غوث سیوانی،نئی دہلی
مت سہل ہمیں جانوپھرتاہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
بالی وڈ کے صاحب عالم یعنی دلیپ کمارانگلش بولتے تھے تواکثرمفہوم سمجھنے کے لئے ڈکشنری دیکھنے کی ضرورت پیش آتی تھی لیکن وہ اردوبولتے تھے توبے حدشستہ،سلیس بولتے تھے۔ ان کی شخصیت میں ایک کشش تھی اور دوسری کشش ان کی خالص اردو زبان میں تھی جسے سننے والاچشم حیرت سے انھیں تکتاجاتا تھا۔
اردو کےہزاروں اشعار اور ہندی کے محاورے انہیں یاد تھے جن کا استعمال وہ گفتگو میں روانی کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ یہ اس ماحول کا اثرتھاجس میں ان کی پرورش اور تعلیم وتربیت ہوئی تھی۔ واضح ہوکہ ممبئی ہجرت کے بعد انجمن اسلام میں انھوں نے تعلیم حاصل کی تھی جہاں تعلیم کا میڈیم اردوتھا۔
دلیپ کمارفلمی پارٹیوں میں کم شامل ہوتے تھے مگرانھیں مشاعروں اور اردو زبان کے ثقافتی پروگراموں میں شرکت کی دعوت دی جاتی تھی توبخوشی قبول کرلیتے. وہ ایسے پروگراموں میں شریک ہوتے اور کسی ادیب جیسی تقریرکرتے نیز اشعار بھی پیش کیا کرتے تھے۔
۔ ۱۹۸۹میں ایک مشاعرہ کنورمہندرسنگھ بیدی سحرؔ کے اعزاز میں ’’جشن سحرؔ‘‘ کے عنوان سے ہوا ہواتھا جس میں ملک وبیرون ملک کے بڑے بڑےشعرا نے شرکت کی تھی۔ اس میں دلیپ کماربھی اپنی بیگم سائرہ بانو کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔ انھیں مائک پربلایاگیا تو انھیں دیکھنے اور سننے کے لئے مجمع بیخود ہواٹھا۔ وہ مائک پر آئے اور ان اشعارکے ساتھ تقریرشروع کی۔
سکون دل کے لئے کچھ تواہتمام کروں
ذرانظرجو ملے پھر انھیں سلام کروں
مجھے تو ہوش نہیں آپ مشورہ دیجئے
کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں
آگے کی تقریربھی خالص ادبی تھی اور انھوں نے درمیان تقریراشعارپڑھ کر خوب دادوصول کی۔اس موقع پر انھوں نے کہا
’’ہندوستان کے معاشرے کو اردو زبان نےبہت حسن بخشاہے، بہت زینت بخشی ہے۔‘‘ اسی کے ساتھ انھو ں نے اردوکے عالمی زبان ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہاکہ اب مغربی ممالک اور امریکہ وغیرہ میں بھی اردوموجود ہے۔وہاں مشاعرے ہوتے ہیں اور انھوں نے بھی کئی مشاعروں میں شرکت کی ہے۔ انھوں نے اردو زبان کے تعلق سے جوش ملیح آبادی کی ایک غیرمطبوعہ نظم بھی پڑھی جس پر سامعین نے خوب داد دی۔
ندی کا موڑ،چشمہ شیریں کازیروبم
چادرشب نجوم کی شبنم کا رخت نم
موتی کی آب ۔گل کی مہک، ماہ نوم کا خم
ان سب کے امتزاج سے پیدا ہوئی ہے تو
کتنے حسیں افق سے ہویدا ہوئی ہے تو
دلیپ کمارکی نظراردولٹریچرپر گہری تھی۔ ۱۹۸۶میں ٹورنٹو(کناڈا)میں ایک انٹرویوکے دوران انھوں نے ادب کے موضوع پرگفتگوکی اور اردوکے ساتھ ساتھ دوسری زبان کے لٹریچر پر بھی انھوں نے بات کی۔ انھوں نے معاشرے کے زوال کو لٹریچرسے جوڑ کر دیکھااوراسے ادب کے زوال کا نتیجہ بتایا۔ انھوں نے کہا کہ ادیبوں کو لٹریچرتخلیق کرنا چاہئے کیونکہ ہم مشینیں امپورٹ کرسکتے ہیں مگر لٹریچرامپورٹ نہیں کرسکتے۔
گزشتہ مہینےدلیپ کمار کی صحت کے حوالے سے اردو میں ایک پیغام جاری ہواجس نےان کے مداحوں کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا ہے۔ دلیپ کمار کے تصدیق شدہ ٹوئٹر پیغام سے اردو میں شیئر کیے گئے ٹوئٹ میں بتایا گیا کہ دلیپ صاحب پر الله کی رحمت اور شفقت ہے، وہ اسپتال سے گھر جا رہے ہیں۔ پیغام میں مداحوں کی دعاؤں کا شکریہ بھی ادا کیا گیا۔ دلیپ کمار کے اکاؤنٹ سے ناصرف اردو میں پیغام سامنے آیا ہے بلکہ ہندی اور انگریزی میں بھی ان کی طبیعت کے حوالے سے بتایا گیا۔ خیال رہے کہ انھیں سانس میں دشواری کی وجہ سے دلیپ کمار کو اسپتال میں داخل کروایا گیا تھا۔