یوگیتا لیمائے
عبدل نے اپنے بائیں کندھے سے اے کے-47 سالٹ رائفل لٹکا رکھی ہے جبکہ اپنے دائیں ہاتھ میں ایک بڑی سی چھڑی لے رکھی ہے اور وہ اس چھڑی سے توازن برقرار رکھتے ہوئے پوست کے پودوں کی پھنگیوں پر جتنی سختی سے مار سکتے ہیں وار کر رہے ہیں۔ پوست کے ڈنٹھل ہوا میں اڑتے ہیں اور اسی کے ساتھ پوست کی پھلیوں سے دودھیا رس نکلتا ہے اور اسی کے ساتھ افیون کی مخصوص، تیز بو اپنی سب سے کچی شکل میں فضا میں بکھر جاتی ہے۔
چند منٹوں میں عبدل اور ان کے ساتھ کام کرنے والے ایک درجن دوسرے آدمی ایک چھوٹے سے کھیت سے بھری پوری پوست کی فصل کو اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ پھر سارے شلوار قیمض میں ملبوس مسلح افراد جن کے زیادہ تر لمبی داڑھیاں ہیں اور کچھ نے آنکھوں میں سرمہ لگا رکھا ہے، ایک ایک کرکے پک اپ ٹرک کے پیچھے لد کر اگلے فارم کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔
ان لوگوں کا افغانستان کے مشرقی صوبہ ننگرہار میں طالبان کے انسداد منشیات یونٹ سے تعلق ہے، اور انھوں نے ہمیں پوست کی کاشت کو ختم کرنے کے لیے اپنی گشت میں شامل ہونے کا نادر موقع فراہم کیا ہے۔
دو سال سے بھی کم عرصہ پہلے یہ افراد باغی جنگجو تھے، جو ملک پر قبضہ کرنے کی جنگ کا حصہ تھے۔ اب وہ جیت چکے ہیں اور حکمرانوں کے ساتھ ہیں اور اپنے لیڈر کے احکامات کو نافذ کر رہے ہیں۔
اپریل سنہ 2022 میں طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے پوست کی کاشت کو، جس سے افیون اور ہیروئن جیسی منشیات کے لیے اہم جزو نکالا جاتا ہے، سختی سے ممنوع قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ سپریم لیڈر کی جانب سے عائد پابندی کی خلاف ورزی کرنے والے کھیت کو تباہ کردیا جائے گا اور انھیں شرعی قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔
طالبان کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ پابندی افیون کے مضر اثرات کی وجہ سے عائد کی گئی ہے جو کہ پوست کے بیجوں سے حاصل کیا جاتی ہے۔ ان کہنا تھا کہ یہ پابندی اس لیے عائد کی گئی ہے کہ یہ ان کے مذہبی عقائد کے منافی ہے۔
افغانستان دنیا کی 80 فیصد سے زیادہ افیون پیدا کرتا رہا ہے اور یورپ کے بازار میں افغان کے افیون سے بنی ہیروئن کا 95 فیصد حصہ ہوا کرتا تھا۔
بی بی سی نے افغانستان کا سفر کیا اور پوست کی کاشت پر براہ راست کارروائی کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے اس نے سیٹلائٹ تجزیے کا استعمال کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ طالبان رہنما پوست کی کاشت کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے میں پہلے کسی سے بھی کہیں زیادہ کامیاب رہے ہیں۔
ہمیں افیون کی کاشت کرنے والے بڑے صوبوں میں پوست کی افزائش میں بہت زیادہ کمی نظر آئی ہے۔ ایک ماہر کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال کی نسبت سالانہ کاشت میں 80 فیصد کی کمی ہو سکتی ہے۔ اس کی جگہ کم منافع بخش گندم کی فصلوں نے لے لی ہے۔ ایسے میں بہت سے کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ مالی طور پر نقصان اٹھا رہے ہیں۔
ہم نے حقیقت جاننے کے لیے ننگرہار، قندھار اور ہلمند جیسے صوبوں کا سفر کیا، ٹوٹی پھوٹی اور کچی سڑکوں سے گزرے، دور دراز پہاڑی علاقوں میں میلوں تک پیدل چلتے ہوئے کھیتوں سے گزرے ابلتے ہوئے چشموں کے پار اترے۔ اور یہ سب ہم نے اس لیے کیا کہ یہ جاں سکیں کہ زمینی حقیقت کیا ہے۔
طالبان کے حکم نامے کا اطلاق سنہ 2022 کی افیون کی فصل پر نہیں کیا گیا تھا اور شاید اسی لیے اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (UNODC) کے مطابق سنہ 2021 کے مقابلے اس میں ایک تہائی اضافہ ہوا۔
بہر حال رواں سال بہت مختلف ہے۔ جو ثبوت ہم نے زمین پر دیکھے اس کی تصدیق سیٹلائٹ سے لی گئی تصویروں سے ہوتی ہے۔
افغانستان کی منشیات کی تجارت کے ایک سرکردہ ماہر ڈیوڈ مینسفیلڈ برطانیہ کی کمپنی السیس کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ یہ کمپنی سیٹلائٹ تجزیہ میں مہارت رکھتی ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’اس بات کا امکان ہے کہ کاشت سنہ 2022 کے مقابلے میں 20 فیصد سے بھی کم ہو گئی۔ اور یہ کمی اپنے آپ میں بہت بڑی کمی ہو گی جو کہ پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی ہے۔‘
کسانوں کی ایک بڑی تعداد نے پابندی کے حکم کی تعمیل کی ہے اور جنھوں نے نہیں کی طالبان جنگجو ان لوگوں کی فصلوں کو تباہ کر رہے ہیں۔
ہم ننگرہار میں طالبان کے جس گشتی یونٹ کے ساتھ سفر کر رہے تھے اس کے کمانڈر طور خان تھے۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ وہ اور ان کے آدمی تقریباً پانچ ماہ سے پوست کے کھیتوں کو تباہ کر رہے ہیں، اور اب تک دسیوں ہزار ہیکٹر فصل کو صاف کر چکے ہیں۔
جب طالبان ایک کھیت میں پوست کی کھڑی فصل کو تباہ کر رہے تھے تو ایک خاتون نے غصے میں چیختے ہوئے کہا: ’تم میرے کھیت کو تباہ کر رہے ہو، خدا تمہارا گھر تباہ کر دے۔‘
طور خان نے اسی طرح چیختے ہوئے جواب دیا کہ ’میں نے آج صبح تم سے کہا تھا کہ اسے خود ہی تباہ کر دو۔ تم نے ایسا نہیں کیا، تو اب ہمیں کرنا پڑ رہا ہے۔‘
اس کے بعد وہ پیچھے ہٹ جاتی ہیں اور اپنے گھر کے اندر چلی جاتی ہیں۔
ان کے بیٹے کو طالبان نے حراست میں لے رکھا تھا، جسے چند گھنٹوں بعد تنبیہ کر کے رہا کر دیا گیا۔
طالبان ان علاقوں میں مسلح اور بڑی تعداد میں جاتے ہیں، کیونکہ یہاں ناراض مقامی لوگوں کی طرف سے مزاحمت کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ پوست کی کاشت کو ختم کرنے کی مہم کے دوران فائرنگ سے کم از کم ایک شہری ہلاک ہوا ہے جبکہ کئی پرتشدد جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔
اپنے کھیتوں میں کھڑی فصل کی تباہی پر کسان علی محمد میاں کے چہرے پر اضطراب ہے۔ جب طالبان کھیت میں اپنا کام کر گزرتے ہیں تو پوست کے گلابی پھول، سبز بیج اور ٹوٹے ہوئے تنے زمین کو ڈھانپ لیتے ہیں۔
ہم پوچھتے ہیں کہ ان لوگوں نے پابندی کے باوجود پوست کیوں کاشت کی۔
تو وہ جواب دیتے ہیں: ’اگر آپ کے گھر میں کھانا نہیں ہے، اور آپ کے بچے بھوکے ہیں، تو آپ اور کیا کریں گے۔ ہمارے پاس زمین کے بڑے ٹکڑے نہیں ہیں۔ اگر ہم ان پر گندم اگائیں گے تو ہم افیون سے جتنا کما سکتے تھے اس کا ایک حصہ بھی نہیں کما سکیں گے۔’
طالبان صرف لاٹھیوں کی مدد سے جس رفتار سے کام کر رہے ہیں یہ بات اپنے آپ میں قابل ذکر ہے۔ 200 سے 300 مربع میٹر پر مشتمل چھ کھیتوں کو صرف آدھے گھنٹے میں صاف کر دیے جاتے ہیں۔
ہم طور خان سے پوچھتے ہیں کہ وہ بھوکے مرنے والے اپنے ہی لوگوں کی آمدنی کے ذرائع کو تباہ کرنے پر کیسا محسوس کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’یہ ہمارے لیڈر کا حکم ہے۔ ان سے ہماری وفاداری ایسی ہے کہ اگر انھوں نے میرے دوست سے کہا کہ مجھے پھانسی دے دے تو میں اسے قبول کر لوں گا اور اپنے آپ کو اپنے دوست کے حوالے کر دوں گا۔‘
جنوب مغرب میں واقع صوبہ ہلمند افغانستان میں افیون کا مرکز ہوا کرتا تھا، جو ملک کی نصف سے زیادہ افیون پیدا کرتا تھا۔ ہم طالبان کے انسداد منشیات یونٹ سے علیحدہ آزادانہ طور پر وہاں کا سفر کرتے ہیں تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ وہاں کا کیا حال ہے۔
پچھلے سال جب ہم اس صوبے میں تھے تو ہم نے پوست کے کاشت سے ڈھکی ہوئی زمین دیکھی تھی۔ اس بار ہمیں پوست کی فصل کا ایک بھی کھیت نظر نہیں آیا۔
السس کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ ہلمند میں پوست کی کاشت میں 99 فیصد سے زیادہ کم ہوئی ہے۔ ڈیوڈ مینسفیلڈ کا کہنا ہے کہ ‘صوبہ ہلمند کی اعلیٰ ریزولیوشن تصویروں سے پتہ چلتا ہے کہ پوست کی کاشت 1,000 ہیکٹر سے بھی کم رہ گئی ہے جب کہ پچھلے سال یہ 129,000 ہیکٹر تھی۔’
ہم نے ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ کے جنوب میں واقع مارجہ ضلع میں کسان نعمت اللہ دلسوز سے اس وقت ملاقات کی جب وہ گندم کی کٹائی کر رہے تھے۔ پچھلے سال انھوں نے انھی کھیتوں میں پوست کی فصل اگائی تھی۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ طالبان کے گڑھ ہلمند میں کسانوں نے پابندی کی تعمیل کی ہے۔
نعمت اللہ کہتے ہیں کہ ’کچھ کسانوں نے چپکے سے دیواروں کے پیچھے اپنے صحنوں میں پوست اگانے کی کوشش کی ہے لیکن جب طالبان کو ان کا علم ہوا تو انھوں نے ان فصلوں کو تباہ کر دیا۔‘
سوائے گندم کے ڈنٹھل کے کاٹنے اور پرندوں کی آواز کی علاوہ کھلیان میں خاموشی ہے۔ جنگ کے دوران یہ کھلیان محاذ تھا۔ ہلمند وہ جگہ تھی جہاں برطانیہ کے فوجیوں کا ایک اڈہ تھا اور جہاں انھوں نے اپنی شدید ترین لڑائیاں لڑیں۔
نعمت اللہ اپنی عمر کی بیس کی دہائی کے اوائل میں ہیں۔ ان کی زندگی میں یہ پہلا موقع ہے کہ وہ باہر نکلتے وقت بم سے نہیں ڈرتے۔ لیکن ایک طویل جنگ سے متاثرہ لوگوں کے لیے افیون کی کاشت پر پابندی ایک بڑا دھچکا ہے اور یہ اس وقت سامنے آيا ہے جب افغانستان کی معیشت بیٹھ چکی ہے اور ملک میں تقریباً ہر طرف غربت کا راج ہے۔ آبادی کا دو تہائی حصہ یہ نہیں جانتا کہ ان کا اگلا کھانا کہاں سے آئے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم بہت پریشان ہیں۔ گندم سے ہمیں افیون کے مقابلے ایک چوتھائی سے بھی کم آمدن ہوتی ہے۔ اس سے میں اپنے خاندان کی ضروریات پوری نہیں کر سکتا۔ مجھے قرض لینا پڑا۔ میری بھوک اپنے عروج پر ہے اور ہمیں حکومت کی طرف سے کوئی مدد نہیں مل رہی ہے۔‘
ہم نے طالبان حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے پوچھا کہ ان کی حکومت لوگوں کی مدد کے لیے کیا کر رہی ہے۔
اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ لوگ بہت غریب ہیں اور وہ تکلیف میں ہیں۔ لیکن افیون کا نقصان اس کے فوائد سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمارے 37 ملین کی آبادی میں سے چار ملین لوگ منشیات کی لت میں مبتلا تھے۔ یہ ایک بڑی تعداد ہے۔‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’جہاں تک ذریعہ معاش کے متبادل ذرائع کا تعلق ہے، ہم چاہتے ہیں کہ عالمی برادری ان افغانوں کی مدد کرے جنھیں نقصانات کا سامنا ہے۔‘
وہ اقوام متحدہ، امریکہ اور دیگر حکومتوں کے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں کہ افیون طالبان کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ تھی جب وہ مغربی افواج اور سابقہ افغان حکومت کے خلاف لڑ رہے تھے۔
ہم نے پوچھا کہ جب طالبان حکومت نے خواتین کے تمام این جی اوز کے لیے کام کرنے پر پابندی لگا کر ان کے آپریشنز اور فنڈنگ کو خطرے میں ڈال دیا ہے تو وہ بین الاقوامی تنظیموں سے مدد کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ’عالمی برادری کو انسانی مسائل کو سیاسی معاملات سے نہیں جوڑنا چاہیے۔ افیون سے صرف افغانستان کو نقصان نہیں پہنچ رہا ہے، پوری دنیا اس سے متاثر ہے۔ اگر دنیا کو اس بڑی برائی سے بچا لیا جائے تو بدلے میں افغان لوگوں کو مدد ملنا ہی انصاف کی بات ہے۔‘
چارٹ
پیداوار کی جگہ افیون کی قیمتوں پر پابندی کا اثر پہلے ہی نمایاں ہے۔ طالبان کا روحانی گھر قندھار روایتی طور پر پوست کی کاشت کرنے والا ایک اور بڑا علاقہ ہے۔ وہاں ہم ایک کسان سے ملے جنھوں نے پچھلے سال کی اپنی فصل کا ایک چھوٹا سا ذخیرہ سنبھال رکھا ہے۔
ان کے پاس پلاسٹک کے دو تھیلے ہیں اور ہر ایک فٹ بال کے سائز کے ہیں جن میں سیاہ، بدبودار افیون کے دانے سے نکلنے والی گوند ہے۔ ہم نے ان کی حفاظت کے لیے ان کی شناخت چھپائی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’گذشتہ سال پابندی سے ٹھیک پہلے، میں نے اس طرح کا ایک بیگ اس قمیت کے پانچویں حصہ میں فروخت کیا جو اب مجھے مل رہا ہے۔ میں قیمت میں مزید اضافے کا انتظار کر رہا ہوں تا کہ یہ میرے خاندان کو زیادہ دیر تک سہارا دے سکے۔ ہماری حالت بہت خراب ہے۔ کھانے اور کپڑے خریدنے کے لیے میں پہلے سے ہی مقروض ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ افیون یقیناً نقصان دہ ہے، لیکن اس کا متبادل کیا ہے؟‘
منشیات کی غیر قانونی سمگلنگ کے سلسلہ میں ہیروئن کی اصل قیمت میں آنے والے اثرات میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔
مینس فیلڈ نے کہا کہ اگرچہ افیون اور ہیروئن کی قیمتیں 20 سال کی بلند ترین سطح پر برقرار ہیں، لیکن رواں سال پوست کی اتنی کم کاشت کے باوجود پچھلے چھ ماہ کے دوران ان کی قیمتوں میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سسٹم میں قابل ذکر ذخیرہ موجود ہے، اور ہیروئن کی پیداوار اور تجارت جاری ہے۔ پڑوسی ریاستوں اور اس سے آگے ہونے والی ضبطگی اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مستقبل قریب میں ہیروئن کی قلت نہیں ہے۔’
طالبان کی پہلی حکومت نے سنہ 2000 میں افیون کی کاشت پر جب پابندی عائد کی تھی تو یو این او ڈی سی کے سابق اہلکار مائیک ٹریس برطانیہ کی حکومت میں منشیات کی پالیسی کے سینیئر مشیر رہ چکے تھے۔ یعنی یہ افغانستان پر امریکی قیادت میں حملے سے ایک سال قبل کی بات ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اس (پہلی پابندی) سے سے مغربی قیمتوں اور بازاروں پر بڑے پیمانے پر اور فوری اثر نہیں ہوا تھا، کیونکہ منشیات کی سمگلنگ کے اس راستے میں شامل عوامل کی طرف سے بہت زیادہ ذخیرہ اندوزی ہوتی ہے۔ اس مارکیٹ کی یہی نوعیت ہے اور یہ پچھلے 20 سالوں سے بنیادی طور پر تبدیل نہیں ہوئی ہے۔‘
امریکہ نے افغانستان میں افیون کی پیداوار اور سمگلنگ کو ختم کرنے کی کوششوں میں اربوں ڈالر خرچ کیے تاکہ طالبان کی فنڈنگ کے ذرائع کو کم کیا جا سکے۔
انھوں نے طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں پوست کے کھیتوں پر فضائی حملے کیے، افیون کا ذخیرہ جلا دیا اور منشیات کی لیبارٹریوں پر چھاپے مارے۔
لیکن دوسری طرف امریکہ کی حمایت یافتہ سابق افغان حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں افیون آزادانہ طور پر اگائی جاتی رہی جس کا بی بی سی نے سنہ 2021 میں طالبان کے قبضے سے قبل مشاہدہ کیا تھا۔
فی الحال طالبان نے افغانستان میں وہ کام کیا ہے جو مغرب نہیں کر سکا۔ لیکن اس بارے میں سوالات موجود ہیں کہ وہ اسے کب تک برقرار رکھ سکتے ہیں۔
جہاں تک برطانیہ اور باقی یورپ میں ہیروئن کی لت کا تعلق ہے تو مائیک ٹریس کا کہنا ہے کہ افغانستان میں افیون کی کاشت میں ڈرامائی کمی سے منشیات کی کھائی جانے والی قسم میں تبدیلی کا امکان ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ممکنہ طور پر لوگ مصنوعی ادویات کی طرف رجوع کر سکتے ہیں جو افیون سے کہیں زیادہ غلیظ ہو سکتی ہے۔‘
بشکریہ بی بی سی