انصاف نیوز آن لائن
ائمہ و موذنین کانفرنس کے انعقاد کو پانچ دن گزرجانے کے باوجودسوشل میڈیا پرالزامات در الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔کانفرنس کے آرگنائز ناخدا مسجد کے نائب امام قاری شفیق جہاں ایک طرف دعویٰ کررہے ہیں کہ کانفرنس کا مقصد ائمہ و موذنین کی تنخواہ میں اضافہ کرانا نہیں تھا ہی بلکہ وہ امن و امان اور یکجہتی کے مقاصد کے تحت اس کانفرنس کا انعقاد کیا تھاآگے وہ کہتے ہیں کہ ائمہ مساجد اور موذنین کسی سیاسی جماعت سے نہیں بلکہ اللہ سے امیدیںباندھتے ہیں ۔یہ بات ان کی سچ مان بھی لی جاتی ہے مگر یہ وہی نائب امام ہیں جو نکاح سے حاصل ہونے والی رقم کا مساویانہ تقسیم کو لے کر ناخدا مسجد کے موذنین کے ساتھ مارپیٹ کررہے ہیں۔فجر کی نماز میں سے مسجد کے موذن کو اسی روپے کی خاطر گالیاں دیتے ہیں ۔دوسری طرف ایک کانفرنس میںبڑی تعداد کانفرنس میں شریک ہونے والی ائمہ حضرات کی ہے جو آن کیمرہ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ انہیں تنخواہ میں اضافے کے نام پر بلایا گیا تھا ۔امید دلائی گئی تھی کہ کم سے کم پانچ ہزار تنخواہ میں ااضافہ کیا جائے گا۔مگر یہاں آکر وہ مایوس ہوئے ہیں ۔ان کے ساتھ دھوکہ دیا گیا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ دونوں گفتگو بالکل متضاد ہے۔انصاف نیوز آن لائن نے کانفرنس کے انعقاد کی اصل کہانی جاننے کےلئے اپنے ذرائع سے جو معلومات حاصل کی ہے وہ چونکا دینے والے ہیں اور ان معلومات سے یہ بات صاف ہوتی ہے کہ کوئی معشوق ہے اس پردئہ ژنگاری میں۔۔معشوق کی قربت کے حصول کےلئے ملت فروشی سے کفن فروشی تک کا سفر طے کیا گیا ہے۔
سلسلہ وار اس کانفرنس کے مقاصد پر غور کیجئے
(1)
پہلا سوال ہمارے سامنے یہ تھا کہ اس کانفرنس کے تین چہرے تھے۔۔قاری شفیق۔۔قاری فضل الرحمن اور شہود عالم۔۔ان تینوں کا تعلق ملک کے مشہور ملی تنظیم ملی کونسل سے ہے۔قاری فضل الرحمن ملی کونسل بنگال کے صدر ، قاری شفیق نائب صدراور شہود عالم جنرل سیکریٹری ہیں ۔تو پھر سوال یہ ہے کہ جب یہ کانفرنس قومی یکجہتی اور امن و امان کے قیام کے مقصد کےلئے تھی تو پھر ایک غیر معروف ونوزائیدہ تنظیم کا بینر کیوں استعمال کیا گیا؟
ہم نے اس جواب کو جاننے کےلئے ملی کونسل کی اعلیٰ قیادت سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ وہ ائمہ و موذنین کانفرنس سے متعلق کانفرنس سے متعلق وہ کچھ نہیں جانتے ہیں ۔دوسرے یہ کہ ملی کونسل ایک آل انڈیا تنظیم ہے اس کے اپنے اصو ل و ضوابط ہیں ۔کسی بھی کانفرنس کے انعقاد کےلئے مرکزی قیادت سے اجازت لینی ضروری ہے۔۔
جب ہم اس سوال کا جواب تلاش کررہے تھے کہ اچانک ائمہ کانفرنس کے قائدین تلاثہ کی تیسری شخصیت شہود عالم کے ماضی کے کردار اور ان کے سیاسی ضروریات کے تحت چولہ بدلنے میں اپنی مہارت کی وجہ سے چانکیہ شخصیت کے طور پر مشہور ہیں ۔اس کے بعد ہم نے شہود عالم کے رول کا پتہ لگانے کی کوشش توہمیں اپنے اس سوال کا جواب مل گیا۔شہود عالم بائیں محاذ کے دور حکومت میں سی پی ایم کی مسلم قیادت کے ارد گرد نظر آتے تھے۔ان کی صبح محمد سلیم کے گھر پر ہوتی تو شام میں وہ عبدا لستار کے دربار میں زانوئے تلمذ نظرآتے تھے۔سچر کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد انہوں نے بائیں محاذ کے تئیں مسلمانوں کی ناراضگی ختم کرنے کےلئے کئی ایسے پروگرام منعقد کئے جس کامقصد بائیں محاذ کو فائدہ پہنچانا تھا۔
2011میں حکومت تبدیل ہونے کے ساتھ ہی شہود عالم سیاسی طور پر یتیم ہوگئے۔کیوں کہ اس وقت حکمراں جماعت ترنمول کانگریس کی مسلم قیادت پر سلطان احمد کا دبدبہ تھا۔سلطان احمداور شہود عالم جن کی آپس میں رشتہ داری بھی ہے۔وہ شہود عالم کے دہرے کردار سے واقف تھے چناں چہ جب تک سلطان احمد بقید حیات رہے شہود عالم ترنمول کانگریس کے قریب نہیں بھٹک سکے مگر ستمبر 2017میں سلطان احمد کے انتقال کے بعدہی ان کی لاٹری کھل گئی ۔سلطان احمد کے بھائی اقبال احمد کا ہاتھ پکڑ کر ترنمول کانگریس کے قریب ہونے لگے۔اقبال احمد کی طبیعت خراب ہوئی تو انہوں نے ان کا ساتھ چھوڑ کر اقبال مخالف ترنمول کانگریس کے گروپ کا حصہ بن گئے۔اس کے بعد انہوں نے فرہاد حکیم کے دربار میں حاضری لگانی شروع کی اور شروعاتی دور میں حکیم کی قربت حاصل کرنے کےلئے قاری فضل الرحمن کا بھی انہوں نے استعمال کیا۔عصر کی نماز فرہاد حکیم کے گھر کے قریب والی مسجد میں پڑھنے لگے ۔جلد ہی شہود عالم ریاستی وزیر فرہاد حکیم کے دربار کے معتمد بن گئے۔
اب آتے ہیں اصل کہانی کی طرف ان دنوں ترنمول کانگریس میں فرہاد حکیم کا دبدبہ زرد پڑنے لگاہے۔کنال گھوش جیسے چھوٹے قد کا سیاست داں کھلے عام ان کی تنقید کرتا ہے اور فرہاد حکیم کو اپنے فیصلے واپس لینے پڑتے ہیں۔کنال گھوش کھلے عام دھمکی دیتے ہیں کہ انہوں نے ممتا بنرجی کے پوچھے بغیر کوئی فیصلہ کیسےکرلیا ؛۔۔اگلے دن کارپوریشن کو فیصلے واپس لینے پڑتے ہیں۔
دراصل ائمہ و موذن کانفرنس فرہاد حکیم کے سیاسی قد کو بڑھانے اور مسلمانوں پر ان کی پکڑ کو مضبوط دکھانے کےلئے ایک ماسٹر پلان تیار کیا گیا تھا ۔اس کی عبارت شہود عالم نے لکھتے ہوئے قاری شفیق کے کندھے اور قاری فضل الرحمن کی پیرانہ سالی والی معصومیت کا استعمال کیا۔شہود عالم اپنی چانکیہ حکمت عملی کے ذریعہ دونوں ائمہ کرام کی سیاسی مجبوریاں اور مفادات کا استعمال کیا ۔2021کے اسمبلی انتخابات کے دوران بھی شہود عالم کی لیڈر شپ میں بنگال کے مسلم اکثریتی اضلاع مالدہ ،مرشدآباد اور شمالی دیناج پور میں ائمہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔انصاف نیوز آن لائن کو حاصل اطلاعات کے مطابق پرشانت کشور کی آئی پیک نے اس کانفرنس کی فنڈنگ فراہم کی تھی۔
فرہاد حکیم جانتے ہیںاس وقت پنچایت انتخابات میں آئی ایس ایف اور ترنمول کانگریس کے درمیان سیاسی ٹکرائو اور نوشاد صدیقی جنہیں سیاست میں محض چند سالوں کا تجربہ ہے و ہ نہ صرف اپنے حلقہ انتخاب بھانگر میں مزاحمت کررہے ہیں بلکہ شمالی اور جنوبی 24پرگنہ اور ہگلی میں بھی زمینی پکڑ مضبوط بنالی ہے۔آئی ایس ایف کا عروج کا نقصان سب سے زیادہ ترنمول کانگریس کو ہی ہوسکتا ہے۔سیاسی تشدد میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی موت کے بعددیہی علاقے میں مسلمانوں میں ناراضگی میں اضافہ ہوا ہے۔فرفرہ شریف میں پیرزادہ ابراہیم صدیقی پرحملے کے بعد فرفرہ شریف سے وابستگان میں شدید ناراضگی ہے۔اس صو رت حال میں ریاست بھر کے ائمہ و موذنین کو جمع کرکے پارٹی قیادت کی نگاہ میں سرخروائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
(2)
دوسرا سوال یہ ہے کہ اس کانفرنس کے انعقاد کی تیاریوں میں ترنمول کانگریس کے منتخب کونسلرز اور ان کے حامیوں دلچسپی کیوں لی؟۔انہیں اس کانفرنس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ہدایت کس نے دی؟۔یہ سوال اس لئے اہم ہے کہ پارٹی لیڈران پارٹی قیادت کی مرضی کے بغیر کسی بھی پروگرام میں حصہ لینے کےلئے آزاد نہیں ہیں۔اس سوال کا جواب جاننے کےلئے ہم نے کانفرنس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے کائونسلروں کے قریبی لوگوں سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ انہیں اوپر سے آرڈر آیا تھا کہ کانفرنس کو کامیاب کرانے میں مدد کریں ۔ہم نے سوال کیا کہ اوپر کون؟ ان کا اشارہ میئر فرہاد حکیم کی طرف تھا۔۔اضلاع سے بسوں میں بڑھ کر آنے والے ائمہ مساجد سے ہم نے معلوم کیا کہ ان کےلئے بس کا انتظام کس نے کیا تھا ۔۔۔انہوں نے بتایا کہ علاقے کے ترنمول کانگریس کے لیڈروں کو اس کی ذمہ داری دی گئی تھی وہ کانفرنس کے جانے کے انتظامات کریں ۔
(3)
اتنے بڑے پروگرام کےلئے روپے کہاں سے آئے؟ ۔۔شہر میں بڑے بڑے ہورڈنگ لگائےگئے تھے ۔۔کارپوریشن کی ان جگہوں پر بھی ہورڈنگ لگایاگیا تھا کہ جہاں ہوڑڈنگ کےلئے لاکھوں روپے کرایہ کارپوریشن وصول کرتی ہے۔نتیاجی انڈور اسٹڈیم کس آرگنائزیشن کے نام پر بک کیا گیا تھا۔اخبارات میں اشتہارات کی رقم کہاں سے آئی۔انصاف نیوز آن لائن نے جب ان سوالوں کےلئے آرگنائزیشن کمیٹی سے وابستہ افراد سے پوچھا تو کوئی بھی واضح طور پر بتانے سے انکاکررکردیا۔
مختلف لوگوں سے بات چیت سے جوبات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ کچھ غیبی ہاتھ تھے جن کے ذریعہ روپے کی برسات ہورہی تھی۔ایک اردو اخبار میں شائع اشتہار میں آرگنائزیشن کمیٹی کی جگہ الداعی میں قاری شفیق کانا م شامل ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اس اشتہار کا بل قاری شفیق کے نام پر بنایا گیا ہوگا۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ جب یہ کانفرنس ائمہ و موذنین کےلئے تھا تو اس میں ممتا بنرجی، فرہاد حکیم اور خود نائب امام کی تصویر لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا یہ سیاسی پروگرام تھا کہ سیاسی لیڈروں کی طرح مارکیٹنگ کی گئی ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب کون دے گا۔
(4)
پانچواں سوال یہ ہے کہ اخبارات میں دئیے گئے اشتہار کے مطابق یہ کانفرنس ائمہ و موذنین اور اقلیتوں کے مسائل کے حل کےلئے طلب کی گئی تھی مگر اشتہارات پر صرف تین شخصیات کے ہی فوٹو تھے۔بڑی تصویر ممتا بنرجی ۔دوسری فرہاد حکیم اور تیسری قاری شفیق کی۔اشتہار ات کی تصویروں سے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ دینی جماعت کا پروگرام نہیں ہے بلکہ کسی سیاسی لیڈر کے سیاسی لنچنگ کا پروگرام ہے۔اس سوال کا جواب جاننے کےلئے ہم نے قاری فضل الرحمن کے قرب و جوار میں رہنے والوں سے رابطہ کیا ایک اور مذکورہ سوال جواب جاننے کےلئے ایک اور سوال کیا کہ اس اشتہار میں قاری فضل الرحمن کی تصویر کیوں نہیں تھی۔
قاری فضل الرحمن کے قریبیوں نے بتایا کہ ان سے بھی تصویر مانگی گئی تھی مگر قاری فضل الرحمن صاحب نے انکار کردیا کہ پوسٹر میں تصویر لگانے کی ضرورت کیا ہے؟۔ قاری فضل الرحمن نے خود اپنے قریبی کو بتایا کہ ان سے فرہاد حکیم نے بھی کہا کہ آپ نے اپنی تصویر کیوں نہیں دی ؛؟ مگر قاری فضل الرحمن نے کہا کہ انہوں نے فرہاد حکیم سے صاف کہدیا کہ وہ اپنی تصویر شائع کرا نا نہیں چاہتے ہیں۔
(5)
جب یہ کانفرنس ائمہ و موذنین اور اقلیتوں کے مسائل کے حل کےلئے بلائی گئی تھی تو پھر کیا وزیرا علیٰ ممتا بنرجی کو اس حوالے سے کوئی میمورنڈم یا پھر بنگال کے مسلمانوں سے متعلق کوئی یاد داشت دی گئی؟ ۔اگر دیا گیا تو پھر اس کا اعلان اسٹیج سے کیوں نہیں کیا گیا؟کم سے کم ممتا بنرجی کی موجودگی میں بنگال کے مسلمانوں کی صورت حال کو تفصیل سے کیوں نہیں رکھا گیا؟۔
اس کے جواب میں قاری فضل الرحمن کے قریبی بتاتےہیں کہ قاری صاحب کی باتیں نہیں مانی گئی۔قاری فضل الرحمن نے کئی مرتبہ میٹنگ میں اس کی طرف توجہ دلائی کہ مسلمانوں کے مسائل سے متعلق کوئی یادداشت پیش کیا جائے مگر ان لوگوں نے کہا کہ ممتا بنرجی بطور مہمان خصوصی کے طور پر تشریف لارہی ہیں اور مہمانوں سے مطالبات پیش نہیں کئے جاتے ہیں۔قاری فضل الرحمن کے قریبی بتاتے ہیں کہ ان کی تمام کوششوں کو ان دونوں نے (یعنی قاری شفیق اور شہود عالم ) نے ناکام کردیا۔مگر اس سوال کا جواب ان کے پاس نہیں تھا کہ جب قاری فضل الرحمن صاحب کی باتیں نہیں مانی جارہی تھی اور کانفرنس مقصد سے دورجارہا تھا تو انہیں اجلاس سے خود کو کیوں نہیں دور کیا؟
6
آخر اس کانفرنس سے کیا حاصل ہوا؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں تھا۔۔ائمہ و موذنین کی تنخواہ میں 500روپے کا اضافہ تو ممتا بنرجی اپنے دفتر سے بھی کرسکتی تھیں ۔اس کےلئے اتنے بڑے پیمانے پر خرچ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
دراصل اس کانفرنس سے ائمہ مو ذنین اور ملت اسلامیہ کے علاوہ سبھوں نےکچھ نہ کچھ حاصل کیا ۔۔۔
قاری شفیق
زکریا اسٹریٹ کے مقامی لوگ کہتے ہیں کہ ان کی امامت سیاسی لوگوں کے رحم و کرم پر ٹکی ہوئی ہے۔۔ان کے خلاف متولیوں کےپاس شکایات کا انبار ہے۔ان پر موذنین پر حملے کرنے کا الزام ہے۔ان پر مسجد کے معاملات کوپولس اسٹیشن میں لے جانے کی شکایت ہے۔ان پر فجرکی نماز میں موذن کے ساتھ گالی گلوج کرنے کی شکایت۔ان پر مسجد میں اپنے حامیوں کے ساتھ متولی پر حملہ کرنے کا الزام ہے۔۔گالی گلوج میں انہیں یدطولی حاصل ہے۔ظاہر ہے کہ اس قدر اخلاقی گراوٹ کے باوجود امامت کا کیا حق ہے۔ان معاملات کی روشنی میں ملک مشہور اداروں کے فتاوی بھی آئے ہیں ۔۔اس کانفرنس کے بعد قاری شفیق کی سیاسی پکڑ مزید مضبوط ہوئی ہے۔مقامی کونسلر اور سیاست داں یہ سمجھتے ہیں کہ قاری شفیق کے ساتھ رہنے میں ہی ان کا فائدہ ہے ۔
ترنمول کانگریس اور فرہاد حکیم
ترنمول کانگریس کا مقصد واضح تھا کہ وہ لوک سبھا انتخابات سے قبل مسلم ووٹرس کو واضح پیغام دینا چاہتی تھی کہ مسلمانوں کی قیادت ان کے ساتھ ہے۔۔چناں چہ ممتا بنرجی نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ فرفرہ شریف کا ہم احترام کرتے ہیں مگر وہاں سیاست کی جاتی ہے تو ہم برداشت نہیں کریں گے۔ظاہر ہے کہ یہ ممتا بنرجی کا بیان غیر جمہوری ہے ۔جمہوریت میں ہرایک کو سیاست کرنے کا حق ہے ۔ممتا بنرجی خود کو جمہوریت کی چمپئن کہتی ہیں وہ کس طرح سیاست کے آزادانہ ماحول فراہم کرنے سے انکار کرسکتی ہے۔فرہاد حکیم نے ایک بار پھر خود ریاست کے سب سے بڑےمسلم لیڈر ثابت کرنے کامیاب ہوگئے۔۔
جہاںتک سوال شہود عالم اور قاری فضل الرحمن کا ہے۔تو قاری فضل الرحمن صاحب کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ اسٹیج پر ہیں۔باقی شہود عالم صاحب کے کھیل ہی نرالے ہیں ۔
(7)
مگر سوال یہ ہے کہ اس کانفرنس کے اثرات کیاہوں گے ؟
یہ سوال بہت ہی اہم ہے۔امامو ں کا استحصال کوئی نئی بات نہیں ہے۔اس طرح کی سیاست کرنے کی ابتدار کرنے کا سہرا دہلی کی ایک چھوٹی سی مسجد کے امام مولانا جمیل الیاسی مرحوم کےسر جاتا ہےجنہوں نے پہلے اماموں کی فوج اندرا گاندھی کے آستانے پر پہنچایا ۔اس کے بعد نرسمہارائو اور بعد میں واجپئی کے دروازے پر ان اماموں سے سجدہ ریزی کرائی ۔اب ان کی اس سیاسی وراثت کو ان کے بیٹے عمیر الیاسی آگے اس طرح بڑھارہے ہیں کہ وہ کھلے عام آر ایس ایس اور اسرائیل کے گود میں بیٹھ چکے ہیں۔
بنگال میں اس طرح کی سیاست کا رواج نہیں رہا ہے مگر 2009میںترنمول کانگریس کے حامیوں نے اس کی شروعات کی اور اب تو اماموں کے نام پر کئی تنظیمیں بن چکی ہیں اور تمام تنظیموں کے مطمح نظر صرف اورصرف سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے۔۔
21اگست کو منعقد ہونے والا کانفرنس ملت فروشی کی آخری انتہا ثابت ہوئی ۔ریاست بھر کے ائمہ اور موذنین ذلیل کیا گیا ہے۔ممتا بنرجی نے تو سیاسی حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے جہاں ائمہ کی تنخواہ میں 500میں اضافہ کیا وہیں پنڈتوں کے تنخواہ میں اضافہ کردیا۔اس کے اگلے دن وہ درگا پوجا کمیٹیوں کی میٹنگ میں گئیں اور ان کے گرانٹ میں دس ہزار وپے کا نہ صرف اضافہ گیا بلکہ پوجا کمیٹیوں کو سرکاری اشتہارات دینے کا اعلان کیا ہے ۔یہ اشتہار کتنے روپے کا ہوگا یہ بھی واضح نہیں کیا گیا ہے۔
بنگا ل کے سیاسی تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ بنگال میں بی جے پی کے عروج کے پیچھے کئی ساری وجوہات میں ایک ائمہ مساجد کا سیاسی استعمال بھی ہے۔2012میں بھی اسی طرح سے ائمہ مساجد کا سیاسی استعمال کیا گیا ہے۔اس کے رد عمل میں پولرائزیشن ہوا۔۔۔۔ایک بات یہ یاد رکھنی چاہیے کہ فرقہ پرستوں کو شکست دینا اس ملک کی ضرورت ہے۔مگر اس کےلئے عزت نفس ، قوم کے وقار کو پامال کرکے نہیں ہوسکتا ہے۔