رکن تاسیسی آل انڈیا ملی کو نسل
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدور پیدا
لوگوں کے دلوں پر ساٹھ سال تک راج کرنے والا شخص یوسف خان ادھر چند ما ہ سے موت وحیات کی جنگ لڑتے ہوئے بالاخر 7جولائی 2121عالم بالا کو کوچ کرگیا جہاں سے لوٹ کو ئی بھی نہیں اتا۔
یوسف خان بہت ہی شفیق ہمدرد اورہم جہت شخصیت کے مالک تھے ۔انہوں نے لاکھوں لوگوں کے دلوں پر ایسی حکمرانی کی جس کودنیا بھلانہیں پائے گی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ساکھ میرے دل میںایسی بیٹھائی کہ ابھی لگ رہاہے کل ہی کاواقعہ ہے جب میں ان کے ساتھ بیٹھ کرہم جہت مسائل پرگفتگوکررہاتھا۔
یوسف خان کی چند ایسی خوبیاں مجھ پر عیاں ہوئیں ہیں جس کا تذکرہ بہت ہی ضروری سمجھتاہوں ۔یوسف خان عرف دلیپ کمار کو دنیا ایک ادار کار سے جانتی اورمانتی ہے ۔ جب ہم ان موازنہ فلمی دنیا کے بڑے بڑے اداکاروں سے کریںتو ان کا قد بہت ہی بلند وبالا نظر اتاہے جو عین تقاضا ہے قارئین کے سامنے یہ مدنظر رہے کہ میں یہ بات فتوے کی زبان میں نہیںلکھ رہاہوں بلکہ دلی احساس کی ترجمانی کررہاہوں ۔
تاریخ صحیح طور پر یاد نہیں لیکن 20-25سال قبل یوسف خان جب کویت تشریف لائے تھے اس وقت ہندوستانیوں نے جس گرم جوشی سے یوسف خان کا استقبال کیا اسے بھلانا مشکل ضرورہے ان کے بہت سارے مقامات پر پروگرام ہوئے اورساتھ ہی ہندوستانی سفارت خانہ نے پورے جوش وخروش کے ساتھ ان کے قدم بہ قدم رہی اس وقت Mr. B.M.C. Nayar جو کویت میں August 1995 – September 1998تک سفیر رہ چکے ہیں اوران کا انتقال ۱۵ جون ۲۰۱۸ء کو چنئی میں ہوگیا ہے ۔ انہوں نے کچھ رقم دینی چاہی تو یوسف خان نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ میرے ساتھ محمد ہوشدار خان ہیں ان سے لے لوں گا۔ آپ یقین کریں یا نہ کریں انہوں نے ذاتی طور پر مجھ سے خود کہاتھاکہ میرے گھر پر صباحیہ قرانی مدرسہ چلتاہے اس کے لیے قاعدہ بغدادی کی ضرورت ہے تاکہ بچے پورا فائدہ اٹھاسکیں۔
میرے بڑے بھائی مظہرالدین خان صاحب سعودی سے ترکی جائے نماز بھیجی تھی جو کافی دبیز اور موٹی اور اچھی تھی میں ان کو عنایت کیا اور کہاکہ اس پر اپ نماز پڑھیں اور ہمیں دعائیں دے تو انہوں نے کہا کہ موٹی والی جائے نماز میری رفیقہ حیات کو دیں تاکہ اس پروہ نماز پڑھ سکیں کیونکہ ان کے گھٹنے میں درد ہوتاہے او روہ تہجد گزار ہیں اور پتلی والی مجھے عنایت کریں ۔
کچھ دیر تک میں سوچ میں پڑگیا کہ جن کا امیج ہمارے ذہنوں میں اداکاری رقاصی کے دلدادہ جیسے ماحول میں جی رہے ہیں تعجب اس کا ہے کہ ان کے گھرمیں صباحیہ قرانی مدرسہ کا چلنا میرے لیے کیا تمام قارئین کے لیے باعث تعجب ضرورہوگا۔لیکن دلوں کا حال اللہ بہتر جانتاہے کہ ایمان کی چنگاری کبھی نہ کبھی روشن کرتی ہے ۔ یوسف خان نے کویت کی خصوصی ایک چھوٹی اورمختصر سی مجلس میںقرآن کی ایت پڑھ کر اس کی تشریح کی تھی ۔
یوسف خان ایک رفاہی ادارہ کے بھی منتظم تھے ۔ ۱۹۹۱ء میں جب ممبی میںبھیانک فسادات ہوئے تھے جس میں مسلمانوں کا کافی نقصان ہواتھا۔ اہل شہر زیادہ تر اپنے گھروں میں ہی تھے محصور تھے اورپورا شہر کرفیو کی وجہ سے ویران تھااورلوگ دانے دانے کے محتاج تھے توایسے وقت میں یوسف خان کا رفاہی کام کرناجوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا ۔نے اس گواہی صحافی حضرات کے علاوہ مقامی لوگ ہی دے رہے ہیں ۔
اس وقت سالار ملت جناب صلاح الدین اویسی صاحب مرحوم حیدراباد کی جانب سے ان فساد زدگان کے لیے پجیس لاکھ روپئے یوسف خان کی خدمت میں پیش کیا تھا جس کا میں خود شاہد ہوں ۔ اس کے علاوہ میں نے بھی ایک بڑی رقم اس یوسف خان کے رفاہی ادارہ کو پیش کی تھی ۔
ہمارے بعض جاننے والوں کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ مفسر قران مولانا عبد الکریم پاریکھ صاحب مرحوم یوسف خان کے گھر گئے تھے نماز کا وقت ہوگیا یوسف خان نے پاریکھ صاحب مرحوم کو نماز کی امامت کے لیے اشارہ کیا تو پاریکھ صاحب نے کہاکہ اہل خانہ ہی امامت کریں ۔ تب یوسف خان نے امامت کی اور تلاوت بڑی ہی دلسوز اوازمیںکی جس سے اندازہ لگا کہ یوسف خان فلمی دنیاکے انسان کچھ اور ہیں اور گھرکے کچھ اور ۔
ایک واقعہ کا تذکرہ کرنا مناسب سمجھتاہوں کہ یوسف ملت کی لیے کتنا درد رکھتے تھے ۔جب گورنمنٹ نے سالارملت صلاح الدین اویسی صاحب کے میڈیکل کالج کا لائیسنس کسی رنجش کی وجہ سے منسوخ کردیا تویوسف خان ممبی سے حیدراباد تشریف لے گئے اور اس وقت کے وزیر اعلی این ٹی راماراؤ سے ملاقات کی راماراؤ یوسف خان کے قدموں میں گرگئے اور کہاکہ اپ نے کیوں تکلیف کی اگرمجھے کہتے تو میں خود آجاتا تو خان صاحب نے فرمایاکہ میں صرف اس لیے آیا ہوں کہ اپ سالار ملت کے میڈیکل کالج کے لائیسنس کی منسوخ کو ختم کردیں ۔ یوسف خان کی شخصیت ایسی تھی کہ بالاخر راماراؤ نے منسوخی ختم کردی اور میڈیکل کالج پھر اپنے پرانے حال پراگیا۔اس طرح کے بہت سارے واقعات جو لوگوں کے سامنے بھی ہیں اور پوشیدہ بھی ہیں ۔
یوسف خان عرف دلیپ کمار واقعتاایک اچھے انسان اور ایک اچھی شخصیت کا نام تھاجو اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کی یادیں ان کی باتیں ان کاکام اور قوم وملت کے لیے جو کچھ کیا تھا وہ زندہ اور لوگوں کے دلوں پرحکمرانی کرتی رہیں گی اللہ تعالی مرحوم کی لغزشوں کومعاف فرمااور انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاکر۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ ان کی شریک حیات سائرہ بانو کی خدمات کو بھی بھلایا نہیں جاسکتا انہوں نے جتناہوسکا یوسف خان کی حق زوجیت کا پوراپورا حق اداکیاہے۔