نیویارک : ایجنسی
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع کے دو ریاستی حل سے متعلق کانفرنس کی ابتدائی دستاویز جاری کردیے گیے ہیں۔
یہ کانفرنس پیر کو امریکہ کے شہر نیویارک میں واقع اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں شروع ہوئی۔
یہ دستاویز دونوں ممالک کے درمیان تنازع کو حل کے لیے ہونے والی کوششوں کی بحالی کی جانب اہم قدم ہے، جس میں حالیہ برسوں کے دوران اٹھنے والی تشدد کی لہر اور سفارتی ڈیڈلاک کے تناظر میں بات کی گئی ہے۔
دستاویز میں سات اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر ہونے والے ’وحشیانہ اور سام مخالف دہشت گرد حملوں‘ کی مذمت کی گئی ہے اور فوری طور غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے اور حماس کی حراست میں موجود تمام یرغمالیوں کی غیرمشروط رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ اس میں مرنے والوں کی باقیات کی واپسی کا مطالبہ بھی شامل ہے۔
دستاویز میں اس امر پر بھی زور دیا گیا ہے کہ غزہ میں پھنسے ہوئے لوگوں کو فوری اور بلا رکاوٹ ضروری سامان کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
مسودے کے مرکزی حصے میں ایسی دو جمہوری ریاستوں کے لیے بین الاقوامی برادری کی جانب سے ’غیرمتزلزل‘ عزم کا اعادہ بھی کیا گیا ہے جو محفوظ اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر امن کے ساتھ رہیں۔
دستاویز میں غزہ میں فوری طور پر ضرورت کا سامان پہنچانے کا مطالبہ کیا گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
اس میں فلسطین میں سیاسی اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کو فلسطینی اتھارٹی کے زیرانتظام متحد کیے جانے کی اہمیت بھی اجاگر کی گئی ہے اور اس کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کی بنیاد کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو قانونی اور غیر فوجی ہو۔
دستاویز میں فلسطینی صدر محمود عباس کی جانب سے رواں سال جون میں کیے گئے وعدوں کا بھی خیرمقدم کیا گیا ہے۔
متن کے مطابق ’محمود عباس کی جانب سے سات اکتوبر کے حملوں کی مذمت، یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کو غیرمسلح کرنے کے وعدے کو تسلیم کیا جاتا ہے۔‘
فلسطینی صدر نے متنازع ’پے ٹو سلے‘ ادائیگیوں کو ختم کرنے کے عزم کے علاوہ تعلیمی اصلاحات کے نفاذ، ایک سال میں انتخابات کے انعقاد اور ایک غیر فوجی فلسطین کے اصول کو تسلیم کرنے کا اعلان بھی کیا تھا اور ان تمام چیزوں کو اعتماد کی بحالی اور امن کی بنیاد کے لیے اہم قدم کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ستمبر میں متوقع اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں سیشن کے حوالے سے دستاویز میں یہ خیال پیش کیا گیا ہے کہ یا تو دستخط کرنے والے ممالک سرکاری طور پر فلسطین کی ریاست کو تسلیم کر لیں گے یا ایسا کرنے پر آمادگی ظاہر کریں گے۔
رواں برس کے آغاز میں 193 میں سے تقریباً 147 رکن ممالک نے سرکاری طور پر فلسطین کی ریاست کو تسلیم کیا –
دستاویز میں ابھی تک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہ کرنے والے ممالک کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بات چیت میں شامل ہو جائیں۔
رواں برس کے آغاز میں 193 میں سے تقریباً 147 رکن ممالک نے سرکاری طور پر فلسطین کی ریاست کو تسلیم کیا تھا جو بین الاقوامی برادری کی تقریباً 75 فیصد نمائندگی کو ظاہر کرتا ہے۔
ان میں زیادہ تر افریقی، ایشیائی اور لاطینی امریکی ممالک شامل تھے۔ بہت سے یورپی ممالک بھی حال ہی میں اس فہرست کا حصہ بنے ہیں جن میں ناروے، آئرلینڈ، سپین، سلووینیا اور آرمینیا شامل ہیں جبکہ باہماس، ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوبیگو، جمیکا اور بارباڈوس کی جانب سے بھی تسلیم کیا گیا۔
تاہم اہم یورپی ممالک اور امریکہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، برطانیہ، اٹلی اور آسٹریلیا نے ابھی تک سرکاری طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکخواں نے فلسطین کو تسلیم کیے جانے کے حوالے سے منصوبے کا اعلان کیا ہے جس کا باضابطہ اعلان ستمبر میں ہونے والے سیشن میں متوقع ہے۔
فرانس جی سیون میں پہلا ملک ہو گا جو یہ قدم اٹھائے گا جس کے بعد یورپ کی سطح پر فلسطین کو تسلیم کیے جانے کا رجحان بڑھ سکتا ہے۔