کلکتہ
مرکزی حکومت کے زیر انتظام بیشتر خود مختار ادارے اس وقت سنگھ پریوار کے منصوبے کے تحت کام کررہے ہیں ۔خودمختار ادارے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجائے سنگھی منصوبے کے تحت مسلمانوں اور مسلم اداروں کو بدنام کرنے کی مشن پر کام کرتے ہیں ۔حال ہی میں نیشنل چائلڈ کمیشن نے مسلم اداروں اور مدرسوں سے متعلق بڑے بڑے دعوے کرکے سنسنی پھیلادی تھی ۔عیسائی تنظیم سے متعلق نیشنل چائلڈ کمیشن کی رپورٹ پر سپریم کورٹ نے سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت کو اپنے ایجنڈے کا حصہ نہ بنائیں ۔
گزشتہ سال نیشنل کمیشن آف بیک ورڈ کلاسزکے چیرمین ہنس راج گنگا رام اہیر نے دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ ہمیں کئی شکایات موصول ہوئی ہیں کہ مغربی بنگال میں اوبی سی کی فہرست میں شامل مسلم کمیونٹی کے بہت سے لوگ بنگلہ دیش سے آنے والے تارکین وطن ہیں۔ ہم اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں، کیوں کہ ایسا حقیقی فائدہ اٹھانے والوں کو محروم کر کے کیا گیا ہے۔ ہم نے ریاستی حکومت سے تفصیلی جواب طلب کیا ہے۔مغربی بنگال میں او بی سی کے لیے موجودہ ریزرویشن 17 فیصد ہے۔
نیشنل کمیشن آف بیک ورڈ کلاسزکے چیرمین ہنس راج گنگا رام اہیر کے اس دعوے کے باوجود عظیم پریم جی یونیورسٹی میں اسکول آف ڈیولپمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر عادل حسین نے فروری 2024کو آرٹی آئی داخل کرکے نیشنل کمیشن آف بیک ورڈ کلاسز سے چند سوالات پوچھے تھے کہ انہوں نے کن بنیادوں پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ بنگال میں مسلم اوبی سی میں روہنگیا اور بنگلہ دیشی شامل ہے۔روہنگیا اور بنگلہ دیشی ہونے کی شناخت کیسے کی ہے؟ اس کے علاوہ آرٹی آئی کے ذریعہ یہ سوال بھی پوچھا گیا تھا کہ گزشتہ سال نیشنل کمیشن آف بیک ورڈ کلاسزنے اگر اس سے متعلق بنگال حکومت کو کوئی خط لکھا ہے تو اس کی کاپی فراہم کی جائے۔علاوہ ازیں ریاستی حکومت نے اگر اس خط کا جواب دیا ہے تو اس کی کاپی بھی فراہم کی جائے ۔
30ستمبر 2024کو آرٹی آئی کا جواب دیتے ہوئے وزارت سماجی انصاف امور نے واضح لفظوں میں کہا کہ ان کے پاس ایسے کوئی ثبوت نہیں ہے۔
NCBC PIO نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے دفتر میں ایسی کوئی دستاویز یا فائل موجود نہیں ہے جو اس رپورٹ کی طرف اشارہ کرتی ہو۔ایسا لگتا ہے کہ این سی بی سی کے چیئرمین نے ریاست کے مسلم او بی سی گروپوں کو بدنام کرنے کے لیے یہ الزامات بالکل غلط لگائے ہیں۔