Saturday, November 15, 2025
homeادب و ثقافتعلامہ اقبال کے فلسفے میں گلِ لالہ: حریت، خودی اور جمالیات کا...

علامہ اقبال کے فلسفے میں گلِ لالہ: حریت، خودی اور جمالیات کا استعارہ

ڈاکٹر افضل رضوی ڈاکٹر افضل رضوی

علامہ اقبالؒ کے کلام میں جس طرح فلسفہ خودی بنیادی عنصر ہے اور دیگر تمام فلسفہ ہائے فکر اسی سے ترتیب پاتے اور نکھرتے چلے جاتے ہیں، اسی طرح ان کے ہاں جو مختلف نباتات استعمال ہوئے ہیں، ان میں پھول بھی ہیں اور پھل بھی، درخت بھی ہیں اور شجر بھی، بیج بھی ہیں اور دانے بھی۔ انہوں نے بہت سے پھولوں کو اپنے اشعار کی زینت بنایا اور بعض کو اصطلاحاً، تشبیہاً، استعاراً استعمال کیا ہے۔ پھولوں میں گلِ لالہ ایسا پھول ہے جو علامہ اقبال کو بے حد پسند ہے اور اس کا ذکر ان کے کلام میں کثرت سے ملتا ہے۔ کہیں وہ اسے سیاسی اصطلاح کے طور پر استعمال کرتے ہیں تو کہیں اسے ملت اسلامیہ کے لیے استعاراً استعمال کرتے ہیں۔ کہیں اسے دین کے لیے تو کہیں اپنی فکر و دانش کے اظہار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو لالہ ایک ایسا پھول ہے جس کا استعمال بیشتر شعرا کے ہاں مل جاتا ہے۔ شعرا نے اسے، اس کے سرخ رنگ کی وجہ سے خون سے مشابہ قرار دیا ہے اور اس کا استعمال اکثر شعرا کے ہاں تشبیہاً اور استعاراً ملتا ہے۔ نیز اس کے مختلف الاقسام مرکبات بھی ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں جیسے :لالہ یک سو، مانندِ لالہ، لالہ تر، لالہ و گل، لالہ زار، گل و لالہ، لالہ صحرا اور برگ ِ لالہ۔ ان مرکبات ِ اضافی و عطفی کے استعمال سے اشعار کی معنوی حیثیت بڑھ جاتی ہے۔ علامہؒ کے کلام میں یہ مرکبات مختلف تراکیب کی شکل اختیار کرتے ہیں تو اس سے نہ صرف اشعار کی معنوی حیثیت بڑھتی ہے بلکہ ان میں تسلسل، روانی، فکر و فلسفہ اور روشن مستقبل کی نوید بھی سنائی دیتی ہے۔ جس طرح انہوں نے گل کی دو طرح کی تراکیب استعمال کی ہیں اسی طرح لالہ بھی ان کے کلام میں دو مختلف صورتوں میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ مثلاً: داغِ لالہ، تمیزِ لالہ، پردۂ لالہ، چراغِ لالہ، گلِ لالہ، شرابِ لالہ گوں، خفتگانِ لالہ زار، ضمیرِ لالہ، عروسِ لالہ، برگ ہائے لالہ، لولوے لالہ، آبِ لالہ گوں، ساقیئی لالہ فام، سکوتِ لالہ، مے لالہ فام، داغِ لالہ فشاں، لالہ صحرا، لالہ صحرائی، جگرِ لالہ، قافلہ لالہ، پیرہنِ لالہ، گریبان ِ لالہ، چراغ ِلالہ، فضائے لالہ، فروغ لالہ، شوخیئی لالہ، نصیبِ لالہ، مثالِ لالہ، قبائے لالہ، داغِ لالہ، برگِ لالہ، میانِ لالہ، چراغِ لالہ، شاخِ لالہ، د رِ لا لہ، قافلہ لالہ، تختہ لالہ، عروسِ لالہ، دلِ لالہ، جگر ِ لالہ، کفِ لالہ، درونِ لالہ، داغِ لالہ، نمودِ لالہ، آتشِ لالہ، و رقِ لالہ، ساحرانِ لالہ، بخونِ لالہ، سر شکِ لالہ، خون ِ لالہ اور لالہئی صحرا، لالہ افسردہ، لالہئی خودرو، لالہئی دک سوز، لالہئی پیکانی، لالہئی آتشیں، لالہئی شعلہ، لالہئی خود رو، لالہئی صحرا ستم، لالہئی ناپائدار، لالہئی حمراستے، لالہئی کو، درونِ لالہئی آتش، مزاجِ لالہئی خود رو، لالہئی خورشید، لالہ تشنہ، لالہ من، لالہ احمر، لالہ صبح جیسی خوب صورت تراکیب استعمال کر کے اپنے کلام کو پر کشش اور دل کی گہرائیوں میں اتر جانے والا اور ہمیشہ زندہ رہنے والا کلام بنا دیا ہے۔

علامہؒ کے اردو کلام میں لالہ کا سب پہلا استعمال بانگِ درا کی نظم ’دردِ عشق‘ میں ملتا ہے جہاں انہوں نے عشق کو جذبہ ایثار و خدمت کے طور پر پیش کیا ہے۔ علامہؒ کی خواہش تھی کہ عشق کی وہ حالت جو قرونِ اولیٰ میں تھی، وہی آج کے دورِ فساد و انتشار میں پھر سے بے دار ہو جائے مگر جب وہ گرد و نواح میں دیکھتے تھے تو انہیں تصنع اور بناوٹ کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ علامہؒ کہتے ہیں کہ اگر دردِ عشق زمانے کی ناہمواریوں کی وجہ سے الگ تھلگ ہو جائے تو لالے کا پیالہ شرابِ عشق سے محروم ہو جائے اور شبنم کے آنسو پانی کے قطرے بن جائیں۔

خالی شراب ِ عشق سے لالے کا جام ہو
پانی کی بوند گریۂ شبنم کا نام ہو

علامہؒ نے 1905 میں برطانیہ کے لیے رختِ سفر باندھا لیکن اس سے پہلے وہ بانگِ درا کی تصنیف کا کام شروع کر چکے تھے اگرچہ یہ شائع ان کی وطن واپسی کے بعد ہوئی۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ انہوں نے انگلستان جانے سے پہلے پانچ طویل نظمیں انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسوں میں پڑھیں جنہیں بڑی پذیرائی ملی۔ ان میں نالۂ یتیم، یتیم کا خطاب ہلالِ عید سے، اسلامیہ کالج کا خطاب مسلمانانِ پنجاب سے، ابرِ گہر بار یا فریادِ امت اور تصویرِ درد شامل ہیں۔ تاہم جب انہوں نے بانگِ درا شائع کی تو اوّل الذکر چار کو اس میں شامل نہ کیا۔ صرف فریادِ امت کا ایک بند دل کے عنوان سے باقی رکھا، جب کہ موخّرالذکر اس میں شامل کر لی گئی۔ اس نظم کے تمہیدی بند میں وہ اپنے پسندیدہ پھول لالہ کا ذکر کچھ اس انداز میں کرتے ہیں :

اٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری

علامہؒ اپنے اس سفر کے دوران جب دہلی پہنچے تو مزارِ حضرت نظام الدین اولیا پر ’التجائے مسافر‘ پڑھی۔ پہلے بند کا اختتام فارسی شعر پر کیا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ میرا دل اگر سیاہ ہے تو سمجھنا چاہیے کہ تیرے لالہ زار کا داغ ہوں اور اگر خنداں پیشانی ہوں تو تیری بہار کا پھول ہوں۔

اگر سیاہ دلم، داغِ لالہ زارِ توام
وگر کشادہ جبینم، گلِ بہارِ توام

علامہؒ فرقہ بندی اور گروہ بندی کے سخت خلاف تھے اور اسے امتِ مسلمہ کی زبوں حالی کی سب سے بڑی وجہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اس کی مذمت کی اور اپنے کلام میں بھی جا بجا اپنے خاص انداز میں اس کی مذمت کی ہے۔ بانگِ درا حصہ اوّل کی ایک غزل میں اس مضمون کو بڑی خوب صورتی سے بیان کیا ہے جب کہ نظم ’محبت‘ میں انہوں نے اس کی تین بنیادی خصوصیات بیان کی ہیں اور نظم کے آخری شعر میں کہا ہے کہ محبت ہی کی بدولت آفتابوں اور ستاروں نے مقامِ ناز حاصل کیا، کلیاں کھل اٹھیں اور لالے نے یہ سب کچھ اپنے سینے میں نقش کر لیا جو داغ کی صورت میں اب بھی موجود ہے۔ نظم ’کوششِ ناتمام‘ میں علامہؒ نے لالے کو حسنِ مطلق سے تعبیر کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ حسنِ ازل جو لالے اور گلاب کے پردے میں چھپا ہوا ہے، وہ اس لیے بے قرار ہے کہ اس کا جلوہ عام ہو جائے۔ مجموعی طور پر علامہؒ نے اس نظم میں متحرک رہنے کا درس دیا ہے اور یہ درس درحقیقت ان کے کلام کی اساس ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کو متحرک دیکھنے کے خواہاں تھے۔

تمیزِ لالہ و گل سے ہے نالہ بلبل
جہاں میں وا نہ کوئی چشمِ امتیاز کرے
خرامِ ناز پایا آفتابوں نے ستاروں نے
چٹک غنچے نے پائی، داغ پائے لالہ زاروں نے
حسن ازل کہ پردۂ لالہ و گل میں ہے نہاں
کہتے ہیں بے قرار ہے جلوۂ عام کے لیے

علامہ ؒ کے کلام کا دوسرا دور ان کے قیامِ یورپ 1905 سے شروع ہو کر 1908 یعنی ان کی وطن واپسی تک کا دور ہے۔ قیامِ یورپ کے دوران ان خیالات میں کئی تبدیلیاں آئیں جن کا اظہار انہوں نے نہ صرف نظم میں کیا بلکہ اپنے خطوط میں بھی کیا۔ انہوں نے 1907 میں ایک نظم نما غزل لکھی جس میں اپنے نئے افکار و خیالات کا ذکر کیا۔ بقول غلام رسول مہر:

’یہ غزل جیسا کہ اقبال نے خود لکھا ہے مارچ 1907 میں کہی تھی اور غالباً اسی مہینے کے مخزن میں چھپ گئی تھی۔ ان کے فکر و نظر میں جو انقلاب ولایت پہنچتے ہی شروع ہوا تھا، وہ کوئی ڈیڑھ برس میں آخری منزل پر پہنچا۔ اگر ان کی تعلیمات کا ابتدائی نقشہ دیکھنا ہو جو بعد ازاں دنیا بھر کے لیے خاص جذب و کشش کا مرجع بنے تو وہ یہی غزل یا نظم ہے۔ ‘ ذرا غور کیجیے کہ ایک ایسی غزل جو علامہ ؒ کی تعلیمات کی ابتدا ہے اس میں بھی انہوں نے لالے کو فراموش نہیں کیا اور اس کے سرخ رنگ اور سیاہ داغ سے اپنے مافی الضمیر کے بیان میں بھرپور کام لیا ہے۔ کہتے ہیں کہ باغ میں لالہ ہر خاص و عام کو اپنا داغ دکھا رہا ہے حالانکہ وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ ایسا کرنے سے دوسرے اسے دل جلا سمجھیں گے لیکن اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ وہ ایسا کر کے دکھ اور درد کا غماز اور عکاس بننا چاہتا ہے۔

نظم ’بلادِ اسلامیہ‘ کے دوسرے بند میں علامہ ؒ نے لالہ کو تہذیبِ حجاز کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے اور شکوہ میں انہیں ان لالوں کی تلاش ہے جن کے دل میں تڑپ اور سینے میں محبت کے داغ ہوں۔

چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہو گا
یہ چمن وہ ہے کہ تھا جس کے لیے سامانِ ناز
لالہٗ صحرا جسے کہتے ہیں تہذیبِ حجاز
اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں

نظم ’بزمِ انجم‘ کا آغاز ہی لالے کے خوب صورت استعمال سے کیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے درج ذیل شعر

سورج نے جاتے جاتے شام سیہ قبا کو
طشت افق سے لے کر لالے کے پھول مارے

علامہؒ لالہ کو جب لالہ صحرائی کہتے ہیں تو ان کے سامنے پوری تہذیبِ حجاز ہوتی ہے۔ وہی تہذیب جو سادگی اور پاکیزگی کی منہ بولتی تصویر تھی اور جس کے نشانات صحرا اور مرغزار پیش کرتے تھے۔ چنانچہ انہیں لالہ میں اور تہذیبِ حجاز میں بہت سی اقدارِ مشترک نظر آتی ہیں جیسے، صحرائی مکین کوئی مستقل وطن نہیں رکھتے اسی طرح لالہ بھی ہر جگہ نشو و نما پانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نظم ’شمع اور شاعر‘ میں شاعر کہتا ہے :

در جہاں مثل چراغ لالہ صحرا ستم
نے نصیب محفلے، نے قسمتِ کاشانہ

جواب میں شمع کہتی ہے :

یوں تو روشن ہے، مگر سوز دروں رکھتا نہیں
شعلہ ہے مثل چراغ لالہ صحرا ترا

بات کسی ثبوت کی محتاج نہیں کہ حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ ایک سچے عاشقِ رسولﷺ تھے اور انہوں نے اپنے کلام میں جا بجا اپنی اس محبت کا اظہار کیا ہے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہی امتِ مسلمہ زبوں حالی اور پریشانیوں سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔ نظم ’حضور رسالت مآب میں‘ لالے کا استعاراتی استعمال ملاحظہ ہو

ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی میں
وفا کی جس میں ہو بو وہ کلی نہیں ملتی

علامہؒ کی شہرہ آفاق نظموں میں سے ’شکوہ‘ اور ’جوابِ شکوہ‘ اپنے بیان اور زورِ بیان کے حوالے سے خاص مقام رکھتی ہیں کہ ان میں علامہؒ نے امتِ مسلمہ کی بے بسی اور لاچارگی کی تصویر کشی کچھ اس انداز سے کی ہے کہ ہر کس و ناکس آنسو بہائے بنا نہیں رہتا۔ ’جوابِ شکوہ‘ کے آٹھویں بند میں لالہ کا استعمال نہایت دلکش و دلفریب ہے۔ نظم ’شاعر‘ میں کہتے ہیں کہ نغمہ پیدا کرنے والی ندی بہار کے مے خانے سے سرخ شراب پی کر پہاڑ سے وادیوں میں آتی ہے یعنی موسمِ بہار میں جب پہاڑوں پر بارش ہوتی ہے تو ندیاں اور نالے پانی سے بھر جاتے ہیں۔ علامہ کہتے ہیں کہ بارش کا یہ پانی ندیاں نغمے الاپتی ہوئی لے کر وادیوں میں داخل ہوتی ہیں اور انہیں سر سبز و شاداب کر دیتی ہیں۔ اس خوبصورت تبدیلی پر نہ صرف انسان بلکہ چرند پرند سبھی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ علامہ کو مناظرِ فطرت کی تصویر کشی میں بڑا ملکہ حاصل ہے، چنانچہ درج ذیل شعر ان کے اس فن کا منہ بولتا ثبوت ہے ؛

وہ بھی دن تھے کہ یہی مایہ رعنائی تھا
نازشِ موسمِ گلِ لالہ صحرائی تھا
جوئے سرود آفریں آتی ہے کوہسار سے
پی کے شرابِ لالہ گوں مے کدۂ بہار سے

علامہؒ نے نہ صرف نظم کی مروجہ اقسام میں اپنے خیالات کا اظہار کیا بلکہ ہیت کے نئے تجربات بھی کیے۔ ان کی والدہ ماجدہ کا انتقال 1915 میں ہوا، اس موقع پر انہوں نے جو مرثیہ کہا وہ مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ نظم ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ میں انہوں نے لالہ کو زورِ بیان کے لیے استعمال کیا ہے اور اس سے میرے اس موقف کو تقویت ملتی ہے کہ لالہ علامہؒ کا انتہائی پسندیدہ پھول ہے جسے وہ کسی بھی اہم موقع پر نظر انداز نہیں کرتے۔

سینہ چاک اس گلستاں میں لالہ و گل ہیں تو کیا؟
نالہ و فریاد پر مجبور ہیں تو کیا؟

اسی نظم کے بارہویں بند میں رات کے بعد صبح کا منظر پیش کرتے ہوئے لالہ افسردہ اور خفتگانِ لالہ کی خوب صورت تراکیب استعمال کی ہیں :

پردۂ مشرق سے جس دم جلوہ گر ہوتی ہے صبح
داغ شب کا دامنِ آفاق سے دھوتی ہے صبح
لالہ افسردہ کو آتش قبا کرتی ہے یہ
بے زباں طائر کو سر مست نوا کرتی ہے یہ
سینۂ بلبل کے زنداں سے سرودِ آزاد ہے
سینکڑوں نغموں سے باد صبح دم آباد ہے
خفتگان لالہ زار کوہسار و رودبار
ہوتے ہیں آخر عروسِ زندگی سے ہمکنار
یہ اگر آئین ہستی ہے کہ ہو ہرشام صبح
مرقدِ انساں کی شب کا کیوں نہ ہو انجام صبح؟

1922 میں انجمن حمایتِ اسلام کے ستائیسویں سالانہ اجلاس میں علامہ اقبالؒ نے اپنی طویل نظم ’خضرِ راہ‘ پڑھی۔ نظم کا مضمون ایسا دلگیر اور پرسوز ہے کہ بقول مولوی غلام رسول مہر نظم پڑھنے کے دوران کئی مقامات پر علامہ پر رقت طاری ہو گئی وہ خود بھی اشکبار ہوئے اور مجمعے کو بھی رونے پر مجبور کر دیا۔ درحقیقت یہ زمانہ عالمِ اسلام کے لیے انتہائی دشوار تھا۔ مسلمان ہر طرف اپنی کوتاہیوں کی بدولت ذلیل و رسوا ہو رہے تھے، (آج پھر ویسی ہی صورت ِحال لیکن راستہ دکھانے کے لیے کوئی اقبال نہیں ) جس کا انہیں بہت دکھ تھا، چنانچہ اپنے جذبات کا اظہار انہوں نے اس نظم کے ذریعے نہایت مہارت سے پیش کیا۔ نظم کے ذیلی عنوان ’دنیائے اسلام‘ میں اہلِ ایران کی ذلت و رسوائی کے اظہار کے لیے لالہ کا استعارہ نہایت موزوں ہے۔

ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہ لالہ رنگ
جو سراپا ناز تھے، آج ہیں مجبور نیاز

بانگِ درا کی اشاعت سے ایک برس قبل یعنی 1923 میں انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسے میں علامہ نے اپنی شہرہ آفاق نظم ’طلوعِ اسلام‘ پڑھی۔ اس نظم کی خاص اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس کے بعد علامہؒ نے کوئی طویل نظم انجمن کے اجلاس میں نہ پڑھی۔ جنگِ عظیم اوّل کے اختتام پر عالمِ اسلام کے ایک اور دور کا آغاز ہو چکا تھا۔ مسلمان ایک مرتبہ پھر اپنی آزادی کے حصول کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے جو ایک خوش آئند بات تھی۔ یہ سب علامہؒ کے سامنے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پوری نظم احیائے اسلام اور مسلمانوں کی نشاۃِ ثانیہ پر مسرت کے جذبات سے لب ریز ہے۔ ساتھ ہی ساتھ لالہ کی علامت بھی اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ میں نے شروع میں بھی عرض کیا تھا کہ لالہ کی علامت علامہؒ نے مومن اور مسلمان کے لیے بھی استعمال کی ہے چنانچہ ذیل کی مثال سے میرے اس موقف کو تقویت ملتی ہے۔

ضمیرِ لالہ میں روشن چراغِ آرزو کردے
چمن کے ذرے ذرے کو شہیدِ جستجو کر دے

اسی نظم میں لالہ کی علامت کا اور خوب صورت استعمال دیکھیے :

حنا بند عروس لالہ ہے خون جگر تیرا
تری نسبت براہیمی ہے معمار جہاں تو ہے

اسی نظم کے آخری بند میں علامہؒ نے نئے دور میں داخل ہونے کی نوید سنائی ہے اور قوم کو بتایا ہے کہ شہید کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ میں شہید کی تربت پر لالے کے پھول چڑھا رہا ہوں کیونکہ اس کا خون ملتِ اسلامیہ کے شجر کو بہت راس آیا ہے۔

سرِ خاک شہیدے برگ ہائے لالہ می پاشم
کہ خونش با نہالِ ملتِ ما سازگار آمد

بانگِ درا حصہ سوم کی غزلیات میں بھی انہوں نے لالہ کی علامت مسلمانوں کے لیے استعمال کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ اے اللہ! میری قوم کے لوگ (لالے ) تیری نظرِ کرم کے محتاج ہیں، تو ان پر اپنا رحم وکرم فرما:

ابرِ نیساں! یہ تنک بخشئی شبنم کب تک؟
مرے کہسار کے لالے ہیں تہی جام ابھی

بالِ جبریل میں بھی لالہ کا علامتی اور استعارتی استعمال جاری رہتا ہے۔ ایک غزل میں کہتے ہیں کہ ایران کی آب و گل آج بھی وہی ہے جو مولانا روم کے زمانہ میں تھی اور شہرِ تبریز اب بھی اپنی جگہ ہے لیکن کس قدر تعجب کی بات ہے کہ اب ان لالہ زاروں سے نہ تو کوئی شمس تبریز پیدا ہو رہا ہے اور نہ کوئی رومی جیسا ہی جنم لے رہا ہے۔ غالباً بتانا یہ مقصود ہے کہ دورِ حاضر میں نہ تو شمس جیسے روحانی استاد ہیں اور نہ رومی جیسے سیکھنے والے لیکن اس کے باوجود علامہؒ اپنی کشتِ ویراں سے مایوس نہیں ہیں، بس اسے زرخیزی کے لیے تھوڑی سی نمی درکار ہے۔ ایک اور غزل میں وہ سکون کے متلاشی نظر آتے ہیں اور ایسی پر سکون جگہ چاہتے ہیں جہاں ہر سو لالے کے پھول کھلے ہوئے ہوں۔ غزل مذکور ہی میں مزید کہتے ہیں کہ رنگین اور دلکش شعر کہنے والے کی نگاہوں میں ایسا جادو ہے کہ اس کے فیض سے لالہ و گل حسین تر ہو جاتے ہیں۔ جب کہ دوسری جگہ کہتے ہیں کہ حسنِ معانی کو میری مشاطگی کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ فطرت خود لالے کی حنا بندی کرتی ہے یعنی وہ اگتا ہی سرخ رنگ کے ساتھ ہے اس لیے اسے مزید کسی سے حنا لگوانے کی ضرورت نہیں پڑتی اسی طرح میری شاعری کی نوک پلک سنوارنے کی ضرورت نہیں کیونکہ دل نشیں کلام کو مزید سنوارنے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ خود بخود دلوں میں اترتا چلا جاتا ہے۔ ایک اور غزل کے پہلے ہی شعر میں لالہ کا ذکر کیا ہے جہاں اس کی سرخ رنگت کو شراب سے مشابہ قرار دیا ہے کہ جیسے ہی ضمیرِ لالہ مے لعل سے لبریز ہوا تو صوفی نے جو مے عشق سے پرہیز کی ہوئی تھی، وہ توڑ دی اور عشق کی شراب پینے کے لیے تیار ہو گیا۔ اس شعر کا مفہوم بیان کرنے میں کچھ ناقدین کو سہو ہوا ہے جنہوں نے یہاں شراب سے مراد اصل شراب لے لی حالانکہ ایسا نہیں ہے اور یہ کلامِ اقبال سے دوری اور بغض کی وجہ سے ہو سکتا ہے ورنہ اگر کلامِ اقبال کا گہرائی و گیرائی سے مطالعہ کیا جائے تو حقیقت کھل جاتی ہے۔

نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گلِ ایراں، وہی تبریز ہے ساقی
مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
ضمیرِ لالہ مے لعل سے ہوا لبریز
اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہیز

علامہؒ کی غزلوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ ان میں بیان ہونے والے مضامین نظم کی طرح ہوتے ہیں گویا ان کی غزلوں میں بھی نظموں کی ہیئت کا تاثر ابھرتا ہے۔ بالِ جبریل کی غزلیں اس کی بہترین امثال ہیں۔ ہندوستان پر انگریزوں کی حکمرانی ان کی ایک غزل کا موضوع ہے، جہاں انہوں نے یہ بتایا ہے کہ مسلمان ایماندار اور باکمال ہونے کے باوجود ذلیل و خوار ہیں جب کہ گدھے کی خصلت والے یعنی نکمے اور ناکارہ لوگ مزے کر رہے ہیں۔ عقل مند اور باکمال لوگوں کو بڑا عہدہ تو دور کی بات ہے، ان کے حصے میں تو گھاس کی پتی بھی نہیں آتی جب کہ انگریز نا اہلوں کو بڑے بڑے عہدے بانٹ دیتے ہیں۔ یہاں انہوں نے درحقیقت انگریزوں کی نا انصافی پر کڑی تنقید کی ہے۔ علامہؒ قانون دان تھے اس لیے انہیں اس بات کا علم تھا کہ کس حد تک حکومتِ وقت پر تنقید کی جا سکتی۔ دوسری چیز جو اس غزل میں ہے وہ اس کا اسلوب ہے جو ان کی نظم شکوہ سے ملتا جلتا ہے۔ یہاں بھی انہوں نے اللہ تعالیٰ سے استدعا کی ہے کہ اے ربِ کائنات تیرے بندے ذلیل و خوار ہیں جب کہ تیری عبادت و ریاضت سے عاری لوگ عیاشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایک اور غزل میں چراغِ لالہ کی ترکیب استعمال کی ہے اور سورج کے لیے استعارہ بھی کیا ہے۔ صبح بہار کا منظر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چراغِ لالہ نے پہاڑوں اور وادیوں کو روشن کر دیا ہے۔ باغ میں پرندے گیت گا رہے ہیں اور مجھے بھی ایک بار پھر نغمے گانے کی ترغیب دلا رہے ہیں۔ غزل چوبیس میں نسیمِ سحر، گلِ لالہ سے مخاطب ہو کر کہتی ہے۔ اے گلِ لالہ! تو اپنے حسن و جمال کی بدولت پر کشش ہے لیکن تو مجھ سے پردہ کیوں کر رہا ہے۔ میں تو نسیم سحر اور تجھے شاداب کرنے کے لیے آئی ہوں اس لیے مجھ سے حجاب کرنا مناسب نہیں۔ غزل سینتیس میں خودی کا مضمون بیان ہوا ہے اور بتایا گیا ہے کہ تم اپنی خودی کو کھو چکے ہو اسے پھر سے حاصل کرنے کی کو شش کرو۔ جس طرح تاروں کی فضا بے کرانہ ہے تم بھی اپنے اندر ایسی ہی آرزو پیدا کرو اور تمہارے چمن کی حوریں حوریں برہنہ ہو رہی ہیں۔ اس لیے مشورہ دیا گیا ہے کہ جیسے بھی ہو گل و لالہ کے چاک سی لو تو ان حوروں کی برہنگی دور ہو جائے گی اور وہ پھر سے پردے میں چھپ جائیں گی۔ غزل پچپن میں دیکھیے لالے کے باغ میں پروان نہ چڑھ پانے کی کیسی نرالی وجہ بیان کی ہے کہ لالہ باغ میں اس لیے نہیں پنپتا کیونکہ اسے یہاں وہ آزاد ماحول میسر نہیں آتا جو صحراؤں اور پہاڑوں میں ہوتا ہے۔

تو برگِ گیا ہے نہ دہی اہلِ خرد را
او کشتِ گل و لالہ بہ بخشند بہ خرے چند
پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغِ چمن
کہ سازگار نہیں یہ جہانِ گندم و جو

بال جبریل کی ایک رباعی میں لالہ استعارتاً استعمال ہوا ہے۔ علامہ ؒ کہتے ہیں کہ چمن میں پھولوں کا لباس شبنم سے تر ہے اور باغ کے اندر قسم قسم کے پھول کھلے ہوئے ہیں جو اس کی بہار کو چار چاند لگا رہے ہیں لیکن باوجود اس کے باغ کے اندر کوئی ہنگامہ برپا نہیں ہے۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی ہے کہ لالہ کا پھول باغ میں ہنگامہ آرائی کا موجب بنتا ہے لیکن لالہ ہی اس ہنگامے سے دور ہے اس لیے چمن میں کسی قسم کا ہنگامہ نہیں ہو رہا۔ یہاں انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگرچہ دنیا میں طرح طرح کی چیزیں موجود ہیں لیکن وہ کسی کام اس لیے نہیں آ رہیں کی ان کو زیرِ استعمال لانے کے لیے محنت اور دماغ کی ضرورت ہوتی اور دورِ حاضر کا مسلمان ان سب چیزوں سے بہت دور ہے اس لیے جب تک مسلمانوں کے اندر ہنگامہ پیدا کرنے کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا اور وہ اپنے سوزِ جگر کو زندہ نہیں کرتے تب تک وہ ترقی بھی نہیں کر سکتے۔

چمن میں رختِ گل شبنم سے تر ہے
سمن ہے، سبزہ ہے، بادِ سحر ہے
مگر ہنگامہ ہو سکتا نہیں گرم
یہاں کا لالہ بے سوزِ جگر ہے

نظم ’دعا‘ جو علامہ ؒ نے مسجدِ قرطبہ میں لکھی، میں انہوں نے یہ باور کرایا ہے کہ نیک لوگوں کی مجلس میں بیٹھنے سے دل منور ہو جاتا ہے نیز ایسے لوگوں کو اللہ کی قربت میسر آتی ہے اور یہ وجد میں آ جاتے ہیں۔ ان کی مثال اس لالے جیسی ہو جاتی ہے جو لب آبجو اگا ہو اور پانی کی لہریں اسے ہمہ وقت تر و تازہ اور سرسبز و شاداب رکھیں اور اس کی سرخی ایسے روشن ہو جیسے گویا چراغ جل رہا ہو۔ علامہؒ کے اس شعر کو پڑھ کر مجھے لگا کہ جیسے علامہؒ کے سامنے مسلم کی درج ذیل حدیث رہی ہو۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں جو مجالس ذکر کو تلاش کرتے رہتے ہیں اور جیسے ہی انہیں ذکر کی مجلس ملتی ہے تو وہ اس می بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے پروں سے ایک دوسرے کو ڈھانپتے ہوئے آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتے ہیں حالانکہ وہ انہیں بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ ’تم لوگ کہاں سے آئے ہو؟‘ وہ جواب دیتے ہیں کہ ’ہم زمین سے تیرے بندوں کے پاس سے آرہے ہیں جو کہ تیری پاکی اور بڑائی، تیری توحید اور تیری حمد بیان کرتے ہوئے تجھ سے مانگ رہے تھے۔ ‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’وہ مجھ سے کیا مانگ رہے تھے؟‘ فرشتے کہتے ہیں کہ ’وہ تجھ سے تیری جنت طلب کر رہے تھے۔ ‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے؟‘ فرشتے کہتے ہیں کہ ’اے اللہ! دیکھی تو نہیں‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (تم تصور تو کرو) ’اگر انہوں نے جنت دیکھی ہوتی تو ان کی کیا کیفیت ہوتی؟‘ فرشتے کہتے ہیں کہ ’وہ تیری پناہ مانگ رہے تھے۔ ‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’کس چیز کی پناہ مانگ رہے تھے؟‘ تو وہ کہتے ہیں کہ ’اے اللہ تیری آگ سے۔ ‘ اللہ فرماتا ہے کیا انہوں نے میری آگ دیکھی ہے؟ فرشتے کہتے ہیں کہ ’اے اللہ دیکھی تو نہیں۔ ‘ اللہ فرماتا ہے (تم تصور کرو) ’اگر انہوں نے میری آگ دیکھی ہوتی تو ان کی کیا کیفیت ہوتی؟‘ وہ کہتے ہیں کہ ’وہ لوگ تجھ سے استغفار کر رہے تھے۔ ‘ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :میں نے ان کی مغفرت کردی اور وہ جو مانگ رہے تھے میں نے ان کو عطا کر دیا اور جس چیز سے پناہ مانگ رہے تھے میں نے ان کو عطا کر دی۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ ’اے اللہ! ان میں فلاں گناہ گار بندہ وہاں سے گزرتے ہوئے ان کے ساتھ بیٹھ گیا تھا۔‘ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’میں نے اسے بھی معاف کر دیا کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بھی محروم نہیں رہتا۔‘

فی الواقعہ ایسے لوگوں کو اللہ کا قرب حاصل ہو جاتا ہے جو صاف دل اور نیک لوگوں کی مجلس میں بیٹھتے ہیں۔

صحبت اہلِ صفا، نور و حضور و سرور
سر خوش و پرسوز ہے لالہ لبِ آبجو

نظم ’طارق کی دعا‘ علامہ ؒ کی چند ان نظموں میں سے ہے جو زبان زدِ عام ہیں۔ اس نظم میں انہوں نے طارق کی زباں سے ان احساسات کو بیان کیا ہے جو سرزمینِ ہسپانیہ پر قدم رکھتے ہوئے مجاہدینِ اسلام کے تھے۔ طارق بن زیاد نے ساحل پر اترنے کے بعد کشتیاں جلا ڈالی تھیں تاکہ کسی مجاہد کے دل میں شکست خوردہ ہو کر واپس جانے کا خیال تک نہ آئے۔ علامہؒ کہتے ہیں کہ ہسپانیہ کا لالہ مدتوں سے اس بات کا منتظر تھا کہ اہلِ عرب یہاں آئیں، اپنا خون بہائیں اور یوں اس کا سرخ لباس تیار ہو۔ کلامِ اقبالؒ میں لالہ چونکہ اسلام اور مسلمان کی علامت ہے اس لیے یہاں لالے کو جو خونِ عرب کی قبا چاہیے اس مراد یہ ہے کہ یہ سرزمین بھی اسلام کے رنگ میں رنگ جائے اور یہاں بھی اسلام کا بول بالا ہو جائے، ہسپانیہ کی فضاؤں میں بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا نام بلند ہو جائے۔ اس مقصد کے لیے مجاہدینِ اسلام جذبہ شہادت سے لبریز ہو کر یہاں آ گئے ہیں، انہیں فتح و نصرت سے سرفراز فرما۔

خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہیے اس کو خونِ عرب سے

نظم ’گدائی‘ میں علامہ ؒ نے حاکموں اور جاگیرداروں کی عیش و عشرت اور کسانوں کی محنت و مزدوری کو موضوع بنایا ہے۔ نظم کے تیسرے شعر میں لالہ کو سرخ شراب کے لیے تشبہاً استعمال کیا ہے۔

اس کے آبِ لالہ گوں کی خونِ دہقاں سے کشید
تیرے میرے کھیت کی مٹی ہے اس کی کیمیا

بالِ جبریل میں علامہؒ نے لالہ صحرا کے عنوان سے ایک پوری نظم لکھ کر لالہ کی اپنے کلام میں اہمیت کو واضح کر دیا ہے۔ اس نظم مین انہوں نے دلی جذبات کی ترجمانی کی ہے اور یہ باور کرایا ہے کہ لالہ کو صحرا کیوں پسند ہے، وہ کسی باغ کی زینت بننے کے بجائے پہاڑوں، صحراؤں اور جنگلوں میں اگنا کیوں پسند کرتا ہے۔

لالہ صحرا
یہ گنبدِ مینائی! یہ عالمِ تنہائی
مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی
بھٹکا ہوا راہی میں، بھٹکا ہوا راہی تو!
منزل ہے کہاں تیری اے لالہ صحرائی؟
خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و قمر ورنہ
تو شعلہ سینائی، میں شعلہ سینائی
تو شاخ سے کیوں پھوٹا، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا
اک جذبہ پیدائی! اک لذتِ یکتائی!
غوّاصِ محبت کا اللہ نگہباں ہو
ہر قطرہ دریا میں، دریا کی ہے گہرائی
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ

متعلقہ خبریں

تازہ ترین