Thursday, December 26, 2024
homeاہم خبریںالطاف حسین حالی اور مقدمہ شعر و شاعری — محمد حمید...

الطاف حسین حالی اور مقدمہ شعر و شاعری — محمد حمید شاہد

الطاف حسین حالی کا نام آتے ہی ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ اور ’’مدوجزر اسلام‘‘ کا یاد آجانا یقینی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ دونوں کے حوالے سے طنز کے تیر چلائے جاتے ہیں مگر دونوں کا معاملہ ایسا ہے کہ انہیں سو سوا سو سال ہو چلے ہیں طاق نسیان کے حوالے کرنا ممکن نہیں ہوا۔ یوں تو حالی کو یاد کرنے کے اور بھی حوالے ہیں مگر ہمیں حالی کی ان دو جہتوں نے ہی یوں اُلجھا رکھا ہے کہ ادھر دھیان کم کم جاتا ہے۔ مثلاً ہمیں حالی کی غزل دشمنی یاد رہ جاتی ہے مگر غزل سے حالی کی اولیں محبت ہم بھول جاتے ہیں۔ جی غزل سے محبت کرنے والے حالی کا کہنا ہے:

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں

اور۔۔۔۔۔۔

سات پردوں میں نہیں ٹھہرتی آنکھ
حوصلہ کیا ہے تماشائی کا

اور یہ بھی۔۔۔۔۔۔۔۔

وصل کا اس کے دلِ زار تمنائی ہے
نہ ملاقات ہے جس سے نہ شناسائی ہے

یہ جو خوب سے خوب تر کی تلاش تھی جو الطاف حسین حالی کو شاعری کا مقدمہ لکھنے کی طرف لے گئی ہے۔ حالی اس طرف گئے اور اپنے سارے مخمصوں کے ساتھ گئے۔ شیفتہ اور غالب کی صحبت میں اپنی شاعری کے ذوق کو نکھارنے والے حالی کا تصور شعر خام نہیں تھا، وہ جو بعد میں اعتراضات کی دھول اس باب میں اڑائی گئی یوں لگتا ہے، بہت عرصہ تک اس میں حالی جو بات کہنا چاہتے تھے وہ نظروں سے اوجھل رہی۔ مگر اب شاید ایسا وقت آگیا ہے، ہم جان سکیں کہ حالی کی نظر سات پردوں میں نہیں ٹھہرتی تھی تو وہ پردے کون سے تھے اور اگر وہ شعر کے اندر ایک اور سطح پر ایسے اوصاف کے وصل کی تمنائی ہوگئے تھے، جو شعر کو نیا اور تازہ کر سکتے تھے تو کیا ان اوصاف کو یکسر جھٹلایا جا سکتا ہے۔

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ حالی کا دیوان ۱۸۹۳ء میں چھپا تھا اور ’’مقدمہ شعروشاعری‘‘ پہلی بار اس دیوان کا ہی حصہ تھا تاہم تب سے اب تک یہ الگ ہو کر لگ بھگ ساٹھ ستر مرتبہ چھپ چکا ہے۔ یہ جتنی بار چھپا اتنی بار ہی بہ قول محمد حسن عسکری اس کی تعریفیں ہوئیں اور اسے گالیاں پڑیں اوردلچسپ بات یہ ہے کہ ابھی تک یہ سلسلہ رکا نہیں ہے۔

چلیں، مان لیا کہ حالی نے مقدمہ کی صورت جو اصول لکھے، مغرب سے مستعار تھے تاہم ایسا کہتے ہوئے ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ نئی تنقید تک آتے آتے اس باب میں ہم بہت کچھ مغرب سے ہتھیا چکے ہیں۔ کیا یہ حالی کی عطا نہیں ہے کہ عین ایسے زمانے میں؛ جب تذکرہ نگاری کو تنقید سمجھا جا رہا تھا، مقدمہ کی وجہ سے اردو ادب پر حقیقی تنقید کا در باز ہو جاتا ہے۔ کیا یہ اس باب کی پہلی کتاب نہ تھی جس نے تنقید کو ایک فن کی طرح برتا کچھ اصول وضع کیے اور ان اصولوں کو بروئے کار لا کر کچھ نتائج اخذ کئے۔ اور یہ بھی ماننا ہوگا ہے حالی محض اور نرے ناقد نہ تھے، ایک تخلیق کار ناقد تھے۔ ظاہر ہے وہ تخلیقی عمل کی نزاکتوں کے مقابل ہوتے رہتے تھے اور انہیں سمجھتے تھے۔ ایسے میں اگر انہوں نے ایسے عوامل کو نشان زد کیا جو تخلیقی عمل کا ناس مار دیتے تھے یاایسے عوامل کا نمایاں کیا جو تقلید پرستی کے سبب لکھنے والوں کے لیے اہم نہ رہتے تھے تو کیا برا کیا۔ اور ہاں ہم ایسا کیوں نتیجہ اخذ کر یں کہ جن امور پر وہ زور دے رہے صرف اور محض انہیں ہی شاعری میں اہم جان رہے تھے۔

حالی کے تنقیدی نظریات کو محض کرنل ہالرائیڈ کے مشورے سے حالی کی طرف سے منعقد کرائے جانے والے موضوعاتی مشاعروں کے ساتھ جوڑ کر دیکھنا اتنا ہی غلط ہو گا جتنا کہ سرسید کے مطالبے پر لکھی گئی “مدوجزر اسلام”، جو بعد میں “مسدس حالی” کہلائی، سے کسی قومیت کے کسی متضاد تصور کو برآمد کرنا۔ بات حالی کے تصور قومیت کی چل نکلی ہے تو کہتا چلوں کہ اس تصور میں اگر پہلے یہ اصرار تھا:

“تم اگر چاہتے ہو ملک کی خیر
نہ کسی ہم وطن کو سمجھو غیر”

حالی کے اس “کسی” میں مسلمان، ہندو، بودھ، برہمن سب شامل تھے مگر اسی حالی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ محض جغرافیائی سطح کے زمینی تعلق سے نہ قوم کو برآمد ہوتا دیکھ سکتے تھے نہ اس سے وطن کا تصور مکمل ہوتا تھا:

“کہیے حبِ وطن اسی کو اگر
ہم سے حیواں نہیں ہیں کچھ بدتر”

زمین سے کچھ اور سا تعلق اور کسی اور سے کسی اور سطح کا تعلق کی تلاش کی جستجو حالی کو صحیح یا غلط اس مقام پر لے آتی ہے جہاں وہ شکوہ کناں ہوتے دیکھے جا سکتے ہیں:

“حال اپنا سخت عبرت ناک تو نے کر دیا
آگ تھے اے ہند ہم کو خاک تو نے کردیا
ہم کو ہر جوہر سے یوں بالکل معرا کردیا
تو نے اے آب و ہوائے ہند یہ کیا کردیا”

یہ لگ بھگ وہی طرزِ احساس ہے جس سے اقبال والا دو قومی نظریہ پھوٹا تھا اور اسی سے قومیت کا وہ تصور بھی پھوٹتے دیکھا جاسکتا ہے جس میں فقط زمینی شراکت کام نہیں کر رہی ہوتی، فکریات اور ایمانیات کو بھی داخل ہو جانا تھا۔ خیر یہ الگ بحث ہے کہ اس طرح کے طرز فکر سے ابھرنے والا قومی تصور درست تھا یا ناقص، تاہم یہ واقعہ ہے کہ آگے چل کر یہی کام کر رہا تھا۔ بالکل ایسے ہی تنقید کے معاملے میں بھی حالی نے جو طرزِ عمل اختیار کیا وہ ہماری تنقید کے لیے بنیاد بن گیا۔ یہ بنیاد ٹیڑھی تھی یا درست، یہ الگ قضیہ ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ ہماری روایت کا آغاز اسی سے ہوتا ہے۔

عین ایسے زمانے میں کہ جب شاعری امراء کے تقرب کا وسیلہ تھی؛حالی اگر تخلیقی عمل کی آزادی پر زور دے رہے تھے تو اس کا سبب یہ تھا کہ مدحیہ مضامین میں ممدوحین کے لیے جن جھوٹے جذبوں کو شعر کا حصہ بنایا جا رہا تھا وہ تخلیقی عمل کو آزادی سے کام نہیں کرنے دے رہے تھے۔ لگ بھگ ایسا ہی عشقیہ مضامین کے حوالے سے سلسلہ چل نکلا تھا۔ حالی کو اگر دونوں مضامین میں چچوڑی ہوئی ہڈی کی طرح شعر میں بے مزہ ہوتے دِکھتے تھے تو ایسا نہیں تھا کہ وہ ان مضامین کو سرے سے شاعری میں ناروا سمجھتے تھے بلکہ وہ اندھی تقلید اور ریاکاری کے جذبوں کو تخلیقی عمل کے دوران جھٹک دینے اور خالص جذبوں اور باطن کی بھرپور شرکت کے ساتھ تخلیقی عمل کے مقابل ہونے پر اصرار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین