Monday, December 8, 2025
homeاہم خبریں2023میں یو اے پی اے کے تحت 2914گرفتاریاں ہوئیں۔ مگر سزاکی شرح...

2023میں یو اے پی اے کے تحت 2914گرفتاریاں ہوئیں۔ مگر سزاکی شرح محض 4فیصد

کلکتہ :2023 میں غیر قانونی سرگرمیوں (روک تھام) ایکٹ یعنی یو اے پی اے کے تحت ملک بھر میں قریب تین ہزار گرفتاریاں ہوئیں، جبکہ سزائیں انتہائی کم رہیں۔ یہ بات حکومت نے منگل کو پارلیمنٹ کو بتائی۔

لوک سبھا میں ایک تحریری جواب میں وزیر مملکت برائے داخلہ نتی آنند رائے نے بتایا کہ 2023 میں یو اے پی اے کے تحت پورے ملک میں2914افراد کو گرفتار کیا گیا۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (این سی آر بی) کے اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے صرف 118 کو سزا ہوئی۔

اعداد و شمار کو جوڑ کر دیکھیں تو 2019 سے 2023 کے دوران صرف 335 افراد کو سزا ہوئی، جبکہ اس عرصے میں10440افراد گرفتار کیے گئے۔ یعنی سزاؤں کی شرح صرف3 .2فیصد رہی۔

یہ اعداد و شمار کانگریس رکن پارلیمنٹ شفی پرمبل کے سوال کے جواب میں دیے گئے، جنہوں نے گزشتہ پانچ سالوں میں اس قانون کے تحت گرفتار، سزا یافتہ اور فی الحال جیلوں میں بند افراد کی ریاستی سطح پر تفصیلات مانگی تھیں۔

رائے نے کہا کہ پولیس اور تفتیش ریاستی حکومتوں کے دائرہ کار میں آتی ہے، اور مرکز این سی آر بی کی سالانہ ’’کرائم ان انڈیا‘‘ رپورٹ پر انحصار کرتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یو اے پی اے کے الزام میں فی الحال جیلوں میں بند افراد کا ڈیٹا این سی آر بی نہیں رکھتا ہے۔

2023 میں سب سے زیادہ گرفتاریاں اتر پردیش میں1122اور جموں و کشمیر میں1206ہوئیں۔ کئی ریاستوں بشمول گوا، ہماچل پردیش، میزورم اور سکم نے 2019-2023 کے دوران ایک بھی گرفتاری رپورٹ نہیں کی۔

ملک بھر میں سزاؤں کی شرح بہت کم رہی۔متعدد ریاستوں نے کئی سالوں میں صفر سزائیں رپورٹ کی گئیں حالانکہ گرفتاریوں کی تعداد زیادہ تھی۔ 2023 میں دہلی نے 24 سزائیں رپورٹ کی گئی جو مرکزی خطوں میں سب سے زیادہ تھیں، جبکہ اتر پردیش میں 75 سزائیں ہوئیں۔

کل ملا کر اس قانون کے تحت گرفتاریوں میں حالیہ برسوں میں زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے: 2021 میں1, 621،2022 میں 2,636اور 2023 میں2914

یو اے پی اے، جو بھارت کا بنیادی انسداد دہشت گردی قانون ہے، حقوق انسانی گروپوں کی جانب سے سخت ضمانت کے ضوابط اور “غیر قانونی سرگرمی” کی وسیع تعریف کی وجہ سے شدید تنقید کی زد میں رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ دوسری طرف حکومت بارہا اس قانون کو قومی سلامتی کے لیے ناگزیر قرار دیتی رہی ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین