Tuesday, July 1, 2025
homeاہم خبریںتحفظ اوقاف کانفرنس: نئے وقف قوانین ’مذہبی معاملات میں براہ راست...

تحفظ اوقاف کانفرنس: نئے وقف قوانین ’مذہبی معاملات میں براہ راست مداخلت

’وقف کی خطیر زمینیں بی جے پی کو برداشت نہیں‘، مسلم پرسنل لاء بورڈ کی تقریب سے رکن پارلیمنٹ دھرمیندر یادو کا خطاب

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) نے مرکزی حکومت کے ذریعہ وقف قانون میں کی گئی ترامیم کے خلاف ’تحفظ اوقاف کانفرنس‘ کا انعقاد کیا ہے۔ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ دھرمیندر یادو نے مرکز کی مودی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے کہا کہ ’’بی جے پی نفرت کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ بی جے پی کے لوگ ایجنسیوں کا غلط استعمال کر کے اور سیاسی شخصیات پر دباؤ بنا کر وقف بل کو پاس کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھیں : دہلی میں مسلم پرسنل لا بورڈ کی ’تحفظ اوقاف کانفرنس‘ آج، ملک بھر سے علمائے کرام اور رہنماؤں کی شرکت
بدایوں سے رکن پارلیمنٹ دھرمیندر یادو نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کی اس تقریب میں بی جے پی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ’’وقف کے پاس موجود خطیر زمینیں بی جے پی کو برداشت نہیں ہو رہی ہیں۔ لیکن ہندو سماج کا اکثریت مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ اس لڑائی میں مسلم تنہا نہیں ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’بی جے پی کے لوگ 35 فیصد سے زیادہ نہیں ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ کئی ایجنسیاں کام کر رہی ہیں، جو سیاسی شخصیات پر دباؤ بنا کر اس بل کو پاس کرانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ چاہے وہ آندھرا پردیش، بہار، مغربی یوپی کے لوگ ہوں، یا پھر نتیش، نائیڈو، جینت، دیوگوڑا جیسے سیاسی لیڈران ہوں۔ انھیں سیاسی طریقے سے سبق سکھانا ہوگا۔ بہار میں انتخاب آ رہے ہیں، یہیں سے شروعات کریں۔‘‘

قابل ذکر ہے کہ رواں سال کے آخر میں بہار میں اسمبلی انتخاب مجوزہ ہے۔ اس وقت بہار میں این ڈی اے کی حکومت ہے۔ اس میں بی جے پی کے ساتھ ہی وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی پارٹی جنتا دل یو بھی شامل ہے۔ دھرمیندر یادو نے سیکولر ووٹرس سے اپیل کی کہ وہ اس انتخاب میں این ڈی اے کو شکست دیں۔ انھوں نے مسلم طبقہ کو یہ یقین بھی دلایا کہ سماجوادی پارٹی ہمیشہ ان کی حمایت میں کھڑی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اکھلیش یادو پوری طاقت سے آپ کے ہر فیصلے پر آپ کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ چاہے سڑک ہو، پارلیمنٹ ہو، سپریم کورٹ ہو، سماجوادی پارٹی آپ کے ساتھ کھڑی رہے گی۔‘‘

دہلی کے تال کٹورہ اسٹیڈیم میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے زیر انتظام ’تحفظ اوقاف کانفرنس‘ منعقد کی جا رہی ہے۔ اس کانفرنس میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مسلم تنظیموں کے نمائندے اور دانشور شرکت کر رہے ہیں۔ اس موقع پر وقف ترمیمی قانون 2025 کی سخت مخالفت کی گئی اور اسے مکمل طور پر رد کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

تحفظ اوقاف کانفرنس کے سلسلہ میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے بیماری کی وجہ سے شرکت نہ کر سکنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ یہ وقف کی حفاظت کی لڑائی ہے، جو دراصل ہماری بقا کی لڑائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف ترمیمی قانون 2025 درحقیقت مذہب میں براہ راست مداخلت ہے اور مسلمان ہر چیز سے سمجھوتہ کر سکتا ہے لیکن شریعت میں مداخلت کسی بھی صورت برداشت نہیں کی جا سکتی۔

انہوں نے کہا، ’’یہ کہاں کا انصاف ہے کہ چیز ہماری ہو اور رکھوالی کوئی اور کرے؟ وقف کو بچانا ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ یہ قانون آئین، جمہوریت اور سیکولرزم کی بنیادی روح کے خلاف ہے۔‘‘

مولانا ارشد مدنی نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ وقف قانون کے خلاف پوری ملت، تمام ملی تنظیمیں اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں متحد ہو ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اگر ہم اجتماعی شعور اور حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھیں، تو ہمیں کوئی بھی حکومت نظر انداز نہیں کر سکتی۔

انہوں نے ملک میں آئینی اداروں کی کمزوری اور جمہوری قدروں کے زوال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ملک میں جو یکطرفہ سیاست کی جا رہی ہے، وہ آئین کے وجود پر سوالیہ نشان کھڑا کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آئین کی بالادستی ختم ہو گئی تو جمہوریت کا وجود بھی باقی نہیں رہے گا۔

انہوں نے تاکید کی کہ وقف قانون کا مسئلہ کسی بھی صورت ہندو-مسلم مسئلہ نہیں بننے دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ لڑائی فرقہ پرستی اور سیکولرزم کے درمیان ہے۔ وقف سے متعلق پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا ضروری ہے تاکہ اکثریتی طبقہ مسلمانوں کے خلاف نہ کھڑا ہو۔

مولانا مدنی نے بتایا کہ جمعۃ علماء ہند نے آئینی دائرے میں رہتے ہوئے اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ عدالت کی جانب سے بعض دفعات پر روک لگانا خوش آئند ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کامیابی صرف اسی وقت ممکن ہے جب یہ جدوجہد مکمل طور پر پُرامن اور آئینی دائرے میں رہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے پروگراموں میں انصاف پسند شہریوں کی شمولیت یقینی بنائیں اور یہ پیغام دیں کہ وقف کا مسئلہ ایک قومی مسئلہ ہے، نہ کہ صرف مسلمانوں کا۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین