عمر کریم
مشرق وسطیٰ کا سیاسی منظرنامہ طویل عرصے سے خلفشار، ٹکراؤ اور ریاستوں کی باہمی چپقلش سے عبارت رہا ہے۔
قریب دو دہائیوں سے خطے کی سیاسی بساط پر مختلف علاقائی طاقتیں اپنے سیاسی اور سٹریٹجک مفادات کے لیے ایک دوسرے کے مقابل برسر پیکار تھیں لیکن عالمی افق پر طاقت کے بدلتے توازن اور نئی طاقتوں کے ظہور نے ایک طرف مشرق وسطیٰ کی سیاسی حرکیات پر گہرا اثر ڈالا ہے تو دوسری طرف خطے کے فیصلہ سازوں کو بھی اپنی روش تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات میں یوں تو شاہ ایران کے زمانے میں بھی زیادہ گرم جوشی نہیں لیکن دونوں ممالک سوویت یونین کے خلاف امریکی کیمپ کا حصہ تھے اس لیے ان کے باہمی روابط کسی حد تک مثبت تھے۔
لیکن 1979 کے انقلاب سے ایرانی ریاست اور سیاست کی حیثیت یکسر بدل گئی۔ شاہ ایران جو خطے میں امریکہ کے سب سے بڑے حواری تھے ان کی جگہ اقتدار مذہبی حکومت کے پاس آ گیا جس کی قیادت آیت اللہ خمینی کر رہے تھے۔
ایران کے نئے حکمرانوں کے لیے امریکہ ’شیطان بزرگ‘ یعنی ’بڑے درجے کے شیطان‘ کے مترادف تھا اور اسی طرح اس کے علاقائی حواری بھی قابل مذمت تھے۔
انقلابی حکومت کے خیال میں ایران کے عوام کو امریکہ کے ایک گماشتے سے آزادی دلانے کے بعد اب یہ ان کا فرض تھا کہ وہ پورے خطے کے عوام کو امریکی سامراج اور اس کے مقامی ساتھیوں سے آزاد کروائیں۔
چونکہ سعودی عرب اب خطے میں امریکہ کا مرکزی حلیف تھا اس لیے سعودی مملکت اور اس کے حکمران ایران کی نئی حکومت کے نشانے پر آ گئے۔ یوں انقلاب ایران سے سعودی ایران تعلقات میں باہمی مخاصمت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ سعودی عرب اور ایران میں کیونکہ دو مختلف مذہبی مسالک کا اثرونفوذ تھا اور ایران میں حکومت اب براہ راست مذہبی طبقے کے ہاتھ میں تھی اس لیے باہمی اختلاف بڑھتا چلا گیا۔
آیت اللہ خمینی کی وفات کے بعد باہمی تعلقات میں کسی قدر بہتری آئی اور 1990 کی دہائی میں مثبت رنگ نظر آنا شروع ہوا۔ ایسے میں دونوں ملکوں کے درمیان سرکاری دورے بھی ہوئے اور یہ خیال کیا جانے لگا کہ اب باہمی تعلقات معمول پر آ جائیں گے، لیکن یہ میل جول اور اعتماد سازی کے اقدامات ناکافی ثابت ہوئے۔
امریکہ کے عراق پر قبضے اور صدام حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی خطے میں طاقت کا توازن ایران کے حق میں چلا گیا۔ 1980 سے خلیجی ممالک، صدام کے زیر اثر عراق اور ایران کی سیاسی تکون نے کسی حد تک خطے میں اس توازن کو برقرار رکھا ہوا تھا لیکن صدام حکومت کے خاتمے سے ایرانی نواز عناصر کو عراق کی نئی سیاسی بساط پر قبضہ کرنے کا موقعہ مل گیا۔ اس تبدیلی کے بعد جہاں خطے میں ایرانی اثرورسوخ میں اضافہ ہوا وہیں ایران اور سعودی عرب کے مابین جاری مذاکراتی عمل بھی تعطل کا شکار ہو گیا۔
جیسے ہی خطے میں ’عرب بہار‘ کی لہر پھیلی، سعودی ایران تعلقات جو پہلے سے ہی تناؤ کا شکار تھے اب کھلے تصادم کی طرف چل نکلے۔ بحرین، شام یا یمن ہر جگہ دونوں ملک مختلف اور متحارب قوتوں کی حمایت میں سامنے آ گئے اور یوں خطے میں بالادستی کی ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہو گیا۔
2016 میں جب سعودی عرب نے شیخ نمر النمر کو پھانسی دی تو ایران میں اس پر شدید ردعمل آیا اور مظاہرین نے تہران میں سعودی سفارتخانے کی عمارت جلا دی۔ اس واقعے کے بعد سعودی عرب نے ایران سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر دیے اور دونوں ممالک کی باہمی رقابت انتہاؤں کو چھونے لگی۔
یہ باہمی مقابلہ یونہی جاری رہتا لیکن اس تناؤ کے بڑھتے ہوئے منفی اثرات نے دونوں اطراف کو پھر سے بیٹھنے اور بات چیت کرنے پر مجبور کر دیا۔ سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر ہونے والے حملے اور ایرانی معیشت کی عالمی پابندیوں کے باعث زبوں حالی وہ اہم عوامل تھے جن کی وجہ سے ممکنہ طور پر مذاکراتی عمل کی بحالی ممکن ہو سکی۔
دہائیوں پر پھیلی اس مسابقت اور بد اعتمادی کا جلد خاتمہ ایک ناممکن امر تھا۔ ایسے میں ایک ایسے قابل بھروسہ ثالث کی ضرورت تھی جس پر دونوں اطراف کی قیادت کو مکمل اعتماد ہو اور جو مذاکراتی عمل میں دونوں فریقین کی معاونت بھی کرے اور معاہدوں میں بطور ضامن شریک بھی ہو، یہ کردار چین نے بخوبی ادا کیا۔ چین کا یہ کردار اس چیز کی غمازی کرتا ہے کہ چین مشرق وسطیٰ کی علاقائی سیاست میں قدم رکھ چکا ہے اور آنے والے دنوں میں چین مزید اہم کردار ادا کرے گا۔ یوں خطے میں واحد عالمی طاقت کے طور پر قائم امریکی بالادستی کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے۔ یہاں عراقی سیاسی قیادت کے تعمیری کردار کی تعریف کرنا بھی ضروری ہے جنہوں نے سعودی عرب اور ایران کی قیادت کے درمیان پل کا کردار ادا کیا۔
سعودی عرب اور ایران کے مابین تعلقات کی بحالی یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ اب خطے کی اہم طاقتیں سیاسی اور سٹریٹیجک مفادات کے لیے جاری اس سرد جنگ سے تنگ آ چکی ہیں اور ان تنازعات پر اپنے وسائل صرف کرنے کی بجانے معاشی ترقی پر توجہ مرکوز کرنا چاہتی ہیں۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین کی قطر اور ترکی سے تعلقات کی بحالی بھی یہی ظاہر کرتی ہے کہ خطے کے ممالک اب جغرافیائی تسلط کی سیاست کی بجائے اقتصادی تعاون کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔
ایسے میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی پورے خطے کے لیے ایک نہایت مثبت پیشرفت ہے جس سے مشرق وسطیٰ میں تصادم کی سیاست کا خاتمہ ہوگا اورعلاقائی تعاون کو فروغ ملے گا