نور اللہ جاوید
بنگال میں مسلمانوں کی تاریخی پسماندگی کی وجوہات کے دوعوامل بیان کئے جاتے ہیں ۔ بنگالی مسلمانوں کی اکثریت کا تعلق پسماندہ و کمزور طبقات سے ہے کیوں کہ سماجی ناانصافی اور مظالم سے تنگ آکر بڑی تعداد میں ہندئوں کے نچلی طبقات نے اسلام قبول کرلیااس کی وجہ سے انہیں سماجی نا انصافی و ناہمواری سے نجات تومل گئی مگر تعلیم اور معاشی کمزوری کی وجہ سے پسماندگی کے شکار ہی رہ گئے ۔ولیم ہنٹر نے اپنی کتاب ’’دی انڈین مسلم ‘‘رمیش چندرا مجمدار نے اپنی کتاب’قرون وسطیٰ کا بنگال‘اور رڈر ایم ایبڈن نے اپنی کتاب ’’ دی رائز آف اسلام و بنگال فرنٹیر‘‘میں اس بات کی تصدیق کی کہ بنگال میں مسلمانوں کی بڑی آبادکی وجہ 5صدیوں تک مسلم دورحکومت میں جبری تبدیلی مذہب نہیں ہے بلکہ ہندئوں میں ذات پات کے نظام کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ اسلام قبول کررہے تھے اور یہ سلسلہ انگریزوں کی آمد کے بعد بھی 1881تک جاری رہا۔
بنگال میں سراج الدولہ کی شکست اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد سے بنگالی مسلمانوں کوجان بوجھ کر سماجی و معاشی اعتبار سے پسماندگی کے طرف ڈھکیلاجانے لگا۔ولیم ہنٹر کے بقول سرکاری دفاتر میں مسلمانوں کی شرح نمائندگی ایک فیصد سے بھی کم ہوگئی ۔20ویںصدی کے آغاز میں مسلمانوں میں بیداری آئی اور انگریزوں کی ناانصافی اور حکومت کی تمام سہولیات پر ایک خاص طبقے کے قبضے کے مسلمانوں میں رد عمل پیدا ہوا ۔اس کے نتیجے میں بنگا ل پہلے 1905میں تقسیم ہوا لیکن میں بنگال دوبار ہ متحد کردیا گیا مگر تقسیم کی وجہ سے جو دراڑ پیدا ہوا تھا وہ کم نہیں ہوسکا اور پھر دوقومی نظریہ کی وجہ سے مذہب کی بنیاد پر ایک بار پھر بنگال تقسیم ہوگیا ۔کوشیکی داس گپتا کے مطابق 1947 میں مذہبی خطوط پر بنگال کی تقسیم کے ساتھ دولت مند مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد جن میں زیادہ تر اردو بولنے والے تاجر تھے مشرقی پاکستان چلے گئے ، اور زیادہ مسلم کسان بنگال میں ہی رہ گئے ۔ہندوستان میں رہ جانے والے زیادہ تربنگالی تعلیمی ، سماجی اور معاشی اعتبار سے پسماندگی کے شکار تھے ۔برادران وطن میں جو تقسیم کے حامی تھے ان کی سوچ تھی جب مذہب کی بنیاد پر بنگال کی تقسیم ہوچکی ہے تو ہندوستان میں رہ جانے والے بنگالی مسلمانوں کو وہ حقوق و مراعات حاصل نہیں ہوں گے جو دیگر ہندوستانیوں کو ہے اور وہ ناانصافی محسوس کرتے ہیں تو وہ مشرقی پاکستان جانے کےلئے آزاد ہیں ۔مگر ہندوستان کی آزادی کے بعد فرقہ وارانہ فسادات کے باوجود ملک کی قیادت ان لوگوں کے ہاتھوں میں تھیں۔شدت پسندی کے شکار نہیں تھے۔مساوات اور انصاف میں یقین رکھتے تھے ۔چناں چہ آئین و دستور میں ملک کے تمام شہریوںکو یکساں حقوق اور مواقع دینے کی یقین دہانی کے ساتھ ملک میں آباد ہرایک مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی کی گرانٹی دی گئی ۔
بنگالی مسلمانوں کے تئیں تعصب اور نفرت کا ہی نتیجہ تھا کہ آسام میں بنگالیو ں کے خلاف منظم انداز میں مہم چلائی گئی۔ابتدامیں آسام میں بنگالیوں چاہے وہ ہندو یا مسلمان کے خلاف مہم تھی مگر بعد میں یہ مہم بنگالی مسلمانوں کے خلاف کردی گئی۔80کی دہائی میں آسام میں بنگالی مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ۔دراصل ہندئوں کے ذہن ودماغ میں اس پروپیگنڈ کو حقیقت کی شکل میں تبدیل کردی گئی کہ لاکھوں بنگلہ دیشی مسلمان آسام میں آباد ہورہے ہیں اور جلد ہی آسام ایک مسلم ریاست بن جائے گا۔اسی پروپیگنڈے کے نتیجے میں این آرسی کی شروعات ہوئی میں ۔کانگریس کے لوگوں نے بھی پارلیمنٹ میں جھوٹ بولا کہ آسام میں 50لاکھ مسلم درانداز ہیں ۔مگر2018اگست میں شائع ہونے والا این آر سی نے اس پروپیگنڈے کی ہوا نکال دی اور صرف 3لاکھ مسلمانوں کے نام این آر سی میں نہیں آسکے ۔اگرایمانداری سے این آرسی کیا جاتا تو یہ تعداد کہیں زیادہ کم ہوتی۔
آسام کی طرح بنگال میں مسلمانوں کے خلاف اس طرح کا نفرت انگیز ماحول نہیں تھا۔کیوں کہ آسام میں آسامی اور بنگالی زبان کی برتریت کی جنگ تھی اور یہاں ایسا نہیں تھا کہ دوسرے یہ کہ بائیں محاذ کی طبقاتی سیاست کی وجہ سے 34برسوں تک مذہبی شناخت کا ایشو پس پردہ ہوگیا۔گرچہ مسلمانوں کی شرح آبادی کو لے کر پروپیگنڈہ کا دور جاری رہا مگر اس پر کان دھرا نہیں جاتاتھا۔بی جے پی کےبانی لیڈروں میں سے ایک پروفیسر تتاگت رائے جیسی قابل شخصیت بھی اس پروپیگنڈے میں شامل رہے ہیں کہ ان کے بقول اگراسی تیزی کے ساتھ دراندازی اور مسلمانوں میں شرح پیدائش کا سلسلہ جاری رہا تو بنگال جلد ہی مسلم اسٹیٹ میں تبدیل ہوجائے گا۔2014میں مرکزمیں بی جے پی حکومت کی تشکیل کے بعد اس پروپیگنڈے میں شدت آئی اور 2019کے انتخاب میں بنگال میں شاندار کامیابی کے بعد ان پروپیگنڈے کے حامیوں کو ایسا لگاکہ اب خواب کی تکمیل کا وقت آگیا ہے ۔چناں چہ بنگال میںبھی این آر سی کے نفاذ کا مطالبہ شروع کردیاگیا۔وزیر داخلہ امیت شاہ نے شہریت ترمیمی ایکٹ کی کرونالوجی سمجھاتے ہوئے ملک بھر میں این آر سی نافذ کرنے کا وعدہ کرنے لگے یہ الگ بات ہے کہ بعد میں اس سے مکر گئے مگر بنگال کے بی جے پی لیڈران اب بھی این آر سی کی بات کررہے ہیں ۔حال ہی میں بی جے پی کے ریاستی صد ر دلیپ گھوش جوعموما متنازع اور حقائق سے پرے بیانات دینے کی وجہ سے سرخیوں میں رہتے ہیں نے دعویٰ کیا کہ بنگال میں ایک کروڑ بنگالی درانداز ہیں ان کی حکومت آئے گی تو این آر سی نافذ کرکے انہیں نکال باہر کردیا جائے گا۔بنگال میں مجموعی آبادی 10کروڑ سے بھی کم ہے ۔مسلمانوں سے متعلق دوسرا پروپیگنڈہ یہ کیاجاتا ہے کہ مسلمانوں میں شرح پیدائش بہت ہی زیادہ ہے اس کی وجہ سے بنگالی مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ دراندازی اور مسلمانوں میں شرح پیدائش سے متعلق جو دعوے کئے جارہے ہیں وہ زمینی حقیقت ہے یا پھر پروپیگنڈہ ہے ۔
اگر بنگال میں مسلمانو ں کی آبادی کی شرح میں اضافہ کی وجہ دراندازی ہوتی تو ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے بنگال میں آبادی کی شرح میں اضافہ کہیں زیادہ ہوتا ۔آزادی کے بعد ہونے والے مردم شماری سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پروپیگنڈہ غلط ہے۔کیوں کہ 1951سے 1961تک بنگال میں شرح آبادی ملک کے دیگر حصوں کے مقابل زیادہ تھی ۔لیکن 1961سے 1971کے درمیان شرح آبادی میں اضافہ میںگراو ٹ آئی اور قومی شرح کے برابر ہوگئی ۔ 1981 میں مغربی بنگال میں آبادی کی شرح میں اضافہ ہندوستان کی نسبت کم تھی اور 2011 میں بھی بنگال میں مسلمانوں میں آبادی شرح میں اضافہ میں گراوٹ آئی ۔حکومت ہند سے جاری تخمینے میں کہا گیا ہے کہ آنے والے دنوں میں ملک کے دیگر حصوں کے مقابلہ بنگال میں شرح نمو کم رہے گی ۔
بنگال میں مسلم شرح آبادی میں بے تحاشا اضافے کا پروپیگنڈہ کرنے والوں کی دلیل ہے کہ مجموعی آبادی کے اعداد و شمار کو دیکھنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔بنگال کے سرحدی اضلاع میں اب بھی مسلم درانداز داخل ہورہے ہیں ۔مگر گزشتہ دو مردم شماری 2001اور 2011کی مردم شماری کے اعداد وشمارکو دیکھاجائے تو 2001میں بنگال میں ہندئوں کے شرح آبادی میں اضافہ کی شرح 14.2فیصد تھی اور مسلمانوں میں 25.9فیصد ۔مگر 2011میں ہندئوں میں شرح نمو 10.8فیصد اور مسلمانوں میں شرح نمو 20.4فیصد ۔بنگلہ دیش سے متصل اضلاع میں ہندئوں میں شرح نمو میں 6.75فیصد کمی آئی ہے جب کہ مسلمانوں میں 2001کے مقابلے 2011میں شرح آبادی میں 4.7فیصد کمی آئی ۔غیر سرحدی اضلاع میں بھی ہندواور مسلمانوں کی شرح آبادی میں 2001 اور 2011 کے درمیان کمی آئی ہے۔اگربڑے پیمانے پر بنگلہ دیش سے مسلم درانداز آتے تو شرح نمو میں یہ کمی ممکن ہی نہیں تھی۔اگر بنگال کے ہر ضلع میں ہندئو ں اور مسلمانوں کے شرح نمو کو پرکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے اگر کسی ضلع میں شرح نمو میں اضافہ ہوا ہے تو وہ ہندواور مسلمانوں دونو ں میںاضافہ ہوا ہے ۔مثال کے طور پر ندیا ضلع جو ایک سرحد ضلع ہے ۔اس ضلع میں ریاست کے شرح نمو کے اعتبار سے ہندواور مسلمانوں دونوں میں شرح نمو کم ہے ۔جب کہ دوسرے سرحد ی اضلاع شمالی دیناج میں ہندو اور مسلمان دونوں میںریاست کے اوسط سے زیادہ شرح نمو ہے ۔ اسی طرح پرولیا جو ایک سرحدی ضلع نہیں ہے جھاڑ کھنڈ سے متصل ہے۔اس کے باوجود ہندو اور مسلمان دونوں میںشرح نمو ریاست کے اوسط سے زیادہ ہے ۔ اگر بنگلہ دیش سے سرحدی اضلاع میں خاطر خواہ نقل مکانی ہوتی تو مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی شرح ہندوؤں کی نسبت زیادہ ہونی چاہیے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش سے بڑے پیمانے پردراندازی کی کہانی درست نہیں ہے ۔ مردم شماری 2011 میں ، تقریبا 22 لاکھ افراد نے بتایا کہ ان کی پیدائش بنگلہ دیش میں ہوئی ہے۔ ان میں سے پچاس فیصد افراد کا تعلق دو اضلاع ، ندیا اور شمالی 24پرگنہ سے ہے ۔یہ لوگ بنگلہ دیش سے مختلف مقامات پر آئے ہیں اور فی الحال ہندوستان کے قانونی شہری ہیں۔ ان میں سے بیشتر دراصل محروم طبقات متوا اور ناما شودرسے تعلق رکھنے والے ہندو ہیں۔یہ اعدادو شمار ثابت کرتے ہیں ایک کروڑ بنگلہ دیشی دراندازی کی کہانی کسی بھی درجے میں درست نہیں ہے۔حال ہی میں بی ایس ایف نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان سے بنگلہ دیش واپس جانے والو ں کی تعداد آنے والوں کے مقابلے کہیں زیادہ ہے۔(بشکریہ فرنٹ لائن )
مسلمانوں سے متعلق یہ بھی پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ ہندئوں کے مقابلے مسلمان زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں کہ اس کی وجہ سے بنگال کی ڈیمو گرافی میں تیزی سے تبدلی آرہی ہے ۔مگرسوال یہ ہے کہ کیا دوسرے مذہب کے ماننے والوںکے مقابلے مسلمانوں کی زرخیزی کی شرح بہت زیادہ ہے؟ اس سوال کے جواب کے لئےہمیں آس پاس کے مسلم اکثریت ملکوں کے شرح پیدائش کا تجزیہ کرنا چاہیے ۔پاکستان کو چھوڑکر بنگلہ دیش ، مالدیپ اور ملائیشیا جیسے مسلم اکثریتی ممالک میں بچوں کی پیدائش کی شرح ہندوستان کی نسبت کم ہیں یا ہندوستان کی ہی طرح ہے۔چناں چہ یہ تھیوری ہی غلط ہے کہ مسلمانوںمیں بچے کی پیدائش کی شرح زیادہ ہے ۔مغربی بنگال میں ہندئوں اور مسلمانوں دونوں میں بچوں کی پیدائش کی شرح میں کمی آئی ہے ۔حکومتی اعدادو شمارکے مطابق 2001سے 2015کے درمیا ن ریاست میں بچوں کی پیدائش کی شرح میں تیزی سے کمی آئی ہے ۔
انگریزی میگزین فرنٹ لائن میں شایع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مغربی بنگال میں شرح پیدائش کا تعلق ترقی یافتہ اضلاع اور عدم ترقی یافتہ سے ہے۔جن اضلاع میں پسماندگی زیادہ ہے وہاں ہندو اور مسلمانوں دونوںمیں شرح پیدائش زیادہ ہے اورجو اضلاع ترقی یافتہ ہیں وہاں شرح پیدائش کم ہے ۔یہ ہندو اور مسلمانوں دونو ںمیں ہے۔بنگلہ دیش سے متصل اضلاع میں دیگر اضلاع کے مقابلے شرح پیدائش کم ہے ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہندوستان سے متصل بنگلہ دیش کے تین ڈویژن رنگ پور،راج شاہی اور کھالنا میں شرح پیدائش کم ہے ۔اس لئے یہ دعویٰ کہ مسلمانوں کی شرح پیدائش زیادہ ہے ۔اعدادو شمار اس دعوے کو ظاہر کرتی ہے اور اس طرح کے بیانات جہالت اور تعصب کی عکاستی کرتی ہیں ۔آبادی میں کمی لانے کےلئے کئی عشروں کی ضرور ت ہوتی ہے ۔مغربی بنگال میں 2003میں ہی آبادی کی شرح میںنمو 2.1 فیصد تک ہی پہنچ گیا۔ 2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمارکے اعتبار سے 2019 کی آبادی کی پیش گوئی کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ بہار 2039 میں آسام ، 2020 میں ،چھتس گڑھ میں 2020تک مدھیہ پردیش میں 2028تک اترپردیش میں 2025تک اس شرح تک میں لگے گا۔ ایک ایسی ریاست جہاں مسلمان آبادی کا 27 فیصد ہے ۔وہاں مسلمانوں کی کوششوں کے بغیر اتنے بڑے پیمانے پر شرح پیدائش میں کمی نہیں آسکتی تھی ۔مسلمانوں سے متعلق یہ بھی دعویٰ ٰکیاجاتا ے کہ مسلم مردیں ایک سے زاید شادیاں کرتے ہیں ۔نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 2015-16 کے اعداد و شماراس طرح کے دعوئوں کو غلط ثابت کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر مغربی بنگال میں 1.64فیصد اور ملک بھر میں 1.44فیصد ہندو خواتین نے دعویًٰ کیا ہے کہ ان کے شوہر نے ایک سے زاید شادی کررکھی ہے ۔جب کہ مغربی بنگال میں 2.77فیصد اور ملک بھر میں 2.05فیصد مسلم خواتین نےکہاہے کہ ان کے شوہر نے ایک سے زایدشادی کررکھی ہے ۔یہ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ تعدد ازدواج کی شرح ہندو اور مسلمانوں دنوں میں کوئی خاص فر ق نہیں ہے ۔
بنگال کے مسلمانوں سے متعلق مسلسل یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں سبھوں نے مسلمانوں کی خوشامد کی پالیسی اختیار کی ہے ۔جس کی وجہ سے ہندئوں کی حقوق تلفی ہوئی ہے ۔ہندوستان میں ملازمت اور بے روزگاری سے متعلق لیبر فورس سروے 2018-19 کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مغربی بنگال میں52.7فیصد مسلمان اپنے لئے خود روزگار پیدا کرتے ہیں ۔قومی سطح پر بھی یہی اعدادو شمار ہیں ۔ مغربی بنگال میں صرف 13 فیصد مسلمان مستقل ملازمت کرتے ہیں جب کہ قومی سطح پر یہ اعدادو شمار 22.1فیصد ہے ۔ اس کے نتیجے میں مغربی بنگال میں مسلمانوں کی کمائی ہندوستانی مسلمانوں کی نسبت کم ہے۔ مثال کے طور پر ، مغربی بنگال میں اوسطا ایک مسلمان خود روزگار مزدور 6,197روپے ہر ماہ کماتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دیگر ریاستوں میں۱10,192روپے مہینہ کماتے ہیں ۔ اسی طرح ، مغربی بنگال میں ایک مستقل تنخواہ دار مسلمان کارکن ماہانہ اوسطا 9,947روپے کماتا ہے جب کہ وہ ہندوستان میں کہیں بھی ایک ماہ میں 12,906روپے کماتا ہے۔یہاں تک کہ آرام دہ اور پرسکون مسلم کارکنوں کے لئے بھی ، ماہانہ اوسطا کمائی باقی ہندوستان کی نسبت مغربی بنگال میں کم ہے۔ یہ اعدادوشمار مسلمانوں کی خوشامد کی طرف اشارہ نہیں کرتے ہیں۔آل انڈیا سروے آف ہائر ایجوکیشن کے مطابق ، 2012-13 میں کالجوں میں صرف 3.12فیصد اساتذہ ہی مسلمان تھے۔ 2018-19 میںاضافہ ہوکر 7.8فیصد ہوگئی ہے۔چار فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔مگر مغربی بنگال کی کچھ ممتاز یونیورسٹیوں کے اعداد و شمارسے معلوم ہوتا ہے ریاست کی اہم یونیورسٹیوں میں مسلم اساتذہ کی شرح نمائندگی انتہائی کم ہے ۔ پریزیڈنسی یونیورسٹی ، کلکتہ یونیورسٹی اور جادوپور یونیورسٹی میں مسلم فیکلٹی ممبروں کی تعداد غیر معمولی طور پر کم ہے۔ مغربی بنگال کی تمام یونیورسٹیوں میں مسلم اساتذہ کی 2012۔13 میں تمام یونیورسٹی اساتذہ میں صرف 4 فیصد تعداد تھی۔ یہ تعداد 2018-19 میں بڑھ کر 7 فیصد ہوگئی۔تاہم اگر ہم عالیہ یونیورسٹی (مغربی بنگال میں وزارت اقلیتوں کے ماتحت ایک یونیورسٹی ، جسے انگریزو ں نے 1780میںقائم کیا تھا) کو اس فہرست سے خارج کردیں ، تو مغربی بنگال میں مسلم فیکلٹی کا تناسب بنگال کی یونیورسٹیوں غیر معمولی طور پر نیچے آئے گی ۔
مذکورہ اعدادو شمار یہ ثابت کرتے ہیں کہ مسلمانوں سے متعلق جو پروپیگنڈے کئے جارہے ہیںوہ کسی بھی صورت میں حقیقت پر مبنی نہیں ہے ۔مگرسوال یہ ہے کہ بنگالی مسلمانوں سے متعلق پروپیگنڈے کے مقاصد کیا ہیں ؟دراصل مغربی بنگال میں ہم آہنگی اور سیکولر ثقافت کا کلچر رہا ہے ۔یہاں کی فضائوں میں ٹیگور، قاضی ندرالاسلام کی گیتوں کی آوازیں گونجتی ہیں ۔بوس اور آزادجیسے مجاہدین آزادی اور ہندومسلم اتحاد کے علمبرداروں کی صدائیں گونج رہی ہیں ۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان پروپیگنڈے کا حقائق اور اعدادو شمار کی روشنی میں جواب دیا جائے ۔یہ سب انتخابی فوائد کےلئے مسلمانوں کو آسیب بناکر پیش کیا جارہا ہے ۔اس لئے مسلمانوں ان پروپیگنڈہ کا نہ صرف جواب دینا ہے بلکہ برادران وطن کے ذہن و دماغ میں راسخ ہوچکی بدگمانیوں کو ختم کرنا بھی ہے۔
یہ مضمون نور اللہ جاوید کی کتاب ’’بنگال کے مسلمان‘‘ سے ماخذ ہے۔