Monday, February 10, 2025
homeاہم خبریںکلکتہ کی 40فیصد عمارتیں ختم ہوجائیں گی؟

کلکتہ کی 40فیصد عمارتیں ختم ہوجائیں گی؟

انصاف نیوز آن لائن

ماہرین ارضیات نے کلکتہ کے مختلف علاقو ں کا سروے کرنے کے بعد جو رپور ٹ پیش کی ہے اس نے کلکتہ کی بلندو بالا عمارتوں کیلئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔رپورٹ کے مطابق شہر کے ”کالی گھاٹ“ علاقے کی کی مٹی میں دباؤ پیدا ہوگیا ہے۔اس کی وجہ سے شہر کے مختلف علاقوں کی کئی عمارتو ں میں یک بعد دیگرے دراڑیں آئی ہیں۔ ماہرین ارضیات کے تحقیقی مقالہ کے منظر عام پر آنے کے بعد شہر میں بلند و بالا عمارتوں کو لے کر کھلبلی مچ گئی ہے۔ لیکن شہر میں کام کرنے والے ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ انہیں چھ سال پہلے ہی ان خطرات کا علم ہوگیا ہے۔رپورٹ کے مطابق ریاستی سیکریٹریٹ نوبنو کا علاقہ بھی خطروں کی زد میں ہے۔

ماہرین ارضیات اور تعمیراتی ماہرین کے مطابق کلکتہ اور آس پاس کے اضلاع میں زمین کا اوپری حصہ گرچہ تعمیرات کیلئے بہتر ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ بلندو بالاعمارتوں میں دراڑیں کیوں آرہی ہے۔ماہر ارضیات سوجیو کار کہتے ہیں کہ ”اگرچہ زمین کا اوپری حصہ تعمیرات کیلئے بہتر ہے تاہم زمین کے نچلے حصے کی مٹی بہتر نہیں ہے۔لیکن خطرہ اس کے نیچے کی تہہ میں ہے۔ ماہرین ارضیات اس کو ”کالی گھاٹ فارمیشن“ کا نام دیا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ اوپری مٹی چپچپا اور چکنی ہے۔ لیکن اس کے بالکل نیچے ٹوٹنے والا مواد ہے۔ مختلف وجوہات کی بنا پر وہاں حالات بدل رہے ہیں۔ اس کا اثر اوپری سطح تک پہنچ رہا ہے۔

ماہر ارضیات سوجیو نے بتاتے ہیں کہ ”ڈیڑھ ہزار سال پہلے کالی گھاٹ کا علاقہ ایک جزیرہ تھا۔ تلچھٹ کا ایک عمل جزیرے کے گرد گھومتا ہے۔ یہ وہی عمل ہے جو کلکتہ اور ہوڑہ کے دوسرے حصوں میں پھیل گیا، ہگلی اور دونوں شمالی اور جنوبی 24 پرگنہ اضلاع کی مٹی کی ہے۔مٹی کی یہ تہہ کالی گھاٹ کے گرد بننا شروع ہوگیا ہے، اس لیے ماہرین ارضیات اسے ”کالی گھاٹ فارمیشن“کہتے ہیں۔

تحقیقی مقالے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ”کالی گھاٹ فارمیشن“ کے نیچے ٹوٹنے والی پرت کی حالت مختلف وجوہات کی وجہ سے وقتاً فوقتاً تبدیل ہورہا ہے۔مقالے میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ صورت حال اس لئے پیدا ہوئی ہے کہ کیوں کہ کلکتہ کے زیر زمین پانی کی سطح آہستہ آہستہ نیچے ہورہا ہے۔ سوجیو نے کہا کہ کلکتہ میں ہر روز زمین سے نکالے جانے والے پانی کی مقدار کے مقابلے، زیر زمین واپس جانے والے پانی کی مقدار نہیں کے برابر ہے۔ کیونکہ کئی آبی ذخائر اور تالاب کو بھر کر گھر بنائے گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے پانی کی سطح بتدریج کم ہو رہی ہے۔ مٹی خشک ہو رہی ہے۔ کالی گھاٹ فارمیشن کی نچلی پرت مزید ٹوٹتی جارہی ہے۔

ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ خشک زیر زمین پانی اپنے طور پر کھینچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کے مطابق اس حقیقت کی وجہ سے کہ کلکتہ کے زیر زمین پانی کی میز میں بہت کم براہ راست ریچارج ہوتا ہے (پانی براہ راست زمین کے اوپر سے زمینی پانی کی میز تک پہنچتا ہے)، شہر کا خشک زمینی پانی نسبتاً نمی والے علاقوں سے پانی کھینچنے کا رجحان رکھتا ہے۔ اس عمل میں پانی کے اخراج کے دوران زیر زمین پانی کے بہاؤ کے راستے بنتے ہیں۔ براہ راست ریچارج میں پانی عمودی طور پر اوپر سے نیچے کی طرف بہتا ہے۔ یہ سطح کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا۔ لیکن جو کوناکونی چینلز مٹی کے نیچے بن رہے ہیں، ان میں سے بہنے والے پانی کی وجہ سے زیر زمین بہت سی کھوکھلی جگہیں بن رہی ہیں۔سوجیو کے مطابق ”2018اور 2020 کے درمیان، گنگا میں تلچھٹ کی سطح میں اضافے کی پیمائش کی گئی ہے، گنگا میں تلچھٹ کی معمول کی سطح سے تقریباً پانچ گنا زیادہ جمع ہوگیا ہے۔ کلکتہ اور ہاوڑہ کی مٹی سے جو گاد آہستہ آہستہ نکل رہا ہے وہ گنگا میں جمع ہو رہا ہے۔

ماہرین ارضیات کے مطابق گنگا کے دونوں جانب ساڑھے تین کلو میٹر تک کا علاقہ سب سے خطرناک ہے۔ کلکتہ کا 40 فیصد اور ہوڑہ کا 35 فیصد علاقہ اس حصے میں آتا ہے۔ مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بابوگھاٹ سے لے کر بڑابازار، شوبھابازار، کاشی پور، دکھنیشور تک کے علاقے میں زمین کے نیچے خطرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ سطح قدرے کم ہے، لیکن گارڈن ریچ، مانیک تلہ، بیدھا ن نگر کے علاقوں میں بھی خطرہ ہے۔ خطرہ کی اسی سطح پر گنگا کے مغربی کنارے پر نوبنو اور کونا ایکسپریس ویز اور ڈومکدھا کی طرف ہے۔

تعمیرات کے ماہرین اور جادو پور یونیورسٹی کے پروفیسر پارتھاپرتیم بسواس کا بھی ماننا ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح میں بتدریج کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پارتھا پریتم نے بتایا کہ مٹی کی ایک خاص صلاحیت ہوتی ہے۔ بہت آسان الفاظ میں، صلاحیت وہ دباؤ کی مقدار ہے جو ایک مخصوص علاقہ لے سکتا ہے۔ مٹی کے کردار کو جانچ کر کثیر منزلہ تعمیر کرنا کافی نہیں ہے۔ کلکتہ شہر میں کتنی کثیرمنزلہ عمارت ہو سکتی ہے، اس کا بھی حساب لگانا چاہیے۔” اس کثیر منزلہ میں کتنے لوگ رہیں گے، کتنے لوگ کام کریں گے، کتنے پانی کی ضرورت ہوگی، زمین سے کتنا پانی نکالا جائے گا- ان سب چیزوں کا حساب ہونا ضروری ہے۔ پارتھ کا دعویٰ ہے، ”یقیناً یہ ممکن ہے۔ یہ بہت سے ترقی یافتہ شہروں میں ہو رہا ہے۔ شہر کے ایک علاقے کو صرف دفتر کی جگہ کے طور پر نامزد کیا جا رہا ہے۔ صرف ایک علاقے میں رہائش۔

ایک اور ماہر ارضیات اور سٹی کالج کے نائب پرنسپل پرتھوش کمار رائے کہتے ہیں کہ ”اتنا مشکل کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک بہت آسان طریقہ ہے۔ بنیادی مسئلہ مٹی کے نیچے پانی کی کمی ہے۔ اس لیے براہ راست ریچارج کو بڑھانے کے لیے انتظامات کرنے ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ”سب سے پہلے، ہر اونچی جگہ کو استعمال شدہ پانی کو گٹر میں بھیجنے کے بجائے زمین میں بھیجنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ ممکن ہے اگر آپ کثیر منزلہ علاقوں میں چھوٹے کنویں بنائیں اور ان میں پانی ڈالنے کا انتظام کریں۔ دوسرا شہر کو مٹی سے کنکریٹ کا احاطہ کم کرنے کی ضرورت ہے۔ کنکریٹ کے احاطہ کے بغیر کھلی جگہیں رکھی جائیں۔ تاکہ پانی براہ راست مٹی میں داخل ہو سکے۔ اس کے بعد ہی کلکتہ کے زیر زمین پانی کی سطح دوبارہ بلند ہوگی۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین