نوراللہ جاوید
یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ آئین اور خود مختار ادارے حالیہ برسوں میں نہ صرف زوال کا شکار ہوئے ہیں بلکہ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ ان اداروں کو سیاسی مفادات اور اپنے دیرینہ ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ چاہے وہ شیڈول ٹرائب کمیشن ہو یا پھر بیک ورڈ کلاسز کمیشن، خواتین کمیشن، یا اطفال کمیشن، ان اداروں نے بنیادی مفوضہ کام کی تکمیل کرنے کے بجائے یک رکنی ایجنڈے پر کام کیا ہے۔ وہ ایجنڈا مسلمانوں اور ملک کی اقلیتوں کے خلاف حصار تنگ کرنا ہے۔ گزشتہ مہینے، شیڈول ٹرائب کمیشن، جس کی چیئر پرسن بی جے پی لیڈر ہیں، نے جھارکھنڈ میں قبائلیوں کی آبادی میں کمی اور مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کے درمیان تعلقات ثابت کرنے کے لیے مضحکہ خیز دلائل پیش کیے۔ اب قومی کمیشن برائے حقوق اطفال کے رخصت پزیر چیئر مین نے 16 اکتوبر کو اپنی مدت مکمل کرنے سے قبل جو رپورٹ پیش کی ہے، اس کے نکات پڑھنے کے بعد واضح ہوجاتا ہے کہ آر ایس ایس کے مسلمانوں اور دینی اداروں سے متعلق جو مفروضے ہیں، انہیں من و عن الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ “Guardians of Faith or Oppressors of Right? Constitutional Rights of Children vs Madarsa” کے عنوان سے رپورٹ میں پیش کردیا گیا ہے۔ 69 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں تحریک آزادی میں مدارس اسلامیہ کا کردار اور بھارت میں تعلیم کے فروغ میں اہم کردار کا مثبت جائزہ لینے کے بجائے، غلط مفروضے، بے بنیاد باتیں اور تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر مدارس اسلامیہ کے خلاف مقدمہ بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔
کمیشن نے اپنی اس رپورٹ کو مرتب کرنے سے قبل ان تمام حقائق کو فراموش کردیا ہے کہ بھارت میں مجموعی طور پر “حقوق اطفال” کی صورت حال انتہائی بدترین ہے۔ بھارت دنیا کے ان ممالک میں سرفہرست ہے جہاں سب سے زیادہ بچوں کا اغوا کیا جاتا ہے، جہاں بچہ مزدوری کی شرح سب سے زیادہ ہے، اور جہاں 24 ملین بچوں کی شادی کم عمری میں کردی جاتی ہے۔ بھارت میں صرف 40 فیصد بچوں کی پیدائش کا رجسٹریشن ہوتا ہے اور 60 فیصد بچوں کا رجسٹریشن نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب ہے کہ ان بچوں کی دیکھ بھال، حفظان صحت کے ٹیکے اور دیگر بنیادی ضروریات سے یہ بچے محروم ہوتے ہیں۔ خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت کے مطابق، فروری 2023 تک، ہندوستان میں تقریباً 14.56 لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، جو مہینے میں تقریباً 5.6 کروڑ بچوں کی پیمائش میں سے ہے۔ ہندوستان میں غذائی قلت کے شکار بچوں کی شرح 7.7 فیصد ہے، جو کہ تقریباً 43 لاکھ بچے ہیں۔ پارلیمنٹ میں جمع کرائے گئے اعداد و شمار کے مطابق، سال 2022-23 میں ملک بھر سے 12,53,019 طلباء اسکول سے باہر ہیں، جن میں لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے زیادہ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، 12,53,019 طلباء میں سے 6,97,121 لڑکے جبکہ 5,55,854 لڑکیاں اور 44 خواجہ سرا تھے۔ وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق، تعلیمی سطح کے لحاظ سے، ابتدائی سطح پر 9,30,531 اور ثانوی سطح پر 3,22,488 بچے اسکول سے باہر تھے۔
اطفال کمیشن کے چیئر مین پریانک کانون گو کے تین سالہ میعاد کا جائزہ لیا جائے تو کمیشن بچوں کے بنیادی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اپنی پوری توجہ مدراس اور عیسائی مشنریوں پر مرکوز رکھی ہے۔ حالیہ دنوں میں، پریانک نے تواتر کے ساتھ مدارس اسلامیہ کے نصاب، حکومت کی جانب سے فنڈنگ اور اسلامی تعلیمات پر سوال اٹھاکر سرخیاں بٹورتے رہے ہیں مگر ان سے یہ سوال نہیں کیا گیا کہ ان کے بنیادی دائرہ کار میں کون سے امور آتے ہیں؟ سپریم کورٹ تک نے عیسائی فلاحی ادارے کے خلاف کارروائی کے مطالبے پر اطفال کمیشن کی سرزنش کرتے ہوئے اس کی عرضی کو مسترد کردیا اور واضح الفاظ میں کہا کہ آپ اپنے ایجنڈے کا ہمیں حصہ نہ بنائیں۔
پریانک کانون گو نے حکومت کے زیر انتظام چلنے والے مدارس کی فنڈنگ پر روک لگانے کی سفارش کرتے ہوئے مضحکہ خیز بات کہی کہ اس پورے صورت حال کے ذمہ دار ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد ہیں۔ اس سے بڑھ کر احسان فراموشی اور کیا ہوسکتی ہے؟ ایک ایسا شخص جس نے آزادی کے بعد پوری سنجیدگی اور متانت کے ساتھ ملک کے تعلیمی نظام کے ڈھانچے کو کھڑا کیا، جس نے بھارت کو جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم کے ساتھ ثقافت و کلچر کے ساتھ جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا، اس پر ہی انگلی اٹھائی گئی ہے۔ مجاہدین آزادی کو بدنام کرنا سنگھیوں کا وطیرہ رہا ہے۔
پریانک کانون گو کی رپورٹ کا جائزہ لینے سے قبل پریانک کے ذاتی پس منظر کو جاننا ضروری ہے۔ پریانک آر ایس ایس سے وابستہ رہے ہیں اور وہ آر ایس ایس کوٹے سے ہی چائلڈ کمیشن کے چیئر مین بنائے گئے۔ کمیشن اپنی رپورٹ میں مدارس اسلامیہ کو لازمی حق تعلیم کے دائرہ کار سے باہر رکھنے پر سخت اعتراض کیا ہے۔ بادی النظر میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ صرف مدارس کو استثنیٰ حاصل ہے اور اس استثنیٰ کی وجہ سے مدارس کے بچوں کو بنیادی تعلیم نہیں ملتی۔ جبکہ این سی پی سی آر کی رپورٹ میں صفحہ 9 پر خود ہی اعتراف کیا گیا ہے کہ آر ٹی ای ایکٹ 2009 کا سیکشن 1(5) مدارس، ویدک پاٹھ شالوں، اور بنیادی طور پر مذہبی تعلیم دینے والے تعلیمی اداروں کو مستثنیٰ قرار دیتا ہے۔ اس کے باوجود رپورٹ میں لازمی حق تعلیم سے مدارس کو باہر رکھنے پر ہی گفتگو کی گئی ہے۔ جبکہ ویدک پاٹھ شالوں اور آر ایس ایس کے زیر انتظام چلنے والے اداروں میں کس طرح کی تعلیم دی جاتی ہے، اس پر کوئی بات نہیں کی گئی۔ رپورٹ مکمل طور پر تضادات پر مبنی ہے، ایک طرف جہاں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ مذہبی اور عصری تعلیم ایک ساتھ دی جا سکتی ہے، وہیں دوسری طرف عصری تعلیم دلانے کے لیے بچوں کو مدراس سے ہٹانے کی پرزور وکالت کی گئی ہے۔
رپورٹ میں آرٹیکل 21A کا جگہ جگہ حوالہ دیتے ہوئے مدراس کے نظام پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ آرٹیکل 21A میں کہا گیا ہے کہ چھ سے چودہ سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ریاست اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی اہل ہے؟ کیا ملک کا اسکولی نظام اور ڈھانچہ اس لائق ہے؟ مدارس اسلامیہ حکومت کی اسی ذمہ داری کو ادا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، مسلمانوں سے فنڈ جمع کرکے بچوں کو معیاری اور عصری تعلیم فراہم کرتا ہے۔ ملک بھر میں مدارس کی کل تعداد میں ایک معمولی تعداد ہے جس کی فنڈنگ حکومت کرتی ہے، باقی مدارس کے اخراجات خود مسلمان اپنے عطیات سے پورا کرتے ہیں۔ اس کے باوجود مدارس کی فنڈنگ روکنے کی سفارش کرکے یہ بیانیہ مرتب کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مدارس اسلامیہ حکومت کے نظر کرم پر چلتے ہیں۔
رپورٹ میں حکومت کے زیر انتظام چلنے والے مدارس میں غیر مسلم بچوں کو نکالنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ کمیشن کی یہ ہدایت آئین کے آرٹیکل 28(3) کی خلاف ورزی ہے، جس میں بچوں کو مذہبی تعلیمات میں حصہ لینے اور اپنے والدین کی اجازت سے اپنے عقیدے کے علاوہ دیگر مذاہب کی مذہبی عبادت میں شرکت اور مذہبی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حکومت کے زیر انتظام چلنے والے مدارس میں 15 ہزار غیر مسلم بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس پر کمیشن کو مدارس کی تعریف کرنی چاہیے کہ دینی ادارہ ہونے کے باوجود مدارس کا نظام تعلیم، ماحول اور اساتذہ اس قدر سازگار ہیں کہ غیر مسلم بچے بے خوف تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ سوال یہ کرنا چاہیے کہ کیا حکومت کے اخراجات پر چلنے والے ہندوؤں کے تعلیمی اداروں کا رویہ اس قدر فیاضانہ ہے؟ حال ہی میں کمیشن نے اترا کھنڈ حکومت سے کہا کہ وہ مدرسہ بورڈ کو تحلیل کردے، جب کہ اسی اترا کھنڈ میں مدرسے کے بچوں کو سنسکرت پڑھنے پر مجبور کیا گیا ہے جب کہ سنسکرت خود غیر مسلم بچے بھی پڑھنے سے گریز کرتے ہیں۔
مسلمانوں کو غلط ثابت کرنے کے لیے جمعیۃ علمائے ہند کے سابق صدر مولانا حسین احمد مدنی کی 85 سال پرانی غیر مصدقہ تقریر کے حوالے سے مدارس کے نظام تعلیم کو شدت پسندانہ قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ جمعیۃ علمائے ہند کے مدارس کو عصری تعلیم سے جوڑنے کی کوششوں کو خصوصی نشانہ بناتے ہوئے، جمعیۃ علمائے ہند کو پاکستان، بنگلہ دیش اور برطانیہ میں قائم جمعیۃ علمائے ہند سے رشتہ جوڑ کر اس کی فنڈنگ پر بھی سوال اٹھایا گیا۔ کسی بھی ادارے کی فنڈنگ کی نگرانی وزارت داخلہ کی ذمہ داری ہے، نہ کہ اطفال کمیشن کی؟ جمعیۃ علمائے ہند نے ملک کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ تقسیم ہند اور دو قومی نظریہ کی شدید ترین مخالف رہی ہے۔ اس کے باوجود جمعیۃ علمائے ہند کے تعلقات کو غیر ملکیوں سے جوڑنا فسطائی ذہنیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ وزارت داخلہ کا کام ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ غیر ملکی رقم کون اور کیسے حاصل کرتا ہے، اور یہ پوچھنا ہے کہ کیا کوئی خلاف ورزی ہوئی ہے، یا یہ NCPCR کا کام ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ NCPCR ان علاقوں میں بھٹک رہا ہے جو اس کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔
رپورٹ میں جمعیۃ علمائے ہند پر اوپن اسکول سسٹم کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ جمعیۃ علمائے ہند کا سیاسی اور مذہبی جماعت کے طور پر تعارف کراتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 2022 میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ (NIOS) کے ساتھ ایک مفاہمت کی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کیے گئے تاکہ مدارس کے طلباء کو رسمی تعلیم فراہم کرنے کے لیے اوپن اسکولز چلائے جا سکیں۔ رپورٹ میں اعتراض کیا گیا ہے کہ چونکہ جمعیت علمائے ہند ایک مذہبی اور سیاسی جماعت ہے، اس لیے یہ معاہدہ قابل قبول نہیں ہے۔ ایک طرف شکایت ہے کہ مدارس میں عصری تعلیم نہیں دی جاتی اور دوسری طرف اگر جمعیۃ علمائے ہند مدراس کو عصری علوم سے جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے تو کمیشن کو اس پر بھی اعتراض ہے۔ این سی پی سی آر کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ اور جمعیۃ علمائے ہند کے درمیان ہونے والے معاہدے میں کہیں بھی ‘جمعیت اوپن اسکول’ کی اصطلاح استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ این سی پی سی آر نے تعزیرات ہند کی دفعہ 405 اور 415 کے تحت معاملے کی تحقیقات کی سفارش کی ہے۔ کمیشن نے وزارت تعلیم سے یہ بھی سفارش کی ہے کہ وہ جے یو ایچ کے ساتھ ایک ایم او یو پر دستخط کرنے میں این آئی او ایس کے کردار کی تحقیقات شروع کرے۔
رپورٹ میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم میں درج فہرست ذاتیں 13 فیصد، درج فہرست قبائل 5 فیصد سے زیادہ ہیں، جب کہ دیگر پسماندہ طبقات کا حصہ 37 فیصد ہے اور اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کی نمائندگی 5 فیصد ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس تعلیمی پسماندگی کے لیے مدارس ذمہ دار ہیں؟ اگر کمیشن اپنی رپورٹ مرتب کرنے سے قبل سچر کمیٹی کی پوری رپورٹ کو پڑھ لیتا تو شاید وہ اس نتیجے پر نہ پہنچتا۔ حقیقت یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ میں مسلم بچوں کی شرح چار فیصد سے بھی کم ہے، جبکہ 96 فیصد مسلم بچے اسکول میں پڑھتے ہیں یا پھر اقتصادی اور سماجی پسماندگی کی وجہ سے اسکولی نظام سے باہر ہوجاتے ہیں۔ کیا کمیشن کے پاس اس سوال کا جواب ہے کہ اس نے مسلم بچوں کے اسکولی نظام تعلیم سے باہر رہنے کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی؟ سیکنڈری اسکول میں مسلم طلباء کے ڈراپ آؤٹ کی شرح 18.64 فیصد ہے، جب کہ قومی سطح پر ڈراپ آؤٹ کی شرح 12.6 فیصد ہے۔