نئی دہلی : انصاف نیو ز آن لائن
نئی دہلی میں واقع سخت سیکورٹی والے تہاڑ جیل میں بند جواہر لال نہرویونیورسٹی کے سابق طالب علم عمر خالد بغیر کسی ٹرائیل کے 14,00دن مکمل کرلیے ہیں۔
عمر خالد نےجواہر لعل یونیورسٹی سے ’’جھارکھنڈ کے قبائلی پر حکمرانی کے دعوے اور ہنگامی حالات‘‘ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ یونیورسٹی نے ابتدائی طور پر تھیسس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔2018میں عدالت کی ہدایت کے بعد عمر خالد کے پی ایچ ڈی کو قبول کرلیا-
9 فروری 2016 کوجواہر لعل یونیورسٹی میں نعرے بازی کے واقعات کی تحقیقات کرنے والے ایک پینل نے ان پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس معاملے میں طلبا لیڈر کنہیا کمار اور شہلارشید کی نام بھی سامنے آیے تھے -8 برسوں ان سبھوں کے راستے الگ ہوچکے ہیں – 2 اگست 2018 کوجے این یو انتظامیہ نے ان کے مقالے کو قبول کیا۔
گزشتہ ہفتے جیل میں عمر خالد سے ملاقات کرنے والی بانوجیوتسنا لہڑی نے ایک انگریزی اخبار سے بات کرتے ہوئے آج کہا ہے کہ اُس کے حوصلے اب بھی بلند ہیں، حالانکہ تاخیرکی وجہ سے وہ مایوس ضرورہے۔معاملے کی سماعت میں غیر معمولی تاخیر نے صورتحال کو انتہائی مایوس کن بنا دیا ہے۔
’’ہمیں انصاف نظر نہیں آتا۔ جیل میں رہنا ایک مشکل صورتحال ہے۔”
لہری نے بتایا کہ عمر خالد کو مطالعہ کی عادت ہے ۔وہ ان دنوں دوستوفسکی اور منوج مٹاکی مشترکہ تصنیف Caste Pride : Battles of Equality in Hindu India کو پڑھ رہا ہے۔
دہلی پولیس نے عمر خالد کو ستمبر 2020 میں گرفتار کیا تھا۔ اس پر 2020 کے دہلی فسادات میں ’’کلیدی سازش کار‘‘ ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔دہلی فسادات میں53افراد ہلاک ہوئے تھے۔
دہلی پولیس کے ذریعہ گرفتار کیے گئے 20 لوگوں میں عمر خالد کی گرفتاری سب سے اخیر میں ہوئی تھی۔ ان گرفتار شدگان میں شرجیل امام بھی شامل ہیں ۔شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف دہلی کے شاہین باغ میں خواتین کا احتجاج شروع ہوا اور اس کے بعد پورے ملک میں احتجاج کا سلسلہ دراز ہوگیا۔
دہلی پولیس نے عمر کے خلاف دو مقدمے درج کیے تھے، جن میں سے ایک کو خارج کر دیا گیا تھا اور دوسرے مقدمے چارج شیٹ داخل ہونا باقی ہے۔نچلی عدالت سے لے کر اعلیٰ عدالت تک عمر خالد کو ضمانت دینے سے انکار کرتی رہی ہے۔
عمر خالد پر غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے – UAPA، ایک ایسا قانون ہےجس میں ضمانت حاصل کرنا غیر معمولی طور پر مشکل بنادیا گیا ہے – اس کے علاوہ بغاوت اور تعزیرات ہند کی 18 دیگر دفعات بھی ان کے خلاف لگائے گئے ہیں۔
عمر خالد کی گرفتاری کو 1402دن ہوگئے ہیں ۔مگر ان کے خلاف مقدمہ شروع نہیں ہوا ہے۔
عمر خالد نے سب سے پہلے جولائی 2021 میں سیشن کورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کی تھی۔ درخواست کی سماعت اگلے ماہ ہوئی۔ آٹھ ماہ کی سماعت کے بعد 24 مارچ 2022 کو سیشن کورٹ نے ان کی ضمانت مسترد کر دی۔
خالد کی ضمانت کی درخواست ضمانت کو سپریم کورٹ میں 14 مرتبہ ری شیڈول کیا گیا ۔سیشن کورٹ نے دو بار اور دہلی ہائی کورٹ نے ایک بار ان کی ضمانت مسترد کر دی ہے۔
لہڑی نے بتایا کہ ابھی کچھ قانونی الجھنیں ہیں ۔ ہم جلد ہی ہائی کورٹ جانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ اس سے پہلے ہمیں بنچ کو جاننا ہوگا۔ پہلے مقدمات کی سماعت کرنے والے ججوں کا تبادلہ کر دیا گیا ہے۔
اس کیس میں جن 20 افراد پر فرد جرم عائد کی گئی تھی، ان میں سے 6 کو ضمانت مل گئی ہے جبکہ 14 دیگر اب بھی سلاخوں کے پیچھے بند ہیں۔
ان میں سے کچھ پہلے ہی مختلف بنچوں کے سامنے دو بار اپنے کیسوں پر بحث کر چکے ہیں۔ اب ان کے مقدمات کی دوبارہ سماعت ہو گی۔ ہمیں یقین نہیں ہے کہ ہم قطار میں کہاں کھڑے ۔
یونائیٹڈ اسٹیٹ کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم کے مطابق عمر خالد کو مذہبی شناخت کی وجہ سے ظلم و ستم کا سامنا ہے۔بھارتی حکومت نے امریکی رپورٹ کو مسترد کر دیا۔
یو ایس سی آئی آر ایف کے مطابق الزامات کی نوعیت میں، مجرمانہ پیشن گوئی اور سازش، نفرت انگیز تقریر، غیر قانونی مالی امداد، قتل اور قتل کی کوشش، عوامی خرابی، دہشت گردی، غداری اور بغاوت شامل ہیں۔
اکتوبر 2022 میں، سپریم کورٹ کے ایک سابق جج، ہائی کورٹ کے تین ریٹائرڈ ججوں اور ایک سابق مرکزی داخلہ سکریٹری نے عمر خالد کے خلاف UAPA کیس کی جانچ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کے عمر خالد کے خلاف دہشت گردی کے الزامات کے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملے ہیں ۔
ٹھیک دو ماہ قبل بنگلور کی ایک عدالت نے کرناٹک کے سلسلہ وار جنسی زیادتی کیس کے ملزم جنتادل سیکولر کے ممبر اسمبلی ایچ ڈی ریوننا کو 5 لاکھ روپے کے مچلکے پر ضمانت دی گئی تھی۔