دارالعلوم دیوبند کے ممتاز محدث مولانا حبیب الرحمن اعظمی کا انتقال
مولانا حبیب الرحمن قاسمی کا انتقال ناقابلِ تلافی علمی و ملی نقصان: مولاناارشدمدنی
نئی دہلی:
دارالعلوم دیوبند کے ممتاز استاذ،علم حدیث و فن اسماء الرجال میں دست گاہ رکھنے والے عالم مولانا حبیب الرحمن اعظمی بھی رحلت فرماگئےـ
سنن ابو داؤد کے سبق کے دوران مولانا علم حدیث کے ممتاز استاذ اور کئی اہم کتابوں کے مصنف تھے ـ آپ نے علمِ حدیث کے متعلقات پر کئی اہم کتابیں لکھیں، امام ابوداؤد کے اساتذہ پر عربی تصنیف، علم حدیث کی حجیت پر ایک رسالہ، لگ بھگ تین عشروں تک ماہنامہ “دارالعلوم ” کی ادارت کی، اس میں شائع ہونے والے علمی، تاریخی و سوانحی مضامین مقالاتِ حبیب کے نام سے تین جلدوں میں شائع ہوئےـ پہلی جلد میں ہندوستان میں احیاے علم و فکر، صحابۂ کرام کی عظمت اور فرقِ باطلہ کے تعاقب پر مشتمل مضامین شامل ہیں، دوسری جلد میں مختلف عبادتوں اور سماجی زندگی سے متعلق مسائل پر دقیق بحثیں کی ہیں، تیسری جلد میں سیرت پاک، ازواج مطہرات، تعدد ازدواج، اجودھیا کی تاریخی حیثیت، امام ابو حنیفہ، اجودھیا کے مشاہیر علما و مشائخ اور دیگر ارباب فضل و کمال کا تذکرہ ہےـ ان کے علاوہ بھی مولانا نے کئی اہم علمی و فکری کتابیں تصنیف کیں ـ ان کا درسِ حدیث اپنے خاص رنگ و آہنگ کی وجہ سے طلبہ و علما میں بے پناہ مقبول تھاـ جب وہ مسندِ تدریس پر بیٹھے ہوتے اور بولنا شروع کرتے تو معلومات کا آبشار بہتا اور فن حدیث کی باریکیوں اور لطائف و نکات پر دلچسپ و معلومات افزا گفتگو کرتےـ مولانا اپنے وطن اعظم گڑھ میں تھے، وہیں طبیعت خراب ہوئی جس کے بعد انھیں داخل ہسپتال کیا گیا تھا مگر مولانا جاں بر نہ ہو سکے اور آج ان کا انتقال ہوگیاـ مولانا کا تعلق جگدیش پور اعظم گڑھ سے تھا، 1945میں پیدایش ہوئی، مطلع العلوم بنارس اور دارالعلوم مئو میں ابتدائی و ثانوی عربی تعلیم حاصل کی اور 1962میں دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کی تکمیل کی ـ 1965میں جامعہ اسلامیہ بنارس میں استاذ بنائے گئےـ 1982میں دارالعلوم دیوبند میں انتظامیہ کی تبدیلی اور انقلاب کے بعد، دارالعلوم نے ان کی خدمات حاصل کیں ـ یہاں مشکوة المصابیح اور سنن ابوداؤ جیسی اہم کتابیں ان کے زیر تدریس رہیں ـ وہ لگ بھگ پینتیس سال دارالعلوم کے رسالہ “دارالعلوم ” کے مدیر بھی رہےـ
دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث مولانا حبیب الرحمن قاسمی کے ارتحال پرملال پر اپنے گہرے رنج وصدمہ کا اظہارکرتے ہوئے صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا سیدارشدمدنی صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبندنے کہا کہ مولانا قاسمی کے انتقال سے علمی، ملی اورجماعتی دنیا میں جوخلاپیداہواہے اس کی تلافی مشکل ہے، مولانا حدیث، علم رجال اورتاریخ پر مہارت رکھتے تھے، اور ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا، صاف گوئی، معاملہ فہمی اوردلائل کی پختگی ان کے خاص اوصاف تھے۔ دارالعلوم دیوبند کی نشاۃ ثانیہ میں ان کی تعلیمی خدمات سنہرے حروف میں لکھی جائے گی، انہوں نے تقریباچالیس سال سے زائد سے دارالعلوم دیوبند میں استاذکی حیثیت سے اپنے فرائض منصبی بحسن وخوبی انجام دیئے، وہ دارالعلوم دیوبند کے ترجمان ماہنامہ دارالعلوم کے ایک طویل عرصہ تک ایڈیٹربھی رہے، اس درمیان انہوں نے کئی تاریخی، علمی،تحقیقی کتابیں تصینف کیں جوعلمی حلقہ میں مقبول ہوئیں، مولانا نے بیت العلوم سرائے میر، دارالعلوم مؤسے موقوف علیہ تک کی کتابیں پڑھ کر 1963میں دارالعلوم دیوبندمیں دورہ حدیث میں داخلہ لیا،اور 1964میں فارغ التحصیل ہوئے، فراغت کے بعد مدرسہ اسلامیہ منگرواں،شیراز ہند جونپورکی بڑی مسجد قرآنیہ، بنارس کے جامعہ اسلامیہ میں تعلیم دی اور پھر دارالعلوم دیوبند آگئے او رتشنگان علوم کی علمی پیاس بجھانے کا بیڑہ اٹھالیا، افسوس وہ آج ہم سے رخصت ہوگئے، اللہ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عنایت فرمائے اور بال بال مغفرت فرمائے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ مولانا قاسمی ؒ ایک مدت سے جمعیۃعلماء ہند کی مجلس عاملہ کے رکن رکین چلے آرہے تھے، میٹنگ کی کارروائیوں میں پوری دلچسپی لیتے اور مضبوط وٹھوس دلائل کے ساتھ اپنی بات رکھتے، مصلحت پسندی سے ان کی باتیں بہت دورہوتی تھیں وہ ”زمانہ یاتونہ سازوتوبازمانہ ستیز“کے قائل نہیں تھے،میٹنگ کی اکثر وبیشترتجاویز انہی کے قلم کی مرہون منت ہیں۔مولانا مدنی نے جماعتی احباب، ارباب مدارس اور دارالعلوم دیوبند کے منسلکین سے مولانا مرحوم کے لئے دعاء مغفرت اور زیادہ سے زیادہ ایصال ثواب اورپسماندگان، اعزاواقارب کے لئے صبر جمیل کی دعاء کی درخواست کی ہے۔