Thursday, December 26, 2024
homeادب و ثقافتمسجدِ نبوی سے صرف سات سال بعد بننے والی کیرالہ کی چیرامن...

مسجدِ نبوی سے صرف سات سال بعد بننے والی کیرالہ کی چیرامن جامع مسجد

رشدہ شاہین

انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ کے شہر کوچی سے لگ بھگ 45 کلومیٹر کی دوری پر واقع ساحلی علاقہ کوڈنگلور کے قدیم ناموں میں سے ایک موزیری بندرگاہ ہے۔

یہ قدیم بندرگاہی علاقہ ماضی میں شہرہ آفاق کیرالائی مصالحوں کی دنیا بھر میں برآمد کی بین الاقوامی منڈی کی حیثیت رکھتا تھا۔

2016 میں جب کیرالہ کے محکمہ سیاحت نے اس تاریخی ساحلی علاقے کی عظمت رفتہ کی بحالی کی خاطر موزیری ہیریٹیج منصوبہ شروع کیا تو جن تاریخی اہمیت کی حامل عمارتوں کو ترجیح دی گئی ان میں سے ایک چیرامن مسجد تھی۔

اس مسجد کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب 2016 میں انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے سعودی عرب کا دورہ کیا تو انہوں نے اس مسجد کا سونے سے بنا ہوا نمونہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان کو پیش کیا تھا۔


وزیر اعظم مودی کے ذریعہ سونے سے بنا ہوا مسجد کا نمونہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان کو پیش کیا گیا

کوڈنگلور کے میتھلا نامی گاؤں میں یہ مسجد مخصوص کیرالائی طرزِ تعمیر کا ایک بہترین نمونہ ہے اور کئی تاریخی حوالوں کے اعتبار سے برصغیر کی سب سے قدیم مسجد ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اسے مقامی راجہ چیرامن پیرومل کی وصیت پر مبلغِ اسلام مالک بن دینار نے پیغمبرِ اسلام کے عہدِ حیات میں ہی اور مسجد نبوی کی تعمیر سے محض سات سال بعد 629 میں تعمیر کروایا تھا۔

مسجد کے منتظمین کے مطابق موزیری ہیریٹیج منصوبے کے تحت اس مسجد کی وہی شکل و صورت بحال کی گئی ہے جو اس نے 16 ویں صدی میں تزئینِ نو کے بعد اختیار کی تھی۔

مذہبی ہم آہنگی کا گہوارہ

میتھلا، جہاں چیرامن مسجد قائم ہے، ایک انتہائی سرسبز اور خوبصورت گاؤں ہے۔ سمندر کے ساحل پر آباد ہونے کی وجہ سے اس کی آب و ہوا تازگی سے بھرپور ہے۔ کیرالہ کے باقی حصوں کی طرح اس گاؤں میں بھی شرح خواندگی 95 فیصد ہے۔

یہاں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ خدا نے اس گاؤں کو صرف قدرتی خوبصورتی عطا نہیں کی ہے بلکہ اس کو مذہبی ہم آہنگی کا مرکز بنا دیا ہے۔

چیرامن مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کے صدر ڈاکٹر محمد سعید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ہندو اکثریتی میتھلا میں ہندوؤں اور عیسائیوں کو اس مسجد سے اتنی ہی عقیدت ہے جتنی کہ مسلمانوں کو۔

’دنیا کے بیشتر گوشوں میں دیکھا گیا ہے کہ ہر مخصوص مذہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہیں ان ہی علاقوں میں قائم ہیں جہاں ان کی اکثریت ہے۔ مندر ہندوؤں کی آبادی والے علاقوں میں، مسجدیں مسلمانوں اور گرجا گھر عیسائیوں کی آبادی والے علاقوں میں۔

’لیکن چیرامن مسجد اس معاملے میں الگ اور منفرد ہے۔ جس گاؤں میں یہ مسجد واقع ہے یہاں آج بھی مسلمانوں کی آبادی پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ 1940 کی دہائی میں تو یہاں صرف دو ہی مسلمان خاندان آباد تھے۔ ایک خاندان کا سربراہ مسجد کا امام اور دوسرے خاندان سے موذن تھا۔‘

ڈاکٹر محمد سعید، جو پیشے سے سرجن ڈاکٹر ہیں، کہتے ہیں کہ چیرامن مسجد کیرالہ کے سیکولر تانے بانے اور مذہبی ہم آہنگی کی ایک عظیم نشانی ہے۔

’مسجد کے ارد گرد ہی نہیں بلکہ دو کلو میٹر کے دائرے تک ہندو بڑی اکثریت میں رہتے ہیں۔ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ یہاں اس مسجد کا احترام کرتے ہیں اور یہاں اپنے طریقے سے اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں۔

’خاص طور پر ہندو صبح کے وقت مسجد کے صحن میں کھڑے ہو کر ہاتھ جوڑتے ہیں اور انفرادی طور پر اپنے رب سے رجوع کرتے ہیں۔ شام کے وقت بھی یہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہندوؤں یا دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لیے اس مسجد کے دروازے کھلے ہیں۔‘

ڈاکٹر سعید اس مسجد میں ہونے والی ہندوؤں کی ایک سالانہ تقریب کے بارے میں کہتے ہیں: ’یہاں اس علاقے کے ہندوؤں میں ایک تقریب بہت مقبول ہے جو ودیا رمبھم کہلاتی ہے۔

’ودیا رمبھم سنسکرت زبان کے الفاظ ہیں جن کے معنی علم کی ابتدا ہے۔ دسہرہ کے موقع پر ہونے والی اس تقریب میں ہندو اپنے بچوں کو کسی پنڈت کے زیر سرپرستی علم سکھانے کی ابتدا کرتے ہیں۔

’دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تقریب چیرامن مسجد میں بھی ہوتی ہے جہاں ہندو بچے مسجد امام کے زیرِ پرستی علم سیکھنے کا آغاز کرتے ہیں۔ مسجد کمیٹی اس کی حمایت کرتی ہے کیوں کہ یہ تقریب یہاں زمانہ قدیم سے منعقد ہوتی آئی ہے۔‘

مسجد کے مینار کیوں توڑے گئے؟

ڈاکٹر محمد سعید کا کہنا ہے کہ یہ کم و بیش 400 نمازیوں کی گنجائش والی مسجد ہے جس کا 1974 تک کوئی گنبد یا مینار نہیں تھا۔

’1341 میں ایک تباہ کن سیلاب اور زلزلے کی وجہ سے مسجد کو شدید نقصان پہنچا۔ پھر جب 1504 میں پرتگالیوں نے کوڈنگلور پر حملہ کر دیا تو انہوں نے مختلف کاروباری اور تاریخی اہمیت کے حامل تاریخی ڈھانچوں کے علاوہ چیرامن مسجد کو بھی ڈھا دیا۔

’پرتگالیوں کی طرف سے ڈھائے جانے کے بعد اس مسجد کی اسی صدی میں تزئینِ نو ہوئی اور 1974 تک اسی شکل میں نماز کی ادائیگی کے لیے استعمال ہوتی رہی۔

’لیکن 1970 کی دہائی کے وسط میں مسجد کی انتظامیہ کمیٹی نے نمازیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے اس کی توسیع کا کام شروع کیا جو 2000 تک بننے والی مختلف کمیٹیوں نے جاری رکھا۔

’یہ بغیر گنبد اور مینار والی مسجد تھی لیکن کئی مرحلوں کی توسیع کے عمل کے دوران اس مسجد کا گنبد ہی نہیں بلکہ چار مینار بھی تعمیر کرائے گئے۔ اس وجہ سے مسجد کی اپنی اصل شکل و صورت برقرار نہ رہ سکی اور اس نے ایک ایسی مسجد کا روپ اختیار کر لیا جو کسی بھی لحاظ سے تاریخی نظر نہیں آ رہی تھی۔‘

ڈاکٹر محمد سعید کہتے ہیں کہ کیرالہ حکومت کے محکمہ سیاحت نے موزیری ہیریٹیج منصوبے کے تحت اس مسجد کی قدیم اور اصل شکل و صورت کی بحالی پر اب تک کم و بیش ایک کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔

’ہم مسجد کی کھوئی ہوئی انفرادیت کو لے کر بہت زیادہ متفکر تھے۔ لیکن حکومت سامنے آئی اور اس نے مسجد کو اپنی اصل شکل میں بحال کرنے کا ذمہ لیا۔ کئی سال کی محنت کے بعد اب یہ مسجد اسی شکل و صورت میں نظر آ رہی ہے جو اس نے 16 ویں صدی میں تزئینِ نو کے بعد اختیار کی تھی۔

’گنبد اور میناروں سمیت تمام اضافی ڈھانچوں کو منہدم کیا گیا ہے۔ تھوڑا سا ہی کام باقی ہے۔ امکان ہے کہ اس کی رمضان سے قبل افتتاح ہو گی۔ مسجد میں تو نمازیوں کی گنجائش 400 ہی ہے لیکن اس کے صحن میں تقریباً دو سے تین ہزار لوگ ایک ساتھ نماز پڑھ سکتے ہیں۔‘

موزیری ہیریٹیج منصوبے کے مینیجنگ ڈائریکٹر پی ایم نوشاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس مسجد کی وزیر اعلیٰ پینارائے وجئے ین کے ہاتھوں افتتاح ہو گی جو عنقریب متوقع ہے۔

’غیر سرکاری طور پر مسجد کو نمازیوں اور زائرین کے لیے کھول دیا گیا ہے اور ہر دن بڑی تعداد میں لوگ یہاں آتے ہیں۔ حکومت نے اس کے نئے تعمیراتی ڈھانچوں کے انہدام اور اس کی قدیم شکل کی بحالی کے لیے ایک کروڑ 14 لاکھ روپے منظور کیے تھے۔‘

یہ سکون کی جگہ ہے

ڈاکٹر محمد سلیم ندوی اس مسجد میں گذشتہ دو سال سے امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہاں جو بھی آتا ہے اس کو یہاں ایک الگ ہی سکون ملتا ہے۔

’میں اللہ کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھ سے برصغیر کی پہلی مسجد میں امامت کے فرائض انجام دینے کا کام لیا۔ اس مسجد میں پنجگانہ نماز ہوتی ہے۔ جمعہ کی نماز کا اجتماع بڑا ہوتا ہے جس میں کم و بیش تین ہزار نمازی شریک ہوتے ہیں۔‘

مسجد کے منتظم فیصل ای بی کہتے ہیں کہ چیرامن مسجد کا منبر، محراب، یہاں موجود عربی مواد اور دیواروں پر لکھی تحریروں کو دیکھ کر از خود اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ ایک بہت ہی قدیم مسجد ہے۔

’مسجد کا منبر زائد از 900 سال پرانا ہے۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق مسجد میں استعمال کی گئیں لکڑیاں زائد از ایک ہزار سال پرانی ہیں۔

’ہر روز چار سے پانچ سو لوگ خاص طور پر ملکی و غیر ملکی سیاح اس مسجد کو دیکھنے آتے ہیں۔ چوں کہ اب اس کی قدیم شکل و صورت بحال ہو گئی ہے لہٰذا اب یہاں آنے والے لوگوں کی تعداد بھی بڑھے گی۔‘

فیصل ای بی نے کہا کہ اس مسجد کی تاریخی اہمیت کو دیکھتے ہوئے 2005 میں اس وقت کے بھارت کے صدر اے پی جے عبد الکلام یہاں آئے۔

’2016 میں جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سعودی عرب کے دورے پر گئے تو انہوں نے وہاں اسی مسجد (چیرامن مسجد) کا ایک ماڈل وہاں کے فرمانروا شاہ سلمان کو پیش کیا جس پر سونے کا پانی چڑھا ہوا تھا۔‘

کیا یہ واقعی برصغیر کی پہلی مسجد ہے؟

جب ہم نے یہ سوال ڈاکٹر محمد سعید سے پوچھا تو ان کا جواب ’ہاں‘ تھا۔

’میں ذاتی طور پر مانتا ہوں کہ یہ برصغیر کی پہلی مسجد ہے۔ آج تک اس دعوے کی کسی نے تردید کی ہے نہ کسی علاقے سے اس سے زیادہ قدیم مسجد کی موجودگی کی کوئی بات سامنے آئی ہے۔‘

پی ایم نوشاد کہتے ہیں: ’حالاں کہ اس کے کوئی ٹھوس تاریخی شواہد نہیں ہیں کہ یہ مسجد 629 میں تعمیر کی گئی تھی لیکن مختلف دلیلوں کی بنیاد پر اس تاریخ کو صحیح سمجھا جاتا ہے۔

’اس کی توثیق یہاں میوزیم میں رکھا ہوا ایک معاہدہ کرتا ہے جو ساتویں صدی میں مقامی حکمراں اور ایک تاجر کے درمیان طے پایا تھا۔ یہ کوڈنگلور میں تجارت کی اجازت کے متعلق تھا۔

’اس معاہدے پر حکمراں فریق کی طرف سے کئی مسلمانوں کے دستخط ثبت ہیں جن میں سے بعض کا نام محمد تھا۔ اس معاہدے سے نہ صرف مالابار میں ساتویں صدی ہی میں اسلام پھیلنے بلکہ چیرامن مسجد کی تعمیر کی کہانی کی بھی توثیق ہوتی ہے۔

’جہاں تک کیرالہ کی حکومت کا تعلق ہے تو اس کے لیے مسجد کی تعمیر کا سال 629 ہی صحیح ہے اور ہر ایک سرکاری ریکارڈ یہاں تک کہ محکمہ سیاحت اور موزیری منصوبے کی ویب سائٹ پر بھی یہی تاریخ درج ہے۔‘

ڈاکٹر محمد سعید کہتے ہیں کہ اس بات پر سبھی مورخین و محققین متفق ہیں کہ چیرا خاندان کے ایک بادشاہ پیغمبر اسلام سے ملاقات کے لیے مکہ گئے اور واپس نہ آ سکے کیوں کہ وہ راستے میں ہی انتقال کر گئے۔

’اختلاف اگر ہے تو وہ صرف اس بات پر ہے کہ بادشاہ کب مکہ گئے۔‘

مورخ اور ماہرِ تعلیم سیبسٹین پرینج نے اپنی معروف تصنیف ’مونسون اسلام: ٹریڈ اینڈ فیتھ آن دی میڈیول مالابار کوسٹ‘ میں لکھا ہے کہ مکہ میں چیرامن پیرومل نے خود پیغمبر اسلام کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا اور اس طرح پہلے ہندوستانی مسلمان بن گئے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ عرب میں چند سال مقیم رہنے کے بعد اس بادشاہ نے اپنی آبائی سرزمین واپس جا کر وہاں اسلام کا پرچار کرنے کا فیصلہ کیا لیکن راستے میں چل بسے اور ان کی وصیت پر ایک عربی گروہ نے برصغیر میں اسلام متعارف کیا۔

انجینیئر محمد اشرف فاضلی نے اپنی کتاب ’مائی میوزنگز‘ میں سال کی نشاندہی کیے بغیر لکھا ہے کہ چیرامن پیرومل 27 شوال کو صبح نو بجے پیغمبر اسلام سے ملے اور آخر الذکر نے ان کی خوب مہمان نوازی کی۔

وہ لکھتے ہیں کہ اس موقعے پر موجود حضرت ابوبکر صدیق نے مہمانوں کے بارے میں جاننا چاہا تو پیغمبر اسلام نے کہا کہ یہ اس جگہ کے بادشاہ ہیں جہاں سے ادرک اور کالی مرچ آتی ہے۔

انجینئر فاضلی نے اپنی کتاب میں ابن ربن طبری کی فردوس الحکمہ کے حوالے سے لکھا کہ چیرامن پیرومل 17 دنوں تک پیغمبر اسلام کی مہمان نوازی میں رہے۔

وہ مزید لکھتے ہیں: ’یہ سب آج سے 1400 سال پہلے ہوا ہے۔ مالک بن دینار سمیت 44 افراد کیرالہ پہنچے جن میں سے 20 کو قرآن پاک زبانی یاد تھا۔ مالک بن دینار کو کوڈنگلور میں مسجد بنانے کی اجازت دی گئی۔ یہ ہندوستان میں کسی بھی جگہ تعمیر ہونے والی پہلی مسجد تھی۔‘

مہرداد شکوہی نے ’مسلم آرکیٹیکچر آف ساؤتھ انڈیا‘ میں نشاندہی کی ہے کہ محمد قاسم فرشتہ نے ایک جگہ پر چیرامن مسجد کی بنیاد کی کوئی تاریخ نہیں بتائی ہے لیکن یہ لکھا ہے کہ واقعہ پیغمبر اسلام کی زندگی میں پیش آیا تھا جب کہ دوسری جگہ وہ بہت بعد کی تاریخ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

امریکی مصنفہ پروفیسر مے جوزف، جنہوں نے اس مسجد کو دیکھا ہے، نے اپنی کتاب ’سی لاگ: انڈین اوشن ٹو نیویارک‘ میں لکھا ہے: ’کوڈنگلور کی بقائے باہمی کی جدید حساسیت کو ساتویں صدی کی چیرامن جامع مسجد کی اعتدال پسند موجودگی سے تقویت ملتی ہے۔ اس کو 629 میں عمان کے ایک سمندری مسافر مالک بن دینار نے تعمیر کرایا اور اس کے پہلے قاضی بنے۔ یہ دنیا کی واحد مسجد ہے جس کا ہندو نام ہے۔‘

انہوں نے اپنے ذاتی مشاہدے کچھ اس طرح قلمبند کیے ہیں: ’میں نے اپنا سر ڈھانپ لیا۔ پاؤں دھوئے اور مسجد میں داخل ہو کر خواتین کے اس حصے میں قدم رکھا جو ساتویں صدی کے اصل ڈھانچے کے حرم سے روبرو ہے۔

’یہاں یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ اس مقدس ڈھانچے کو ہندوستان کی پہلی مسجد ہونے کا شرف حاصل ہے لیکن ساتھ ہی اس کی بھی تائید ملتی ہے کہ یہ ہندوستان میں اسلام کا قدیم ترین مقام ہے۔‘

مورخ ایم جی ایس نارائنن نے اپنی کتاب ’پیروملز آف کیرالہ‘ میں لکھا ہے کہ اس روایت کو رد کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ چیرامن پیرومل نے اسلام قبول کیا تھا اور مکہ گئے تھے۔ کیوں کہ اس کا ذکر نہ صرف مسلم تاریخوں بلکہ کیرالہ کی ہندو برہمی تاریخ ’کیرلولپتھی‘ میں بھی ملتا ہے۔

وہ رقم طراز ہیں: ’آخری چیرامن پیرومل کا اسلام قبول کیے جانے کے بعد مکہ جانا اور پھر ان کے ساتھیوں کی طرف سے کیرالہ میں دس مسجدیں بنوانے کی روایت کی کیرلولپتھی جیسی ہندو تواریخ اور تحفتہ المجاہدین جیسی تاریخی تصنیف میں تائید ملتی ہے۔‘

مالابار، معجزہ شق القمر اور چیرامن پیرومل

تاریخ کی کتابوں میں مرقوم ہے کہ انگریزوں کی ہندوستان میں آمد تک برصغیر کے جنوب مغربی ساحل خاص طور پر آج کے کیرالہ کے بیشتر ساحلی علاقے غیر ملکی تجارتی حلقوں میں مالابار کے نام سے مشہور تھے۔

شیخ زین الدین مخدوم نے اپنی کتاب ’تحفۃ المجاہدین‘ میں لکھا ہے کہ تجارتی اہمیت کے پیش نظر کوڈنگلور مالابار کا دارالحکومت تھا۔

ڈاکٹر محمد سعید کے مطابق کوڈنگلور کے عرب، روم، مملکت یونان، چین اور دوسرے ممالک سے تجارتی روابط پیغمبر اسلام کی ولادت سے بھی کافی قدیم ہیں۔

’ان تجارتی روابط کا کیرالہ میں پیغمبر اسلام کی حیاتِ طیبہ ہی میں برصغیر کی پہلی مسجد بننے اور اسلام پھیلنے سے براہ راست تعلق ہے۔ اس کی راہ ہموار کرنے میں چیرا خاندان کا ایک اہم کردار ہے۔ اس خاندان نے کیرالہ پر کئی صدیوں تک حکومت کی ہے۔‘

تحفۃ المجاہدین میں چیرامن مسجد کے بارے میں مرقوم ہے: ’مسلمانانِ مالابار کے یہاں مشہور ہے کہ جس راجہ نے اسلام قبول کیا وہ پیغمبر اسلام کے معاصر تھے۔ اور جب ایک رات کو چاند کے دو ٹکڑے ہوتے دیکھا تو مکہ کا سفر اختیار کیا تاکہ پیغمبر اسلام کی ملاقات سے بہرہ ور ہو۔

’جب راجہ اور اُس کے رفیق مالابار سے نکلے اور شحر (ساحلِ عرب) میں پہنچے تو اس جگہ راجہ کا انتقال ہو گیا۔ (تاہم) اِس زمانے میں مشہور ہے کہ راجہ شحر میں نہیں بلکہ ظفار (یمن کی بندرگاہ) میں مدفون ہیں اور اس جگہ اس کی قبر خاص و عام کی زیارت بنی ہوئی ہے اور یہاں کے باشندے اس کو سامری کی قبر بیان کرتے ہیں۔‘

تحفۃ المجاہدین کی حواشی میں لکھا ہے: ’ظفار میں (جو قبر راجہ کی بتائی جاتی ہے) اس پر جو کتبہ نصب ہے اس میں راجہ کا نام عبدالرحمٰن سامری ہے۔‘

امام حاکم نے المستدرک میں ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق شق القمر کا معجزہ دیکھنے والے ایک ہندوستانی بادشاہ پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں ادرک کا اچار پیش کیا۔

اس حدیث کے راوی حضرت ابو سعید خدری کے مطابق پیغمبر اسلام کو ادرک کا اچار پسند آیا۔ انہوں نے اپنے صحابہ اور مجھے بھی اس میں سے ایک ٹکڑا دیا۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ہندوستانی بادشاہ چیرامن پیرومل ہی تھے۔

شیخ زین الدین مخدوم نے ہندو راجہ چیرامن پیرومل کے مسلمان بننے سے لے کر چیرامن مسجد کی تعمیر تک کے واقعات کچھ یوں تحریر کیے ہیں: ’فقرا اسلام کی ایک جماعت کوڈنگلور میں وارد ہوئی۔ یہ لوگ سراندیپ (سری لنکا) جا رہے تھے تاکہ حضرت آدم کے قدم مبارک کی زیارت کریں۔

’بادشاہ کو جب ان کی آمد کا معلوم ہوا تو اُن کو اپنے یہاں بلایا اور ان سے پیغمبر اسلام کے بارے میں دریافت کیا۔ اس جماعت میں ایک معمر آدمی تھا۔ اس نے پیغمبر اسلام کے حالات، دین اسلام کی حقیقت، معجزہ شق القمر کی کیفیت بیان کی۔ جب ان باتوں کو راجہ نے سماعت کیا تو پیغمبر اسلام کی صداقت کو قبول کر لیا۔ ان کے دل میں پیغمبر اسلام کی محبت جاگزین ہو گئی اور انہوں نے صدق دل سے اسلام کو قبول کر لیا۔

’راجہ نے فقرا سے کہا کہ جب آپ (حضرت آدم کے) قدم مبارک کی زیارت سے واپس آئیں تو میں بھی آپ کے ہمراہ چلوں گا تاکہ پیغمبر کی زیارت کروں اور تاکید کی کہ یہ مالابار میں کسی سے بیان نہ کرنا۔ فقرا کی واپسی پر راجہ نے سفر کی تیاری کر لی۔ اپنے اہل خاندان اور وزرا سلطنت کو بلا کر کہا کہ میں عبادت الٰہی میں مصروف ہونا چاہتا ہوں۔ اس لیے ایک ہفتے تک کسی سے نہیں ملوں گا۔

’اس کے بعد ملک کا انتظام مختلف لوگوں کو تفویض کیا اور ہر ایک کے نام حکم لکھ دیا تاکہ آپس میں ایک دوسرے کے مقبوضات سے کوئی تعرض نہ کرے۔ اس کے بعد راجہ فقرا کے ساتھ کشتی میں سوار ہو کر پیغمبر اسلام سے ملاقات کے لیے چل پڑے۔ شحر میں عرصہ دراز تک سکونت پذیر رہنے کے دوران راجہ اور ان کے نئے رفیقوں نے مالابار جا کر وہاں اسلام کو فروغ دینے کا ارادہ بنایا۔

مسجد کی موجودہ عمارت ( فیصل ای بی، مسجد منتظم)

’اسی اثنا میں راجہ بیمار ہو گئے اور انہیں زندہ رہنے کی کوئی صورت نظر نہیں آئی تو اپنے رفیقوں کو وصیت کی کہ سفر ہند کے ارادے پر ثابت قدم رہیں۔ انہوں نے راجہ سے کہا کہ ہم نہ تو آپ کے ملک کو جانتے ہیں اور نہ اُس کے حدود سے واقفیت رکھتے ہیں۔ ہم نے یہ ارادہ محض آپ کے ساتھ ہونے کے باعث کیا تھا۔

’راجہ نے ان کی گفتگو پر دیر تک غور کیا اور انہیں مالاباری زبان میں ایک خط لکھ کر دیا جس میں انہوں نے اپنے عزیز و اقارب اور حکام و عمال کے پتے بتائے اور ہدایت کی کہ کوڈنگلور میں اتریں۔ یہ بھی کہا کہ مالابار میں کسی سے میرے بیمار ہونے کا حال بیان نہ کرنا۔ اس کے دو سال بعد شرف بن مالک، مالک بن دینار، مالک بن حبیب، اُن کی بیوی قمریہ اور تمام آل و اولاد مالابار کی طرف روانہ ہوئے۔

’جب وہ کوڈنگلور پہونچے تو راجہ کا خط وہاں کے حاکم کے حوالے کیا۔ انہوں نے خط پڑھا اور تحریر کے مطابق عمل کیا۔ ان لوگوں کو زمینیں اور باغات عنایت کیے۔ مالک بن دینار اور اُن کے بھتیجے مالک بن حبیب نے کوڈنگلور میں سکونت اختیار کی اور وہاں ایک مسجد بنائی۔‘

تحفۃ المجاہدین کی ایک اور حواشی میں بادشاہ کے نام کے بارے میں لکھا ہے: ’انڈیا آفس کے کتب خانے میں عربی زبان کے دو منظوم مخطوطے محفوظ ہیں جو تحفۃ المجاہدین سے پہلے تصنیف ہوئے ہیں۔ ان میں راجہ کے اسلام قبول کرنے اور مالابار میں آ کر مسلمانوں کے آباد ہونے کی سرگزشت مذکور ہے۔

’ایک میں راجہ کا نام شکروتی فرماض اور دوسرے میں شکروتی فرمال لکھا ہوا ہے۔ شکروتی سنسکرت زبان کے لفظ چکروتی کی عربی صورت ہے۔ اس کے معنی ہیں راجہ یا مہاراجہ اور اس کو تامل بولنے والے ایک عام لقب کی حیثیت سے حکمراں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

’مستشرقین نے تامل اور ملیالم اسناد سے اخذ کر کے مسلمان ہونے والے راجہ کا نام چیرامن پیرومل بیان کیا ہے۔ چیرامن کے معنی ہیں چیرا خاندان کا راجہ۔ فرماض اور فرمال پیرومل کے بگڑے ہوئے عربی لفظ ہیں۔‘

ولیم لوگان نے اپنی کتاب ’مالابار مینول‘ میں چیرامن پیرومل کے خواب اور اس کے بعد کے واقعات کو اس دلیل کے ساتھ تفصیل سے لکھا ہے کہ اس کا ذکر اکثر ملیالی تواریخ میں ملتا ہے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد پیرومل نے اپنا نام بدل کر عبدالرحمٰن سامری رکھا جو اب بھی ان کی قبر پر لکھا ہے۔

’ان کا (مالک بن دینار) کا مالابار پہنچنے پر شاندار استقبال کیا گیا۔ پیرومل کی ہدایات کے مطابق انہیں مسجد بنانے کے لیے زمین اور دیگر مناسب عطیات فراہم کیے گئے۔ وہ بذات خود اس مسجد کے پہلے قاضی بن گئے۔‘

متعلقہ خبریں

تازہ ترین