نئی دہلی ،20جنوری:
ملک کی موجودہ بی جے پی حکومت میں سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا نعرہ خوب لگایا جاتا ہے ،قانون سب کے لئے ایک ہے، یہ بھی ہم اکثر سنتے آئے ہیں لیکن اس نعروں کی حقیقت زمین پر کچھ اور ہے۔موجودہ حالات میں کھلے طور پر اس کا مشاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے ۔22جنوری کو ایودھیا میں رام مندر کی پران پرتشٹھا کے پیش نظر سرکاری سطح پر پورے ملک میں جشن اور رام بھجن کا اہتمام کیا جا رہا ہے ۔سرکاری اسکولوں ،سرکاری اداروں اور عوامی مقامات پر کھل کر ہندو مذہبی رسومات انجام دے رہے ہیں ۔اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں بچے اور اساتذہ رام بھجن پر رقص کرتے نظر آ رہے ہیں ۔اسکولوں اور سرکاری اداروں میں ہونے والی ان مذہبی رسومات پر سوال کھڑے کئے جا رہے ہیں ۔
ایک طرف حکومت کی جانب سے اسکول میں صرف لب آتی ہے دعا پڑھانے پر اساتذہ کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے اور ٹیچر معطل کر دیا جاتا ہے وہیں دوسری جانب اسکولوں میں رام بھجن پر دھرکتے اساتذہ پر کوئی سوال نہیں ۔سوشل میڈیا پر اس طرح کے ویڈیو شیئر کر کے سوال کھڑے کئے جا رہے ہیں کہ کیا ملک کا قانون مذہب دیکھ کر کارروائی کرتا ہے ۔کیا ملک میں واقعی ایک قانون اور ایک ملک ہے؟ سوشل میڈیا پر مہاراشٹر میں واقع بابا نانک سندھی ودیالیہ کا ویڈیو وائرل ہو رہا ہے جس میں ایک خاتون ٹیچر اسکول کے طلبہ و طالبا ت کے ساتھ رام بھجن پر رقص کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور جے شری رام کے مذہبی نعرے لگارہی ہے۔
صدف آفرین نے سوشل میڈیا پر ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ مہاراشٹر کے ناگپور میں “بابا نانک سندھی ہندی ودیالیہ” میں فزکس کے استاد ایودھیا تقریب سے پہلے رام بھجن پر اسکول کے طلباء کے ساتھ رقص کرتے ہیں!
کسی کو کوئی مسئلہ نہیں تھا!لیکن بریلی، یوپی میں، اسکول کے پرنسپل کو اسکول کے بچوں کی جانب سے علامہ اقبال کی نظم “لب پر آتی ہے دعا بن کے تمنا میری” پڑھنے کے بعد معطل کر دیا جاتا ہے!۔
اس کے علاوہ دیگر صارفین نے مہاراشٹر کے بابا نانک سدھی ودیالیہ اور کرناٹک میں حجاب پوش طالبات کا بھی ویڈیو شیئر کیا ہے جس میں حجاب پہن کر اسکول میں آنے پر طالبات کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے اور اسے تعلیم قانون کے خلاف قرار دیا جاتا ہے ۔صارفین نے ویڈیو شیئر کر کے نشاندہی کی ہے کہ ایک ملک دو قانون۔وہیں دوسری جانب شدت پسند اور بی جے پی حامی صارفین کہہ رہے ہیں کہ اسکولوں میں رام بھجن نہیں ہوگا تو کہاں ہوگا کیونکہ یہ ہندو راشٹر ہےاور جنہیں تکلیف ہو وہ پاکستان چلا جائے