محمد خالد اعظمی
(حال مقیم کویت )
۶؍دسمبر۲۰۲۴ء کوعلی الصباح سوشل میڈیامیں یہ خبر گردش کرنے لگی کہ ایک معروف تحریکی،سماجی اور تعلیمی شخصیت سے علاقے کے لوگ محروم ہوگئے ہیں۔ ایک ہردلعزیز شخصیت نصیر الدین خان جنھیں لوگ ’’ماما ‘‘کے نام سے پکارتے تھے وہ اپنے چاہنے والوں کو یہ کہتے ہوئے رخصت ہوگئے کہ خوش رہو اہل چمن ہم تو سفر کرتے ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
لگن کے سچے ، دھن کے پکے اورقوم وملت کے لیے کچھ کرنے والے پچاسی سالہ نصیرالدین خان گیاضلع کے زرخیز، مردم خیز اور علم دوست گاؤں کلونامیں ۱۴ جولائی ۱۹۳۹ء کو پیدا ہوئے۔ آٹھ سال کی عمر میں ان کے والدکا انتقال ہو گیا،یتیمی اورمفلوک الحالی کی وجہ سے بچپن میں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن انھوں نے مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ کچھ کرناہے، اللہ نے مدد کی اور ایک وقت ایسا آیا کہ انھوں نے وہ کام کیے جو صدقہ جاریہ کے طور پر ہمیشہ جاری و ساری رہے گا اور جس کا اجر تاقیامت انھیںملتا رہے گا۔ ان شاء اللہ۔
مرحوم نصیر الدین خان کا تعلیمی سفراپنے آبائی گاؤں کلونا سے شروع ہوا۔ ان کی چوتھی سے ساتویں درجہ تک کی تعلیم یتیم خانہ اسلامیہ چیرکی میں ہوئی۔ مزید تعلیم جاری رکھنے کے لیے انھوں نے گیا شہر کا رُخ کیا۔ قاسمی ہائی اسکول سے میٹرک ، گیا کالج سے انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کیا۔ ۱۹۶۲ء میں بہار یونیورسٹی مظفر پور سے اردو زبان وادب میں ایم۔ اے اور ۱۹۶۳ ء میں پٹنہ ٹیچرس ٹریننگ کالج سے بی۔ ایڈ کی ڈگریاں حاصل کیں۔
نصیرالدین خان بہت سارے تعلیمی ورفاہی اداروں کے بانی ، ممبراور ذمہ دار تھے۔ ان میں سے چندکاتذکرہ کرنامناسب ہوگا، تاکہ ان کی تعلیمی اور سماجی خدمات کا اندازہ ہوسکے۔ چیرکی ہائی اسکول کے بانی۔ ملت اسپتال گیاکے فاؤنڈرو ممبر، مر زا غالب کالج گیاکے فاؤنڈر ممبر، گیا کے اقراء ہائی اورشتابدی اسکولوں کے بھی فاؤنڈر ممبر ، بورڈآف اسلامک ایجوکیشن بہار (جماعت اسلامی ہند)کے ۱۹۹۸ء تا۲۰۰۰ ڈائرکٹر، یتیم خانہ اسلامیہ چیرکی کے چیئرمین۔
یتیم خانہ اسلامیہ چیرکی
۱۹۵۴ء میں یتیم خانہ اسلامیہ چیرکی کی ذمہ داری نصیر الدین خان کے سپردکی گئی۔ اس وقت وہ انٹرمیڈیٹ کے طالب علم تھے۔ یتیم خانہ ایک پھوس کے مکان میں تھا اور یتیم طلبہ کی تعداد تقریباً۲۵ تھی اورتیسری جماعت تک کی تعلیم کانظم تھا۔
جامعۃ البنات کھنڈیل
مرحوم کو تعلیم وتعلم کے میدان کا کافی تجربہ تھا۔ یتیم خانہ کی ذمہ داری سے سبک دوش ہونے کے بعد لڑکیوں میں دینی تعلیم کا شعور بیدار کرنے کے لیے انھوں نے جامعۃ البنات کے نام سے ایک اقامتی درس گاہ قائم کی۔ چیرکی میں ایک کرایہ کے مکان میں چند بچیوں سے اس کا آغاز ہوا۔ پھر اللہ کی رضا سے ۱۹۸۶ء میں چیرکی سے قریب کھنڈیل میں لب سڑک پانچ ایکڑ زمین اس ادارے کے لیے خریدی گئی اور ادارہ وہاں منتقل ہوگیا۔ وہ اس ادارہ اس کے بانی تھے اوراس ادارہ کے تاحیات چیئرمین رہے۔
انھوں نے اپنی کوششوں سے جامعۃ البنات کھنڈیل کوبہار میں لڑکیوں کا ایک بڑا اقامتی ادارہ بنادیا۔یہ بہار ،جھارکھنڈاور نیپال کی مسلم طالبات کی اعلیٰ تعلیم کے مرکز کی حیثیت سے معروف ہے۔ انھوں نے اس وقت کے گورنربہار ڈاکٹراخلاق الرحمن قدوائی کو جامعۃ البنات مدعو کیا اور ان کے ہاتھوں جامعہ کے کیمپس میں لائبریری کا سنگ بنیاد بھی رکھوایا تھا۔
ما ہر اقبالیات پروفیسر ڈاکٹرعبد المغنی (سابق وائس چانسلر للت نرائن متھلایونیورسٹی دربھنگہ) پر دھاندلیوں کے بعض الزامات عائد کیے گئے تھے جس کی وجہ سے انھیں وائس چانسلرکا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔ اوراسی کے تحت ان کی گرفتاری بھی عمل میںآئی۔ تاہم وہ جلد ہی سبھی الزامات سے بری ہوگئے۔ الزامات کا تعلق مالی بدعنوانی سے نہیں تھا بلکہ انھوں نے بی۔ ایڈکے اکیڈمک سیشن کو درست کرنے کے لیے دو سیشن کا امتحان ایک ساتھ لینے کا فیصلہ کیا، جس کے خلاف ان کے سیاسی و نظریاتی مخالفین نے اپنے اثرورسوخ کی بنا پر تفتیشی جانچ کمیٹی قائم کرادی۔ ڈاکٹرعبد المغنی اس آزمائش کے دنوں میں کئی مہینوں تک جامعۃ البنات کھنڈیل میں مقیم رہے اور اپنے معمول کے علمی کاموں کو انجام دیتے رہے۔ جامعۃ البنات کھنڈیل کے بانی وچیئرمین نصیر الدین خان سے ان کے گہرے تعلقات تھے اور دونوںایک دوسرے کا بھرپور خیال رکھتے تھے۔
چیرکی ہائی اسکول کا قیام
جناب نصیرالدین خان نے ۱۹۶۲ تا ۱۹۹۵ چیرکی ہائی اسکول میں درس وتدریس کی خدمت دی ہے۔ جب لالو پرشاد یادو بہار کے وزیر اعلیٰ بنے تو حکومت نے بہارکے تمام اساتذہ کا تبادلہ کردیا۔ اسی زد میں محترم نصیرالدین خاں بھی آگئے اور ان کا تبادلہ ۱۹۹۵ء میں نوادہ ضلع کے وارث علی گنج کے مشہور بی کے ساہو (B.K.SAHU)ہائی اسکول میں ہوگیا،جہاں سے وہ۱۹۹۹ء میں ریٹائر ہوئے۔ اس اسکول کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں پڑھنے والے طلبہ کی تعداد ۱۵۰۰کے لگ بھگ تھی اور ہوسٹل میں مقیم طلبہ کی تعداد ۳۰۰ تھی۔
بوائز اسکول
جناب نصیر الدین خان اور دیگر لوگوں کی کوششوں سے تیس سال پہلے جامعۃ البنات کھنڈیل سے قریب لڑکوں کے اسکول کے لیے تین ایکڑزمین خریدی گئی تھی ،لیکن اپنوں کی نااہلی اور لاپرواہی کی وجہ سے یہ زمین اب تک بیابان کا منظر پیش کررہی ہے، موجودہ صورت حال یہ ہے کہ جماعت اسلامی ہند کی مرکزی شوریٰ کے ایک رکن اورجماعت اسلامی ہند کے مرکزی سکریٹری کے رشتہ داروں نے اس زمین کا کچھ حصہ اپنے لوگوں کے نام لکھ دیا ہے۔ اگرآگے یہی صورت حال برقرار رہی تو بقیہ زمین پربھی کوئی قبضہ کرسکتاہے۔ اللہ خیر کا معاملہ کرے۔
مرزا غالب کالج گیا
گیا شہر کے بالکل وسط میں وہائٹ ہاؤس کمپاؤنڈ سے متصل مرزا غالب کالج کا قیام ۱۹۶۹ء میں عمل میں آیا تھا۔ اُردو وفارسی کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کے صدسالہ برسی کی مناسبت سے اس کا نام ہے۔ اس ادارے کوپوسٹ گریجویٹ سطح تک درس وتدریس کاغیر منقسم بہار کا پہلا اقلیتی کالج ہونے کا اعزاز حاصل ہے ،اس کا افتتاح اس وقت کے وزیر اعلیٰ بہار لالوپرساد یادو نے ۵ ؍اکتوبر ۱۹۹۴ء کو کیا تھا۔ کالج نے تعلیم اور اس سے وابستہ سرگرمیوں کے میدان میں تیزی سے ترقی کے ہے۔
مرحوم نصیر الدین خان کا مرزا غالب کالج گیا سے تعلق کافی پراناتھا۔ وہ ۱۹۶۹ء سے کالج کی کونسل کے ممبرتھے ،مرحوم زیادہ تر کام خود ہی کرلیا کرتے تھے۔ ان کو کالج کا سکریٹری بننے کا اس وقت موقع ملا جب وہ سرکاری اسکول میں ٹیچر تھے۔ اس ذمہ داری کی وجہ سے بعض قانونی پیچیدگیاں پیش آرہی تھیں، اس لیے وہ سکریٹری شپ کی ذمہ داری سے مستعفی ہوگئے۔ لیکن تاحیات اس کے فاؤنڈر ممبر رہے۔
تعلیم سے ان کو جنون کی حدتک لگاؤ تھا۔ متعدد تعلیمی اداروں کے قیام وانصرام کے ساتھ وہ تعلیم کے لیے سرگرم تنظیموں سے بھی وابستہ رہے۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں وہ آل انڈیا مسلم تعلیمی کانفرنس سے منسلک ہوئے اور اس کی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ جماعت اسلامی ہند حلقہ بہار کے تحت قائم اسلامک ایجوکیشن بورڈ کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ نیز آپ بہار ریاستی اقلیتی کمیشن کے رکن بھی رہے ہیں۔
جماعت اسلامی ہندسے تعلق
۱۹۵۵ء۔۱۹۵۶ء کا واقعہ ہے۔گیا شہرمیں نصیر الدین خان جس مکان میں رہ کرانٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کررہے تھے حسن اتفاق اسی مکان میں جماعت اسلامی سے متعلق کچھ لوگ بھی رہتے تھے۔ ان لوگوں کا طریقہ کار یہ تھا کہ مولاناسید ابو الاعلیٰ مودودی کے کتابچے ایسی جگہوں پر رکھ دیا کرتے تھے جہاں اس مکان میں رہنے والے طلبہ کی نظرپڑجائے۔ اس طرح ان لوگوں نے یہ بھی کیا کہ وہ طلبہ سے کہتے کہ ان کتابچوں کا مطالعہ کرکے بتائیں کہ اس میں کیا لکھاہے۔ اس طرح وہ کتابچے پڑھنے لگے اورجماعت اسلامی سے قریب ہوتے چلے گئے۔
بہارمیں جماعت اسلامی ہندسے منسلک جن شخصیات سے وہ کافی متاثر تھے ان میں ڈاکٹر سیدضیاء الہدیٰ پٹنہ،سابق امیر حلقہ جماعت اسلامی بہار،جناب انیس الدین احمدسابق امیر حلقہ بہار، سہسرام سے تعلق رکھنے والے مولانا ارتضاء الدین حاذق ضیائی اورقمرالدین خان سہدیوکھاپ گیا کا نام خاص طور پر قابل ذکرہے۔
خاں صاحب ۱۹۶۸ء میں جماعت اسلامی ہند کے باقاعدہ رکن بنے۔ تحریکی سرگرمیوں میں ہمیشہ پیش پیش اور کافی سرگرم رہتے تھے۔ وہ تا حیات تحریک سے عہد وفا نبھاتے رہے۔ اس کی راہ میں قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔
اہم واقعات
۲۵ ؍جون ۱۹۷۵ء میں محترمہ اندراگاندھی نے ملک میں ایمرجنسی لگادی اورجئے پرکاش آندولن میں شریک تمام سیاسی پارٹیوں کے قائدین کو نظر بندکردیا۔اس کے ساتھ جماعت اسلامی ہندپر بھی پابندی لگادی اور جماعت کے ارکان کو بھی قیدوبندکاسامناکرناپڑا۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے مرکزی اور صوبائی ذمہ داروں کو پابند سلاسل کیا گیا۔ اس کے بعد دیگر ارکان جماعت بھی اس کے زد میں آئے۔
مرحوم نصیر الدین خان اس وقت گیا میں تھے اور ان کے روابط سرکاری افسران سے اچھے تھے۔ ابتدا میں سرکاری افسران نے نرمی برتی۔ سب سے پہلے امیر مقامی شہر گیاجناب محمدالیاس صاحب کو جیل بھیجاگیا، دوماہ بعدنصیرالدین خان، الیاس اورنگ آباد ، انیس الرحمن سہدیو کھاپ اور آزاد سوپ فیکٹری گیا کے مالک سلیمان صادق کے نام وارنٹ جاری ہوا۔ مقامی پولیس انسپکٹر سے نصیرالدین خان کے تعلقات اچھے تھے،ان کے کہنے پر انسپکٹر نے وقتی طور پرصرف چار ارکان جماعت اسلامی کے نام وارنٹ جاری کیا۔ نصیرالدین خان کے سامنے انسپکٹر نے ایس پی سے پوچھا کہ FIR میںکیا درج کیا جائے تو ایس پی نے کہا کہ جو کہا گیا ہے کرلو ،ہم لوگ مجبور ہیں۔ انسپکٹر صاحب کی آفس کے قریب مدرسہ قاسمیہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ انیس الرحمن خان ناظم علاقہ یہ تقریر کررہے تھے کہ اندراگاندھی کی حکومت کاتختہ پلٹ دیا جائے۔
ان تمام لوگوں نے نماز ظہر ادا کی،آ زاد سوپ فیکٹری میں کھانا کھایا، پھرانسپکٹرصاحب کی آفس میں حاضر ہوئے ۔ اس کے بعد ان لوگوں کوایس ڈی او کورٹ میں لے جایاگیا اور اخیر میں گیا جیل کی مہمان نوازی کے لیے بھیج دیا گیا۔
گیا جیل پہنچنے کے بعد انھوں نے دیکھاکہ پہلے ہی سے رانچی اورجمشید پورکے تقریباً پچاس ارکان موجود ہیں اور بہت خوشگوار موڈ میں نظر آرہے ہیں۔ تحریک اسلامی کے ارکان کے علاوہ تقریباًچھ سودیگر سیاسی پارٹیوں کے افراد بھی موجودتھے۔ جیلر نے ان کی رہ نمائی کرتے ہوئے کہا کہ آپ جیل میں گھوم پھیر کر دیکھ لیں کہ کون سا وارڈاچھا لگ رہا ہے تاکہ وہی وارڈ آپ لوگوں کو دے دیا جائے۔ ان لوگوں نے وارڈ نمبر ۷ کوپسندکیا توجیلر نے اس وارڈکی صفائی ستھرائی کروائی اور تمام تحریکی افراد اس وارڈ میں منتقل ہوگئے، جن کی تعداد ساٹھ تھی۔ آرام وسکون کے ساتھ رو ز مرہ کی زندگی گزارنے لگے۔
میسا وارڈ
ایک دودنوں کے بعد گیاجیل میں بند جماعت اسلامی کے افراد کوپتہ چلا کہ ڈاکٹر بسنت نارائن سنگھ (رام گڑھ)کے چھوٹے بھائی بھی وہاں ہیںاور نوادہ کے ڈاکٹر منظور سابق ایم ایل اے اور آرایس ایس کے دو سینئر پروفیسر بھی ہیں۔ تھوڑی دیرآ رام کرنے کے بعد جماعت کے لوگ جیل میں بندسیاسی قیدیوں سے ملاقات کرنے کی غرض سے نکلے۔ اسی وارڈ میں شہاب الدین صاحب پٹنہ سابق ایم ایل اے ، بسنت نارائن سنگھ جو اس وقت جنتادل یو کے صدر اور راجیہ سبھاکے ممبر تھے اور جے پرکاش کے قریبی سمجھے جاتے تھے اور ایوب خان بھی موجود تھے۔ گویا جیل کی چہار دیواری ان لوگوں کے لیے بہت خوش گوار اور سود مند ثابت ہورہی تھی۔
جیل کی زندگی
جیل کی زندگی کا سب بڑا فائدہ یہ ہواکہ مختلف مکاتب فکر کے سیاسی اورسماجی لوگوں سے ملنے کا موقع ملا۔ ایک دوسرے کے افکار وخیالات سے واقفیت ہوئی اور بہت سی غلط فہمیاں بھی دور ہوئیں۔ آرایس ایس کے افراد ان سے قریب ہوئے اور انھیں اسلام کا باضابطہ تعارف کرانے کا موقع ملا۔ اس موقع کوغنیمت جانتے ہوئے قرآن پاک کاہندی زبان میں ترجمہ برادران وطن کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ مرحوم نصیر الدین خان ایک سال تک جیل میںرہے۔ اس کے بعد وہ ضمانت پر رہاہوکر جیل سے باہر آگئے۔
یہ بات افسوس ناک تھی کہ جیل میں آننت مارگیوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ تحریک اسلامی کے افراد نے اس موقع پر ان کا ہرطرح سے تعاون کیا۔
جمعہ کے روز جب جماعت اسلامی کے افراد نماز پڑھنے جاتے تو وارڈ کھلا ہی رہتاتھااور اس کی نگرانی اوستھی صاحب کرتے تھے۔ ان کا تعلق فتح پوریوپی سے تھا لیکن وہ جمشید پور سے گیا جیل منتقل کیے گئے تھے۔ وہ تمام وارڈ کی نگرانی کرتے تھے اور قرآن مجید کامطالعہ بھی کرتے، ان کو دیکھ کر ان کے دوسرے ساتھی بھی قرآن کا مطالعہ کرنے لگے تھے۔
گیاجیل میں رمضان میں افطار کا باقاعدہ نظم ہوتا۔ لوگ خود بھی افطار سے لطف اندوز ہوتے اور دیگر مذاہب کی اہم شخصیات کو بھی مدعو کرتے۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر بسنت نارائن سنگھ نے خوش ہوکر کہاکہ ہم لوگ آپ تمام لوگوں کو افطار کروائیں گے اور باضابطہ ایک دن ان لوگوں نے افطار کا اچھاخاصا نظم کیا ۔آٹھ دس آدمی اپنے سرپر اٹھاکر افطار کا سامان لائے اور لوگوں کے سامنے پیش کیا۔
جیل میں تحریکی اوردیگرسیاسی قیدیوں کو جہاں بہت ساری سہولیات میسر تھیں ،وہیں کچھ قیدی ایسے بھی تھے جومحتاج اور بے بس تھے جماعت کے لوگوں نے ان کے درمیان کپڑے وغیرہ بھی تقسیم کیے۔
ایمرجنسی کا خاتمہ
۲۱ مارچ ۱۹۷۷ء میں ایمرجنسی کا جب خاتمہ ہوا تو اس کے بعدتمام سیاسی پارٹیاں بحال ہوئیں اور ملک میں عام انتخابات ہوئے، جس میں کانگریس کو زبردست شکست ہوئی۔ یہاں تک کہ ملک کی وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی بھی الیکشن ہارگئیں۔ اس الیکشن میں اپوزیشن پارٹیوں کی جیت ہوئی اور جنتاسرکار میں مرار جی ڈیسائی وزیر اعظم منتخب ہوئے اور صوبہ بہار میں کرپوری ٹھاکر وزیراعلیٰ بنے۔
نصیر الدین خان گورنمنٹ ہائی اسکول میں ٹیچر تھے۔دوران ایمرجنسی ۱۹۷۵ تا۱۹۸۰ملازمت سے معطل رہے اور مرارجی ڈیسائی کی حکومت میں تمام ملازمین کی معطلی ختم ہونے کا فرمان جاری ہوا توان کی ملازمت بحال ہوئی۔
جماعت اسلامی کی ذمہ داری
جناب نصیر الدین خان کوجیل سے ضمانت پر رہاہونے کے بعد ۱۹۸۰ ء میں جماعت اسلامی ہند حلقہ بہار کی جانب سے سیاسی امور کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس وقت بہار کے امیر حلقہ ڈاکٹرضیاء الہدیٰ اور ان کے معاونین میں جناب احمد علی اختر اورجناب سید محمد جعفرصاحبان تھے۔ اس وقت کے نازک حالات میں اس ذمہ داری کو انھوں نے بحسن وخوبی نبھایا ۔آپ ضلع اورنگ آباد کے ناظم اورحلقہ بہارکی شوریٰ کے رکن بھی رہے۔
بقول مرحوم نصیر الدین خان ان کی زندگی کا سب سے زیادہ خوشی کاموقع ۱۹۵۴ء اس وقت شروع ہوا جب انہیں یتیم خانہ اسلامیہ چیرکی کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس وقت وہ انٹرمیڈیٹ کے طالب علم تھے اور یتیم خانہ ایک پھوس کے دومنزلہ مکان میں چل رہا تھا۔ یتیم طلبہ کی تعداد پچیس رہی ہوگی اورتیسری جماعت تک تعلیم کانظم تھا۔ اس وقت سے انھوں نے اپنی پوری محنت اورجدوجہد یتیم خانہ کوپروان چڑھانے اورترقی دینے میں لگادی۔ ان کے ساتھ مقامی افراد میں مولوی عبد اللہ، ان کے صاحب زادے عبدالستار، عبد الغفار، عبدالجبار اورچھوٹے بھائی عبدالباری اور اختر صاحبان کے ہمراہ ماسٹرتوفیق احمد خان پیش پیش تھے۔ اس وقت بانی یتیم خانہ منشی عنایت خان فالج کے شکار اور صاحب فراش تھے۔ ان کے بچے کلکتہ میں زیر تعلیم تھے۔ ڈاکٹر عبد المجید اس وقت ایم۔ بی۔ بی۔ ایس کی تعلیم حاصل کررہے تھے۔ ۱۹۶۵ء میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے گیا میں پریکٹس شروع کردی اوراپنے مستقبل کو تابناک اورروشن بنانے میں لگے رہے اور ان کے باقی دیگراہل خانہ اسکول کی تعلیم میں لگے ہوئے تھے۔
مرحوم نصیر الدین خان اور دیگر احباب کی انتھک جدوجہد کے نتیجے میں۱۹۸۰ء تک یتیم خانہ میںیتیم طلبہ کی تعداد ۱۵۰ کے لگ بھگ ہوگئی تھی۔ اس کے علاوہ ان لوگوں نے اس کی مالی حالت کودرست کرنے کے لیے پورے ہندوستان میں اس کی آمدنی کا ذریعہ پیداکرلیاتھا۔
مولانا مودودی علیہ الرحمہ کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے لاہور کا سفر
۲۲ ؍ستمبر۱۹۷۹ء کی شب عالم اسلام کے عظیم مفکر، جماعت اسلامی کے مؤسس اور اولین داعی مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کا انتقال ہوگیا۔ ان کی نمازہ جنازہ میں شرکت کے لیے ہندوستان سے ۲۴؍ ستمبر۱۹۷۹ء کی شب میں تین قافلے لاہورکے لیے روانہ ہوگئے۔
جماعت کے ایک معتدبہ تعداد کے پاس پاسپورٹ نہیں تھا۔ ایسی حالت میں کیا کیا جائے؟ اس وقت چودھری چرن سنگھ وزیر اعظم اور جناب ایس۔ این مشرا وزیر خارجہ تھے جن کا تعلق ریاست بہار سے تھا۔ جماعت کے لوگوں نے ان سے ملاقات کی اور ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا۔ ان لوگوں سے ملاقات کے بعد انھوں نے کہا کہ جتنے لوگ جاسکتے ہوں جائیں کسی طرح کی کوئی پریشانی اوررکاوٹ نہیں ہوگی۔ الحمد للہ ویسا ہی ہوا۔
ہندو وپاک کے ذمہ داروں کے تعاون سے ۲۴؍ ستمبر۱۹۷۹ء کی شب میں تین قافلے لاہورکے لیے روانہ ہوگئے۔ ایک قافلہ جناب مولانامحمد یوسف صاحب امیر جماعت اسلامی ہند ، سابق امیر جماعت مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی اوردیگر حضرات پر مشتمل تھا۔ جب کہ دوسراقافلہ ۲۳ ؍افراد مشتمل تھا جس کی قیادت جماعت کے سکریٹری مولانا سید حامد علی کررہے تھے اور تیسرا قافلہ ۲۵ ؍ستمبر کی دوپہر واگھا پہنچا۔ پچاس افراد پر مشتمل یہ قافلہ جماعت کے دوسرے سکریٹری جناب سید حامد حسین صاحب کے ساتھ روانہ ہوا۔ اس قافلہ میں مولانا صدر الدین اصلاحی اوردیگر ارکان مرکزی مجلس شوریٰ اور امرائے حلقہ جات تھے۔ یہ قافلہ بذریعہ ٹرین دہلی سے لاہور گیا تھا۔
اس وقت مرحوم نصیرالدین خان بھی مرکز جماعت اسلامی چتلی قبر میں مقیم تھے۔ وہ بھی لاہور جانے والوں میں شامل ہوگئے تاکہ اپنے قائد کا آخری دیدار کرسکیں۔
یہ تینوں قافلے بخیروخوبی لاہور پہنچ گئے اور مولانا مودودیؒ کے جنازے میں شریک ہوئے اور ان کا آخری دیدار بھی کیا۔
اس موقع پر بین الاقوامی تحریکی اجتماع تھاپوری دنیا کے تحریکی نمائندے لاہور میں جمع تھے۔ تمام لوگوں کو قریب سے دیکھنے اوربالمشافہ ان سے ملنے کاموقع ملا۔
جناب نصیر الدین خان زندگی بھرمختلف سماجی ، ملی اور تعلیمی سرگرمیوں میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے۔ آخری عمر میں بیماری کی وجہ سے وہ زیادہ متحرک نہیں رہے لیکن اپنے قیمتی تجربات اور عملی رہ نمائیوں سے لوگوں کو فیض پہنچاتے رہے۔ ان کے انتقال سے ایک خلا پیدا ہوگیا ہے اور ان کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ ان کی تحریکی، تعلیمی اور سماجی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
٭٭٭