افتخار گیلانی
عراقی جیل ابو غریب ہو یا کشمیر میں کارگو، گوگو لینڈ، ریڈ 16 یا دہلی کی تہاڑ جیل کی قصوری سیل۔ان کا نام ہی خوف و دہشت میں مبتلا کردیتا ہے۔مگر دنیا کی سب سے پرانی جمہوریت، لبرل ازم اور انسانی حقوق کے دعویدار امریکہ نے گوانتانامو قائم کرکے تعدیب کے سبھی ریکارڈ توڑ ڈالے۔ حال ہی میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور پھر ایک امریکی عدالت کی طرف سے گوانتانامو میں قید ایک افغان شہری اسداللہ خان گل کو 14سال بعد بے قصور ٹھہرانے سے یہ تعدیب خانہ ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
دہلی میں میرے قیام کے دوران ایک رفیق سید نزاکت ایشیا کے وہ واحد صحافی ہیں،جن کو 2014ء میں گوانتانامو جانے اور رپورٹ کرنے کی اجازت مل گئی تھی۔وہ اسوقت بھارت کے جریدہ دی ویک کے نمائندے تھے۔مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد صرف ایک بار جاپان کے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے کیمرہ مین کو اس جزیرہ پر جانے کی اجازت مل گئی تھی۔ واپسی پر نزاکت نے بتایا کی اس بدترین جیل میں بہت سے افراد بس ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔یہ افراد غلط وقت پر غلط جگہ پر موجود تھے،جب ان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ صحافت کو خیر باد کرنے کے بعد سرینگر سے تعلق رکھنے والے نزاکت اب ایک ڈیٹا کمپنی کے سی ای او ہیں، جو صحت و دیگر امور ہر اعداد و شمار اکٹھا کرکے عالمی اداروں بشمول گوگل کو مہیا کرتی ہے۔
ایک 12سالہ افغانی بچے اسماعیل آغا کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اسکو 2002ء میں ایک مقامی وار لارڈ نے گرفتار کرکے پانچ ہزار ڈالر کے عوض امریکیوں کے سپرد کر دیا تھا۔ گوانتانامو میں موجود دستاویزات کے مطالعہ سے نزاکت کو معلوم ہوا کہ آغا کی گرفتاری کے فورا بعد ہی امریکیوں کو معلوم ہو گیا تھا کہ یہ بچہ بے قصور ہے، مگر پھر بھی اسکو ہزاروں میل دور گوانتانامو منتقل کرکے 14ماہ تک تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ جیل خانہ امریکی شہر میامی سے840 کلومیٹر دور کیوبا میں خلیج گوانتانامو کے ایک جزیرہ میں سمندر کے قریب ہی واقع ہے۔ ان جزائر پر امریکی بحریہ کا مستقر بھی ہے۔ پچھلے بیس سالوں میں اس جیل میں آٹھ سو کے قریب قیدیوں کو مختلف اوقات میں رکھا گیا۔ فی الوقت اس جیل میں 39قیدی موجود ہیں۔ جن میں 9/11کے کلیدی ملزم خالد شیخ محمد بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں ان کا نام ڈینیل پرل کے قتل کے کیس میں بھی لیا جاتا ہے۔ لیکن امریکہ9/11کیس میں نہ ہی ڈینیل قتل پرل کیس میں اسکی ٹرائل ابھی تک شروع کر رہا ہے۔ 39قیدیوں میں امریکی ایجنسیوں نے دس کو رہا کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ ان میں 74سالہ پاکستا نی سیف اللہ پراچہ بھی شامل ہے، جواس قید خانے کا معمر ترین قیدی ہے۔ دس قیدیوں کے کیس ملٹری کمیشن میں زیر سماعت ہیں، جن میں ایک کی سماعت ختم ہونے والی ہے اور اگلے سال فروری میں اسکی رہائی کی امید ہے۔ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کے عہد میں فی الحال ایک قیدی مراکش کے عبدالطیف ناصر کو رہا کردیا گیا ہے۔
نزاکت کے بقول یہ چار جیلوں پر مشتمل گوانتاناموکا قید خانہ 120مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ ان میں کیمپ اگوانا، کیمپ پانچ، چھ اور سات اور پندرہ ہے۔ کیمپ پندرہ ، انتہائی نگہداشت والا قید خانہ ہے۔ ان جیلوں کی حفاظت کی ذمہ داری امریکہ کی خصوصی جوائنٹ ٹاسک فورس یعنی JIT-GTMOکے سر ہے۔ دستاویزات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ گوانتانامو میں کم از کم سترہ قیدی ایسے تھے، جن کی عمریں 18سال سے کم تھیں۔ نزاکت ، جو گلوبل تفتیشی جرنلسٹ پروجیکٹ کے ایک ممبر بھی ہیں کا کہنا ہے کہ کم عمر قیدیوں کی تعداد زیادہ بھی ہوسکتی ہے، کیونکہ کئی قیدیوں کے کالم سے عمر کا خانہ ہی غائب تھا۔ ان بچوں میں مقید سولہ سالہ یاسر نے خودکشی کی تھی۔ اس جیل کے کیمپ ڈیلٹا میں موجود اسپتال کے ایک ڈاکٹر نے نزاکت کو بتایا کہ بیشتر قیدی ذہنی امراض میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
ایک قیدی عبیداللہ کو جب گرفتار کیا گیا تھا، تب وہ انیس سال کا تھا۔ اس نے گوانتانامو میں بارہ سال گزارے تھے۔ آدھی رات کے قریب افغانستان کے ایک دیہی علاقے میں اس کے گھر پر امریکی افواج نے دھاوا بول دیا۔ کیونکہ پاس کے کھیت میں ان کو ایک بارودی سرنگ مل گئی تھی۔ اس کے گھر کے احاطہ میں ایک وین پارک کی ہوئی تھی، جس کی پچھلی سیٹ پر خون کے نشانات تھے۔ امریکی کمانڈر نے نتیجہ اخذ کیا کہ اس وین میں القاعدہ کے زخمی افراد سوار تھے۔ عبداللہ کو ان کی اعانت کے الزام میں گرفتار کرکے گوانتانامو پہنچایا گیا۔ کئی برسوں کے بعد جب عبیداللہ کے وکیل میجر ڈیرک پوٹیٹ جو امریکی میرین کمانڈو رہ چکے تھے، حقائق جاننے کیلئے افغانستان کا دورہ کرکے اس گائوں میں پہنچے، تو معلوم ہوا کہ وین کی پچھلی سیٹ پر عبیداللہ کی اہلیہ کا خون جما ہوا تھا۔ اس کی بیوی حاملہ تھی۔عبیداللہ اور اس کے اہل خانہ نے اس کواسپتال لیجانے کیلئے کسی دوست سے وین لیکر اسکو پچھلی سیٹ پر سوار کیا تھا۔ مگر راستے میں ہی اس نے ایک بچی کو جنم دیدیا۔ پوٹیٹ کے مطابق افغانستان کے اس علاقے میں لوگ عورتوں کی صحت و حالات کے بارے میں گفتگو کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ عبیداللہ کی بچی اس کی گرفتاری سے بس دو دن قبل پیدا ہو گئی تھی اور اگلے بارہ سال تک اپنے والد کیلئے ترستی رہی۔
گوانتانامو کو امریکی صدر جارج بش نے قید خانے کے طور پر منتخب کیا تھا، کیونکہ امریکی حدود سے باہر ہونے کی وجہ سے یہ امریکی عدالتوں کی دسترس سے دور ہے۔ لہذا قیدیوں کی فوری ٹرائل کرنے کی ضروت نہں تھی۔ نزاکت کے مطابق اس قید خانے تک پہنچے کیلئے کئی سیکورٹی رکاوٹوں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔ ان جزائر تک پہنچے کیلئے پہلے فلوریڈا کے فورٹ لاوڈیرڈیل میں پیش ہونا پڑتا ہے، جہاں جانچ پڑتال کے بعد ہوائی جہاز کے ذریعے گوانتانامو خلیج کے ایک جزیرے لیوارڈ میلے پر موجود ملٹری ایرپورٹ تک لے جایا جاتا ہے۔ سیکورٹی کی دوبارہ پڑتال کے بعد ایک کشتی میں بحریہ کے مستقر جو ایک دوسرے جزیرے وینڈوارڈ بار پر واقع ہے لے جایا جاتا ہے۔یہاں بھی کئی سیکورٹی رکاوٹوں کو عبور کرنے کے بعد ہی قید خانہ تک رسائی ہو جاتی ہے۔
دراصل 1898ء میں اسپین کے ساتھ جنگ کے بعد امریکہ نے ان جزائر کا کنٹرول سنبھالا۔ 1903ء خلیچ کے جنوب مشرقی حصے کو کیوبا نے امریکہ کو لیز پر دے دیا۔ بعد میں 1934ء کو امریکہ نے ان جزائر پر پوری طرح قبضہ جما لیا۔ نزاکت کے مطابق ان جزائر کا محل وقوع ایسا ہے کہ یہاں سے فرار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایک طرف گہرا سمندر اور دوسری طرف کیوبا کی سرحد کی طرف بلند و بالا پہاڑوں کیساتھ ساتھ یہ علاقہ بارودی سرنگوں سے بھرا پڑا ہے۔ نزاکت کا کہنا ہے کہ کئی قیدیوں کو پتہ ہی نہیں ہے کہ وہ ساحل سمندر کے پاس ہیں۔ کیونکہ جب ان کو قید خانہ میں لایا جاتا ہے تو سیل تک ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہوتی ہے۔ ان کو صرف صحت کی جانچ یا وکیل کی آمد کے موقع ہر ہی سیل سے باہر نکالا جاتا ہے۔ نکلتے وقت اور واپسی پر نہایت ہی سخت ترین تلاشی لی جاتی ہے۔ کیمپ چھ میں نزاکت نے تین ایسے قیدیوں کو دیکھا، جن میں دو تو خاموش تھے اور وہ برآمدے سے گزرنے والے افراد سے لاتعلق تھے، مگر ایک باریش معمر قیدی بلند آواز میں کچھ پڑھ رہا تھا اور سیل کے چکر لگا کر برآمدے سے گزرنے والی کی توجہ چاہتا تھا۔ اس جیل میں ایک قیدی نے الروبیش کے قلمی نام سے ایک نظم لکھ کر باہر بھیج دی تھی۔ چند سال قبل بھارت کے انتہائی جنوبی صوبہ کیرالا کی کالی کٹ یونیورسٹی نے اس کو انگریزی ادب کے سیلیبس میں شامل کر دیا تھا۔ بعد میٰں ہنگامہ کے بعد اس کو حذف کردیا گیا۔
افغانستان میں امریکی انخلا کے بعد یہ امید بندھ گئی ہے کہ امریکی صدر بائیڈن گوانتانامو کا تلخ باب بند کردیں گے اور 9/11کی ٹرائل بھی مکمل کرنے کے احکامات صادر کریں گے۔ صدر اوبامہ نے بھی اس جیل کو بند کرنے کے وعدے کئے تھے ، مگر دیگر وعدوں کی طرح یہ یہ وعدہ بھی ایفا نہیں کر سکے۔ 2014ء میں اسی جیل سے طالبان کے پانچ رہنماوں کو قطر لے جایا گیاتھا، تاکہ مذاکرات کی راہ ہموار کی جاسکے۔ ان میں سے چار اسوقت افغانستان میں طالبان حکومت میں کلیدی عہدوں پر فائز ہیں۔ سچ کہ اللہ جسے چاہے عزت سے نوازے، جسے چاہئے ذلت دے اور آزمائشوں سے گزارے۔اب ان طالبان رہنماوں پر بھی لازم ہے کہ اللہ کی نعمت کا صحیح استعمال کرکے ایک فلاحی حکومت قائم کرکے، افغانستان کو امن و ترقی و خوشحالی کا گہوراہ بنا کر مثال قائم کریں۔ ورنہ لاٹھی بھی دوبارہ اٹھ سکتی ہے۔
حال ہی میں ایک ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور احمد ربانی کو 19سال بعد اس جیل سے رہا کردیا گیا۔ اس کو ایک انتہائی مطلوب ملزم حسن گل سمجھ کر کراچی سے گرفتار کرکے افغانستان میں امریکی حکام کے حوالے کردیا گیا تھا، جہاں مختلف مراکز میں 545 دن تک جسمانی تشدد کیا گیا۔ایک برطانوی این جی او کے مطابق اس کی گرفتاری کے دو دن بعد ہی انکشاف ہو گیا تھا کہ وہ مطلوب ملزم حسن گل نہیں لیکن اس کے باوجود احمد ربانی کو افغانستان بھیج دیا گیا۔ افغانستان میں بھی امریکی حکام نے نامکمل تفتیش کے باوجود احمد ربانی کو گوانتاناموبے بھیج دیا جہاں 17 سال بغیر کوئی کیس چلائے انھیں قید رکھا گیا۔ احمد ربانی کے خلاف نہ ٹرائل شیٹ تیار کی گئی اور نہ ہی عدالت میں پیش کیا گیا۔ برطانوی ادارے ’ری پریو‘ نے احمد ربانی کیلئے قانونی جنگ لڑی جس کے بعد اس کو رہائی نصیب ہوگئی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ حسن گل نامی شخص جس کے شک میں احمد ربانی کو گرفتار کیا تھا وہ بھی گرفتار ہوکر بگرام جیل میں احمد ربانی کے ساتھ ہی قید رہا۔اصل ملزم حسن گل تو تین سال بعد ہی رہا ہوگیا، مگر ربانی تقریبا دو دہائیوں تک قید بند میں رہا۔ رہا ہونے کے بعد گل پھر شدت پسند تنظیموں سے جا ملا تھا اور 2012 میں وزیرستان میں ایک ڈرون حملے میں مارا گیا تھا ،جبکہ ادھر بے گناہ احمد ربانی گوانتاناموبے میں نا کردہ گناہوں کی سزا بھگت رہا۔ احمد ربانی پر جو الزامات لگائے تھے ،ان کے مطابق ملزم 1994 میں افغانستان میں رہا، 7 ماہ خوست اور 2 ماہ خالدان میں عسکری ٹریننگ لی اور 1995 سے 1996 کے درمیان پاکستان میں قید بھی رہا اور 1997 میں اسامہ بن لادن سے بھی ملا۔این جی او پری ریو جس نے ربانی کا کیس لڑا کے مطابق سعودی عرب میں پیدا ہونے کی وجہ سے ربانی کو عربی زبان پر عبور تھا اور اسی بنیاد پر ایئرپورٹ سے عربی مسافروں کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دیتا تھا۔ حکومت پاکستان نے اس کو حراست میں لیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ غیر ملکی تھا۔بتایا گیا کہ کراچی کا یہ ٹیکسی ڈرائیور برمی نژاد ہے اور سعودی عرب میں پیدا ہوا تھا۔