نظیفہ رائدہ
طلباء کی قیادت میں ہونے والے ‘مانسون انقلاب’ نے بنگلہ دیش کی آمر سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو 5 اگست کو عہدہ چھوڑنے اور ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ ایک ہفتے سے زیادہ وقت گزر چکا ہے اور طلباء اب بھی سڑکوں پر ہیں۔ وہ صاف صفائی کر رہے ہیں، ٹریفک کا انتظام کر رہے ہیں، ہندو مندروں اور گھروں کو حملوں سے بچا رہے ہیں، پولیس کے چھوڑے ہوئے تھانوں کو چلانے میں مدد کر رہے ہیں۔ انہوں نے آگ لگے ہوئے تھانوں سے اسلحہ، گولہ بارود، دستی بم اور واکی ٹاکی برآمد کیے۔ انہوں نے لوگوں سے لوٹے گئے قیمتی سامان کو واپس کرنے کی اپیل کی ہے۔ پارلیمنٹ کے سیکورٹی اہلکاروں سے چھینے گئے ہتھیار واپس کیے گئے ہیں۔ دیواروں پر نئی پینٹنگز کی ہیں، گانوں کی جگہ نظمیں تحریر کر دی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ بات چیت کر رہے ہیں کہ وہ کیسا ملک بنانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے کس قسم کی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ان کی تمام کوششوں کا بنیادی مقصد یہی لگتا ہے ‘یہ ہمارا ملک ہے، اور ہم اسے پھر سے افراتفری کا شکار نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
جب طلباء نے 6 اگست کو ٹریفک پولیس کی عدم موجودگی میں ڈھاکہ میں ٹریفک کو منظم کرنا شروع کیا، تو انہوں نے 2018 کی ‘سڑک حفاظت تحریک’ کی یاد تازہ کر دی۔ انہوں نے یقینی بنایا کہ مختلف قسم کی گاڑیاں مختلف لینز میں چلیں، ہیلمیٹ نہ پہننے والے بائیکرز کو روکا، غلط سمت سے داخل ہونے والے رکشوں کو روکا اور پیدل چلنے والوں سے فٹ برج کا استعمال کرنے کی اپیل کی۔ سیٹ بیلٹ نہ باندھنے والوں کو آدھے گھنٹے دھوپ میں کھڑا کیا۔ کچھ چوراہوں پر نوجوانوں نے مہنگی گاڑیوں کو روک کر تلاشی لی کہ کہیں ان میں ‘کالا دھن’ تو نہیں ہے!
ملک میں 5 اگست کو پیش آنے والے واقعات کا جوش اب بھی برقرار ہے۔ اس دن تقریباً پانچ لاکھ لوگوں نے طلباء کی اپیل پر کرفیو اور پابندیوں کی خلاف ورزی کر کے انہیں اپنا تعاون دیا۔ بچوں کو کندھوں پر اٹھائے والدین، محنت کش، رکشہ والے، دہاڑی مزدور اور دفاتر جانے والے لوگوں نے طلباء کا ساتھ دیا اور قومی پرچم لہرا کر وزیراعظم کی رہائش گاہ کی طرف مارچ کیا۔ لوگوں کے اس سیلاب کو دیکھ کر پولیس کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ فوج نے بھی مداخلت کرنے سے انکار کر دیا اور وزیر اعظم کو فرار ہونے کی تجویز دی۔
اس سے ایک دن پہلے، یعنی 4 اگست کو صرف ڈھاکہ میں 200 سے زیادہ مظاہرین، جن میں بڑی تعداد میں طلباء بھی شامل تھے، کو گولی مار دی گئی۔ طلباء نے جو کتابوں میں پڑھا تھا کہ ‘آزادی حاصل کرنا مشکل ہے لیکن اس کو برقرار رکھنا اور بھی زیادہ مشکل ہے’، وہ اب اس کا براہ راست تجربہ کر رہے ہیں۔ لوگوں کو طلباء سے بڑی امیدیں ہیں لیکن طلباء کے رہنما بے باکی سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اس کے لیے تیار نہیں ہیں، تاہم، ایک آمرانہ نظام میں پلے بڑھے نوجوان آزادی کا ذائقہ چکھنے کے بعد ہار ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ آزادی کی حفاظت کرنے اور ملک کو بہتر بنانے کا حلف لینے کے ساتھ ان میں مقصد کی نئی روح بیدار ہو گئی ہے۔ لوگوں کے مزاج کو سمجھتے ہوئے بی این پی اور جماعت جیسے سیاسی جماعتیں ہندو مندروں کا دورہ کر رہی ہیں اور اقلیتی برادری کو یقین دلا رہی ہیں کہ وہ محفوظ رہیں گے۔ لیکن طلباء اتنے پر ہی مطمئن نہیں ہیں اور وہ ہندوؤں پر حملہ کرنے والے مجرموں کی فوری شناخت اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ اقلیتی برادری کے زیادہ تر متاثرین کو حکومتی پارٹی عوامی لیگ اور اس کے طلباء فرنٹ ‘بنگلہ دیش اسٹوڈنٹ لیگ’ (بی سی ایل) سے تعلق رکھنے کی وجہ سے سیاسی حریفوں نے نشانہ بنایا۔ عوامی لیگ کے ایک رکن پارلیمنٹ کے گھر کو آگ لگا دی گئی اور کچھ مندروں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر طلباء نہ ہوتے تو حالات اور بھی خراب ہو سکتے تھے۔ 5 اگست کی رات کو جب وہ جشن منا رہے تھے، انہوں نے بڑے مندروں کی حفاظت کے لیے گروپ بھی بنائے۔ 25 طلباء اور اماموں کے ایک گروپ نے رات بھر ڈھاکیشوری مندر کی حفاظت کی۔ میرپور میں انہوں نے گھر گھر جا کر لوگوں کے نمبر لیے اور ہر قسم کی مدد کی پیشکش کی۔ اس رات طلباء کی گشتی ٹیم نے سوامی باغ میں رمنا کالیا مندر اور اسکان مندر کی بھی حفاظت کی۔ کومیلا اور چٹگاؤں سے بھی اسی طرح کی منظم کوششوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
بمشکل ایک مہینے پہلے 16 جولائی کی رات کو پولیس نے آصف محمود اور ناہید اسلام کو اٹھا لیا تھا۔ جیسے ہی ٹیلی گرام گروپ کے ذریعے یہ خبر پھیلی، لوگوں نے انہیں سامنے لانے کا مطالبہ کیا اور فوراً ہی یہ دونوں انقلاب کے چہرے بن گئے۔ محمود اور اسلام اب عبوری حکومت میں مشیر ہیں اور انہیں وزیر کا عہدہ دیا گیا ہے۔ یہ طلباء ہی تھے جو چاہتے تھے کہ عبوری حکومت سے سیاسی جماعتوں کو باہر رکھا جائے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نوبل انعام یافتہ پروفیسر محمد یونس کو ‘چیف ایڈوائزر’ کے طور پر عبوری حکومت کی قیادت کرنے کے لیے کہا جائے۔ زیادہ تر مشیروں کے نام طلباء نے ہی تجویز کیے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا جائے کیونکہ یہ جنوری میں ایک مشتبہ انتخابات کے ذریعے تشکیل دی گئی تھی اور اپوزیشن نے اس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ انہوں نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا اور سیاسی طور پر مقرر کردہ مرکزی بینک کے گورنر اور وائس چانسلروں سمیت کئی لوگوں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ غیر تصدیق شدہ رپورٹیں ہیں کہ طلباء کو ہر وزارت میں مشیر مقرر کیا جائے گا۔
طویل عرصے سے غیر فعال سیاسی جماعتیں اقتدار حاصل کرنے کا ممکنہ موقع تلاش رہی ہیں۔ وہ جلد انتخابات چاہتی ہیں لیکن طلباء کا ارادہ کچھ اور لگتا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جب تک ساختی اصلاحات نافذ نہیں ہو جاتیں، عبوری نظام کو جاری رکھنا بہتر ہے۔ ویسے، طلباء اور سول سوسائٹی کے اراکین کے ساتھ ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کی بات بھی چل رہی ہے۔ طلباء کے دباؤ میں بی این پی اور جماعت جیسی سیاسی جماعتوں نے ایک ‘سیکولر’ بنگلہ دیش کے لیے اپنی حمایت دینے کا عزم کیا ہے۔ جماعت کے رہنما اتحاد ظاہر کرنے کے لیے ہندو مندروں اور عیسائی گرجا گھروں میں جا رہے ہیں۔ بی این پی نے ہندوؤں پر حملوں کے مشتبہ ارکان کو نکال دیا ہے۔ ظاہر ہے، طلباء تبدیلی کی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
بنگلہ دیش کے لیے جولائی ایک سخت مہینہ رہا ہے۔ 29 جولائی 2018 کو ایک تیز رفتار بس نے دو اسکول کے بچوں کو کچل دیا تھا۔ اسے ایسا شخص چلا رہا تھا جس کے پاس لائسنس بھی نہیں تھا۔ حادثے کے چند گھنٹوں کے اندر طلباء نے محفوظ سڑکوں اور ٹریفک قوانین کے سخت عمل درآمد کا مطالبہ کرتے ہوئے ڈھاکہ کی سڑکوں پر مظاہرہ کیا۔ میں اس وقت کالج میں تھی اور ‘سڑک حفاظت تحریک’ کا حصہ بن گئی تھی۔ سرکاری ملازمتوں میں کوٹے کو 56 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کرنے کی تحریک پہلے ہی چل رہی تھی۔ حکومت نے ہم مظاہرین پر بی سی ایل لگا دیا۔ مجھے یاد ہے کہ انہوں نے صورت حال کو ‘سنبھالنے’ کے نام پر ہاکی اسٹک، درانتی اور کلہاڑیوں کا استعمال کیا۔ مین اسٹریم میڈیا اور ٹی وی نے شترمرغ کی طرح کا برتاؤ کیا اور اس کے بارے میں کچھ بھی رپورٹ نہیں کیا۔ ہم نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا لیکن جلد ہی انٹرنیٹ بند کر دیا گیا۔ آخرکار وزیر اعظم نے یہ اعلان کر کے صورت حال کو پرسکون کیا کہ تمام کوٹے ختم کر دیے جائیں گے۔
چھ سال بعد کوٹے کی تحریک نے ‘امتیاز مخالف’ تحریک کی صورت اختیار کر لی، جس میں طلباء نے جون میں ہائی کورٹ کے کوٹے کو ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔ 16 جولائی 2024 کو ابو سعید کی ہلاکت ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ ڈھاکہ سے 400 کلومیٹر دور رنگ پور میں بیگم رقیہ یونیورسٹی میں انگریزی کا طالب علم سعید مسلح پولیس اہلکاروں کے ایک گروپ کے سامنے اکیلا اور نہتا ہاتھ پھیلائے کھڑا تھا۔ اس نے پولیس کو گولی چلانے کا چیلنج دیا۔ اس کے چہرے پر کسی قسم کا خوف نہیں تھا۔ یہ ایک ڈرامائی منظر تھا، جسے وہاں موجود بہت سے لوگوں نے اپنے فون پر ریکارڈ کر لیا۔ جلد ہی ایک گولی چلی اور سعید زمین پر گر گیا۔ ویڈیو وائرل ہو گئی اور اس کے بعد کے تمام واقعات اب تاریخ کا حصہ ہیں۔