Monday, September 16, 2024
homeادب و ثقافتنواب واجد علی شاہ، ایک فنکار فرمانروا — اقدس ہاشمی

نواب واجد علی شاہ، ایک فنکار فرمانروا — اقدس ہاشمی

سلطانِ عالم قیصر پیا واجد علی شاہ اختر، اودھ (لکھنو) کے آخری حکمران تھے، جن کی شخصیت پیچیدہ تھی اور اسی پیچیدگی نے انہیں متنازع بنایا۔ ایک طرف جہاں انگریزوں نے اودھ پر قبضے کے لیے انہیں ایک نالائق اور عیاش حکمران ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی، وہیں دوسری جانب یہ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ وہ حکمران نہ ہوتے تو بھی تاریخ انہیں ادب اور فن کے سرپرست اور ان میں عملی شریک کے طور پر یاد رکھتی۔ اگر وہ ادیب اور فنکار نہ ہوتے بلکہ صرف حکمران ہوتے تو تاریخ کے صفحات میں ان کے لیے چند سطریں ہی کافی ہوتیں۔ واجد علی شاہ کا اصل نام مرزا محمد واجد علی تھا اور تخلص اختر تھا، جسے انہوں نے اپنی ٹھمریوں میں ’اختر پیا‘ کے نام سے بھی استعمال کیا۔

30 جولائی 1822ء کو پیدا ہونے والے واجد علی شاہ کی تعلیم امینُ الدّولہ امداد حسن کی زیرِ نظر ہوئی، جن کے نام پر لکھنو کا مشہور بازار “امین آباد” قائم ہوا۔ انہوں نے تعلیم کے دوران اور بعد ازاں ذاتی جستجو کے ذریعے مختلف علوم میں مہارت حاصل کی۔ انہیں شاعری کا شوق 18 سال کی عمر میں ہوا اور انہوں نے اپنے دور حکومت کے دوران تین مثنویاں اور اپنا پہلا دیوان تحریر کیا۔ بڑے بھائی میر مصطفٰی حیدر کے باوجود، واجد علی کو ان کے والد امجد علی کے تخت نشین ہونے کے بعد 1842ء میں ولی عہد نامزد کیا گیا۔

واجد علی شاہ کی ادبی اور ثقافتی زندگی اس وقت شروع ہوئی جب بادشاہ بننے کی کوئی امید نظر نہیں آتی تھی۔ بادشاہ بننے سے بہت پہلے وہ ادیب اور موسیقی دان بن چکے تھے۔ خوبصورتی ان کی فطرت میں تھی اور انہیں رقص اور موسیقی سے فطری لگاؤ تھا۔ وہ تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال تھے جو ان کی شاعری، ڈراموں اور تعمیرات میں نمایاں ہے۔ واجد علی کی عمر پندرہ سال کی تھی جب ان کی شادی نواب یوسف علی خان بہادر سمسام جنگ کی بیٹی سے ہوئی۔

ولی عہدی کے دور میں شاہی خزانے کی خدمت ان کے سپرد کی گئی اور ان کا کام یہ تھا کہ وہ بھکاریوں کی درخواستیں پڑھیں، شاہی احکامات نافذ کریں، شہر اور دوسری جگہوں کی خبریں حاصل کریں اور اناج اور دیگر اشیائے ضرورت کی قیمتیں معلوم کریں۔ باقی وقت وہ اپنے ذاتی مشاغل میں گزارتے تھے۔ تاہم، انہوں نے خود کو سیاست سے دور رکھا۔ 1847ء میں اپنے والد کی وفات کے بعد وہ بادشاہ بنے اور ابوالْمُظفّر ناصرُالدین سکندر جہاں بادشاہ عادل قیسَر زمان سلطان عالم کا لقب اختیار کیا۔ بادشاہ کے طور پر واجد علی شاہ نے انصاف کے ساتھ کام کیا اور ایسا کوئی قدم نہ اٹھایا جس سے ان کے رعایا میں خوف و ہراس پھیلے۔

عام رواج کے خلاف انہوں نے اپنے والد کے زمانے کے بیشتر عہدیداروں کو ان کے عہدوں پر برقرار رکھا، بلکہ ان کی تنخواہیں اور مراعات میں اضافہ کیا اور رعایا کے قریب رہنے کی کوشش کی۔ ان کی حکومت کو صرف دو سال ہوئے تھے کہ وہ شدید بیمار ہو گئے اور صحتیابی میں دس ماہ کا عرصہ لگا۔ طبیبوں نے انہیں سلطنت کے انتظام کی مصروفیات ترک کرنے اور زیادہ وقت سیر و تفریح میں گزارنے کی تلقین کی۔ اس طرح انہوں نے اپنی نئی بیوی روشن آرا بیگم کے والد نواب علی نقی کو سلطنت کے امور سونپ دیئے اور خود ادب، شاعری، موسیقی اور فن کے سرپرستی میں مصروف ہو گئے۔ اور اس طرح مصروف رہے کہ زمانے نے انہیں وہ شہرت یا بدنامی دی جو ان سے منسوب ہے۔

ان کے معاصر عبدالحلیم شرر لکھتے ہیں کہ ’’واجد علی کا علمی مزاح بہت پاکیزہ اور بلند پایہ کا تھا۔ دراصل ان کے دو ذوق تھے۔ ایک ادب اور شاعری کا اور دوسرا موسیقی کا۔ وہ عربی کے عالم نہ تھے لیکن فارسی میں مہارت رکھتے تھے اور دو چار بندوں پر مشتمل مصرعے لکھتے تھے۔ وہ تحریر میں اس قدر رواں تھے کہ سینکڑوں نعتیں اور سلام لکھے اور نثر اور نظم میں اتنی کتابیں لکھیں کہ آج تک ان کا شمار نہیں ہو سکتا‘‘۔

واجد علی شاہ کو 1856ء میں معزول کر دیا گیا اور انہوں نے اپنی زندگی کے آخری اکتیس سال مٹیا برج میں گزارے اور 1887ء میں وفات پائی۔ ’’متنازعہ شخص‘‘ ہونے کے باوجود یہ دور تخلیقی طور پر بہت پُر بار ثابت ہوا۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر تقریباً سو کتابیں لکھیں جن میں عروض پر دو رسائل بھی شامل ہیں۔ انہوں نے ترتیبِ شعر میں اکسٹھ وزن ایجاد کیے اور ان کے نام رکھے جو ان کے ادبی کمال کا مظہر ہے۔

کندن لال سہگل کو کئی گیتوں اور ثقافتی شاعری کی تخلیق کا شرف حاصل ہے جنہوں نے کلاسیکی موسیقی کو عام فہم اور مقبول بنایا۔ انہیں لکھنوی ٹھمری اور بھیروی کو مقبول بنانے کا سہرا جاتا ہے اور ان کی بھیروی ٹھمری

بابل مورا نیہر چھوٹو جائے
چار کہار میرا ڈولیا سجائے
مورا اپنا بیگانو چھوٹو جائے
آنگن تو پربت بھئیو اور ڈیری بھئی بدیش
جائے بابل گھر آپنو ں میں چلی پیا کے دیس
بابل مورا نیہر چھوٹو جائے

ایک امرِ جاوداں ہے۔ انہوں نے ناٹک کے فن کو جو ایک زمانے میں پست سمجھا جاتا تھا، گلیوں سے محل تک پہنچایا اور ملک میں اردو ڈرامے کا آغاز کرنے کا سہرا انہیں جاتا ہے۔ ان کا لکھا ہوا ڈرامہ ’رادھا کنہیا‘ جو ان کی حکومت کے زمانے میں لکھا گیا، اردو کا پہلا ڈرامہ مانا جاتا ہے۔ سہگل کا بھارتی موسیقی اور تھیٹر پر گہرا اثر ہے اور ان کے کارناموں نے ملک کے ثقافتی ورثے پر دیرپا اثر ڈالا ہے۔ اس کے علاوہ امانت لکھنوی سے انہوں نے “اندر سبھا” لکھوا کر اردو ڈرامے کی باقاعدہ ابتداء کا سہرا اپنے سر باندھ لیا۔ اندر سبھا باقاعدہ پری خانے میں کھیلا گیا اور اسمیں مہاراجہ اندر کا کردار خود نواب صاحب نے ادا کیا جو کہ بذات خود ایک حیرت انگیز امر ہے۔

فلاحی شخصیت اور ادیب واجد علی شاہ نے کئی ڈرامے تیار کیے جن میں ’افسانۂ عشق‘، ’دریائے تعشق‘ اور ’بحر الُفت‘ شامل ہیں۔ ان کی تعمیر کردہ عمارات میں قصر باغ، رہس منزل وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی خود نوشت سوانح عمری ’پری خانہ‘ میں ان کی جوانی سے لے کر چھبیس سال کی عمر تک کے واقعات، عشق اور جلاوطنی شامل ہیں۔ واجد علی شاہ نے اپنی حکومت کے دوران شاہی کتب خانے کا بھی اضافہ کیا اور کولکتہ کی قید میں بھی شاعری کی، جس میں سے ایک شعر فلم ’چُو منتر‘ میں جانی واکر نے پڑھا تھا۔

در و دیوار پہ حسرت سے نظر کرتے ہیں
خوش رہو اہل وطن ہم تو سفر کرتے ہیں

یہ شعر ان کی وطن سے دوری اور جدائی کے کرب کی عکاسی کرتا ہے۔ واجد علی شاہ کی شاعری میں رومانوی اور صوفیانہ رنگ نمایاں ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے نہ صرف اپنے جذبات کا اظہار کیا بلکہ اس دور کے سماجی و سیاسی حالات کی بھی عکاسی کی۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر کتب میں حزن اختر، ارشادِ خاقانی، دفتر غم و بحر الم، مثنوی سلطان عالم، مثنوی خاقان سرور، پری خامہ (خودنوشت سوانح عمری), ضیاۓ اختر، عشق نامہ وغیرہ شامل ہیں۔اسیری کے دوران واجد علی شاہ نے اپنی بیگمات سے مراسلت جاری رکھی اور وہ خطوط اردو ادب میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ واجد علی کے خطوط کے مجموعے مختلف ادوار میں شائع بھی ہو چکے ہیں۔ واجد علی شاہ نے لکھنؤ کو فنون لطیفہ کا گہوارہ بنا دیا تھا۔ انہوں نے گانے، بجانے، ڈرامے، شاعری اور راگ راگنی جیسے فنون کو فروغ دیا۔ انہوں نے لکھنؤ میں قیصر باغ بارہ دری بنوائی جو فنون لطیفہ کی تعلیم و تربیت کا ایک بہترین مرکز تھا۔ اس عمارت میں انہوں نے اپنے زمانے کے بہترین فنکاروں کو جمع کیا ہوا تھا۔

واجد علی شاہ نے موسیقی کے میدان میں بھی کئی نئے تجربات کیے۔ انہوں نے خود کئی نئے راگ اور راگنیوں کی ایجاد کی اور ان پر کتابچے بھی لکھے۔ ان کی لکھی ہوئی کتابچوں کی تعداد سو سے بھی زائد تھی۔ انہوں نے موسیقی کے رموز کو بہت اچھی طرح سمجھا تھا اور انہوں نے اسے اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ بنا لیا تھا۔ واجد علی شاہ نے استاد باسط خاں، پیارے خاں اور نصیر خاں جیسے بڑے فنکاروں سے موسیقی کا سبق حاصل کیا تھا۔ انہوں نے ان فنکاروں کی مدد سے موسیقی اور رقص کے رموز کو سیکھا اور پھر انہیں دوسروں کو سکھایا۔ واجد علی شاہ کا فن، موسیقی، رقص، تھیٹر اور تعمیر پر محیط تھا۔ انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے لکھنو کو ایک ثقافتی مرکز بنایا۔ ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں نے انہیں تاریخ میں ایک پیچیدہ اور متنازع شخصیت کے طور پر پیش کیا ہے، لیکن ان کی فن پارگی اور ادب کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

آہ کرنے سے تو سب لوگ خفا ہوتے ہیں
اے نسیمِ سحری ہم تو ہوا ہوتے ہیں

متعلقہ خبریں

تازہ ترین