فرحانہ فردوس
بہت ہی کم عمری میں شاعری اور ناول لکھ کر شہرت حاصل کرنے والی’ شیرین سلطانہ‘ کی نئی کتاب’’A world Divided: Human Right in An Unequal world‘‘اس وقت میرے ہاتھوں میں ہے ۔ابھی عام قاری کے ہاتھوں میں نہیں پہنچا ہے ۔اس کتاب کا رسم اجرا 25ستمبرکو کلکتہ کے پارک ہوٹل میں ایک تقریب میں ہونے جارہا ہے۔ شیریں سلطانہ نے اپنی اس کتاب میں حقوق انسانی کے مشہورکارکن ،قائد اردو شمیم احمد کے 25سالہ جدو جہد کے سفر کو کاغذ پر اتارنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے احساسات کا اظہار اس طرح کیا ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے 70سال بعد بھی ہندوستان میں تاریکیاں ہیں اورروشنی کا سفر ادھورا ہے ۔ بہت سے سارے الجھےہوئے سوالوں کا جواب تلاش نے کی کوشش کرتے ہوئے یہ سوال ملک کے سامنے پیش کیا ہے کہ آخر آزادی کے 7دہائیوں بعد بھی ملک کی ایک تہائی آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کیوں ہے؟۔ملک کی ترقی اور روشنی کی کرنیں عام لوگوں کی زندگی کو منور کیوں نہیں کررہی ہے؟انصاف کے حصول تک عام شہریوں کی رسائی کیوں نہیں ہے،؟۔ان سوالوں کے جوابات تلاش نے کے دوران شیریں سلطانہ مایوس ہوجاتی ہیں اور مگر اس درمیان ان کی ملاقات قائد اردو شمیم سے ہوتی ہے۔ اندھیروں میں چراغ روشن کرنے کی ان کی سعی و تحریک سے متاثر ہوتی ہیں اور پھر وہ کتاب لکھنے کا فیصلہ کرتی ہیں ۔اس کتاب میں وہ متعدد مقامات پراپنی امیدوں کا اظہار اس طرح سے کرتی ہیں کہ قائد ارددو شمیم احمد جیسی شخصیات اگر ہندوستان میں ہے تو پھر ناامید ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔یقینا اندھیرے کا خاتمہ ابھی نہیں ہوا ہے مگر یہ سفر جاری ہے اور امید ہے کہ ہندوستان ایک نہ ایک دن گاندھی ،نہرو اور آزاد کے خوابوں کا ملک بن جائے گا۔
کتاب کی مصنفہ شیریں سلطانہ انڑویو دیتے ہویے
283صفحات پر مشتمل اس کتاب میں کل دس ابواب ہیں جس میں پہلے دو ابواب میں شیرین نے کتاب لکھنے کی وجوہات پر روشنی ڈالی ہے۔ ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال کا سماجی ، معاشرتی تناظر میں جائزہ لیتے ہولے دلائل کے ساتھ اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ ترقیاتی پروجیکٹ پر محدود افراد وکا قبضہ ہے۔عام لوگ اس روشنی سے محروم ہیں مگر اس کے ساتھ ہی وہ دیکھتی ہیں کہ اس اندھیرے میں کچھ لوگ ہیں جو ابھی روشنی بکھیرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔شیریں کے بقول حقوق انسانی اورحصول انصاف کی راہیں یقینا مشکل ہے مگر جدوجہد اور سعی محمود جاری رہا تو ایک نہ ایک دن ہندوستان میں ناانصافی کی دیواریں پاش پاش ہوجائیں گی اور ہرایک شخص کےلئے عزت کے ساتھ زندگی گزار نا آسان ہوجائے گا۔
شمیم احمد کے جدوجہد کے 25سالہ زندگی میں ’’اردو تحریک ‘‘ سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے۔شمیم احمد نے بالغ نظری اوریقین کامل کی طاقت کے ذریعہ اردوتحریک کو ایک نئی جہت اور راہ دکھائی ہے وہیں اس تحریک نے شمیم احمد کو مقبولیت کا معراج عطاکیا ہے ۔چناں چہ اردو والوں نے محبت میں انہیں ’’قائد اردو ‘‘ کے لقب سے سرفراز کیا ہے۔شیرین سلطانہ نے مغربی بنگال میںا ردو تحریک اور قائداردو شمیم احمد کی کاوشوں کا تفصیلی سے جائزہ لیتے ہوئے اردو اور ہندی کے تنازع کی پوری تاریخ کو مختصر انداز میں پیش کیا ہے۔مرکزی حکومت کی لسانی پالیسی کے حوالے سے انہوں نے لکھا ہے کہ ہندوستان کے دستور میں ملک کے تمام زبانوں کویکساں مواقع حقوق دئیے گئے ہیں۔60ویں شیڈول کے مطابق ریاستوں کو یہ حق و اختیارات دئیے گئے ہیں کہ آبادی کے لحاظ سے کسی بھی زبان کو دوسری سرکاری کا زبان کا درجہ دے سکتی ہے۔اسی حقوق کی بنیاد پر مغربی بنگال میں جہاں اردو بولنے والوں کی اچھی خاصی آباد ہے میں سرکاری زبان کا درجہ دلانے کی تحریک شروع ہوئی۔بائیں محاذ کے 34سالہ دور اقتدار میں مختلف تنظیموں اور اداروں کی جانب سے اردو تحریک چلتی رہی مگر حکومت اردو کو اس کا حق دینے کو تیار نہیں تھی ۔ 2006کا سال مغربی بنگال میں اردو تحریک کےلئے سنگ میل ثابت ہوا ۔ ہیومن رائٹس پروٹیکشن ایسوسی ایشن کے بینر تلے قائد اردو شمیم احمد نے اردو تحریک شروعات کی۔شیرین نےشمیم احمد کی اردو تحریک کی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شمیم احمد کی اردو تحریک کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے اس تحریک سے نہ صرف عام اردو آبادی کو وابستہ کیا ہے بلکہ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اس تحریک سے بنگالی آبادی کوشامل کیا۔ہیومن رائٹس پروٹیکشن ایسوسی ایشن کے پہلی ریاستی کانفرنس میں بڑی تعداد مشرقی مدنی ، بردوان، مرشدآباد اور دیگر اضلاع سے آئے ہوئے بنگالی دانشوروں نے شرکت کی اورشمیم احمد کی اردو تحریک کی تائید کی۔اس کے علاوہ اس تحریک کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی جمہوری دائرہ میں حقوق کی حصول یابی کی ایک نئی راہ دکھائی۔روایات میمورنڈ اور خطو بازی سے ہٹ کر تحریک شمیم احمد نے جوتے پالش، اخبار فروشی ،اردو نہیں تو ووٹ نہیں جیسے نعرے بلند کئے۔اس تحریک سے سبق ملتا ہے کہ جمہوری دائرہ میں رہ کر حقوق کی حصول یابی کےلئے ہر ممکن اور ہرطریقے کو آزمانا چاہیے۔
اس کو بھی پڑھیں
عمومی طور پر یہ تاثر دینے کی کوشش جان بوجھ کر کی جاتی رہی ہے کہ شمیم احمد کی اردو تحریک کسی ایک خاص جماعت کے اشارے پر اور اس کو فائدہ پہنچانے کےلئے کی گئی تھی مگر شیرین نے تفصیل کے ساتھ اس تاثرکی نفی کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ سراسر بہتان ہے۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ شمیم احمد کی اردو تحریک کی تائید ترنمول کانگریس سے قبل کانگریس نے اس کے بعد فارور بلاک جو بائیں محاذ کا حصہ تھا نے بھی تائید ۔فارورڈ بلاک کے ریاستی سربراہ گھوش نے کھل کر بائیں محاذحکومت کی تنقید کی کہ آخر اردو کو اس کاحق دینے میں حکومت کی کیا مجبوری ہے۔بعد میں ترنمول کانگریس نے اس تحریک کی تائید کی اور اس کا فائدہ بھی اس کوملا ۔دوسرے یہ کہ ترنمول کانگریس کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی شمیم ا حمد نے اس وقت تک تحریک جاری رکھی جب تک اسمبلی سے باضابطہ طور اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ نہ مل گیاہے۔علاوہ ازیں شمیم احمدکا مطالبہ تھا کہ پورے بنگال میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے مگر ممتا حکومت نے صرف ان علاقوں میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا جہاں اردو بولنے والوں کی آبادی دس فیصد تھی ۔
شیرین سلطانہ اس کتاب میں شمیم احمد کی دیگر تحریکوں بالخصوص ’’کھانا سب کےلئے ‘‘ اور قومی یکجہتی کی تحریک کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ شمیم احمد کی یہ تحریکیں یہ ثابت کرتی ہیں وہ ایک بیدار مغز ز لیڈر ہیں اور انہیں ملک کے سماجی و معاشرتی صورت حال کا ادارک ہے اوروہ اسی مناسبت سے تحریکوں کا آغاز کرتے رہے ہیں ۔بالخصوص 2014کے بعد ملک میں جس طریقے سے حالات کروٹ لینے لگی اور فرقہ پرست قوتیں مضبوط ہونے لگی تو شمیم احمد بروقت اس کی ضرورت محسوس کی اور انہوں نے دھرم سنسند اور مہا پنچایت جیسے پروگراموں کا انعقاد کرکے مذہبی بنیاد پر نفرت پیدا کرنے والی طاقتوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے۔
اس کتاب پر سابق سفارت کار وسینئر سیاست داں منی شنکر ائیر ، سپریم کورٹ کے سابق جج اشوک گنگولی ، سابق سفیر و سابق ممبر پارلیمنٹ میم افضل ، مشہور آرٹسٹ شوبھا پرسنا اور سابق ممبر پارلیمنٹ محمد ادیب جیسی شخصیات کی خصوصی تحریریں شامل ہیں ۔یہ تحریریں شمیم احمد کی مقبولیت اور ان کی پہنچ کی عکاسی کرتی ہےکہ شمیم احمد کی جدوجہد اور ان کی کاوشوں کا ایک بڑا حلقہ قائل ہے۔
اس کتاب کو پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خوبصورت پہاڑوں اور جھرنوں کے درمیان ہائی وے پر ایک آرام دہ گاڑی سے سفر جاری ہے اورجگہ جگہ خوبصورت مناظر آنکھوں کو خیرہ کررہی ہیں ۔مجھے امید ہے کہ یہ کتاب جب عام قاری کے ہاتھوں میں پہنچے گا نہ صرف مقبولیت حاصل کرے گی بلکہ یہ کتاب نوجوان نسل کی حوصلہ افزائی اور خدمت خلق کے جذبات بیدار کرے گی۔