Wednesday, March 12, 2025
homeاہم خبریںامریکہ کا عالمی نظام ٹرمپ کے دور میں تنزلی کا شکار

امریکہ کا عالمی نظام ٹرمپ کے دور میں تنزلی کا شکار

پرانے بین الاقوامی نظام کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ بریٹن ووڈز سسٹم کو فرسودہ بوجھ سمجھا جا رہا ہے اور طاقت کو علاقائی اثر و رسوخ کے دائروں میں دوبارہ تقسیم کیا جا رہا ہے

ٹوبیاس ایلوڈ .
جب ہم امریکہ کے مستقبل کے بارے میں اشارے تلاش کرتے ہیں تو پیئرز مورگن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے دیگر حمایتی اصرار کرتے ہیں کہ ہمیں ٹرمپ کو ’اس کے اقدامات سے جانچنا چاہیے نہ کہ ان کے الفاظ سے۔‘ لیکن اب تک ہم اتنے زیادہ اقدامات دیکھ چکے ہیں کہ ہمیں بخوبی اندازہ ہو چکا ہے کہ ان سب کا مطلب کیا ہے۔

ٹرمپ پزل کے ٹکڑے اب اتنے واضح ہو چکے ہیں کہ بڑی تصویر سامنے آ چکی ہے۔ ایک ایسی تصویر جو اتنی چونکا دینے والی اور دور رس اثرات کی حامل ہے کہ بہت کم لوگ اس پر کھل کر بات کرنے کی ہمت کرتے ہیں۔

اگر ہم ٹرمپ کے اقدامات، ان کے بیانیے اور ان کے حالیہ مطالبات کو جوڑیں تو ایک پریشان کن منظر ابھرتا ہے۔ وہ احساس جو کبھی قومی ذمہ داری کو نبھانے یا اس عالمی نظام برقرار رکھنے یا اس کی مرمت کے لیے تھا، جس کے قیام میں کبھی امریکہ اور برطانیہ نے مدد کی، اب مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔

روایتی اتحادیوں اور اتحادوں سے وفاداری ختم ہو چکی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی تجارتی تنظیم جیسے اداروں کی مفلوج حالت، عالمی معیشت کے زوال کو تیز کر رہی ہے۔ ٹرمپ ایک نئے دور کا آغاز دیکھ رہا ہیں جہاں ہر ملک اپنی بقا کی جنگ خود لڑے گا۔

اس تصور میں پرانے بین الاقوامی نظام کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ بریٹن ووڈز سسٹم کو فرسودہ بوجھ سمجھا جا رہا ہے اور طاقت کو علاقائی اثر و رسوخ کے دائروں میں دوبارہ تقسیم کیا جا رہا ہے۔ انتشار کا شکار دنیا کو ایک جنگل سمجھیں، جہاں چند طاقتور درندے اپنی سلطنت کو محض طاقت کے زور پر قائم رکھتے ہیں۔

اس منطق کے تحت گرین لینڈ اور پانامہ امریکہ کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں جب کہ یوکرین کو روس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسی دوران یورپ، کینیڈا اور میکسیکو اب معاشی حریف سمجھے جاتے ہیں۔ اگر تجارتی معاہدے ایسے شرائط پر نہ ہو سکیں جو مکمل طور پر امریکہ کے حق میں ہوں، تو پھر جوابی محصولات کے لیے تیار رہیں۔

اس نئے عالمی انتشار کو کارآمد بنانے کے لیے پوتن کو بحال کرنا ضروری ہے اور روس کو دوبارہ بین الاقوامی نظام میں شامل کرنا ہوگا۔ پابندیاں ختم کرنی ہوں گی، اور معاہدے کرنے ہوں گے۔

اسی لیے ٹرمپ انتظامیہ کے کسی اعلیٰ عہدے دار نے واضح طور پر یہ تسلیم نہیں کیا کہ جنگ کا آغاز روس نے کیا۔ اسی لیے اقوام متحدہ میں امریکہ نے روس کے ساتھ مل کر یوکرین کے خلاف ووٹ دیا۔ اسی لیے امریکہ نے یوکرین کے لیے اہم فوجی امداد میں کٹوتی کی۔

ٹرمپ ازم اقتصادی قوم پرستی اور بے رحمانہ تحفظاتی پالیسیوں کا ایک امتزاج ہے، جو تصادم کے ذریعے نافذ کیا جاتا ہے۔ چاہے وہ اتحادیوں کے ساتھ ہو یا مخالفین کے ساتھ۔ اس کی بنیاد اس نظریے پر ہے کہ ذاتی مفاد سب سے مقدم ہے اور امریکہ کسی بھی احتساب کے خوف کے بغیر جو چاہے کر سکتا ہے، یہ سوچ کر کہ زیادہ تر ممالک مزاحمت نہیں کریں گے، اور نتیجتاً امریکہ مزید خوشحال، طاقتور اور مستحکم ہو جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوگا۔

کوئی یہ سوچ ہی سکتا ہے کہ اگر آج رونلڈ ریگن ہوتے تو امریکہ کی اس سمت کے بارے میں کیا رائے رکھتے۔ یہ امریکہ کا وطیرہ نہیں ہے۔

اگرچہ تاریخی طور پر امریکہ تنہائی پسندی کی طرف مائل رہا ہے، لیکن اس نے ہمیشہ اس رجحان کو عالمی سلامتی اور آزاد تجارت کے عزم کے ساتھ متوازن رکھا۔ یہ وہ بنیادی ستون ہے جس نے جدید تاریخ کے طویل ترین عرصے تک امن اور خوشحالی کو برقرار رکھا۔ اب ان وابستگیوں کو ترک کر دینا سراسر بے وقوفی ہے۔

برطانیہ اور یورپ کے لیے اس جغرافیائی وسیاسی تبدیلی کے اثرات گہرے ہیں۔ جیسا کہ وزیراعظم نے اس ہفتے پارلیمنٹ میں کہا کہ ’ہم عدم تحفظ کے نئے دور‘ میں داخل ہو چکے۔

اب یورپ کی پوری دفاعی حکمت عملی پر فوری نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک ایسے امریکہ کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا جو عسکری طور پر یورپ سے پیچھے ہٹ رہا ہے اور ناقابل تصور طور پر اپنے مفادات کو یورپ کی بجائے روس کے قریب تر کر رہا ہے۔

ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ امن چاہتا ہیں لیکن یہ امن روس کی شرائط پر ہو گا۔ ہمیں کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ ایسا کوئی بھی معاہدہ صرف روس کو اپنی جنگی صلاحیتیں دوبارہ بحال کرنے کا موقع دے گا تاکہ وہ مستقبل میں ایک اور بھی وسیع جنگ چھیڑ سکے۔ اس بار، بغیر اس خوف کے کہ امریکہ کی قیادت میں نیٹو اسے روکنے کے لیے مداخلت کرے گا۔

وسیع تر تناظر میں، دنیا پہلے ہی دو مخالف کیمپوں میں بٹ رہی ہے۔ مغرب کے مقابلے میں چین، جسے بڑھتی ہوئی تعداد میں آمرانہ ریاستوں کی حمایت حاصل ہے، جو کھلم کھلا اس نازک عالمی نظام کو مسترد کر رہی ہیں جسے ہم نے طویل عرصے سے یقینی سمجھ رکھا تھا۔

اگر یورپ اور امریکہ ایک پیج پر نہ ہوئے، جب چین ٹیکنالوجی، معیشت اور عسکری برتری کے لیے امریکہ کو چیلنج کر رہا ہے، تو یہ خارج از امکان نہیں کہ دنیا ایک بار پھر جنگ کی دہلیز پر پہنچ جائے۔

ہم تاریخ کے ایک نازک موڑ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ جتنی دیر ہم امریکہ میں جاری اس خطرناک سیاسی تجربے سے نظریں چراتے رہیں گے، اتنا ہی کم وقت ہمارے پاس اس کا جواب دینے کے لیے باقی بچے گا۔

آئیے ہمت دکھائیں اور وہی کریں جو درست ہے۔ اپنی آزادیوں اور اقدار کے دفاع میں ڈٹ کر کھڑے ہوں، چاہے اس کا مطلب صدر ٹرمپ کے خلاف کھڑے ہونا ہی کیوں نہ ہو۔

ٹوبیاس ایلوڈ کنزرویٹیو پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر دفاع ہیں۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین