Friday, November 22, 2024
homeاہم خبریںہندوستانی موسیقی کے مقبول ترین فنکار استاد راشد خان کاانتقال

ہندوستانی موسیقی کے مقبول ترین فنکار استاد راشد خان کاانتقال

کلکتہ :انصاف نیوز
ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کے مقبول ترین فنکاروں میں سے ایک استاد راشد خان کاآج طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا ہے۔وہ گزشتہ کئی مہینوں سے اسپتال میں داخل تھے۔ 22 نومبر کو برین ہیمبرج کے بعد انہیں پرائیوٹ اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا ۔آج سہ پہر 3.45پر انہوں نے آخری سانس لی ۔ پسماندگان میں اہلیہ، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔
وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اسپتال جاکر استاذ راشد خان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہاکہ ان کے انتقال سے ہم ایک عظیم موسیقار سے محروم ہوگئے ہیں اور اب ان کی موسیقی کو ان سے دوبارہ نہیں سنکیںگے۔راشد میرے بھائی کی طرح تھے۔انہیں پوری دنیا میں شناخت حاصل تھی ۔انہیں کسی کے شناخت کی ضرورت نہیں تھی۔انہوں نے کلکتہ کو اپنا مسکن بنایا یہ ہمارے لئے اعزاز کی بات ہے۔بنگال سے محبت کی اور بنگال میں ہی رہے۔ وہ موسیقی کو فروغ دینے کے لیے دنیا کے تمام حصوں میں گئے۔ ممتا بنرجی نے کہا کہ ان کے جانے سے ہمارا نقصان ہوا ہے ۔وہ اب راشد کی موسیقی نہیں سن سکیں گی۔اس کا ہمیشہ افسوس رہے گا۔

راشد کی میت کو اسپتال سے پیس ہیون میں لے جایا جائے گا۔ لاش رات کو وہیں رکھی جائے گی۔ بدھ کی صبح 9:30بجے میت کو رابندر سدن لے جایا جائے گا۔ لاتعداد شائقین وہاں ان کی آخری دیدار کریں گے۔ موسیقی کار کو سلامی دی جائے گی۔ اس کے بعد فنکار کی میت کو گھر لے جایا جائے گا۔ اس کے بعد ٹالی گنج قبرستان میں نماز جنازہ کے بعد سپرد خاک کیا جائے گا۔

راشد خان یکم جولائی 1968 کو بدایوں، اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ وہ رامپورساسواں سٹائل کے فنکار تھے۔ عنایت حسین خان صاحب نے جس صنف کی بنیاد رکھی۔ راشد نے اس صنف کے ایک اور استاد استاد نثار حسین خان صاحب سے تلمذ حاصل کی۔ جو راشد کے دادا تھے۔ راشد کے چچا گوالیار گھرانے کے استاد غلام مصطفی خان صاحب سے بھی تربیت لی تھی۔ اگرچہ بنیادی طور پر کلاسیکی موسیقی گاتے تھے ۔تاہم انہوں نے بالی وو ڈ اور ٹالی ووڈ فلموں میں بھی بہت ہی مقبول گانے گائے ہیں ۔

پہلی مرتبہ ان کی موسیقی سننے کے بعد بھیمسین جوشی نے کہا تھا کہ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی نے اپنا مستقبل ڈھونڈ لیا ہے۔مگر موسیقی کا مستقبل کینسر سے جنگ لڑتے ہوئے اپنی زندگی کا جنگ ہار گیا۔
استاذ راشد خان نے اپنی بھرپور آواز کے جادو سے سامعین کے دل جیت لیے، ان کے انتقال کو کلاسیکی موسیقی کی دنیا کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان کہنے میں کوئی عار نہیں۔ استاد راشد خان کے انتقال کے ساتھ ہی ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کی وہ سنہری آوازجس کو مستقبل کہا گیا تھا ماضی کا حصہ بن گیا ۔جب بھی وہ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی آواز کے سحر سے مجمع خاموش ہوجاتا۔
اگر گانے کا ایک پہلو ریاضی ہے یعنی مشق ہے تو دوسرا پہلو جذباتیت ہے۔ ایک انٹرویو میں راشد نے اس کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں زندگی کے چھوٹے چھوٹے دکھوں اور ناکامیوں کے تمام رنگ گانے میں لانے کی کوشش کرتا ہوں۔گاناکا آغاز کرتے ہی معجزاتی لمحات تخلیق ہونے لگتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ریتوپرنا نے اپنی فلم دی لاسٹ لیئرکے آخری سین میں راشد کی آواز کا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
راشد کی پیدائش بدایون اتر پردیش میں ہوئی۔ رامپور-ساسواں سٹائل کا فنکار۔ عنایت حسین خان صاحب نے جس صنف کی بنیاد رکھی۔ تاہم، راشد کی پہلی تلمذ ان کے چچا غلام مصطفی خان صاحب سے ہوئی، جو گوالیار گھرانے کے استاد تھے۔ راشد کو ان کے چچا بہت چھوٹی عمر میں ممبئی لے گئے۔ انہیں وہاں کے ایک انگلش میڈیم اسکول میں داخل کرایا گیا۔ اس نے کچھ تربیت بھی دی۔ لیکن راشد کو وہاں کی کوئی چیز پسند نہیں آئی۔ نتیجتاً وہ بدایون واپس آگئے۔ بدایوں واپس آکر راشد نے رام پورساسواں گھرانہ کے دکھپال استاد نثار حسین خان صاحب سے سبق لینا شروع کیا۔

بچپن میں راشد باقی دیگر بچوں سے مختلف نہیں تھے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہاتھا کہ وہ بچپن میں ریاض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ زیادہ دیرتک ریاض کرتا توبور ہو جاتا۔ میں نے سوچا کہ گانا چھوڑ دوںمگر قریبی لوگوں نے مشورہ دیا کہ تمہاری آواز بہت اچھی ہے اس لئے اسے مت چھوڑو۔ کمار پرساد مکھوپادھیائے کے ساتھ انٹرویو میں راشد خان نے کہا کہ دادا نثار حسین خان صاحب سخت طبیعت کے آدمی تھے۔ بہت غصے میں اس سے بات نہیں ہو سکتی تھی۔ ریاضی میں ذرا سی بھی غلطی کرے تو سیدھا تھپڑلگتی تھی۔بنیادی طور پر مجھے اس کے خوف کی وجہ سے باقاعدگی سے ریاض کرنا پڑتا تھا۔

1978 میں نثار حسین خان صاحب کلکتہ آئے گئے۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز میوزک ریسرچ اکیڈمی (SRA) میں بطور استاد کیا۔ راشد بھی ساتھ آگئے۔ انہوں نے امتحان پاس کیا اور اپنے دادا کے ساتھ بطوراسکالرپڑھنا شروع کیا۔ اس دوران ان کی ملاقات رائچند برال، اے کنن، مالویکا کنن، وجے کچلو، وجی یوگا اور دیپالی ناگ جیسی شخصیات سے ہوئح ۔ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے راشد نے کمار پرساد کو بتایاکہ پہلا راگ بھیرو سیکھا تھا۔ دادا نے مجھے کہا کہ صرف چند مہینوں کے لیے یہ مشق کرنی ہے۔ اس کے بعد کئی ماہ تک ریاض جاری رہا۔ اس کے بعد نثار حسین مختلف بینڈ پڑھاتے تھے۔

ایک بار کلکتہ میں ڈوور لین میوزک کانفرنس میں بھیمسین جوشی کا ایک گانا تھا۔ راشد کی خواہش تھی کہ وہ بھیمسین کی موسیقی کو بہت قریب سے سنیں گے۔ وہ اسٹیج کے ساتھ والی جگہ پر بیٹھ گئے۔ اس وقت ایک کاروباری شخص نے ان کو اس جگہ سے اٹھادیا۔ اس واقعے نے راشد کے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑے۔ انہوں نے اس دن فیصلہ کیا کہ ایک دن وہ اسٹیج پر ہوں گے اور انہیں ان کے پیچھے بھاگنا ہوگا۔ راشد نے بہت کم وقت میں وہ مقام حاصل کرلیا۔ ایک بار وہی تاجر انہیں ایک پروگرام میں شرکت کیلئے دعوت دینے آئے۔راشدنے تاجر کو وہ واقعہ سنایا اور کہا کہ مجھے یقین تھا کہ ایک دن آپ ضرورمیرے پاس آئیں گے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین