نور اللہ جاوید
آج صبح ایک درد ناک خبر موصول ہوئی کہ استاذ محترم مولانا عبد الرشید ویشالویؒ کاتہجد کی نماز کے دوران انتقال ہوگیا ہے۔آج صبح 8(28فروری 2025)بجے مظفر پور سے کانپور کیلئے ٹرین سے روانگی تھی۔ رات میں اپنے ایک شاگرد جو میرے بھی ہم سبق ہیں مولانا اشتیاق احمد قاسمی کے مظفر پور شہر میں واقع مدرسہ میں قیام کیا۔اس دوران انہوں نے ایک جلسے سے خطاب بھی کیا۔تہجد کی نماز کیلئے بیدار ہوئے اور دو رکعت مکمل کرنے کے بعد تکلیف ہوئی اور چند ساعتوں میں ہی اللہ حضورمیں ہمیشہ ہمیش کیلئے پہنچ گئے۔اس طرح سے دیکھاجائے کہ حضرت استاذ کی موت قابل رشک ہے۔ہر مومن کی تمنا ہوتی ہے ایمان کی حالت میں موت ہواوراس کیلئے صبح و شام دعائیں بھی کی جاتیں ہیں۔مصلی ٰ پر موت سے بڑھ کر قابل رشک موت اور کیا ہوسکتی ہے۔
نشیمن پھونکنے والے ہماری زندگی یہ ہے
کبھی روئے، کبھی سجدے کئے خاک نشیمن
مولانا عبد الرشید ؒ کی ناگہانی موت کسی سانحہ سے کم نہیں ہے،محض59 برس کی عمر میں ان کے اچانک رخصت ہوجانے کی توقع نہیں تھی۔مادر علمی مدرسہ امدادیہ،اشرفیہ اور اس کے ناظم حضرت مولانا عبد المنان قاسمی دامت برکاتہم کیلئے یہ سانحہ کسی حادثہ سے کم نہیں ہے، مدرسہ نہ صرف ایک کامیاب و مقبول استاذ سے محروم ہوا ہے بلکہ ایک ایسے ساتھی سے محروم ہوا ہے جو مدرسے کا مخلص اور باوفا رفیق تھا۔ان کی سانسوں میں مدرسہ امدادیہ اس طرح رچ و بس گیا تھاکہ مدرسہ امدادیہ ان کی شخصیت کی تکمیل کا ذریعہ تھا۔
اکیلاہوں، مگر آباد کردیتا ہوں ویرانہ
بہت روئے گی میرے بعد میری شام تنہائی
مولانا عبد الرشید خالص مدرس تھے، کتابیں، مطالعہ، طلبا سے روابط ان کی زندگی کا ماحصل تھا۔گم گو، دھیما لہجہ مگر پانکپن، چہرے پر گلابی مسکراہٹ اور بڑی مگر ذہانت سے بھر پور آنکیں ان کی شخصیت کے عظمت کو دوبالا کرتی تھی۔صلاح و تقوی، زہدو امانت، اخلاص و پاک نفسی کی دولت سے مالامال تھے۔کن فی الدنیا کانک غریب کی عملی تعبیر تھے۔ایک مسافر کی طرح زندگی تھی، سادگی، کفایت شعاری،تواضع و انکساری ان کی شخصیت کو دوآشتہ کرتی تھی اور علیٰ صاحبہاالصلات و التسلیم کے ارشاد گرامی ”شاب النشا فی عبادہ“ کے مصداق تھے۔صالحیت، فکر و عقیدہ کی درستگی اور اخلاق حسنہ جیسے ملکوتی اور نبوی سیرت سے متصف تھے۔مولانا کے اولین شاگردوں کی جماعت سے میرا تعلق ہے۔جامعہ ہتھوڑا باندہ سے فراغت اور اپنے وقت کے ولی کامل حضررت مولانا صدیق احمد باندوی کے مشورے پر پہلی مرتبہ تدریس کیلئے1993میں مدرسہ امدادیہ اشرفیہ سیتامڑھی میں وارد ہوئے اور زندگی کی آخری سانوں تک اپنے مخدوم حضرت مولانا باندوی ؒ کے اعتماد کا بھرم اس طرح قائم رکھا کہ مدرسہ امدادیہ اور مولانا عبد الرشید دونوں لازم و ملزوم بن گئے تھے۔ایک ایسے دور میں جب تعلقات آبگینہ سے بھی نازک بن جائے، معمولی سی ناگواری پر مدتوں کے تعلقات کو داؤ پرلگادیا جاتو ہو اس دور پرآشوپ میں عہد وفا کی وہ مثال قائم کی ہے جس کا آج کے دور میں تصور تک نہیں کیا جاسکتا ہے۔ استقامت، مستقل مزاجی اور پابند عہد اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ 32برسوں تک ایک ایسے عہد کو نبھایا کہ جو ان پر لازم بھی نہیں تھا۔
ہا ں اے فلک پیر ’جواں‘ تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور
مولانا عبد الرشید ؒ کی ناگہانی موت کی خبر کو دل و دماغ قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔مگراس سے بڑھ کر اور کیا حقیقت ہوسکتی ہے۔جلد ہی دل نے قبول کرلیا ساتھ ہی کئی خوشگواریادیں دل پر دستک بھی دینے لگی۔ 32برس قبل جب وہ مدرس بن کر مادرعلمی آئے اس وقت ان کی عمر 26یا 27برس رہی ہوئی ہوگی، جواں سال، جوش و خروش سے لبریز، طلبا کو زیادہ سے زیادہ سیکھانے کا جذبہ موجزن تھا، وقت کے انتہائی پابند، غیر نصابی سرگرمیوں سے دور تک کا کوئی تعلق نہیں تھا۔دنیاوی سرگرمیاں، خبر و اخبارات سے قطعاً دلچسپی نہیں۔ یادش بخیر شاید ان کی تدریس کا پہلا سال تھا۔سبق کا ناغہ نہ ہو اس لئے وہ کئی مہینوں سے گھر نہیں گئے تھے۔اس دو ر میں موبائل فون کا تصور تک نہیں تھا۔ٹیلی فون تک رسائی بھی بہت ہی محدود تھی۔چناں چہ ان کے بڑے بھائی ان سے ملاقات کرنے کیلئے مدرسہ پہنچے۔کسی نے ان کے بھائی کو براہ راست مولانا مرحوم کی درس گاہ تک پہنچادیا۔انہوں نے ایک نظر بڑے بھائی کو دیکھااور دوسرے لمحے میں بھائی کو باہر بیٹھنے کا اشارہ کرکے سبق پڑھانے میں اس طرح مشغول ہوئے کہ شاید کوئی آیا ہی نہیں۔جب تک تعلیم کے اوقات ختم نہیں ہوئے انہوں نے بھائی سے ملاقات نہیں کی۔مدرسے کے اوقات کی پاسداری کا یہ انوکھا طریقہ دل و دماغ میں ہمیشہ ہمیش کیلئے نقش پا ہوگئے۔32 برس قبل وہ تدریسی میدان میں نوآزمودتھے۔تدریسی ایک ایسا پیشہ ہے جو طویل تجربے، مطالعہ اور مشاہدہ کے بعد ہی کامیاب اورطلبا میں قبولیت حاصل ہوتی ہے۔مگر کثرت مطالعہ، انہماکی، سبق کا احترا م اور مدرسہ سے قلبی لگاؤ کی بدولت ناتجربہ کاری کا اس طرح تدارک کیا کہ کبھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ اس میدان کے نئے شاہ سوار ہیں۔
مدرسہ امدادیہ، اشرفیہ میں میری طالب علمی کا دورانیہ 8برسوں پر مشتمل ہے، بلکہ یہ کہاجائے کہ مدرسہ کو میں نے بنتے دیکھا ہے تو زیادہ صحیح ہوگا۔مدرسہ جب دوکمرے کے کرایہ کے مکان میں تھااور جب اپنے زمین پر منتقل ہوا وہ سب لمحے کا عینی شاہد ہوں۔مدرسہ امدادیہ کے آغوش سے ہی میں نے اپنے قلم کا سفر کا آغاز کیا تھا۔ماہنامہ اشرف کی ادارت اس طرح سنبھالی کہ اسی دور میں لکھنا ہی محبوت مشغلہ بن گیا۔آج اگر میں اردو صحافت میں 25 برس کا سفر مکمل کیا اور تھوڑی بہت اپنی شناخت بنائی ہے اس میں مدرسہ امدادیہ کے اساتذہ کا اہم کردار ہے۔شاید بہار کے مدرسوں میں مدرسہ امدادیہ پہلا مدرسہ تھا جہاں پہلی مرتبہ دیواری پرچے نکالنے کی اجازت دی گئی۔مدرسے سے میراجو قلبی تعلق ہے اس کومیں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا ہوں، اگر میں سیتامڑھی جاؤں اور مدرسہ نہ جاؤں تو سفر نامکمل ہونے کا احساس ہونے لگتا ہے۔احساس شرمندگی بڑھ جاتی ہے اور خود کے بے وفا ہونے کاشبہ ہونے لگتا ہے۔اس لئے چند منٹوں کیلئے ہی سہی میں مدرسہ ضرور جاتا ہوں، گرچہ میرے زمانے کا مدرسہ اب نہیں رہا ہے اور اب کئی عمارتوں کی تعمیر ہوچکی ہے، عالیشان مسجد اپنے عظمت و رفعت کی گواہی دے رہی ہے۔دارالقرآن کی بصورت عمارت ہے۔تاہم آج بھی دوسرے سرے پر وہ پھوس کی عمارت موجود ہے جہاں میں نے شعور کی منزلیں طے کی تھی، جہا ں سے زندگی گزارنے کا سبق ملا تھا۔ہمارے دور کا مدرسہ موجودہ مدرسہ کا دسواں حصہ بھی نہیں ہے مگر اس کے باوجود یہ چھوٹا سا احاطے ہمارے لئے وسیع صحرا سے کم نہیں ہے۔دل بیٹری چارج کرنے کیلئے ان دیواروں کو ِضرور لمس اورآنکھ بند کرکے ماضی کی یادوں میں کھونے کی ضرور کوشش کرتا ہوں۔ 1996میں دارالعلوم دیوبند چلاگیا مگر اس کے بعد بھی مدرسہ امدادیہ سے میرا رشتہ و تعلق یونہی باقی رہا جو تی دہائی قبل قائم ہوا تھا گزشتہ29برسوں میں درجنوں مرتبہ میں مدرسہ گیا ہوں تو مولانا عبد الرشید سے ملاقات ہوئی۔خندہ پیشانی اور مسکراہٹ سے استقبال کرتے، چند منٹوں کیلئے روکتے حال و خبر معلوم کرتے اور پھر اپنے کام میں مصروف ہوجاتے۔چوں کہ انہیں غیر نصابی سرگرمیاں پسند نہیں تھی اس لئے ملاقات بہت ہی مختصر مگر اس درمیان بہت کچھ پوچھ لیتے اور دعاؤں سے نواز کر آگے بڑھ جاتے۔
تدریس ان کا محبوب مشغلہاور امدادیہ کی چہار دیواری ان کا محبوب مسکن تھا تاہم وہ دینی جلسے بالخصوص حضرت مولانا عبد المنان قاسمی کی تحریک پر شمالی بہار میں شروع کی گئی ”تحریک زکوۃ‘’کے پروگرا موں میں وہ شرکت کرتے تھے۔ان کی تقریر میں چیخ و پکار اور پیشہ وارانہ مقرر کا رنگ نہیں ہوتا تھا بلکہ دعوت و تبلیغ کے منہج پر ان کی تقریر میں ٹھہراؤ، الفا ظ میں فکر مندی ظاہر ہوتی تھی، گفتگو سادہ مگر پرمغز ہوتی تھی۔
مدرسین کا آنا جانا لگارہتا مگریہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے مولاناعبد الرشید ؒ کے شکل میں مدرسہ امدادیہ جو نگینہ سے محروم ہوا ہے ا س کی بھرپائی ناممکن تو نہیں مگر وقت تو ضرور لگے گا۔بلاشبہ دینی ادارے دولت کمارے کے ذریعہ نہیں ہیں۔یہاں ہر ایک شخص خدمت اور پیغمبر اسلام کی دعوت، دین اور پیغمبرانہ اسرار ورموز کو علوم نبوت کے طالبین کو سیراب کرنے کی نیت سے آتا۔اگر دولت کمانا ہی مقصود ہوتا شاید ہی مدرسے میں کوئی مدرسی کرتا مگر دین جذبہ او ر علوم نبوت کی ترویح و تبلیغ اور اس کے حاملین کی جو فضیلت ہے اس کے حصول کے جذبے کے ساتھ مدرسے میں آتے ہیں۔تاہم مولانا عبد الرشید ؒ کے اچانک سانحہ ارتحال سے یقینامدرسہ کیلئے بڑا واقعہ ہے مگر سب سے بڑا مادی نقصان اگر کسی کو ہوا ہے تو وہ ان کے اولاد، اہلیہ اور دیگر افراد کو ہوا ہے۔اس کی بھرپائی کی کوئی سبیل نہیں ہے۔اس لئے سوال یہ ہے کیوں نہ دینی مدرسوں میں کچھ ایسے انتظامات کئے جائیں جس سے اس طرح کے سانحات کے متاثرین کے آنسوؤں کو خشک کرنے کے کام آئے اور ان کی نسلیں مالی مشکلات کا سانا کئے بغیر اپنے والد کے خوابوں کی تعبیر کرسکے۔
مولانا عبد الرشیدؒ اب اس دنیا کے باشندہ ہوگئے ہیں جہاں سبھوں کو جانا ہے۔مگر اس دنیا اور اس دنیا کے درمیان فاصلہ اس طویل ہے کہ یہاں کی کوئی چیز کام نہیں آتی ہے مگر تین ایسی چیزیں ہیں جو اس دنیا بھی کام آتی ہے۔ان میں عمل صالح اور ایسا علم جو نفع جاری ہے۔گزشتہ 32برسوں میں سیکڑوں طلبا نے ان کی علم نافع حاصل کی اور عمل صالح کی تربیت کی حاصل۔اس لئے ان کے روپوش ہوجانے کے بعد ان کا فیض جاری ہے اور سیکڑں شاگرد ہیں جن کے دلوں سے ان کی مغفرت کیلئے دعا نکل رہے۔بقو ل شاعر
کتنے عالًم ہیں جو غنچے پ گزرجاتے ہیں
تب کہیں جاکے وہ رنگین قباہوتا ہے۔