Thursday, November 21, 2024
homeاہم خبریںیوگا کی وجہ سےمالدیپ میں بھارت مخالف لیڈر صدر منتخب ہونے میں...

یوگا کی وجہ سےمالدیپ میں بھارت مخالف لیڈر صدر منتخب ہونے میں کامیاب ہوگیا

نوراللہ جاوید

35 سال قبل 3؍ نومبر 1988 کو جب مالدیپ کے صدر مامون عبدالقیوم کے خلاف تیسری مرتبہ سب سے بڑی بغاوت ہوئی تھی، سری لنکائی جنگجوؤں کی مدد سے مالدیپ کے تاجر عبداللہ لطفی کی قیادت میں مالدیپ کے اہم مقامات پر قبضہ کرلیا گیا تھا، تب مامون عبدالقیوم نے بھارت سے مدد کی اپیل کی تھی۔ سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ساوتھ بلاک میں چند گھنٹے کی میٹنگ میں مالدیپ میں فوجی مداخلت کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ چنانچہ بھارتی افواج کا پہلا دستہ آگرہ ایربیس سے براہ راست مالے کے ایرپورٹ پر اترنے میں کامیاب ہوگیا اور بھارت کے چھاتہ بردار فوجیوں نے چند گھنٹوں کی مشقت کے بعد ہی اس بغاوت کو ناکام بنا دیا۔ بھارتی افواج کی اس مہم کو ’’آپریشن کیکٹس‘‘ کے نام سے یا د کیا جاتا ہے۔ آپریشن کے تحت باغیوں کا بحرہند میں کئی سو کلو میٹر تک تعاقب کرتے ہوئے بغاوت کے ہر کردار کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس آپریشن میں کل 19 افراد کی جانیں گئیں۔ 68 سری لنکائی جنگجوؤں اور 7 مالدیپ کے شہریوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان کے خلاف مقدمات چلائے گئے۔ بغاوت میں کلیدی کردار ادا کرنے والے تاجر عبداللہ لطفی سمیت چار افراد کو سزائے موت دی گئی مگر سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کی سفارش پر سزائے موت کو تبدیل کر دیا گیا۔ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں بھارتی افواج کے کامیاب مشن کے بعد مالدیپ میں یہ دوسری سب سے بڑی کامیابی تھی۔ مالدیپ میں طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والے مامون عبدالقیوم کا دور حکومت مالدیپ اور بھارت تعلقات کا عہد زریں تھا۔ کیرالا کے دارالحکومت تروننتاپورم سے 600 کلومیٹر دور واقع جزیرہ نما ملک، بھارت کے لیے بہت ہی اہم ہے۔ بھارت کو درآمد ہونے والا 80 فیصد تیل بحر ہند میں مالدیپ کے پاس سے ہی گزرتا ہے۔ 2023 تک مالدیپ کے لیے بھارت سب سے قابل بھروسا اور قابل اعتماد دوست ملک تھا۔ سیاحت مالدیپ کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور سیاحوں میں بڑی تعداد بھارتی شہریوں ہی کی ہے۔ صحت مند غذا کی فراہمی میں بھارت کا کلیدی کردار ہے۔

مگر 35 سال بعد نومبر کا ہی مہینہ ہے جب مالدیپ کی باگ ڈور ایک ایسا شخص سنبھال رہا ہے جس نے ’’انڈیا آوٹ ‘‘مہم کی قیادت کی تھی اور جو بھارتی افواج کے علامتی موجودگی کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ ’’آپریشن کیکٹس‘‘ کے لیے تشکر اور محبت کے جذبات رکھنے والے مالدیپ میں آخر گزشتہ تین دہائیوں میں کیا تبدیلی آئی کہ وہاں کے عوام بھارت مخالف مہم کی حمایت کر رہے ہیں۔ مالدیپ اور بھارت کے درمیان تعلقات جغرافیائی و تہذیبی اعتبار سے بہت ہی مضبوط رہے ہیں۔ بھارت ہمیشہ مالدیپ کی مدد کرنے والا پہلا ملک رہا ہے۔ 2004 کی سونامی اور دسمبر 2014 میں مالے میں پانی کے بحران کے دوران سب سے پہلے بھارت نے ہی مالدیپ کی مدد کی تھی۔ وبائی مرض کے عروج کے دوران جب امیر ممالک خوراک جمع کرنے اور گلوبل ساؤتھ کی قیمتوں کا تعین کرنے میں مصروف تھے تو بھارت نے وہاں ویکسین کی ایک لاکھ خوراکوں کی پہلی کھیپ بھیجی تھی۔ بھارت نے جنوری 2020 میں خسرہ کی وبا کو روکنے کے لیے ویکسین کی تیس ہزار خوراکیں روانہ کیں۔

مگر سوال یہ ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں میں کیا حالات تبدیل ہوئے کہ مالدیپ بھارت کے خیمے سے نکل کر چین کے خیمے میں جانے کو ترجیح دے رہا ہے؟ اس تبدیلی کے بھارت پر کیا جغرافیائی و سیاسی اثرات مرتب ہوں گے؟کیا یہ بھارت کے لیے ایک بڑا جھٹکا ہے۔ کیا مالدیپ میں جہاں بھارت نے پچاس ملین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کر رکھی ہے، جہاں کئی بھارتی کمپنیوں نے تعمیراتی ٹھیکے لے رکھے ہیں، کیا نئی تبدیلی کے ان پر اثرات مرتب ہوں گے؟ مالدیب میں عام انتخابات کے نتائج آنے کے بعد سے ہی بھارت کے میڈیا کا ایک حصہ مالدیپ کو جہاں 98 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے، شدت پسند ثابت کرنے میں مصرف ہوگیا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی کئی رپورٹوں کا حوالہ دیا جا رہا ہے کہ مالدیپ میں شدت پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ داعش اور ممنوعہ تنظیموں کی مالی مدد مالدیپ کے راستے سے ہو رہی ہے۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ جب امریکی وزارت خارجہ کی یہی رپورٹیں بھارت میں مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے ساتھ تعصب سے متعلق آتی ہیں تو بھارتی حکومت اور میڈیا بیک زبان اس رپورٹ کی تردید اور بھارتی امور میں مداخلت سے تعبیر کرنے لگتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آج نہ تو امریکہ اور اقوام متحدہ کو اور نہ ہی یورپی یونین کو حقوق انسانی اور انسانیت سے متعلق کوئی رپورٹ شائع کرنے کا اخلاقی حق ہے۔ کیوں کہ سبھوں کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔

مالدیپ کا بھارت کے بجائے چین کی طرف جھکاو کا آغاز 2013 میں عبداللہ یامین کے دور اقتدار میں ہی شروع ہوگیا تھا۔ انہوں نے ’انڈیا فرسٹ‘ کے بجائے چین اور چینی کمپنیوں کو ترجیح دینا شروع کیا۔ کئی اہم تعمیراتی ٹھیکے چینی کمپنیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ تاہم روایتی خارجہ پالیسی کوئی اہم تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ 2018 کے انتخابات میں بھارت نواز محمد ابراہیم ابو صالح نے انتخاب میں کامیابی حاصل کی۔انہوں نے ’’انڈیا فرسٹ پالیسی‘‘ اختیار کی اور مالدیپ کی سیکیورٹی پالیسی، اقتصادی اور ترقیاتی تعلقات میں ڈرامائی طور پر بھارت کو ترجیح دینا شروع کیا۔ ابراہیم محمد ابو صالح کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ انہوں نے اپنے پیش رو عبد اللہ یامین کو بدعنوانی کے الزامات میں گیارہ گیارہ سال کے لیے جیل بھیج دیا۔ عبداللہ یامین نے پہلی مرتبہ 2020 میں ’’انڈیا آوٹ‘‘ مہم کا نعرہ دیا تھا مگر اس وقت اس نعرے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی اور اس کو ایک ہتھکنڈے کے طور پر لیا گیا تھا لیکن محض دو سال بعد یہ نعرہ سب سے کامیاب ثابت ہوا۔

’’انڈیا آوٹ‘‘ مہم کی مالدیپ کے 50 فیصد سے زائد عوام نے حمایت کی۔ بھارت مخالف جذبات کوئی حالیہ مہینوں میں پروان نہیں چڑھے ہیں اور نہ ہی کوئی وقتی ہنگامہ آرائی کی وجہ سے یہ سب ہوا ہے، بلکہ گزشتہ ایک دہائی یا اس سے زیادہ عرصے سے اس ملک میں بھارت مخالف جذبات میں شدت آئی ہے۔ تاہم مالدیپ کے سیاسی امور کے ماہر بتاتے ہیں کہ بھارت مخالف مہم اس وقت عروج کو پہنچی جب جون 2022 میں وزارت خارجہ کی ہدایت پر بھارتی ہائی کمیشن نے مالدیپ میں بڑے پیمانے پر یوگا کا اہتمام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے ایک اسٹڈیم بک کیا گیا مگر 21 جون 2022 کو ایک ہجوم نے اسٹڈیم پر دھاوا بول دیا۔ پولیس کو صورت حال پر قابو پانے کے لیے آنسو گیس اور کالی مرچ کے اسپرے کا استعمال کرنا پڑا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن میں یہ لکھا تھا کہ یوگا اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔ یوگا کے ایونٹ میں رکاوٹ نے 2023 کے انتخابات کے لیے مہم کے تھیم کی بنیاد رکھی۔ بھارت مخالف بیان بازی اس وقت سے پی پی ایم کی مہم کے نکات میں اہم شامل ہو گئی۔ بھارت میں رونما ہونے والے واقعات سے بھی مالدیپ کے نو منتخب صدر کی مہم کو مدد ملی۔ محمد معز کے ایک حامی کہتے ہیں کہ بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے حملے کا ہر ایک واقعہ مالدیپ میں پروپیگنڈے کے لیے گولہ بارود ہے۔

بھارت میں قوم پرست حکمراں ایک طرف عوامی مقامات پر ضرورت کے مطابق نماز کی ادائیگی کو جرم کا حصہ بنا دیتے ہیں بلکہ اتر پردیش میں گھروں میں اجتماعی نماز پڑھنے پر بھی مقدمات بنائے گئے ہیں تو دوسری طرف یہ امید بھی قائم کرتے ہیں کہ اس کے اثرات دوسرے ملکوں کو منتقل نہ ہوں۔مالدیپ میں یوگا ایونٹ کو بھارت کی تہذیبی بالادستی کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ بھارت مخالف قوتوں نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ بھارت اپنی تہذیب و ثقافت کو تھوپنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ بھارت کا یہ تضاد کافی دنوں تک نہیں چلنے والا ہے۔ بی جے پی کی دہری پالیسی بھارت کے جغرافی و سیاسی منظر نامے کے لیے ایک ڈراونا خواب ثابت ہوتی جا رہی ہے۔

مالدیپ کے 2023 کے انتخاب کو بھارت کو گھیرنے کے لیے چین کی ’’موتیوں کے تار‘‘ کی حکمت عملی کو ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ’’موتیوں کے تار‘‘ سے مراد بندرگاہوں اور اس سے منسلک سہولتوں کی ایک سیریز ہے جو چینی سرزمین سے قلب افریقہ میں جیبوتی کی بندرگاہ تک پھیلی ہوئی ہے۔ بحر ہند کے علاقے میں گوادر (پاکستان) ہمبنٹوٹا (سری لنکا) چٹاگانگ (بنگلہ دیش) اور سیٹوے (میانمار) جیسی بندرگاہوں کی تعمیر میں چین کی حصہ داری بھارت کو گھیرنے کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ تاہم چین کا دعویٰ ہے کہ یہ تعیناتی اس کے تجارتی مفادات کے تحفظ کے لیے ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان 2013 میں چین کے ترقیاتی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبے میں شامل ہونے والا پہلا ملک تھا۔ سری لنکا اور مالدیپ نے بالترتیب ہمبنٹوٹا بندرگاہ اور سینامالے پل کی ترقی کے ساتھ 2014 میں اس منصوبے کی پیروی کی۔ میانمار اور بنگلہ دیش 2016 میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو (BRI) میں شامل ہوئے جبکہ نیپال 2017 میں شامل ہوا۔ چین نے ان تمام ممالک میں جو بندرگاہیں یا ان سے منسلک سہولتیں مہیا کی ہیں اس سے ان ممالک میں گرفت کو مضبوط کرنے میں اسے مدد ملی ہے ۔

پاکستان سے دشمنی عیاں ہے اور چین سے کشمکش کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک دوسرے سے طاقتور بننے کی مہم نے دونوں ممالک کو الگ الگ خیمے تقسیم کر دیا ہے۔ میانمار، نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش اور بھوٹان پڑوسی ہونے کی وجہ سے بھارت کے لیے اہم ممالک ہیں مگر یہاں بھی چین اپنی پوزیشن مضبوط کرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں اگلے سال جنوری میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ بنگلہ دیش میں سیاسی حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔بنگلہ دیش کے سیاسی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ مہنگائی و بے روزگاری نے بنگلہ دیشی عوام کو وزیر اعظم حسینہ واجد سے بدظن کر دیا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے میں یہ تاثر قائم ہوا ہے کہ حسینہ واجد کی لگاتار کامیابیوں کے پیچھے بھارت کی غیر مشروط حمایت کار فرما ہے۔ اگر بنگلہ دیش میں سیاسی تبدیلی آتی ہے تو یہ بھارت کے لیے ایک بڑا جھٹکا ثابت ہوگا۔ شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کو بنگالی مسلمانوں کو دربدری کے طور پر بنگلہ دیش میں دیکھا جاتا رہا ہے۔

مالدیپ میں بھارت کی فوج کی موجودگی محض علامتی ہے۔ وہاں چند فوجی اہلکار اور ایک ہیلی کاپٹر کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔دراصل آوٹ انڈیا کے پیچھے سیاسی عزائم ہیں اور بھارتی فوج کے نام پر بھارت کو چیلنج کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگرچہ انتخابات کے نتائج کے بعد بھارت حالات کو معمول پر لانے کے لیے کوشاں ہے جیسا کہ محمد معز کو مبارکباد سب سے پہلے وزیر اعظم نریندر مودی نے ہی دی ہے۔ ادھر محمد معزز نے بھارتی ہائی کمیشن سے ملاقات کی اور کئی امور پر تبادلہ خیال بھی کیا ہے۔ محمد معزز کے ایک سیاسی معاون نے انگریزی ویب سائٹ ’دی وائر‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ محمد معز 17؍ نومبر کو حلف لینے کے بعد روایت کے مطابق سب سے پہلا غیر ملکی دورہ بھارت کا ہی کریں گے۔ کہتے ہیں کہ دراڑ ایک مرتبہ پڑنے کے بعد مٹانا کافی مشکل ہوتا ہے اس لیے دیکھنا ہوگا کہ وزیر اعظم مودی اور ان کی خارجہ پالیسی مرتب کرنے والی ٹیم مالدیپ کے انتخابات کے نتائج کے تدارک کے لیے کیا اقدامات کرتے ہیں۔اقتصادی، سیکیورٹی اور سیاسی اعتبار سے مالدیپ اور بھارت کے درمیان متواتر تعلقات کا قائم رہنا اس پورے خطے کے لیے ضروری ہے ورنہ عدم توازن مشکلات کھڑی کرسکتا ہے۔
***

متعلقہ خبریں

تازہ ترین