کولکاتا(پریس ریلیز)
18ویں لوک سبھا کے آغاز کے بعد صدر جمہوریہ کے خطبہ پر بحث کے دوران قائد حزب اختلاف راہل گاندھی کی تقریر ہندستان میں جمہوریت اور ڈیموکریسی کے نئے باب کا آغاز ہے ۔ ان خیالات کا اظہار آج یہاں قائد اردو کے نام سے مشہور معروف ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ شمیم احمد نے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10برسوں سے یہ محسوس ہورہاتھا کہ ہندستان میں ڈیموکریسی ختم ہونے لگی ہے ۔اس کے تن مردہ میں ذرا بھی جان نظر نہیں آتی تھی لیکن راہل گاندھی نے اپنی تقریر سے ڈیموکریسی کے سوکھے پھیپھڑے میں تازہ آکسیجن پہنچاکر اسے تن مردہ میں جان ڈال دی ہے ۔
شمیم احمد نے کہا کہ ہندواز م ‘ سناتن دھرم ‘ اسلام ‘ عیسائیت اور سکھ از م سے متعلق راہل گاندھی نے بجاطور پر کہا کہ تمام مذاہب خوف اور ڈر کاخاتمہ کرنے آئے ہیں اور انسان کو ’ابھئے مدرا‘(حالت بے خوفی اور اطمینان) کی دولت سے مالا مال کرتے ہیں۔لیکن آج مذہب کے نام پر نفرت اور تشدد پھیلایاجارہاہے ۔ ایک سچا ہندو حسد‘ نفرت اور تشدد سے دور رہتا ہے۔ وہ اعتدال پسند ہوتا ہے اور بے خوف ہوکر سچ کی حمایت کرتا ہے ۔لیکن حکمراں طبقہ ہندوکے نام پر ملک بھر میں نفرت ‘ اشتعال ‘ تشدد اور فساد پھیلائے ہوئے جس کی مذمت کی جانی چاہئے۔
شمیم احمد نے بے روزگاری ‘ مہنگائی کے مسائل پر راہل گاندھی کی تقریر کے نکات کے حوالے سے بھی بات کی اور کہا کہ آج ہندستان میں مہنگائی ریکارڈ توڑ رہی ہے اس مسئلہ کا حل نکالنے کی بجائے ایشو ہی ختم کردیاجارہاہے۔ اگنی ویر‘ نیٹ جیسے نوجوانوں کے مسائل پر بھی کہیں سے کوئی بات نہیں ہورہی تھی ۔ راہل گاندھی نے قائد حزب اختلاف کا کردار سنبھالتے ہی عوام سے متعلق تمام موضوعات پر ایوان میں بات کرکے ہندستان کے عام انسان کی ترجمانی کی ہے اور یہ بتایاہے کہ جمہوریت اور ڈیموکریسی کو زندہ رکھنا ہے تو بولنا ہوگا‘ تنقید کرنی ہوگی ‘پالیسی کی خامیاں بتانی ہوں گی ۔اگر ایسا نہ کیاگیا تو ملک سے جمہوریت اور ڈیموکریسی کی بساط لپیٹنے کی سازش کامیاب ہوسکتی ہے ۔
قائد اردو نے کہا کہ پچھلے دس سالوں سے لوک سبھا میں کوئی لیڈر آف اپوزیشن نہیں تھا۔ مودی شاہ گجرات کی دھرم شالہ کی طرح لوک سبھا چلا رہے تھے اور اسپیکرجمہوری اور پارلیمانی روایات کا گلا گھونٹ رہے تھے۔اب راہل گاندھی نے لوک سبھا انتخابات میں اپنی قیادت ثابت کر دی ہے۔وہ ہندوستانی سیاست کے ایک حقیقی عوامی لیڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ راہل گاندھی اپوزیشن پارٹی کے لیڈر بن گئے ہیں۔ یہ مودی کے دوبارہ وزیر اعظم بننے سے زیادہ اہم ہے۔اب راہل گاندھی کی رائے اور آواز ہوگی۔ اپوزیشن کا احترام ہندوستانی جمہوریت کی روایت ہے۔ پنڈت نہرو سے لے کر اٹل بہاری واجپائی تک سبھی نے اس روایت پر عمل کیا۔ حکومت اور وزیراعظم کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے کا کام قائد حزب اختلاف کرتا ہے جو اس تنقید کو رہنمائی کے طور پر لے کر آگے بڑھتا ہے وہ حقیقی عوامی لیڈر بن جاتا ہے۔ دو ’بھارت جوڑو‘ دوروں کی وجہ سے وہ پیدل پورے ملک کا دورہ کرنے اور لوگوں اور ملک کے مسائل کو سمجھنے میں کامیاب رہے۔ اب راہل گاندھی کے لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر بننے سے حکمراں طبقہ کےلئے حالات مشکل ہونے جا رہے ہیں۔