجومیوں کی تقلید ہے جس کی شریعت میںسخت ممانعت ہے،اسلام نے جہاں دیگر امور میں توحید کی بنیاد ڈالی ہے وہیں یہ تعلیم بھی دی ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو ضرر پہنچانے والا اور نفع دینے والا نہ سمجھو ، سب کی کنجی اسی کے ہاتھ میں ہے، جس کو وہ نفع پہنچانا چاہے کوئی روک نہیں سکتا اور جسے وہ نقصان پہنچا نا چاہے اسے بھی کوئی نہیں رو ک سکتا۔
نکاح کے دعوتی کارڈ میں اسراف اور ریاکاری:
نکاح کی تاریخ طے ہوتے ہی دعوتی کارڈ کی تیاری شروع ہوجاتی ہے، ایک خطیر رقم خرچ کرکےقیمتی سے قیمتی کارڈ بنوایا جاتا ہے اور یہ صرف فخر ، دکھاوا اور مقابلہ آرائی کے لئے ہوتا ہے ۔ دس سال پہلے میں نے ایک مسلمان کی شادی کا ایسا کارڈ بھی دیکھا جس میں لڑکے اور لڑکی کے نام کے ساتھ ان کی تصاویر بھی چسپاں تھیں، پھر اس کے بعد ایسا کارڈ نظر سے نہیں گذرا؛لیکن لوگوں سے سنا ہے کہ بعض علاقوں میں آج بھی ایسے کارڈ کا رواج ہے۔
ایک خرابی یہ بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ اکثر دولت مند گھرانے کے شادی کارڈ کے ساتھ میٹھائی کا ڈبہ بھی آتا ہے اور کسی کسی میں تو میوہ جات بھی ہوتے ہیں،جیساکہ برادران وطن کے یہاں ہوتا ہے، یہ اسراف ہےاوریہ کام توصرف خط کے ذریعہ بھی ہوسکتاہے۔
ہلدی اور مہندی کی رسمیں:
نکاح سے قبل ہلدی اور مہندی کی رسمیں ادا کی جاتی ہیں،احباب اور رشتہ دار دعوت دے کربلائے جاتے ہیںجس میں ایک کثیر رقم کی بربادی کے ساتھ بے پردگی کا اس طرح مظاہرہ ہوتا ہے کہ نامحرم مرد نامحرم لڑکی کو اورنامحرم عورتیں نامحرم لڑکے کو ہلدی ومہندی لگاتے ہیں،یہ رسم قطعی غیر شرعی ہے جسے یکسرختم کردینا چاہئے، ہاں! بدن کی صفائی کے خیال سےمحرم ، نامحرم اور ستر کا خیال رکھتے ہوئے بغیر اہتمام کے کیا جائے تو گنجائش ہے؛لیکن لڑکوں کو مہندی لگانا جائز نہیں ،شریعت نے صرف لڑکیوں کو ہی اس کی اجازت دی ہے۔
بارات اور فضول خرچی:
حضور اکرم ﷺ کے مبارک زمانہ میں بارات کا ایسا طریقہ نہ تھا جو آج کل رائج ہے۔آج کل بارات کے نام پراچھی خاصی رقم خرچ کی جاتی ہے ،نہیں ہوتا تو سودی قرض لینے میں بھی عار اورحرج محسوس نہیں کیا جاتا کہ شادی بار بار نہیں ہوتی ، بارات کو خوب سجا سنوار کر،ڈی جے ، ناچ گانے اورایک ہی قسم کی گاڑیوں کی ایک لمبی قطار پھر باراتیوں کی ایک فوج کے ساتھ دولہے کی سربراہی میں دلہن کے گھریا پھر شادی کےہال میں جایاجاتا ہےجو ایک کثیر رقم دے کر کرایہ پر حاصل کیا گیا ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ من مانے طور پر اس کولُٹا دیا جائے؛ بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی امانت ہے جسے اس کے حکم کے مطابق ہی خرچ کرنا ہے اور باقی جو بچ رہے اسے بعد والوں کے لئے چھوڑ دینا ہے، شریعت نے اس کی قطعی اجازت نہیں دی کہ فضول خرچی کی جائے ؛بلکہ یہ فرمایاگیا کہ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں ۔ اگر باجے گاجے کے بغیر بارات پہنچتی ہے توسنا جاتا ہے کہ بارات آئی ہے یا جنازہ؟ گاڑی کی تعداد کم ہوتو کسر شان سمجھا جاتا ہے اور اگرباراتی کی تعداد کم ہوتو اسے بھی ذلت اور رسوائی سمجھی جاتی ہے، یہ طریقہ شرعاً قابل مذمت اور ناپسندیدہ ہے؛ البتہ دولہا کے ساتھ اس کے قریبی مثلاً باپ بھائی وغیرہ کچھ افرادحسب اطلاع چلے جائیں تو اس کی گنجائش ہے۔
گذشتہ زمانہ میں جب امن و امان نہیں تھا، ڈاکوؤں کا خطرہ رہتا تھا تو دولہا، دلہن، زیورات اور دیگر اسباب کی حفاظت کی غرض سے بارات کا چلن ہوا ؛لیکن موجودہ دور میں جب کہ امن و امان ہےتواب اس کی ضرورت نہیںرہی ،اگر اب بھی یہ کیا جاتا ہے تو محض ناموری اور رسم کے لئے۔
بارات کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ خلاف سنت ہے ،اس کے علاوہ لڑکے اور لڑکی والے جھوٹی شان بگھارنے کے لئے چھوٹی چھوٹی باتوں پر تکرار کر بیٹھتے ہیں، جس کے نتیجہ میں رنجش پیدا ہوجاتی ہے جو کبھی کبھی زندگی بھرباقی رہتی ہے، باراتی کی تعداد پر تو اکثر حجت و تکرار ہو ہی جایا کرتی ہے ،لڑکی والے اگرایک سو افرادکو بلا نا چاہتے ہیںتو لڑکے والے چار سو سے کم کی تعداد پر راضی نہیں ہوتے،لڑکی والے مجبوراً دوسو کی حامی بھرلیتے ہیں؛لیکن جب بارات پہنچتی ہے تو باراتیوں کی تعدادتین سو ہوتی ہے ، یوں بن بلائے کسی کے گھر دعوت میں شرکت کرناحرام ہے ،حدیث شریف میں ہےکہ’’ جو شخص بن بلائے کسی دعوت میں گیا، وہ گیا تو چور بن کر اور نکلا لٹیرا بن کر‘‘، باراتیوں کی تعداد بڑھ جانے سے لڑکی والے کی اگر بے عزتی ہو تی ہے تو اس طرح کسی کو رسوا کرنا دوسرا گناہ ہوا۔ نکاح کے موقع پر باراتی بن کر لڑکی والوں کے یہاں کھانا جائز نہیںاور اگر لڑکے والوں کے مطالبہ پر ہو تو سراسرحرام ہے، ہاں !اگر بارات دور کی ہو، افراد کم سے کم ہوں،طے شدہ تعداد کے اندر ہوں تو اس کی گنجائش ہے۔
جہیز اور تلک :
آج کل شادی بیاہ میں لڑکے والوں کی طرف سےفرمائش اور مانگنے کی جو وبا چل پڑی ہے وہ بالکل غیر شرعی،ناجائز اور حرام ہے،کلام پاک میں ہے کہ ایک دوسرے کا مال ناحق طریقہ سے نہ کھاؤ۔آپ ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص مال کے لئے شادی کرے گا اسے فقر اور تنگدستی کے سوا کچھ نصیب نہ ہوگا‘‘اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ’’ کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کا مال ناحق طور پر لے‘‘اور اگر کسی شخص نے دباؤیا شرما شرمی میںاجازت دے بھی دی؛ جبکہ وہ دل سے راضی نہیں تو ایسی اجازت ناقابل اعتبار سمجھی جائے گی اور اس چیز کا استعمال اس شخص کے لئے ہر گز جائز نہ ہوگا۔
خیال کیا جاتا ہے یہ وبا دیگر رسوم کی طرح ہندؤں سے مسلمانوں میں منتقل ہوئی ہے،شروع میں یہ رسم اپنے اندر کچھ اخلاقی پہلو رکھتا تھا اور والدین انتہائی خلوص کے ساتھ لڑکی کورخصت کرتے وقت اپنی معاشی حالت کے مطابق کچھ سامان ساتھ کردیا کرتے تھے ،دھیرے دھیرے اس رسم نے اتنا زور پکڑا کہ اس کاباقاعدہ مطالبہ کیا جانے لگا اور نکاح جس کا تعلق مال سے صرف مہر کی حد تک تھا وہ الٹ گیا اورمہرکو بھول کر لڑکے کی خرید و فروخت ہونے لگی ،جانوروں کی طرح ان کی قیمتیں طے کی جانے لگیں، قیمت طے کرنے میں تعلیم کو معیاربنایا جانے لگا،جو جتنا زیادہ تعلیم یافتہ ہے اس کی اتنی زیادہ قیمت لگنے لگی گویا تعلیم کی روشنی میں اضافہ کے ساتھ انسانیت کے باب میں تاریکی کاا ضافہ ہوگیاہے۔ لوگ پستی کی اس حد تک گر گئے کہ جوناجائز مانگ نہ کرے اس کے نسب میں خرابی سمجھی جاتی ہے۔
دولھا بِکتا ہے:
آج حالت یہ ہو گئی ہے کہ لڑکے بکتے ہیں اور ماں باپ بیچتے ہیں،جانوروں کی سطح پر آنے کے بعد بھی خوش ہیں اور فخریہ اپنی قیمت کے طور پر حاصل شدہ رقم اور سامان کی نمائش بھی لگاتے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ جانوروں کی منڈیاں کہیں کہیں لگتی ہیں اور کبھی کبھی لگتی ہیں؛لیکن لڑکوں کی منڈیاںہرگاؤں میں ہردن لگی ہوتی ہیں، لڑکی والے دام دے کر لڑکوں کو خریدتے ہیں ،یہ تو لڑکی والے کا احسان ہے کہ دام پورا دینے کے باوجود گلے میں پٹہ ڈال کر نہیں کھینچتے،نوشے بابو ہی کہتے ہیںاور دلہن بھی شوہر کو نوکر کے بجائے سرتاج سمجھتی ہے،یہ ہندوستانی تہذیب ہے جو لڑکی اور لڑکی والوں کو یہ عزت دینے پر مجبور کرتی ہے ،ورنہ یقیناً لڑکااس عزت کا مستحق نہیں ہوتا ۔
مجھے ۱۹۶۶ ءکاایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ رخصتی کا وقت آیا تو دولہا ضد پر اَڑگیا کہ جب تک گھڑی نہیں ملے گی لڑکی رخصتی نہیں کرواؤں گا، غربت کا زمانہ تھا ،اس وقت گھڑی، سائیکل اور ریڈیو کی ناجائز مانگ ہی لڑکی والے کو پریشانی میں ڈالنے کے لئے کافی تھی، لوگوں نے بہت سمجھایا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا ، اسی دوران کسی صاحب نے گھڑی دکھا کر دولہے سے وقت پوچھ لیا ،دولہے میاں کووقت دیکھناآتاہی نہیں تھا ، پھر کیا تھالوگوں نے مرمت شروع کردی پھر جب خوب مالش ہوگئی تو بادلِ نخواستہ رخصتی کے لئے تیار ہوگیا۔
ایک شادی میں لڑکا قبول کرنے سے پہلے سائیکل کے مطالبہ پر اَڑگیا اور جب سمجھانے بجھانے سے کام نہیں چل پایا تو گاؤں والوں نے چپل جوتے کا ہار پہنا دیا اور اسی مجلس میں دوسرے لڑکے سے نکاح کردیا،بارات بیرنگ واپس ہوئی اورحصے میں نوشاہ و باراتی کے ذلت آئی۔
ایک دوسری شادی کا واقعہ یوںہے کہ نکاح خواں نے جب پوچھا کہ قبول کیا تو نوشہ نے جواب دیا کہ ابا !ابھی تک سونے کا چین نہیں ملا، نکاح خواں نے دوسری مرتبہ پوچھا تو جواب دیاکہ ابا! گھڑی نہیں ملی،پھر تیسری مرتبہ پوچھا تو جواب دیاکہ ابا!ابھی تک سائیکل نہیں ملی، ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی لڑکی سے نہیں؛ بلکہ سونے کی چین، گھڑی اور سائیکل سے نکاح کرنے گئے تھے، آج بھی حالات بدلے نہیں ہیں ؛بلکہ ان میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے، ناجائز مانگ میں موٹر سائیکل کی مانگ عام بات ہے خواہ پٹرول کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے موٹرسائیکل کو ہفتے دو ہفتے بعد ہی کیوں نہ بیچناپڑے۔
یہ تو عام لوگوں کی باتیں تھیں ، صاحب مال حضرات کے یہاں تو سجا سجایا فلیٹ اور موٹر کار سے نیچے بات ہی نہیں ہوتی۔اکثر جگہوں پر دیکھا گیا ہے کہ دلہن کی رخصتی اسی ناجائز مانگ کی کار میں اس طرح ہوتی ہے کہ دولہا گاڑی چلا رہا ہوتا ہے اورسامنے کی سیٹ پر دلہن اس کے ساتھ بیٹھی ہوتی ہے ۔
والدین کی بے بسی اور مجبورلڑکیاں:
شریعت نے شادی کے موقع پرناجائز مطالبات کو رشوت قرار دیا ہے اور ظاہر ہے کہ رشوت لینا حرام ہے ،کتنے ہی دکھی ماں باپ ایسے ہیں جنہوں نےبیٹیوں کی جہیز کی خاطر زمین و جائداد بیچ ڈالی تنگدستی اور غربت کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوگئے پھر بھی ہوس کے پجاریوں کی بھوک نہ مٹی تو مزید کی فرمائش کی اور جب فرمائش پوری نہ ہوئی تولڑکی کو زندہ جلا دیا،کتنی ہی ایسی لڑکیاںہیں جن کے ماں باپ کے پاس مال نہ تھا وہ شادی کا ارمان لئے اس دنیا سے رخصت ہو گئیں،کتنی ایسی ہیں جو اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکیں اور نفسانی خواہشات کی تسکین کے لئے حرام ذرائع اختیار کرلئے اور نہ جانے کتنی ایسی ہیں جو پیٹ کی بھوک مٹانے کے لئے چکلے پر جا بیٹھیں یا دیگرحرام ذرائع اختیار کرنے پر مجبور ہو گئیں،ہائے افسوس!
اسلامی شریعت میںبیٹیوں کو رحمت کہا گیا ہے؛کیوںکہ یہ والدین کے لئے ثواب کا ذخیرہ اور نجات کا ذریعہ ہیں۔جہالت کا ایک وہ دور تھا جب بیٹی کی پیدائش کو ننگ وعار سمجھ کرعرب کے بعض خاص قبائل میں اسے زندہ دفن کردیا جاتا تھا؛ لیکن لڑکوں کی ناجائز مانگ نےاب وہ دن دکھائے کہ ماں کا پیٹ ہی اب ان کامدفن بن رہا ہے ۔
کچھ تو شرم کرو:
ایک ایسی عورت جسے اللہ تعالیٰ نے ہماری شریک حیات بنایا اور اس کی کفالت کی ذمہ داری بھی مجھی پرڈالی ، ہم اسی سے بھیک مانگیں اور رشوت لیں؟ کیا ہم اُن پیشہ ور فقیروں کی طرح نہیں ہو گئے جنہوں نے مانگنے اور اینٹھنے کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے اور اسے اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں؟
ہاںاگر لڑکی کے والدین اپنی خواہش سے بغیر کسی دباؤ اور مطالبہ کے دینا چاہیں تو اپنی حیثیت سے جو چاہے دے سکتے ہیں،یہ شرعاً جائز ہے؛البتہ دینے کا طریقہ یہ ہے کہ بغیر کسی نمائش اور شہرت کے چپکے سے،شادی سے کچھ دن پہلے یا بعد، اپنی بیٹی کے گھر پہنچا دیں،شادی کے دن سامان کی نمائش کرنے اور دکھانے سے ان لوگوں کی دل شکنی ہوتی ہے جو اپنی بیٹیوں کو غربت کی بناء پر کچھ نہیں دے سکتے ۔
حضرت فاطمہ؅ کا جہیز:
حضرت فاطمہ؅ کے جہیز کے متعلق جو یہ مشہور ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت فاطمہ؅ کوجہیز دیا تھا تواس کی صداقت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت فاطمہ؅ کوجہیز نہیں دیا تھا؛ بلکہ حضرت علی؄ کی زرہ بیچ کرخود اُن کےپیسے سے، ان کے گھریلو سامان کا انتظام کیا تھا ۔
تصویر کا دوسرا رخ :
اس کے برعکس بعض ممالک ایسے بھی ہیں جہاںلڑکیوں کی شادی میں ایک پیسہ بھی خرچ نہیںہوتا؛بلکہ سارے اخراجات دولہا کو ہی برداشت کرنے پڑتے ہیں، بطور خاص عرب ممالک میں تو لڑکی کا حصول انتہائی سخت اور دشوار گذار مسئلہ ہے؛ کیوںکہ دولہا کو نکاح کے اخراجات کے ساتھ ایک بھاری رقم مہر معجل کے طور پر، دلہن کے لئے ایک آراستہ فلیٹ اور سسر کو بھی ایک بڑی رقم بطور تحفہ دینی پڑتی ہے۔
پورا سماج ناجائز مانگ اورتلک کے آتش کدہ میں بُری طرح جل رہاہے،یہ رسم برابر پھیلتی جارہی ہے اس کا شعلہ برابر بڑھتا ہی جارہا ہے، سماجی اداروں کے ذریعہ چلائی جانے والی جہیز مخالف تحریکوں اور حکومت کے وضعی قوانین سے بھی خاطر خواہ فائدہ ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔
اس کے سد باب کے لئے ضروری ہے کہ عوام الناس کو اس کی شناعت وقباحت سے واقف کروایا جائے کہ یہ حرام ہے،اکثر لوگ تو اسے حرام سمجھتے ہی نہیں؛بلکہ اسے اپنا پیدائشی حق سمجھتےہیں ، انھیں بتایاجائے کہ حرام مال کھانے والوں کے لئے شریعت میںکیا کیا وعیدیں ہیں ۔
جہیز دیدینے سے ترکہ میں لڑکی کا حق ساقط نہیں ہوتا:
لڑکی والوں کے علم میں بطور خاص یہ بات لائی جائے کہ جہیز دیدینے سے ترکہ میں لڑکی کا حق ساقط نہیں ہوجاتا؛بلکہ ترکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مورث کے مال سےطے شدہ مقدار ہے جس کی وہ ہر حال میں حقدار ہے،ترکہ نہ دینے کی جوسخت وعیدیں ہیں وہ بھی انھیں گوش گذار کروادی جائیں۔
صرف تحریک چلادینا اور قوانین بنا دیناکسی مسئلہ حل کانہیں اور نہ اس سے وہ بُرائی رکتی ہے جب تک کہ عوام کے دلوں میں اس فعل کے خلاف اللہ تعالیٰ کی خشیت اور اس کا خوف پیدا نہ ہوجائے۔
مہر کی تقرری و ادائیگی میں بے راہ روی:
مہر میں بے راہ روی کا جوعالم ہے وہ بھی قابل توجہ ہے،نکاح میں بیوی کا واجبی حق مہر ہے،جو بیوی کی عصمت حلال کرنے کا صلہ اور اس کی عزت نفس کی قدر شناسی ہے ،قرآن کریم میں اس کی ادائیگی کی بڑی تاکید فرمائی گئی ہے ؛جبکہ آج کل اس کی ادائیگی کی فکر کم ہی کی جاتی ہے۔بیوی جب تک خوش دلی سے معاف نہ کردے یا اسے ادا نہ کردیا جائے ،اس قرض سے سبکدوشی نہیں ہوتی،اس کی ادائیگی کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ شادی کے موقع سےلڑکے والے لڑکی کوعموماً زیور دیتے ہی ہیں ،اگر مہرکی متعین قیمت کا زیور دیدیا جائے یا متعین مہر سے زیادہ کا زیور ہے تو مہر کی رقم اس میں منہا کردی جائے تو مہر ادا ہوجائے گا۔
بعض لو گ بہت کم مہر رکھتے ہیں جس سے عورت کی ناقدری ہوتی ہے اورمہر مذاق بن جاتاہے اوربعض لوگ اتنی زیادہ رکھتے ہیں کہ اس کی ادائیگی شوہر کے بس میں نہیں ہوتی اور بعض لوگ تواس نیت سے بھی بہت زیادہ مہر رکھتے ہیں کہ شوہر کے پاس نہ مہر کا اتنا پیسہ ہوگا اور نہ وہ طلاق دےگا، دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔
بعض لوگ مہر ادا کرنے کی نیت ہی نہیںرکھتے ؛بلکہ معاف کروانا ہی کافی سمجھتے ہیں،ایسے لوگوں پر عتاب خداوندی اور بروز قیامت سخت باز پرس کے بارے میں فرماتے ہوئے کہا گیا ہےکہ’’ جو شخص مہر ادا کرنے کی نیت نہ رکھے اور اسی حالت میں انتقال ہوجائے تو بارگاہ الٰہی میں زانی کے طور پرپیش ہوگا۔‘‘
بعض عورتیں ایسی سیدھی سادی اور گائے ہوتی ہیں کہ شوہر مہر کی رقم ادا کرتا بھی ہے تو نہیں لیتیںاور رونا دھونا شروع کر دیتی ہیںکہ شوہر مجھے طلاق دے رہاہے؛ حالاں کہ یہ ان کا واجبی حق ہے، انھیں یہ رقم لے لینی چاہئے؛ کیوں کہ مہر کا تعلق نکاح سے ہے، طلاق سے نہیں۔
لمحۂ فکریہ :
نکاح کے سلسلے میں آج کل سب سے فکر مندی کی بات یہ ہےکہ مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ چلی جا رہی ہیں،اس کا سلسلہ بطور خاص تلنگانہ، مہاراشٹرا اور یوپی میں بہت زیادہ ہے ۔کافی غور خوض کے بعد جو بات میری ناقص عقل میں آئی ہے ان میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کی دینی تربیت کی ہی نہیں گئی ،دوسری یہ کہ لڑکے والوں کی ناجائز مانگ نے لڑکیوں کومجبور کردیا ہےکہ وہ ماں باپ پر بوجھ نہ بنیں، اسی لئے جو ملا اسی سے نباہ کرنے نکل پڑیںاوراغیار اسی تاک میں تھے انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھا یا،تیسری وجہ مخلوط تعلیم ہے ، بچپن ہی میںشرم و حیا کا پردہ جاتا رہتا ہے، سب جانتے ہیں کہ محبت اندھی ہوتی ہےاور چوتھی وجہ شوہراور سسرال والوں کا ظلم ہے جو ہماری بیٹیاں اور بہنیںغیروں کے ساتھ چلی جارہی ہیں ، ایسی حالت میں ضروری ہوگیاہے کہ اہل علم ودانش سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس افتاد سے بچنے کی جلد از جلد کوئی راہ نکالیں ورنہ یہ وبا پھیلتی ہی جائے گی اور اس سے کوئی گھر نہ بچ سکے گا۔
نکاح کی جگہ:
مسجد کے باہر نکاح کرنا خلاف سنت نہیں ہے؛ لیکن بہتر یہ ہے کہ مسجد میں نکاح کیا جائے ،رسول اللہ ﷺ نے بھی مسجد میں نکاح کرنے کی ترغیب دی ہے ، اس کا فائدہ یہ ہے کہ بہت سی لغویات سے لوگ بچ جاتے ہیں،مثلاً گانا بجانا،فوٹو اور ویڈیو گرافی وغیرہ، سب کی توجہ نکاح کی طرف مبذول رہتی ہے ، خطبہ کے آداب بھی ملحوظ رکھے جاتے ہیں؛جبکہ دیگر جگہوں پر نکاح کرنے میں ان برکات سے محرومی ہی ہوتی ہے؛ مثلاً لوگ کھانے پینے میں مشغول رہتے ہیں ، نکاح کی طرف کسی کا دھیان بھی نہیں جاتا، خطبہ کا حق بھی ادا نہیں ہوتا ،بس گھر کے چند افراد ہی موجود رہتے ہیں ۔
مسجد کے علاوہ جن جگہوں پرنکاح کی مجلس کا انعقاد ہوتا ہے وہاںعام طورپر یہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ خطبہ اس طرح پڑھا جاتا ہے کہ صرف دولہا اور آس پاس کے چند لوگ ہی سن پاتے ہیں ؛لیکن نکاح کی مجلس اگرمسجد میں منعقد ہواور لاؤڈ اسپیکر پر خطبہ پڑھا جائے تو تمام شرکاء سن لیتے ہیں؛ لیکن بد قسمتی سے تقریباً سارےشرکاء عربی سے نابلد ہوتے ہیں ؛ لہذاانہیں اس بات کا کوئی شعور ہی نہیں ہوتا کہ ان آیات کا مفہوم و مطلب کیا ہے؟ ان آیات کا ہماری معاشرتی زندگی سے کیا ربط و تعلق ہے ؟ دولہا کے لئے کیا نصائح ، ہدایات اور رہنمائیاں موجود ہیں؟اس طرز عمل کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ خطبہ کا جو اصل مقصد ہے وہ کسی طرح بھی پورا نہیں ہوتا،بہتر ہے کہ خطبہ سے قبل اس کا ترجمہ بھی بیان کردیا جائے۔
بعض لوگ نکاح تو مسجدہی میں کرتے ہیں پھرلڑکی والوں کے یہاںبارات لے کرکسی فائیو اسٹار ہوٹل یا کسی شاندار شادی ہال میں جاتے ہیں ،جب ان کے اس عمل کےمتعلق پوچھاجاتا ہے تو کہتے ہیں کہ کم از کم ایک سنت پر عمل کرنے کی توفیق تو ملی،ان کے لئے بہتر تو یہ تھا کہ نکاح بھی اسی ہوٹل یا شادی ہال میں کرتے ،مدعوئین کو دومرتبہ پریشان کرنےکی کیا ضرورت تھی؟اگر سنت پر ہی عمل کرنا تھا تو نکاح کے بعد دولہا کو گھر کی چند عورتوں کے ساتھ دلہن کے گھر بھیج دیتے،وہ دلہن کو رخصت کروا کے گھر لے آتا اور اپنے مہمانوں کی میزبانی اپنے گھر پرہی کرلیتے۔مسجد میں نکاح کرنا اور پھر بارات لے کرکسی ہوٹل یا شادی ہال میں جانا گو ناجائز تو نہیںمگر دولت کا غلط استعمال کرکے ایک بُری مثال قائم کرنا ہے اور پھریہیں سے دوسروں کو بھی مقابلہ آرائی کا موقع ملتا ہے۔
ولیمہ میں جدت:
نکاح کے بعد ولیمہ کرنا فرض یا واجب نہیں، مستحب یا سنت ہےجس کا انتظام صرف دولہا کے ذمہ ہے؛لیکن آج کل ایک نیا طریقہ یہ نکلا ہے کہ زوجین کے سرپرست مل کر دعوت کرتے ہیں اورپھر اخراجات آپس میں بانٹ لیتے ہیں،اس میں دونوں طرف کے مدعوئین شریک ہوتے ہیں ،بظاہراس میںکوئی خرابی تو نظر نہیں آتی ؛ لیکن شریعت میں جب لڑکی والوں کے یہاںشادی کا کوئی کھانا ہے ہی نہیں توپھر اس کا التزام کیوں ؟ دوسرے یہ کہ اس طریقہ نے رواج پکڑ لیا تو کل کولڑکے والے لڑکی والوں پرولیمہ کا پورا خرچ اپنے ذمہ لینے کی ناجائز مانگ بھی کرسکتے ہیں ، اس لئے میرے خیال میں یہ طریقہ قابل اصلاح ہے۔
نکاح کے پاکیزہ عمل کے بعد خوش دلی کے ساتھ ریا و دکھلاوا کے بغیرصرف اتباع سنت کی نیت سے اپنی وسعت کے مطابق رشتہ داروں اور دوست و احباب کو ولیمہ پر مدعو کرنا چاہئے؛لیکن افسوس کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت پر دکھاوا،خرافات اور بیہودہ رسومات کا پردہ پڑتا چلا جارہاہے، انواع و اقسام کے کھانے،باجے گاجے ، ناچ گانے اور لہو و لعب کی محفلیں سجائی جاتی ہیں، پیسے نہ ہوں تو سودی قرض لینے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا ، امیروں،نیتاؤں ، لیڈروں اورفلمی ایکٹروں تک کو بلایا جاتا ہے ؛ لیکن غریبوں کو دعوت دینے میں عار اور شرم محسوس کی جاتی ہے،خواہ وہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں؛حتیٰ کہ بعض جگہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسی دعوت سے فقراء اور سماج کے ضعفاء کو انتہائی بے دردی کے ساتھ باہر نکال دیا جاتا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ’’ جس نے نام و نمود کی کوشش کی اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن رسوا کرے گا‘‘ اورایک دوسری حدیث میں ہے کہ’’ سب سے بُری اور بدترین دعوت ایسے ولیمہ کا کھانا ہے جس میں مالداروں کو بلایا جائے اور فقیروں کو چھوڑ دیا جائے ۔‘‘
جس ولیمہ میں غیر شرعی حرکتیںہوں:
احادیث شریفہ سے پتہ چلتا ہے کہ ایسی محفلوں میں شرکت کی بھی ممانعت ہے جن میں غیرشرعی حرکتیں اور غیر اسلامی طریقے اور رسوم ادا کئے جارہے ہوں،موجودہ دور میں شادی بیاہ کے نام پر جو خرافات ہوتے ہیں وہ سب اس فہرست میں آسکتے ہیں جو دوسری قوموں کی نقالی پر مبنی ہوں۔
دعوت ولیمہ کے موقع پر کوئی غیر شرعی فعل ہو تو اس پر اظہار ناراضگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہاں سے واپس ہوجانا چاہئےچنانچہ بخاری شریف میں ہے کہ ’’حضرت ابن مسعود؆نے ایک گھرمیں ایک تصویرٹنگی ہوئی دیکھی تو دعوت کھائے بغیر واپس ہوگئے،اسی طرح حضرت ابو ایوب انصاری؄ بھی ایک مرتبہ دیواروں پر پردے پڑے ہوئے دیکھ کر واپس ہوگئے‘‘ ؛جبکہ مدعو کرنے والے حضرت ابن عمر ؆ جیسےجلیل القدر صحابی تھے اور انہوں نے بطور معذرت فرمایا کہ ہم پر عورتیں غالب آگئیں، ایک حدیث میں ہے کہ’’ رسول اللہ ﷺ نے فاسق لوگوں کی دعوت قبول کرنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘
شادی کا تحفہ ایک تجارت ہے:
ولیمہ کے موقع پر دوستوں اور رشتہ داروں کی طرف سے قیمتی تحفے یا نقد رقم دیئے جاتے ہیں اور اسے فرض و واجب کا درجہ دیا جاتا ہے، درحقیقت یہ ایک قسم کی تجارت بن گئی ہے کہ ایک ہاتھ سے کھاناکھلاؤ اور دوسرے ہاتھ سے تحفہ وصول کرلو، ایسی دعوتوں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک شخص کوایسےکھاتا بہی کے ساتھ بیٹھا دیاجاتا ہے جس میںتحفہ کے پرانے لین دین کا حساب لکھا ہوتا ہے کہ کس کو کیا دیا؟ اور کس سے کیا ملا؟ برادران وطن کی زبان میں اس کودینا پوناکا کھاتا کہتے ہیں، اس کھاتےمیں وہ آنے والے مہمان کا تحفہ جو عموماً پیسہ کی شکل میں ہوتاہے لکھتا اور انہیں بتا تاجاتا ہے کہ اب تک تحفہ میں انھوں نے میزبان سے زیادہ دیا ہے یا کم گویا اس تحفہ کو قرض تصور کیا جاتا ہے ، اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیٹی کی شادی میں کوئی مہمان فریج یا ٹی وی یا سونے کا سیٹ وغیرہ اس نیت سے دیتا ہے کہ جب میری بیٹی کی شادی ہوگی تویہ شخص مجھےبھی اسی قیمت اوراسی قسم کا تحفہ دے گا۔حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایاہے کہ’’ تحفہ دیا کرو اس سے محبت بڑھتی ہے‘‘؛ لیکن آج کل جس طرح تحفہ کا لین دین ہوتا ہے اس میں اکثراخلاص کا پہلو کم اور قرض کا پہلو زیادہ ہوتا ہے، شادی کے موقع سے اس قسم کے لین دین کو بند ہی کردینا چاہئے ،ہاں بغیر کسی موقع اورواپسی کی امید کے تحفہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
طلاق یازوج کے انتقال کے بعدشادی سے روکنا:
آج کل ایک خرابی یہ بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ بیوی کا انتقال ہوجائے توبال بچے اور دوسرے رشتہ دار شادی نہیں کرنے دیتے،اسی طرح بیوہ یا طلاق شدہ عورت کو بھی نکاح سے روکتے اور اسے معیوب سمجھتے ہیں ، یہ بڑا سخت گناہ اور ظلم عظیم ہے، شریعت مطہرہ نے رنڈوا اور بطور خاص بیوہ کے نکاح کی بہت ترغیب دی ہےاور تاکید بھی کیا ہے۔
بیوہ یا طلاق شدہ عورت کا نکاح دوباتوں کی وجہ سے ازحد ضروری ہے ، پہلی یہ کہ شادی سے قبل شادی شدہ زندگی کی لذت سے ناآشنا تھی اب آشنا ہوچکی ہے ، بہت ممکن ہے کہ جنسی بے راہ روی کا شکار ہوکر زنا میں مبتلا ہوجائے،دوسری یہ کہ والدین کے گھر میں ہی رہ گئی تو والدین کے انتقال کے بعد ان کا جو حشر بھابھی اور بھائی کرتے ہیں وہ ہر شخص جانتا ہے ، اس لئے ان کا دوسری شادی کرلینا، والدین کے گھر میں بوڑھی ہوجانے اور نوکرانی بن کر رہنے سے ہزار گنابہتر ہے کہ شوہر کے گھر میں مالکن بن کر رہے۔
نکاح نہ ہونے کی وجہ سے جو رنڈوے یابیوہ گناہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں اس کا وبال اور گناہ ان لوگوں کے نامۂ اعمال میں بھی لکھا جاتا ہے جو نکاح بیوگان کو عیب سمجھتے ہیں اور انہیں نکاح نہیں کرنے دیتے۔
آنحضرت محمد ﷺ نے سوائے حضرت عائشہ ؅ کے تمام نکاح بیواؤں کے ساتھ ہی کئے ہیں۔صحابہ؇ کایہ حال تھا کہ وہ بھی غیر شادی شدہ رہنا پسند نہیں کرتے تھے اور کنواری پر بیوہ کو ترجیح دیتے تھے ،صحابیات بیوہ ہوجاتیں تو عدت ختم ہوتے ہی نکاح کا پیغام دیدیتے تھے۔
زوجین کے حقوق:
اسلامی شریعت میں جس طرح رشتۂ نکاح کے قائم کرنے کے لئے تفصیل سے قانونی اور اخلاقی ہدایتیں دی گئی ہیں، اسی طرح رشتۂ نکاح کے قائم ہونے کے بعد اس کو خوشگواراور استوار رکھنے کے لئے بھی اصولی طور پرشوہر اور بیوی دونوں کے حقوق و فرائض کی نشاندہی کردی گئی ہےاور ان میں سے ہر ایک کے عمل و اختیار کا دائرہ بھی متعین کردیا گیا ہے۔اگر مرد و عورت دونوں اس کو قائم اور استوار رکھنے کے لئے مسلسل کوشش نہ کریں اور ہر ایک اپنے اپنے دائرہ ٔ اختیار و عمل کا لحاظ و پاس نہ کرے تو یاتو رشتہ ٹوٹ جائے گا یا اگر ٹوٹا نہیں تو اس کا بندھن اتنا کمزور ہوجائے گا کہ اس کے ذریعہ وہ مقاصد پورے نہ ہوسکیں گے ،جن کے لئے یہ گرہ لگائی گئی ہے۔
نکاح ہوتے ہی شوہر پر بیوی کا مہر ، نا ن و نفقہ لازم اورایک دوسرے پر حقوق و فرائض عائد ہوجاتے ہیں۔مہر اور نان و نفقہ کے متعلق توکم و بیش سبھی جانتے ہیں ؛ لیکن حقوق وفرائض کا علم نہیں ہوتاکہ کس کے کیا حقوق اور کیافرائض ہیں؟ حقوق کے دعویدار تو سبھی ہوتے ہیں ؛لیکن فرائض کی ادائیگی کا احساس کسی کو بھی نہیں ہوتا، دیکھا گیا ہے کہ اکثر ظلم بیوی پر ہی ہوتا ہے ،شوہرکے ماں، باپ اور بہن بھائی، اسے مفت کی نوکرانی سمجھتے ہیں، کم پڑھی لکھی ہے تو ظلم کو برداشت کرکے گذارہ کرلیتی ہے؛لیکن پڑھی لکھی ہے تو وہ بھی اپنے حقوق کا دعویٰ کردیتی ہے جس سے نباہ نہیں ہوپا تا اور نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے ۔ در حقیقت میاں بیوی کا رشتہ لے اور دے کا ہے دونوں کے حقوق برابر ہیں ،فرق صرف اتنا ہے کہ شوہر کو بیوی کا قو ّام(ذمہ دار) اور اس کا سربراہ بنایا گیا ہے۔اگرہر گھر میں بہو کوسسر اور ساس اپنی بیٹی ،نند اپنی بہن اور بہو بھی اپنے ساس اور سسرکواپنی ماں اور باپ اور نند کو اپنی بہن سمجھنے لگے تو کوئی جھگڑا ہی نہ ہو؛ لیکن ہوتایوں ہے کہ بیٹااگر بیوی کی بات مانے تواسے جورو کا غلام اور داماداگر بیٹی کی بات مانے تواسے فرمانبردار کہاجاتا ہے۔
بہو کی ماں بھی کچھ کم نہیں ہوتی ، گھر خراب کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ اسی کا ہوتا ہے جو وقتاً فوقتاً موبائیل کے ذریعہ بیٹی کو ہدایات جاری کرتی رہتی ہے۔
شادی کے قبل مشاورت:
اس خرابی کو دور کرنے کی ایک تجویز میری ناقص عقل میں یہ آئی ہے کہ ہر شہر میں مفتی صاحبان کی سربراہی میںایک ایسی کمیٹی بنائی جائے جولڑکے ، لڑکی اور ان کے گھر والوں کوشریعت کی روشنی میں حقوق و فرائض بتائیں،ایک دوسرے کے جذبات کی قدر اور احترام کرنا سکھائیں اورنکاح کے فضائل اور اس کی اہمیت سمجھائیںتو ان شاءاللہ زندگی خوشگوار گذرے گی۔ اس خدمت کے لئے کمیٹی ایک فیس بھی مقرر کردے ؛تاکہ ہدایات اور نصائح کی ناقدری نہ ہو۔
انھیں یہ تعلیم بھی دی جائے کہ آپسی نااتفاقی کی صورت میں جوش میں آکر ہوش نہ کھو بیٹھیں ،جھگڑا اور گالی گلوج نہ کریں، نہ کسی کے بہکاوے میں آکر عدالت کا دراوزہ کھٹکھٹائیں ؛بلکہ شرعی عدالت (دارالقضاء)کا ہی رخ کریں؛عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا ہی نتیجہ ہے کہ دشمنان اسلام کومذہب اسلام اور اس کے قوانین پر انگشت نمائی کاموقع ہاتھ آجاتا ہے۔ عدالت جانے میں یہ خرابیاں بھی ہیں کہ وہاں ایک کثیر رقم خرچ ہوگی ، فیصلہ میں دیرہو گی ، فیصلہ غیرشرعی ہوگااور پھر مقدمہ جیتنے والااپنی بغلیں بجائے گاکہ میں جیت گیا میں جیت گیا؛جبکہ شرعی عدالت میں بہت تھوڑی رقم خرچ ہوگی ، فیصلہ جلدہوگا،فیصلہ شریعت کے مطابق ہوگا اور اس فیصلہ میں نہ کسی کی ہار ہو گی اور نہ کسی کی جیت ،جوشریعت کا حکم ہوگا اسی پردونوں فریق کو عمل کرناہوگا۔
نکاح کا مقصد:
نکاح کے مقاصد میں سے نسل انسانی کی بقا کے لئے توالد و تناسل کا سلسلہ ہے ، آپ ﷺ نے فرمایاہے کہ’’ بہت محبت کرنے والی اور زیادہ بچے دینے والی عورت سے شادی کرو ؛کیوںکہ (قیامت کے دن) میںتم پر فخر کروں گا‘‘؛لیکن آج کل کی عورتیں نبی ﷺ کی بات فراموش کرکے اپنے آپ کو بچہ جننے والی مشین سے تشبیہ دے کر اس سے پہلو تہی کررہی ہیں،مرد بھی اس سے کم نہیں ہیں کہ زیادہ بچے پیدا ہوگئے تو کھلاؤں گا کہاں سے؟ اوراچھی تعلیم وتربیت کا انتظام کس طرح کرسکوں گا؟ اللہ تعالیٰ نے کلام پاک میں فرمایا ہے کہ رزق کے خوف سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو ، میں تمہیں بھی رزق دیتا ہوں اور انہیں بھی میں ہی دوں گا، جو یہ سمجھتے ہیں کہ بال بچوں کی پرورش وہ خود کررہے ہیں تو یہ ان کی بھول اورایمان کا نقص ہے، انہیں تو یہ بھی پتہ نہیں کہ ان کا رزق کہاں سے آتاہے؟
آج کل اس کی بہت زیادہ کوشش ہورہی ہے کہ یا تو بچے کم پیدا ہوں یا پیدا ہوںہی نہیں،حکومت بھی اس کی پشت پناہی کررہی ہے اوراس کے لئے ہر ممکن ذرائع استعمال کئے جارہے ہیں، حمل ٹھہر جاتا ہے تو ساقط کروانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا، خاص طور سےنئے شادی شدہ جوڑے میں تو یہ بات عام ہے کہ ابھی تو ہنسنے اور کھیلنے کے دن ہیں؛جبکہ بہت سی ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ پہلاحمل ساقط کروادیا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اولاد جیسی نعمت سے محروم ہوگئے۔
عورت اورحمل کا بوجھ :
تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ مغربی ممالک کی مائیں اور اب تو ہمارے ملک کی بھی، نو ماہ تک حمل کا بوجھ برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں، اس کے لئے بھاڑے کی ماں تلاش کی جاتی ہے جو نو ماہ تک ان کے اولاد کواپنی کوکھ میں پالتی ہیں، اس کا طریقہ یہ ہےکہ شوہر کے جر ثومے اور بیوی کے بیضے کو کسی دوسری عورت کے رحم میں داخل کردیا جاتا ہے، ا س عمل کو سروگیشن اور جس عورت کے رحم میں یہ عمل ہوتا ہے اسے سروگیٹ کہتے ہیں اور اس سارے عمل کو سرو گیسی کہتے ہیں،قرآن اور حدیث کی روشنی میں یہ طریقہ قطعاً ناجائز اور حرام ہے۔
ٹیسٹ ٹیوب بے بی:
بعض اوقات عورت کے رحم کی نالیاں بند یا تنگ ہونے کی وجہ سے تولیدی مادے کا ملاپ ممکن نہیں ہوتا اورپھر کسی بیماری کی وجہ سے بھی استقرار حمل نہیں ہوتا ایسی صورت میںڈاکٹر مر د کے جرثومے اور عورت کے بیضے لے کر ان کا ملاپ عورت کے رحم کی بجائے ایک ٹیوب میں کرواتے ہیں جس کو ٹیسٹ ٹیوب بے بی کہتے ہیں،جب یہ عمل جو عورت کے رحم میں ممکن نہیں تھا مکمل ہوجاتا ہے تو پھر اس کو اگلے مراحل کی تکمیل کے لئے رحم مادر میں منتقل کردیا جاتا ہے ،یہ بات تو طے ہوگئی کہ یہ عمل کسی مجبوری کی وجہ سے کیا جاتا ہے ،اس لئے شرعی طور پر اس کی اجازت ہے ؛لیکن اس شرط کے ساتھ کہ جرثومے اور بیضے میاں بیوی کے ہی ہوں۔
اس کے بر عکس اگر یہ ملاپ ایسے جوڑے کا کروایا جائے جن کا آپس میں نکاح نہ ہو تو وہ زنا کے مترادف ہوگا اور پیدا ہونےوالا ثابت النسب نہ ہوگا، حرامی ہوگا۔
اسقاط حمل اور مرد و عورت کا تناسب:
آبادی اورمرد و عورت کے تناسب کا نظام قدرت ہی کے شایان شان ہے، قدرت کے نظام میں دخل اندازی کا ہی نتیجہ ہے جو ہم آج دیکھ رہے ہیںکہ کہیں تو آبادی بالکل تھم سی گئی ہے اور کہیں لڑکے اور لڑکی کے تناسب میں یہ فرق آگیا ہے، لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد میں کمی واقع ہوگئی ہےاوراس کی وجہ لڑکی کی شادی میں لڑکے والوں کی ناجائز مانگ ہے،اکثر والدین اس حمل کوہی ضائع کروا دیتے ہیں جس میں لڑکی ہوتی ہے۔مندجہ بالا سطور میں جو یہ بات کہی گئی ہے کہ آبادی اور اس کے تناسب پر قابو رکھنا قدرت ہی کا کام ہے اس کے لئے ایک ہی مثال کافی ہے ،موٹر گاڑی کی ایجاد سے قبل سواری کے لئے عموماًگھوڑے ہی استعمال ہوتے تھے ، ہر گھر کے دروازے پر کچھ نہ کچھ گھوڑے بندھے ہوتے تھے، آج وہ گھوڑے کہاں چلے گئے؟ اس کے بالمقابل بکرےوغیرہ نہ جانے کتنے روزانہ حلا ل کئے جاتے ہیں اور قربانی اور حج کے موقع سے تو ایک ہی دن میں کثیر تعداد کوحلال کردیا جاتا ہے پھر بھی ان کی تعداد میں کمی واقع نہیں ہوتی۔
ڈبے کا دودھ:
آج کل کی ماؤں کی ایک دوسری کہانی بھی ہے کہ بچے کو اپنا دودھ نہیں پلاکر ڈبّے کا دودھ پلاتی ہیں کہ ان کےحسن میں خرابی یاکمی آجائے گی،بعض عورتیں تویہ بھی کہتی سنی جاتی ہیں کہ مجھے تو اتنادودھ ہی نہیں ہوتا جو بچے کا پیٹ بھرے ، ان کی یہ تاویل جھوٹ پر مبنی اوردودھ نہ پلانے کا ایک بہانہ ہے ،ڈاکٹروں کا یہ کہنا ہے کہ اگر دودھ نہ نکلے پھر بھی بچے کے منھ میں تھن ڈالے رہیں تو دودھ ضرور نکلے گا، جتنا زیادہ پلائیں گی اتنا زیادہ دودھ نکلے گا۔ دانشوروں کا کہنا ہے کہ بچوں کے نافرمان ہونے میں ڈبے کے دودھ کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
دودھ کا بینک:
آج کل مغربی ممالک میں دودھ کے بینک کھل گئے ہیں جس میںعورتوں کا دودھ نکلوا کر رکھا جاتا ہے اور ضرورت کے وقت قیمۃً فروخت کرکے بچوں کو پلایا جاتا ہے ، اس طرح انسانی دودھ جمع کرنا ،بے احتیاطی کے ساتھ بچوں کو پلانااور اس کا بیع و شراء کرنا شریعت میں جائز نہیں ، بطور خاص اس لئے کہ اس کی وجہ سے حرمتِ رضاعت کے معاملات مشتبہ ہو سکتے ہیں ؛ کیوںکہ جن عورتوں کا دودھ بچوں کو پلایا جائے گا ان سب سے بچہ کا رشتہ رضاعت کا ثابت ہوجائے گا اوربڑے ہونے کے بعد کچھ امتیاز نہ رہے گا۔
برادران وطن کے اشکالات کا جواب:
یہ تو تھیں اپنی باتیں ، برادران وطن کے کچھ اشکالات ہیں، ضروری ہے کہ ان کے اشکالات کو بھی دور کیا جائے :
پہلا اعتراض یہ ہےکہ مسلمان ایک سے زیادہ چار تک شادیاں کرتے ہیں ؛ لیکن ہم جب تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں تو ہندو مذہب جو اپنے دعوے کے مطابق دنیا کا قدیم ترین مذہب ہے،ان کے یہاںمہابھارت کے مطابق واسو دیوجو ایک بڑے رشی ہیں ان کے حرم میں سولہ ہزار ایک سوعورتیں تھیں، جن میںآٹھ رانیاں مشہور ہیں، ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کے مطابق شری کرشن جی کے حرم میں سولہ ہزارعورتیں تھی اور ان کی سات رانیاں تھیں ، شری رام جی کے والد راجا دسرتھ کی تین بیویوں کا ذکر بھی کتابوں میں ملتا ہے، پانڈو جن کی شخصیت بہت زیادہ مشہور ہےان کی دو بیویاں تھیںاوردیگر ہندو بزرگوں کے یہاں بھی کئی کئی بیویوں کا تذکرہ ملتا ہے، ان کے یہاں عورتوں کی تعداد کی کوئی تحدیدبھی نہیں تھی۔
جب ہم حضرت ابراہیم ؈ کو دیکھتے ہیں تو کلام پاک اور احادیث سے دو بیویوں اور توراۃ سے ایک تیسری بیوی کا ذکر بھی ملتا ہے،حضرت یعقوب ؈ جن سے بنی اسرائیل کی نسل چلی ان کی چار بیویاں تھیں،بائبل میںحضرت موسیٰ؈ کی دو اور حضرت داؤد ؈ کی چھ بیویوں کا ذکر ملتا ہے۔عیسائی دنیا کے بارے میں وسٹر مارک کا بیان ہے کہ کلیسا اور حکومت دونوں ہی سترہویں صدی کے نصف تک تعدد ازدواج کو مباح قرار دیتے تھے اور ان کے یہاں بکثرت اسی کا رواج تھا۔
زمانہ جاہلیت کے عرب جو اپنی نسبت حضرت ابراہیم؈ کی طرف کرتے تھےان کے یہاں بھی تعدد ازدواج کی اجازت تھی اور کوئی تعداد متعین نہیں تھی۔ حضور اکرم ﷺ کے زمانہ میں بھی ایک صحابی؄ کے پاس پانچ اور ایک کے پاس دس بیویاں تھیں تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا چار کو رکھو اور باقی کو علیحدہ کردو۔
اسلام کا تعدد ازدواج کے بارے میں جو تصور ہے اس میں تین باتوں کو سامنے رکھنا چاہئے،پہلی بات یہ کہ اسلام ہی وہ پہلا مذہب ہے جس نے اس کی تحدید کی اور بندش لگائی ، اس کی توسیع نہیں کی ، دوسری یہ کہ اسلام نے ایک سے چار تک بیک وقت نکاح کی صرف اجازت دی ہے،ترغیب نہیں دی ہے اور تیسری یہ کہ دوسرے مذاہب میں بیویوں کے درمیان انصاف کرنے کی کوئی تفصیل نہیں ؛ جبکہ یہاں میاں بیوی کےحقوق و فرائض اور ان کے درمیان انصاف کرنے کی پوری تفصیل موجود ہے۔
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ مردکو ایک وقت میںچار بیویاں رکھنے کی اجازت کیوں؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بعض عورتیں بانجھ ہوتی ہیں اور اولاد کی خواہش سب کو ہوتی ہےپھر کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ پہلی بیوی کو نکاح میں رکھتے ہوئے شوہر دوسری شادی کرلے اگر پہلی بیوی کو طلا ق دےکر دوسری شادی کرتا ہے توپہلی بیوی کا کیا ہوگا؟ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہر ماہ میں عورتیںکچھ دن ایام سے ہوتی ہیں، حمل و نفاس کا ایک طویل وقفہ اور پھر بعض اوقات طبیعت کی ناسازی ، یہ حالات ایسے ہیں جن میں شوہر بیوی سے جنسی آسودگی حاصل نہیں کرسکتا ، ہر مرد کی جنسی آسود گی کا معیار ایک نہیں ہوتا،بعض کے قویٰ اتنے مضبوط ہوتے ہیںکہ وہ اپنی خواہشات پر قابو نہیں رکھ سکتا تو کیا وہ حرام ذریعہ اپنائے گا؟ شریعت نے اگراسے حلال ذریعہ دیا ہے توپھر دوسرے کو اس پر اعتراض کرنے کا کیا حق ہے؟
لڑکے اور لڑکیوں کی پیدائش میں اگر کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے تو لڑکے اور لڑکیوں کی تعداد قریب قریب برابر ہوگی؛لیکن جنگ اور حادثات میں مرنے کا تناسب مردوں کا ہی زیادہ ہوتاہے اورلمبی سزاکے قیدی بھی عموماً مرد ہی ہوتے ہیں پھر ایسی حالت میں یہ فطری بات ہے کہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد بڑھ جائے گی تو اگر ایک سےزیادہ بیوی کی اجازت نہیں دی گئی تو وہی ہوگا جو ان ملکوں کا حال ہے جہاں قانونی طور پر ایک سےزیادہ بیوی رکھنے کی اجازت نہیں، ان ملکوں میں قانونی بیوی تو ایک ہی ہوتی ہے ؛لیکن غیر قانونی کی کوئی گنتی نہیںہوتی،یہی وجہ ہے کہ وہاںساٹھ فیصد سے زیادہ بچے غیر ثابت النسب پیدا ہورہے ہیں۔
تیسرا اعتراض یہ بھی ہےکہ اگر ایک مرد ایک وقت میںچار بیویاں رکھ سکتا ہے تو ایک عورت ایک وقت میںچار شوہر کیوں نہیں رکھ سکتی،اس کا جواب یہ ہے کہ اگراسلام نےعورتوں کو بھی ایک وقت میںکئی شوہر رکھنے کی اجازت دی ہوتی تو اس کے جو نتائج ہوتے انہیں ہر ذی شعور شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے،عورتوں کو صنف نازک کہا گیا ہے،ان کی جسمانی نزاکت اس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ وہ کئی مردوں کی جنسی آسودگی کی ذمہ داری نبھاسکیں،دوسرے یہ کہ نکاح کے سبب ، ایک سے زائد مرد ایک ہی وقت میں اپنی بیوی سے رشتہ قائم کرنے کے خواہش مند ہو سکتے تھے جو ممکن نہیں؛ البتہ اس وجہ سے لڑائی جھگڑا ہی نہیں؛ بلکہ قتل و غارتگری تک بات پہنچ سکتی تھی اورتیسری یہ کہ اگر کئی شوہر ہوتے تو اولاد کس کی مانی جاتی ؟
یہ الزام بھی بے بنیاد ہے کہ ہرمسلمان مردایک سے زائد بیویاں رکھتے ہیں۔ ماضی قریب کے رپورٹوں سے یہ منکشف ہوچکا ہے کہ ہندو دھرم میں ایک سے زائد شادی کی اجازت نہیں پھر بھی ہندوؤں میں ایک سے زیادہ عورتیں رکھنے کی شرح مسلمانوں کے مقابلے میں کہیںزیادہ رہی ہے۔
امت مسلمہ راہ ہدایت سے بھٹک گئی:
اسلام کی نعمتوںسے دوسروں کی ناواقفیت کا کیاشکوہ کیا جائے، خود مسلمان بھی تواس کا صحیح شعور اور ادراک نہیں رکھتے ، اپنی خانگی، اجتماعی و انفرادی زندگی میں اسلام کے بتائے ہوئے راہ ہدایت پر نہیں چلتے۔
اس وقت پوری امت مسلمہ عجیب بحرانی کیفیت سے دو چار ہے ،ایک طرف جہاں اسے اسلام دشمن طاقتوں کا سامنا ہے تو دوسری طرف وہ داخلی و سماجی اور معاشرتی تباہیوں سے دو چار ہے،شادی بیاہ میں آرا ئش و زیبائش ، ناجائز رسمیں، لمبی لمبی دعوتوں اور تقریبات میں اس طرح کی فضول خرچیاں کی جاتی ہیںجیسے اعمال ، آمدنی اور خرچ کا حساب کبھی اللہ کے یہاں جاکر دینا ہی نہیںہےپھر لڑکے والوں کی طرف سے کمر توڑ دینے والی غیر شرعی مانگ اس دور کی سب سے بڑی معاشرتی لعنت اور خطرناک فتنہ و مصیبت کا ذریعہ ہے۔اسلام دشمن سازشوں کا کیا رونا جب خود ہمارے اپنے ہی ہمارے دشمن ہوں۔
امت مسلمہ کو جگانے کی جد وجہد:
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ شادی کے جاہلانہ رسومات اور خاص طور پر ناجائزمانگ کے خلاف رائے عامہ بنائی جائے اور اس سے ہونے والے نقصانات کا عوام میں احساس پیدا کیا جائے نیز اخلاقی، مذہبی اور اصلاحی انداز سے لوگوں کے دلوں میں اس کی نفرت قائم کرنے کی کوشش کی جائے،اس کے لئے منظم طور پر جدو جہد کیا جانا بہت ضروری ہے؛تاکہ ایک صالح معاشرہ وجود میں آجائےاور سماج کے کمزور طبقہ کو جن کی زندگی ان جاہلانہ رسوم سے بو جھل بن کر رہ گئی ہے ،اطمینان کی سانس لینے کا موقع مل جائے ؛لیکن یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ یہ بُرائیاں ہمارے سماج میں پورے طور پر جڑ پکڑ چکی ہیں، انہیں یک بیک ختم کردینا آسان کام نہیں اور نہ ہی سماج تیزی سے کی گئی اصلاحات قبول کرنے کا عادی ہے ؛بلکہ اس قسم کی بُرائیاں ختم کرنے کے لئے آہستہ آہستہ لوگوں کے ذہن کو تحریر وتقریر کے ذریعہ تبدیل کرنا ہوگا۔
جہاں تک رسم و رواج کا تعلق ہے تو مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ کبھی اس بات کو گوارا نہ کریں کہ ان کی عبادات یا معاملات میں غیر قوموں کی اختراعی رسوم کا سہارالیا جائے،جو رسوم خلاف شرع ہیں وہ توجائزہی نہیں؛ لیکن جو رسوم فی نفسہٖ مباح ہیں ان کوبھی ایک حد تک ہی کرنے کی اجازت ہےاور اگریہ بھی نہ ہوںتوزیادہ بہتر ہے۔
اہل ثروت سے خطاب:
مؤدبانہ گذارش ہے کہ دولت مند گھرانے ایثار و خلوص کے ساتھ آگے آئیں ، نمائش و مقابلے سے گریز کریں،جاہلی رسومات کی بھول بھلیاں سے نکل کر سادگی اور کفایت شعاری کے ساتھ اسلامی طریقوں پر نکاح کی تقریب منعقدکریں۔
اہل علم و دانش سے خطاب:
سماج کے تمام اہل علم و دانش،صاحبِ اثر و رسوخ اورعہدیداران متحد ہوکر اجتماعی اور انفرادی کوشش کریں، سادگی اور سنت کے مطابق شادی کی ہمہ گیر تحریک چلائیں اور تحریک کی ابتدا ء اپنی ذات سے کریں، عوام کو عملاً سادگی اختیار کرکے دکھائیں اور جو بھی مؤثر تدابیر ممکن ہوں اختیار کی جائیں مثلاً لوگوں کے ذہنوں میں اس ناجائز و حرام اور ظالمانہ رسم کی شرعی و سماجی قباحت بٹھانا،ایسی شادیوں کا بائیکاٹ کرنا اور مطالبہ کرنے والوں کے خلاف ایسی فضا بنانا کہ معاشرے میں ان کا جینا دشوار ہوجائے اور کسی لڑکی کا ملنا ان کے لئے مشکل ہوجائے۔
خواتین سے خطاب:
شادی بیاہ کے بیشتر رسوم ورواج کی بنیاد تفاخر اور شہرت و نام نمود ہے،جس میں گرچہ مرد حضرات بھی شریک ہوتے ہیں ؛لیکن ان کی اصل جڑ عورتیں ہیں،چنانچہ منگنی کے دن سے نکاح کے بعد تک تقریباً تمام رسم ورواج کا انعقاد عورتیں ہی کرتی ہیں، یہ اپنے فن کی امام ہیںاور ایسی مَشَّا ق و تجربہ کار ہیںکہ نہایت آسانی کے ساتھ اپنا لوہا منوا لیتی ہیں،یہ اپنے ذہن کی اتنی پکّی ہوتی ہیں کہ دین تو کیا دنیا کی بربادی کا بھی خیال نہیں رہتا،رسموں کے سامنے اور اپنی ضد کے آگے کچھ بھی ہوجائے پرواہ نہیں کرتیں۔
عورتوں کو سمجھانا مرد کی ذمہ داری:
ایسی صورت حال میں مردوں کا فرض ہے کہ وہ عورتوں کو غیر شرعی و غیر اسلامی کاموں کی اجازت اور اس پر خاموشی کے بجائے کبھی پیار اور کبھی سختی کے ساتھ انہیں روکیں، ان کی ناراضگی پر اللہ جل جلالہٗ اور اس کے حبیب جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی ناراضگی کو ترجیح دی جائے۔
عورتوں کے ان فتنوں کے بارے میں قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں یہ کہہ کر چھٹکارا ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا کہ ’’عورتیں تو باتیں مانتی ہی نہیں‘‘ کیوںکہ اللہ جل جلالہٗ نے مردوں کو اُن کا حاکم اور اُنہیں مردوں کا محکوم بنایا ہے۔اگر بالفرض یہ عذر واقعی سچا ہے تو پھر باربار سمجھانے پر اگر یہ کھانے میں برابر نمک تیز کرتی رہیں تو کیا یہ کہہ کر خاموشی کے ساتھ کھانا کھا لیا کریں گے کہ یہ تو مانتی ہی نہیں؟
عقل مند اور پُر عزم عورتیں:
جب عورتیں ضد کرکے دنیا کی باتیں منوالیتی ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ دین کی باتیں نہ منوا سکیں، عورتوں کا لب و لہجہ اور ان کاا ندازِ گفتگو بھی بے حد متأثر ہوتا ہے ، ان کی بات دل میں گھس جاتی ہے؛اگر خاندان و سماج کی عورتیں عزم کرلیں اور رسول اللہ ﷺ کی مرضی پر اپنی خواہش کو قربان کرنے کا تہیہ کرلیں تو ان شاءاللہ بہت جلد یہ سارے بکھیڑے سماج سے مٹ سکتے ہیں اور شادی واقعۃ سادگی کا نمونہ بن سکتی ہے۔
نوجوانوں سے خطاب:
اب میں اپنے نوجوانوں سے مخاطب ہوں کہ وہ اصلاح معاشرہ کے لئے آگے آئیں،بیہودہ اور خلاف شرع رسم و رواج کو چھوڑ کررضاکارانہ طور پربلا جہیز شادی کو فروغ دیں،یہی اسلام کے ازدواجی نظام کا مطالبہ اور حالات کا عین تقاضا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ’’ جو شخص نیک کام کی بنیاد ڈالے اور لوگوں کو اس طرف رغبت دلائے تو اسے اپنے عمل کا بھی ثواب ملے گا اور قیامت تک جتنے لوگ اس نیک راستہ پر چلیں گے اس کا بھی ثواب اس کو ملے گا اور جو شخص لوگوں کو کسی بُرے کام کی ترغیب دے یاایسے کام کی بنیاد ڈالے جس سے لوگ بُرائیوں میں مبتلا ہوں تو اس بُرائی کا گناہ تو اسے ملے گا ہی اور قیامت تک جو لوگ اس بُرے راستہ پر چلیں گے ان سب کا گناہ بھی اسے ملے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے حضور:
آئیے ہم سب مل کرحضور اکرم ﷺ کا پیغام عوام تک پہنچاتے ہوئے یہ عہد کریں کہ شادی ہلکی پھلکی اور کم خرچ والی کریں گے ،بارات کی شکل میں جاکر لڑکی والوں کے یہاں کھانا نہیں کھائیں گے،مہر ضرور ادا کریں گے ، غیر شرعی رسموں سے مکمل پرہیز کریں گے ،ولیمہ کی سنت کو فروغ دیں گے اور میرے ذمہ جو بیوی کا حق ہے اسے پورا پورا ادا کرنے کی کوشش کریں گے ،اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو اس دعا پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین یا رب العالمین ۔
اللہ تعالیٰ سے دست بدعاہوں کہ اس کاوش کو ہر مسلمان کے لئے ہدایت کا ذریعہ اور خودمیرے لئے ذخیرۂ آخرت بنائے،آمین یا رب العالمین۔
وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ وَبِیَدِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَالْمُسْتَعَانُ ط
طالب دعا ء
محمود عالم

متعلقہ خبریں

تازہ ترین