ڈاکٹررؤف پاریکھ
انگریزی کے معروف لغت نویس اور بذلہ سنج سیمویل جانسن کو جب ایک صاحب نے اپنی کتاب کا مسودہ دیباچہ لکھنے کے لیے بھجوایا تو جانسن نے انھیں لکھا : ’’آپ کی کتاب اچھی اور طبع زاد ہے لیکن جو حصہ اچھا ہے وہ طبع زاد نہیں ہے اور جو طبع زاد ہے وہ اچھا نہیں ہے ‘‘(طبع زاد یعنی تحریر جو ترجمہ یا تدوین نہ ہو بلکہ خود سے لکھی ہوئی ہو)۔ اس طرح جانسن نے اس کے ادبی سرقے پر طنز کیا تھا۔
سرقہ کے لفظی معنی ہیں چوری۔ اردو میں لفظ سرقہ ایک مخصوص مفہوم میں استعمال ہوتا ہے اور وہ ہے ادبی چوری۔ جب کسی کے الفاظ یا خیال کو چُرا کر اور اپنا بنا کر پیش کیا جائے تو اسے اصطلاحاً سرقہ کہتے ہیں۔ انگریزی میں اسے پلے جرزم (plagiarism) کہا جاتا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایک ہی خیال یا ایک ہی بات ایک سے زیادہ لکھنے والوں کے ذہن میں آسکتی ہے اور ضروری نہیں کہ وہ سرقہ ہی ہو۔ اس ضمن میں اردو کے جاپانی ماہر پروفیسر ہیروجی کتاوکا نے جامعہ کراچی کے شعبۂ اردو میں ایک بار اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ غالب کے اس شعر:
سب کہاں ،کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں ، کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
کا مرکزی خیال (کہ خوب صورت لوگ جب مر جاتے ہیں تو خاک میں پنہاں نہیں ہوتے بلکہ ان میں سے کچھ دل کش پھولوں کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں) انگریزی کے ایک شاعر کے ہاں بھی موجود ہے اور ایک جاپانی شاعر نے بھی کچھ اسی طرح کی بات کی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ نہ غالب جاپانی یا انگریزی جانتے تھے ، نہ جاپانی شاعر نے انگریزی شاعری یا غالب کاکلام پڑھا تھا اور انگریز شاعر بھی اردو اور جاپانی سے ناواقف رہا ہوگا ۔ لیکن ایک ہی خیال مختلف زبانوں اور مختلف زمانوں کے تین شعرا کے ذہن میں وارد ہوا اور تینوں نے اسے اپنی اپنی شاعری میں پیش کردیا۔یہ سرقہ نہیں ہے۔ اسے اصطلاحاً ’’توارُد‘‘ کہتے ہیں۔
تَوارُد کے لفظی معنی ہیں: ایک ہی جگہ وارد ہونا یا اُترنا۔ ادبی اصطلاح میں اس سے مراد ہے ایک ہی بات یا خیال کا دو اہلِ قلم کی تحریر وں میں پایا جانا لیکن یہ جانے بغیر کہ دوسرے نے بھی یہی بات لکھی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر جانتے بوجھتے لکھا تو سرقہ ہے۔ البتہ تو ارُد شاذ و نادر ہی ہوتا ہے لیکن سرقہ بہت عام ہے اور آج سے نہیں صدیوں سے عام رہا ہے۔ سرقے کی تاریخ بہت طویل ہے اور جن لکھنے والوں کاعالمی ادب میں بڑا مرتبہ ہے ان میں سے بھی بعض سرقے میں ملوث پائے گئے ہیں، مثلاً اطالوی زبان کے عظیم شاعر دانتے کی ڈیوائن کامیڈی کا بڑا شہرہ ہے لیکن اس میں پیش کیے گئے جنت، دوزخ اور شیطان سے متعلق بعض خیالات عیسائی اور اسلامی مذہبی کتابوں سے ماخوذ ہیں۔ کچھ عرصے قبل ایک تحقیقی مقالے میں ثابت کیا گیا تھا کہ ڈیوائن کامیڈی میں ابن ِ عربی کی کتاب فتوحات ِ مکیہ سے بہت کچھ لیا گیا ہے اور بعض تفصیلات تک وہی ہیں جو ابن ِ عربی نے لکھی ہیں۔
سرقے کی روایت زبان اور سرحدوں سے ماورا ہے اور ہر علاقے اور ہر زبان کے لکھنے والوں نے کچھ نہ کچھ مال دوسروں کا ہتھیا یا ہے۔ ابن ِ بطوطہ اور مارکوپولو پر بھی الزام ہے کہ ان کے سفر کی تفصیلات میں دوسری کتابوں سے لیا گیا احوال بھی ملتا ہے۔ جے اے کڈن نے اپنی ادبی اصطلاحات کی معروف انگریزی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک زمانے میں انگریزی ڈراما نگاروں میں دوسروں کے ڈراموں سے حصے نقل کرکے اپنے نام سے پیش کرنا عام بات تھی۔ فارسی شاعری میں بھی دوسروں کے شعر چُرا کر اپنے نام سے پیش کرناکوئی نادر یا انوکھی بات نہ تھی اور ڈاکٹر سید عبداللہ کے مطابق فارسی شاعر ی میں تخلص کی روایت کے آغاز کا بڑا سبب شعر چوری کرنے والوں کے خلاف ایک ثبوت پیش کرنا بھی تھا۔
اردو میں بھی ادبی چوری عام تھی اور ہے۔ اس سلسلے میں ایک رسالہ مہرِ نیم روز کے نام سے کراچی سے جاری کیاگیا تھا۔ اسے جاری کرنے والے یعنی حسن مثنیٰ ندوی، علی اکبر قاصد اور ابولخیر کشفی نے رسالے کا ایک حصہ سرقوں کا پول کھولنے کے لیے وقف کیا تھا۔ خالد جامعی نے جامعہ ٔ کراچی کے شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ کے رسالے ’’جریدہ‘‘میں مہرِ نیم روز کے کئی مضامین شائع کیے اور بعدازاں اسے ’’چہ دلاور است ‘‘کے عنوان سے کتابی صورت میں بھی شائع کیا۔
ادبی چوریاں اور ادبی جعل سازیاں
اس کے مطالعے سے بہت اہم انکشافات ہوئے۔ مثلاً یہ کہ نیاز فتح پوری کی ترغیبات ِ جنسی دراصل ہیولاک ایلس کی کتاب کا چربہ تھی۔ ظفر عمر کا معروف جاسوسی ناول نیلی چھتری اصل میں تیرتھ رام فیروز پوری کی کتاب شاہی خزانہ کا چربہ تھا۔ لیکن تیرتھ رام فیروز پوری نے واضح کیا تھا کہ یہ مورس لیبلانک کے ایک ناول کا ترجمہ ہے۔ ظفر عمر صاحب نے نہیں بتایا۔ عصمت چغتائی کا مشہور ناو ل’’ ضدی‘‘ ایک ترکی ادیبہ عدالت خانم کے ناول ’’ہاجرہ ‘‘ کی نقل ہے۔ اسی طرح دیگر کئی بڑے ناموں کے بڑے ادبی’’ کارناموں‘‘ کی حقیقت اس میں بتائی گئی۔
چند برس پہلے ممبئی سے اشعر نجمی نے اپنے رسالے اثبات کا ایک خاص شمارہ ادب کے بڑے ناموں کے سرقوں پر شائع کیا۔ اس کے مطابق ابوالکلام آزادکی لکھی ہوئی قرآنی تفسیر ترجمان الحقیقت سید رشید رضا کی لکھی ہوئی عربی کی معروف کتاب ’’المنار ‘‘سے بہت زیادہ ’’استفادے‘‘ کا نتیجہ ہے۔کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔ محمد حسین آزاد کی نیرنگِ خیال میں شامل مضامین میں سے بیشتر ایڈیسن اور اسٹیل کی تحریروں کے آزاد تراجم ہیں۔
آزاد نے کہیں اس کی نشان دہی نہیں کی۔ نیاز فتح پوری کی دست شناسی پر کتاب فراست الیددرحقیقت معروف دست شناس کیرو کی ایک کتاب کا ترجمہ ہے۔ کہیں وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ ترجمہ ہے۔ عبداللہ حسین پر قرۃ العین حیدر نے سرقے کا الزام لگایا اور اپنی کتاب کار ِ جہاں دراز ہے میں اپنے ناول آگ کا دریا اورعبداللہ حسین کے ناول اداس نسلیں کے صفحات نمبر تک لکھ دیے جہاں سے بعض جملے اور پیراگراف تک لفظ بلفظ نقل کیے گئے ہیں۔
کچھ مزید سرقوں کا حال اس وقت کھلا جب راقم نے بعض کتب پر لکھے گئے تحقیقی کاموں کا جائزہ لیا۔ مثلاً ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی نے لکھا ہے کہ مولوی نذیر احمد دہلوی کی منتخب الحکایات دراصل ایسپ (Aesop) کی کہانیوں ، مراۃ النسا ء اور ہفت گلشن سے ماخوذ ہے لیکن مولوی صاحب نے اشارہ تک نہیں کیا۔ نذیر احمد کا ناول توبۃ النصوح بھی ڈینیل ڈی فو کے ایک ناول سے ماخوذ ہے۔ سلطان حید جوش کا ناولٹ دراصل ارنسٹ ہیمنگ وے کے ناول اے فیر ویل ٹو آرمس سے بہت زیادہ متاثر ہے۔ سلطان حیدر جوش کا ناول نقش و نقاش سمرسٹ ماہم کے دی مون اینڈ دی سکس پنس سے ماخوذ ہے۔ ان کا مضمون ابلیس بھی میری کوریلی کے مضمون Satan (یعنی شیطان) سے سرقہ ہے۔
امتیاز علی تاج کا کردار چچا چھکن انگریزی مزاح نگار جیروم کے جیروم (Jerome K. Jerome) کے کام سے متاثر ہوکر لکھا گیا لیکن تاج نے اس کا اعتراف دوسرے ایڈیشن میں کیا ،وہ بھی نیم دلی سے۔کرشن چندر کے ناول الٹا درخت کا مرکزی خیال لوئی کیرول کے معروف ناول ایلسز ایڈونچرز ان ونڈر لینڈ سے لیا گیا ہے۔ انگریزی ناول میں ایلس نامی بچی ایک خرگوش کے بھٹ میں گر جاتی ہے اور نیچے ایک نئی دنیا آباد ہوتی ہے۔ کرشن چندر کے ناول میں ایک درخت ہے جو زمین کے اندر اگتا اور پھیلتا گیا ہے اور اس میں ایک شہر آباد ہے اور ایک لڑکا اس میں داخل ہوجاتا ہے۔ البتہ کرشن چندر نے بچوں کے لیے لکھے گئے اس ناول میں ترقی پسندی کے فلسفے کو علامات کے ذریعے پیش کرکے اسے بچوں کے قابل رہنے نہیں دیا۔ بعض علامات شاید بڑے بھی (اگر وہ ترقی پسندی سے واقف نہ ہوں تو)نہ سمجھ سکیں۔
ادبی سرقوں کے علاوہ ایک خرابی ادبی جعل سازی کی ہے۔ آج سے کوئی چالیس بیالیس سال پہلے ہٹلر کی ڈائریاں ’’دریافت ‘‘ ہوئی تھیں اور بڑی سنسنی پھیل گئی تھی کہ اب اہم انکشافات سامنے آئیں گے۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ ڈائریاں ہٹلر کی نہیں تھی اور کسی نے ایسی مہارت سے جعل سازی کی تھی کہ ایک بارتو ماہرین بھی غچہ کھاگئے اور ان ڈائریوں کے حقوقِ اشاعت چارلاکھ ڈالر میں فروخت بھی کردیے گئے تھے۔
محمود غزنوی کی ایک ہجو فارسی کے عظیم شعر فردوسی سے منسوب کی جاتی تھی لیکن تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ جعلی تھی اور غالباً فردوسی کی وفات کے بعد لکھی گئی تھی۔ مقصد محمود غزنوی کی نیک نامی کو نقصان پہنچانا تھا۔ غالب کے نام سے بھی جعل سازیاں کی گئیں۔ مثلاً عبدالباری آسی نے غالب کی سات جعلی غزلیں کہہ کر انھیں غالب کا’’ نودریافت کلام‘‘ قرار دیا اور امتیاز علی خاں عرشی جیسا ماہر ِ غالب بھی دھوکا کھاگیا۔ دیوان ِ غالب کے نسخۂ عرشی کے پہلے ایڈیشن میں یہ غزلیں شامل تھیں لیکن عرشی صاحب نے انھیں دوسرے ایڈیشن سے یہ کہہ کر خارج کردیا کہ یہ غالب کا کلام نہیں ہے۔
اسمٰعیل رضا ہمدانی گیاوی نے غالب کے ستائیس (۲۷) خطوط دریافت کرنے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ یہ خط ان کے دادا کو غالب نے لکھے تھے۔ انھوں نے یہ خط’’ نادر خطوط ِ غالب‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں ۱۹۳۹ء میں شائع کیے۔لیکن دراصل وہ سب غالب کے خطوط سے مختلف عبارتیں لے کراور جوڑ کر تیار کیے گئے تھے۔ یہ جعل سازی بھی پکڑی گئی۔
نول کشور نے ایک دیوان کے کئی یڈیشن شائع کیے اور کہا گیا کہ یہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کا دیوان ہے۔ حافظ محمود شیرانی نے تحقیق سے ثابت کیا کہ یہ دیوان اصل میں مولانا معین الدین کا ہے اورحضرت خواجہ اجمیری کا نہیں ہے۔ بلکہ خلیق انجم نے لکھا ہے کہ چشتی صوفیوں کے نام سے منسوب بعض کتابیں (بعض، سب نہیں) دراصل ان محترم بزرگوں کی لکھی ہوئی نہیں ہیں بلکہ تاجرانِ کتب نے مالی منفعت کے خیال سے بعض دوسرے مصنفین سے لکھوائی تھیں۔