ریسرچ اسکالر: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ
آہ ! بچپن سے جس شخصیت کو دیکھا ، جن کی شفقت ومحبت ، عنایت و توجہ اور دعاؤں سے مالا مال ہوتا رہا، جن سے اب تک کی زندگی میں اخلاقی ، سماجی ، اصلاحی ، شرعی امور اور زندگی کے خوشگوار لمحات کے ساتھ تلخ ،کٹھن اور صبر آزما حالات کے تعلق سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ، جن کے احسانات نہ صرف مجھ پر بلکہ ہر اس شخص پر ہیں جس کا ان سے تھوڑا بہت بھی تعلق رہاہو ، لیکن اب اس عظیم شخصیت سے سینکڑوں معتقدین ، مریدین ، محبین اور احباب محروم ہوگئے- اناللہ واناالیہ راجعون
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
ویسے تو حضرت مولانا عبدالرشید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا آبائی گاؤں ” درگاہ بیلا “ہمارے گاؤں ” فتح پور کاوا ” سے تقریباً ڈیڑھ کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے ، لیکن ان کا یہ معمول تھا کہ جب بھی وہ مدرسہ کے ایام تعطیل یا کسی بھی موقع سے اپنے گاؤں تشریف لاتے تو اپنے ان ایام تعطیل میں سے ہر یوم کو اپنے پنچایت “بیلا درگاہ”کے مختلف گاؤں کے ساتھ مختص کرلیتے تھے پھر اس معین دن کو اس گاؤں میں جاکر کسی ایک وقت کی نماز وہاں کی مسجد میں اداکرتے اور نماز سے فراغت کے بعد کسی بھی موضوع پر قرآن وحدیث کی روشنی میں چیخ و پکار کے بغیر انتہائی طمانیت کے ساتھ عام فہم انداز میں بیان کرتے ، بیان کو ایک ناخواندہ آدمی کے لیے بھی قابل فہم بنانے کی بھر پور کوشش کرتے ، اس کے لیے وہ اولیاء اللہ کے عبرت آموز حکایات اور عذاب الٰہی کا نشانہ بنے گزشتہ قوموں کےعبرتناک واقعات کے ساتھ روزمرہ کی زندگی کے مسائل و واقعات کا بھی سہارا لیتے تھے ، بیان کے بعد مدرسہ امدادیہ اشرفیہ کے تعاون کی نیت سے لوگوں سے مل کر کچھ رسیدیں بھی بناتے تھے ، چوں کہ ادھر چند سالوں سے ہمارے علاقہ میں بدعت اور بدعتیوں میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہاہے ، اس لیے حضرت کے اس معمول میں مزید اضافہ ہوگیا تھا، ایک ہی دن میں کئی ٹولہ اور محلہ کا دورہ کرلیا کرتے تھے ، چوں کہ ہمارا اور حضرت کا ٹولہ ایک ہی پنچایت میں واقع ہے ، اس لیے ہمارے محلہ میں بھی وہ سال میں کئی بار آتے تھے ، جس کی وجہ سے بچپن ہی سے ان کی دیدار کا بارہا شرف حاصل ہوتارہتا تھا ، لیکن چوں کہ بچپن میں نہ یہ معلوم تھا کہ بزرگ کسے کہتے ہیں اور بزرگوں کے احترام اور ان کی صحبت میں بیٹھنے کی کیا فضیلت وبرکت ہے ؟ اس لیے عام لوگوں کی طرح میں بھی رسمی ملاقات پر اکتفاء کیا کرتاتھا ، لیکن جیسے جیسے شعور و آگہی بڑھتی گئی ، حضرت مولانا کی اہمیت اور ان کے مقام ومرتبہ سے بھی آگاہ ہوتا گیا ، تاآنکہ نوبت این جا رسید کہ جب بھی میں اپنے گاؤں جاتا اور حضرت بھی اپنے دولت کدہ پر ہوتے تو تقریباً ہردن جاکر کافی دیر تک ان کی صحبت میں بیٹھتا ، ان کی صحبت اور علم وادب کی محفل میں بیٹھنے کا مزہ ہی کچھ ایسا ہوتا کہ گھنٹوں بیٹھنے کے بعد بھی وہاں سے اٹھنے کو دل نہیں چاہتا تھا ، لیکن شام ہوجانے یا گھریلو کام کاج کی وجہ سے نہ خواہی کے باوجود اٹھنا پڑتا تھا ، نیز جب بھی ان کی مجلس سے اٹھ کر گھر آتا تھا ، دل ادھر ہی اٹکا رہتا تھا ، ان کے علم وادب کی مجلس اور روحانی صحبت میں بیٹھ کر قیمتی نصیحتوں ، حکیمانہ اقوال اور زندگی کے انمول حکایات اور خزانے ان سے جمع کیا کرتا تھا ، جو میری اب تک کی زندگی کے لیے مشعل راہ بنتی رہی ہے اور آئندہ کی زندگی کے لیے بھی بنتی رہے گی –
راقم الحروف کو اب تک کی زندگی میں بہار ، بنگال ، حیدرآباد ،دہلی اور یوپی ، باالخصوص دیوبند ، سہارنپور اور ندوۃ العلماء لکھنؤ کے سینکڑوں علماء ، دانشوروں اور اولیاء اللہ کو دیکھنے ، سننے ، پرکھنے اور ان کو جاننے کا شرف حاصل ہے ، لیکن ان تمام کے مقام ومرتبہ اور عظمت و بڑائی کے اعتراف کے باوجود یہ کہنے پر مجبور پر ہے کہ دو شخص کا کوئی ثانی نہیں دیکھا ، پابندی اوقات کے تعلق سے مولانا نور عالم خلیل امینی رحمۃاللہ علیہ کا کوئی ثانی نہیں دیکھا ، تقویٰ وطہارت اور شریعت وسنت کی پابندی کے تعلق سے حضرت مولانا عبدالرشید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بھی کوئی ثانی نہیں دیکھا –
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کمالات اور اوصاف حمیدہ کا مجموعہ تھے ، لیکن ان کی جن خوبیوں نے مجھے بہت متاثر کیا ، وہ یہ ہیں :
غیبت و چغل خوری سے آخری درجہ تک پرہیز –
غیبت ایک ایسی برائی ہے ، جس میں عوام تو درکنار خواص کو بھی بکثرت مبتلا دیکھا ہے ، نیز غیبت کرنے والے کو گناہ کا احساس بھی نہیں ہوتاہے کہ وہ اس احساس کے پیدا ہوجانے کی وجہ سے توبہ کرلے اور اسی لیے اللہ کے نبی صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “الغيبغة اشد من الزنا” ( ترجمہ: غیبت کا گناہ زنا سے بھی زیادہ سخت ہے)
جب میں پہلی مرتبہ دارالعلوم دیوبند سے گاؤں آیا اور حضرت سے ملاقات کے لیے ان کے کاشانہ پر حاضرہوا تو حضرت انتہائی بشاشت سے ملے اور فرمایا : دارالعلوم دیوبند کے حالات سنائیے ، میں نے دارالعلوم دیوبند کی خوبیوں کے ساتھ وہاں کی خامیوں کا بھی ذکر کرنا شروع کردیا تو حضرت ناراض ہوگیے اور مجھ سے کہا کہ ، اب آپ مجھے کچھ مت سنائیے ، آپ ٹھیک آدمی نہیں ہیں –
میرا بیٹا *محمد* جامعہ عربیہ باندہ ہتھوڑا سے آیاہے ، وہاں کی بہت سی خوبیوں کو بیان کرنے کے بعد اخیر میں اس نے کہا کہ ابو ! وہاں کے حالات کہاں تک سنائیں ، وہاں کی در و دیوار کے ساتھ ساتھ اینٹ سے بھی علم کی خوشبو آتی ہے اور آپ ہیں کہ خامیوں پر ہی اپنی نظر جمائے ہوئے ہیں ، خامیاں کہاں نہیں ہوتی ہیں ، لیکن اچھے انسان کی پہچان یہ ہے کہ وہ خامیوں کو بھول جائے اور خوبیوں کو یاد رکھے اور اسے بیان کرے ، وقتی طور پر مجھے برا لگا ، کیوں کہ میں وہاں موجود خامیاں بیان کررہا تھا ، من گھڑت خامیاں نہیں، نیز اگر موجود خامیوں کو بھی بیان نہ کیا جائے تو لوگ ان سے کیسے واقف ہوں گے اور ان خامیوں کی اصلاح کیوں کر ہوسکتی ہے ؟ لیکن حضرت مولانا کا نظریہ اس سے مختلف تھا ، وہ اسے بھی غیبت کے زمرے میں رکھتے تھے ، نیز ان کا یہ ماننا تھا کہ خامیوں کی نشاندھی اور اسے بیان کرنے میں صرف کیا جانے والا وقت اگر خوبیوں کے بیان میں لگایا جائے ، تو اس سے نیک اور اچھے اعمال وافعال کو فروغ حاصل ہوگا –
کسی بھی انسان کے اندر پائے جانے والے منفی پہلو کو مثبت بناکر اس طرح پیش کردینا کہ منفی پہلو رکھنے والے مخاطب کا مدعی سے ساری شکایتیں یکلخت دور ہوجائیں ، اس ہنر سے بھی حضرت مولانا خوب واقف تھے ، چوں کہ وہ منقولات کے ساتھ معقولات میں بھی ماہر تھے ، اور اس مہارت نے مذکورہ بالا ہنر میں چار چاند لگا دیا تھا –
ایک مرتبہ ہم حضرت کی خدمت میں بیٹھے ہوئے کہ ہمارے علاقہ کے ایک معمر اور مقبول آدمی سجن بابو تشریف لائے ( سجن بابو بھی اللہ کو پیارے ہوگیے ، آپ راجیہ سبھا کے سابق ایم پی اشفاق کریم صاحب کے بڑے بھائی اور حضرت مولانا کے معتقد تھے ، قرآن کی تفسیر اور مسائل کی کتابوں سے خاصا شغف تھا ، اس لیے حضرت سے جب بھی ملاقات ہوتی ، کافی دیر تک مسائل پر گفتگو کرتے ، اور اپنی پڑھی ہوئی کتابوں کا حوالہ بھی دیتے تھے، حضرت نے سجن بابو کی وفات کے بعد ان کی خوبیوں کو قلمبند بھی کیا تھا اور مجھ سے کہا بھی تھا کہ آپ اس تحریر کی نوک و پلک کو سنوار کر اسے دلکش ، دلچسپ اور خوبصورت بنادیں ، مگر افسوس کہ میں اپنی کوتاہ دستی کی وجہ سے اس شرف یابی سے محروم رہا ) اور علاقہ کے ایک مشہور اور لائق و فائق مفتی صاحب کے تعلق سے برجستہ کہا کہ وہ وعدہ اور عہد و پیمان کا کوئی پاس ولحاظ نہیں رکھتے ہیں – انہوں نے مجھ سے دو دن قبل ہی فون کرنے کو کہا تھا ، لیکن ابھی تک ان کی کال نہیں آئی ، حضرت نے فوراً کہا : سجن بابو کسی کے تعلق سے اس طرح کی باتیں کہنا اور فوراً کوئی رائے قائم کرلینا قطعا مناسب نہیں ہے ، ہر آدمی غلطی اور بھول چوک کا مجموعہ ہے ، ہوسکتاہے کہ وہ بھول گئے ہوں اور پھر فوراً مفتی صاحب کو حضرت نے کال کرکے کہا کہ آپ نے سجن بابو سے جو وعدہ کیا تھا ، اسی وعدہ کی یاد دہانی کی نیت سے کال کیا ہے اور اس طرح سجن بابو کی اصلاح کے ساتھ ساتھ مفتی صاحب کے تعلق سے ان کی غلط فہمی بھی دور ہوگئی اور ایک مفتی کا بھی وقار مجروح ہونے سے بچ گیا –
حضرت مولانا نے شہرت اور دولت دونوں کے حصول سے خود کو زندگی بھر بچائے رکھا ؛ کیوں کہ وہ ان دونوں امر کو تقرب الی اللہ میں بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے ، حضرت کے انتہائی قریبی ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ علاقہ کے ایک اہل ثروت نے ان سے کہا کہ حضرت مولانا عبدالرشید صاحب انتہائی پرہیزگار اور پایہ کے عالم دین ہیں ، اس کے باوجود ان کا گھر گھپریل پوس ہے ، نیز ان کے بال بچوں کے جسم پر پیوبند شدہ کپڑا ہوتا ہے ، اس لیے میری خواہش ہے کہ وہ اور ان کے بال بچے ایک مالدار کے بال بچوں کی طرح آرائش و آسائش والی زندگی گزاریں ، شاندار لباس پہنیں ، عمدہ قسم کا کھانا کھائیں اور ایک اچھا مکان بنوائیں ، اور جو بھی پیسہ ماہانہ اس میں صرف ہوگا ، میں عالم دین کی خدمت کی نیت سے للہ دینے کیلئے تیار ہوں ، لہذا اب کی بار جب مولانا گاؤں آئیں تو آپ میرا یہ پیغام ان تک پہونچا دیجیے گا، چنانچہ جب مولانا تشریف لائے اور مولانا کے قریبی دوست نے ان کا یہ پیغام سنایا تو حضرت کا چہرہ سرخ ہوگیا اور حضرت مولانا نے اپنے اس قریبی دوست سے کہا کہ ان صاحب سے کہہ دیجیے گا کہ عبدالرشید اضطراری غریب نہیں اختیاری غریب ہے ، اگر عبدالرشید آج چاہ لے تو عبدالرشید آگے آگے رہے گا اور پیچھے پیسہ کی گاڑی رہے گی ، لیکن پیسہ اور تقرب الی اللہ ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتا ہے ، عبدالرشید نے اپنے لیے تقرب الی اللہ کو اختیار کیا اور دولت کو ٹھکرادیا ہے –
حضرت مولانا مروجہ جلسہ و جلوس میں شرکت کرنے سے بہت حد تک پرہیز کیا کرتے تھے ، اگر کوئی جبرا حضرت کانام جلسہ کے اشتہار میں ڈال دیتا اور حضرت کو کسی طرح اپنے جلسہ میں آنے کے لیے آمادہ کرکے لے بھی آتا تھا تب بھی اگر حضرت وہاں کوئی خلاف شرع کام ہوتا ہوا دیکھتے اور اس کے خلاف بولنے کی صورت میں فتنہ وفساد کا اندیشہ محسوس کرتے تو چپ چاپ فوراً وہاں سے کھسک جاتے تھے ، ہمارے علاقہ میں واقع مدرسہ اسلامیہ سراج العلوم درگاہ بیلا میں حضرت کی صدارت یا سرپرستی میں ایک جلسہ ہورہاتھا ، علاقہ کے لوگ جوق در جوق جلسہ گاہ میں آ رہے تھے ، حضرت بھی تشریف لائے اور اسٹیج پر جلوہ افروز بھی ہوگیے ، لیکن جیسے ہی ویڈیو بنانے کا کام شروع کیا گیا ، حضرت خاموشی سے اسٹیج سے اترے اور دبے پاؤں تیز گامی سے اپنے گھر چلے گیے ، بعد میں معلوم ہوا کہ ویڈیو بنایا جارہا تھا ، اس لیے حضرت ناراض ہوکر چلے گیے ، جبکہ دوسری طرف آج بڑے بڑے علماء ومشائخ شوق سے اپنے بیان کا ویڈیو بناکر اسے شیئر کرتے اور کرواتے ہیں ، تاکہ شہرت میں اضافہ ہو سکے –
ہمارے یہاں شادی بیاہ کے موقع پر ایک دینی پروگرام کا انعقاد کیا جاتاہے اور اسے “میلاد” کے نام سے موسوم کیا جاتاہے ، جس میں موجود لوگوں کی توجہ بیان کی جانے والی دینی باتوں کی طرف کم اور شادی بیاہ کی سجاوٹ اور شوروغل کی طرف زیادہ ہوتی ہے ، گویا دینی پروگرام کے نام پر دین کا مذاق بنایا جاتاہے ، چوں کہ اس میں بیان کرنے والے علماء کو ہدیہ و تحفہ بھی ہزار / دو ہزار دیا جاتاہے ، جس کی وجہ سے علاقائی علماء اس طرح کی خرافات پر لگام لگانے اور لوگوں کو اس سے منع کرنے کے بجائے خوب شوق سے حاضر ہوتے ہیں ، لیکن حضرت اس طرح کے پروگراموں میں شرکت کرنے سے پرہیز کیا کرتے تھے ، خود جب ان کے بڑے بھائی نے نہیں مانا اور اپنی بیٹی کی شادی میں میلاد والا پروگرام کرہی لیا، تو بھی اس میں حضرت تشریف نہیں لے گیے، ہاں البتہ چوں کہ پروگرام مائک سے ہورہاتھا اور حضرت تک آواز بھی پہنچ رہی تھی ، اس لیے حضرت نے اپنے گھر ہی سے پروگرام کے مقررین کا مکمل بیان سنا ، مقررین میں مفتی عالمگیر صاحب تھے اور راقم الحروف بھی تھا اور پھر پروگرام کے اختتام کے بعد ہم دونوں لوگ حضرت سے ملنے گیے ، حضرت نے علیک سلیک کے بعد فرمایا : مفتی عالمگیر صاحب کابیان موقع کی مناسبت سے نہیں تھا ، البتہ ساجد نے موقع کی مناسبت کا لحاظ رکھ کر بیان کیا ہے کہ شادی کا موقع تھا اور اس نے شادی کو ہی اپنے بیان کا موضوع بنایا – راقم الحروف کی طبیعت بھی اس طرح کے پروگرام سے ابا کرتی ہے اور اولا “میلاد” سے لوگوں کو منع بھی کرتا ہے ، لیکن نہ ماننے کے باوجود کوئی اس طرح کا پروگرام کرہی لیتا ہے تو اس میں اس نیت سے حاضر ہوجاتاہے کہ کچھ لوگ بھی اگر عمل کی نیت سے سن لیے تو نیکی کے ذخیرہ میں اضافہ ہوجائے گا –
حضرت مولانا حوصلہ افزائی اور خرد نوازی میں بھی یکتا تھے ، لاک ڈاؤن کے ایام میں ایک دن میں نے قاری نسیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ ( سابق استاد و نائب مہتمم مدرسہ اسلامیہ جامع العلوم مظفرپور ، بہار ) کے تعلق سے تین / چار پیج پر مشتمل اپنا ایک تاثر لکھ کر حضرت کی خدمت میں لے گیا اور پڑھ کر سنایا ، حضرت نے از ابتدا تا انتہاء سننے کے بعد اس قدر خوشی کا اظہار کیا اور اتنی تعریف کی کہ مجھے اپنی تحریر میں پختگی کایقین پیدا ہوگیا ، اس کے بعد جب بھی کچھ لکھتا ، حضرت کو پڑھ کر ضرور سناتا اور ان کی تعریفی و توثیقی کلمات اور دعاؤں سے مالا مال ہوتا تھا ، حضرت جس طرح اپنے شاگردوں اور خردوں کے سامنے تعریفی کلمات کہہ کر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ، اسی طرح غائبانہ میں بھی تعریفی و توثیقی کلمات سے انہیں نوازتے تھے ، ابھی ایک سال قبل میرے ایک دوست محمد ستارے (جو حضرت کے بھی معتقد اور محب ہیں) نے مجھ سے کہا کہ فلاں دن حضرت کہہ رہے تھے : ستارے کاوا چکنوٹہ سے چاروں سمت پانچ کیلو میٹر تک ساجد کی طرح باصلاحیت لڑکا نہیں ملے گا ، لیکن پھر بھی وہ کبر و عجب سے دور ، متواضع اور بزرگوں کا عقیدت مند ہے – جب محمد ستارے نے مجھ سے یہ کہا تو حضرت مولانا کی خرد نوازی کی وجہ سے خوشی بھی ہوئی ،ان کے لیے دل سے دعا بھی نکلی اور دل ہی دل میں یہ بھی دعا کیا کہ اللہ تعالیٰ ان کے حسن ظن کےمطابق مجھ جیسے کم علم اور بے عمل کو بنادے –
حضرت مولانا خوش اخلاق ، ملنسار ، متواضع اور منکسر المزاج تھے ، وہ ہر ایک سے اپنی ادائے دلربائی و دلبری کے ساتھ اس طرح ملتے کہ ملاقاتی ملنے کے بعد آپ کی ذات کے تئیں اپنے اندر ایک عجیب فریفتگی پاتا تھا ، اسی وجہ سے جب حضرت اپنے آبائی گاؤں آتے ، تو دور دور سے لوگ ملنے کے لیے آتے تھے ، حضرت ادائیگی سنت کی نیت سے آنے والے لوگوں کی ضیافت بھی کرتے تھے ، لیکن وہ تکلفات سے کام لے کر دسترخوان کو کھانے پینے کی قسم قسم کے اشیا سے نہیں سجاتے تھے ، بلکہ صرف ایک / دوقسم کی چیزیں ہوتی تھیں ، لیکن وہ اسی ایک / دو آئیٹم کو اس خلوص کے ساتھ مہمان کے سامنے پیش کرتے کہ مہمان کے دل میں ان کے اس دسترخوان کی حیثیت قسم قسم کے مرغوب اشیاء سے سجی ہوئی دسترخوان سے بڑھی ہوئی معلوم ہوتی تھی، خود میرے والد ماجد کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ہم شام کے وقت حضرت کے گھر گیے اور حضرت نے اس خلوص کے ساتھ “پوری” کھلایا کہ ہمارے نزدیک ان کی یہ ضیافت ان میزبانوں کی ضیافت سے اعلی درجہ کی معلوم ہوئی جو قسم قسم کے اشیاء سے دسترخوان کو مزین کردیتے ہیں ، لیکن میزبان کادل اس طرح کے خلوص سے خالی ہوتاہے اور حضرت بار بار اصرار کرتے رہے ، ماسٹر صاحب اور لیجیے ٠٠٠٠٠٠٠
جیساکہ اوپر عرض کیا کہ جب بھی وہ گھر پر تشریف فرما ہوتے اور میں بھی گاؤں میں ہی ہوتا تو روزانہ جاکر ان کی روحانی صحبت اور علم وادب کی محفل میں کافی دیر تک بیٹھتا اور مستفید ہوتا تھا ، جب بھی میں حاضر ہوتا، حضرت کبھی صرف دو / چار پیس بسکٹ ، کبھی مُٹھی بھر چنا ، کبھی گھر میں بنی روٹی سبزی تو کبھی صرف پانی سے ضیافت کرتے تھے ، لیکن ان کے خلوص کی وجہ سے سچ مچ اس میں جو مزہ آتا تھا ، وہ قسم قسم کے مرغوب اشیاء سے مزین دسترخوان میں کہاں ؟
الحمدللہ ہمارا علاقہ بہت خوشحال ہے ، آپ کو گاؤں میں ایسی اونچی اونچی اور بلند وبالا عمارتیں مل جائیں گی کہ آپ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ گاؤں شہر کا منظر پیش کررہاہے ، زمیندار اور متمول حضرات کی بھی کوئی کمی نہیں ہے ، لیکن اس کے باوجود پورا علاقہ علم اور اہل علم کی قدردانی سے خالی ہے ، جس کی وجہ سے حضرت مولانا کی جو قدر علاقہ سے باہر ہوئی اس کا عشر عشیر بھی گاؤں میں نہ ہوسکا ، نیز باہر کے لوگوں نے حضرت مولانا سے جتنا استفادہ کیا ، علاقہ کے لوگ اس کا عشر عشیر بھی نہ کرسکے ، جس کا افسوس حضرت کو بھی تا عمر رہا –
حضرت مولانا کی خدمت میں تقریباً چودہ سال تک حاضر ہوا ، ان کے ساتھ کئی بار علاقائی دورہ بھی کیا ، لیکن کبھی بھی نہ تو ہم نے ان کو کسی سے گالم گلوج اور لڑائی جھگڑا کرتے دیکھا اور نہ ہی کسی سے بحث ومباحثہ کرتے دیکھا ، حتی کہ اپنی اولاد کو بھی کبھی گالی دیتے نہیں دیکھا ، بلکہ وہ اپنے بچوں سے بے پناہ محبت کرتے ، بزرگوں کے واقعات سناکر اور ان سے خدمت لے کر ان کی تربیت کرتے اور ان کا خدمت والا مزاج بنانے کی ہرممکن کوشش کرتے تھے ، ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تو کبھی دیکھتا کہ ان کا کوئی بیٹا پاؤں دبا رہاہے ، کبھی کوئی سر دبارہا ہے ، کوئی پنکھا جھل رہا ہے ، کوئی دروازہ کی صفائی میں مصروف ہے ، وغیرہ – میں ایک دن ان کی محفل میں بیٹھا تھا اور ان کا سب سے چھوٹا بیٹا *حامد* دروازہ پر موجود امرود کے پیڑ پر چڑھنے کی کوشش کررہا تھا کہ اچانک پاؤں پھسلا اور وہ زمین پر گر پڑا ، گرنے کی آواز سنتے ہی حضرت دوڑے اور اس کو گود میں اٹھا کر انتہائی غمزدگی اور بے چینی کے عالم میں اس کے سر اور جسم کو سہلاتے اور افسوس کا اظہار کرتے رہے اور بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ اللہ نے اپنے بندہ کو اس لیے بچا لیا کہ یہ بڑا ہوکر دین کی خدمت کرے گا ، دین کا خادم بنے گا ٠٠٠٠٠٠٠
اس معمولی واقعہ پر اس درجہ پریشانی اور بار بار “دین کی خدمت کرے گا” جیسا جملہ دوہرانے سے جہاں اپنی اولاد کے تئیں بے پناہ محبت کا علم ہوتاہے ، وہیں اس بات کا بھی علم ہوتاہے کہ بچپن ہی سے وہ اپنی اولاد کے دل میں دین کی خدمت کا سچا اور حقیقی جذبہ پیدا کرکے اسے خادم دین بنانے کی سچی تڑپ رکھے ہوئے تھے ، اللہ ان کی ساری اولاد کو توفیق دے کہ وہ سب دین کے سچے سپاہی بن کر اس کی خدمت میں اپنی پوری زندگی صرف کرکے اپنے والد کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرسکیں –
حضرت مولانا تین بزرگ ١- حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نوراللہ مرقدہ ٢- حضرت قاری صدیق صاحب باندوی نوراللہ مرقدہ ٣- حضرت مولانا عبدالمنان صاحب مدظلہ العالی سے بہت متاثر تھے اور اول الذکر کو اتنا پڑھ چکے تھے اور اخیر کے دونوں بزرگوں کی علمی وادبی اور روحانی صحبت سے اس قدر مستفید ہوئے تھے کہ کبھی بھی کسی بھی طرح کا کوئی مسئلہ درپیش آتا ، تو ان تینوں میں سے کسی نہ کسی کے قول یا فعل کا حوالہ دے کر اسے بآسانی حل کردیا کرتے تھے ، ادب کی دنیا میں اگر کوئی اخلاف کسی اسلاف کے علمی وادبی کارناموں کو جاننے ، پرکھنے اور اسے سمجھ کر منظر عام پر لانے کو اپنا مشن بناکر اس میں اپنی زندگی صرف کردیتاہے تو اسے اس سلف کا ماہر سے موسوم کیا جاتاہے ، مثلا ماہر غالبیات ، ماہر اقبالیات ، ماہر انیسیات وغیرہ ، اسی طرح اگر شرعی علوم میں بھی یہ سلسلہ چلتا تو حضرت مولانا کو بیک وقت تینوں اسلاف کے ماہر سے موسوم کیا جاتا – حکیم الامت سے حضرت کے متاثر ہونے کی وجہ یہ تھی کہ حکیم الامت نے بہت سے مسائل کو عقل ونقل دونوں کی روشنی میں حل کیا ہے اور حضرت مولانا بھی معقولات و منقولات دونوں فن میں ماہر تھے اور حکیم الامت کو بہت پڑھا اور سمجھا بھی تھا اور ان کے ایک ایک جملہ کو دل و دماغ پر نقش بھی کرلیا تھا- قاری صدیق صاحب باندوی نوراللہ مرقدہ سے متاثر ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ قاری صاحب کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ عربیہ ہتھوڑا باندہ ، یوپی میں ان کے زیر سایۂ حسنہ کئی سالوں تک اپنے طالبعلمی کا دور بسر کرکے اپنی علمی تشنگی بجھائی تھی ، اور حضرت مولانا عبدالمنان صاحب مدظلہ العالی سے متاثر ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان سے بیعت بھی ہوئے اور مجاز بیعت بھی قرار پائے ، نیز اپنی پوری تدریسی زندگی بھی ان ہی کے قائم کردہ مدرسہ امدادیہ اشرفیہ طیب نگر راجو پٹی سیتامڑھی میں گزار دی –
حضرت مولانا کو اپنے شیخ مولانا عبدالمنان صاحب مدظلہ العالی سے اتنی عقیدت ومحبت تھی کہ وہ نہ صرف تصوف وسلوک کے مسائل و معاملات کے تعلق سے ان سے مشورہ کرتے ، بلکہ اپنی نجی زندگی اور روز مرہ کے معمولات کے سلسلے میں بھی ان سے مشورہ کرنے اور ان کی ہدایات پر عمل کرنے کو فرض عین گردانتے تھے – وہ حضرت مولانا عبدالمنان صاحب مدظلہ العالی کو روحانی طبیب کے ساتھ ساتھ جسمانی طبیب بھی مانتے تھے ، جسمانی کوئی بیماری لاحق ہوتی تو بھی سب پہلے حضرت مولانا عبدالمنان صاحب ہی سے مشورہ کرتے ، وہ خود ہی اگر کوئی دوا یا پرہیز بتاتے ، تو ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت محسوس کیے بغیر ان کی ہدایات پر عمل شروع کردیتے تھے ، ہاں اگر وہ ڈاکٹر کے پاس جانے کا مشورہ دیتے ، تبھی وہ ڈاکٹر کے پاس جاتے تھے – حضرت مولانا مدرسہ امدادیہ اشرفیہ طیب نگر راجو پٹی سیتامڑھی میں شیخ الحدیث تھے ، لیکن اس کے باوجود ایک مرتبہ مولانا عبدالمنان صاحب مدظلہ العالی نے آپ کو چند مہینے ایک مکتب میں پڑھانے کے لیے بھیج دیا ، نیز کوئی وقت بھی مقرر نہیں کی اور نہ ہی کچھ بتایا کہ کتنے مہینے / کتنے سال یا پوری زندگی ہی اس مکتب میں پڑھانا ہے ، پھر بھی وہ خوشی خوشی اس مکتب میں مدرس بن کر اپنا کام بحسن وخوبی انجام دیتے رہے ، اور مجھ سے کہا کہ میں نے خود کو دین کی خدمت کے لیے وقف کردیا ہے اور جس طرح بخاری شریف پڑھانا دین کی خدمت ہے ، اسی طرح نورانی قاعدہ کی تدریس بھی دین کی خدمت ہے ، اس لیے جب حضرت نے مجھے مکتب میں پڑھانے کا حکم دیا تو مجھے کوئی غم یا گلہ و شکوہ نہیں ہوا –
آہ ! کیسا فرشتہ صفت انسان تھا اور کس قدر کسر نفسی کی صفت سے متصف برگزیدہ شخص تھا کہ جس نے اپنی ذات کو جیتے جی فنا کر چکا تھا ، اور توکل علی اللہ کے کس درجہ پر فائز پیر و مرشد تھا کہ لاک ڈاؤن کے ایام میں ایک دن مجھ سے کہنے لگا کہ میرے پاس فی الوقت ایک روپیہ بھی نہیں ہے ، میری اہلیہ سے بھی پوچھو گے تو وہ نہیں بتاپائے گی کہ اس کے پاس کچھ ہے بھی کہ نہیں ، مگر اللہ ہمارا گھر چلارہا ہے اور ہماری زندگی گزر رہی ہے –
یقیناً ایسے بزرگوں کے ملفوظات کو جمع کرنا چاہیے تھا ، بالکل جمع کرنا چاہیے تھا ، کئی بار کوتاہ دست نے سوچا بھی تھا کہ محفل کی علمی وادبی گفتگو کو قلمبند کرلینا چاہیے یا نہیں تو کم ازکم موبائل ہی میں ریکارڈ کرلیا کرے ، تاکہ بعد میں اسے صفحۂ قرطاس پر بکھیرا جاسکے ، مگر اس خیال سے کہ ابھی قلم میں پختگی نہیں آئی ہے، جب پختگی آجائے گی تو حضرت مولانا کے ملفوظات کو قلمبند کیا جائے گا ، ضرور قلمبند کیا جائے گا ، اس عظیم کام سے پیچھے ہٹ جاتا تھا ، نیز یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ حضرت مولانا بہت جلد ہمیں داغ مفارقت دینے والے ہیں – کاش کہ ان کے ملفوظات کو کم ازکم اگر موبائل میں ہی ریکارڈ کرلیا جاتا تو آج کف افسوس نہ ملنا پڑتا ، نیز وہ ملفوظات نہ جانے کتنے گم گشتہ راہ کے لیے مشعل راہ ثابت ہوتے !
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے