Thursday, December 26, 2024
homeاہم خبریںبی این منڈل یونیورسٹی میں مشہور صحافی محمدفاروق کاکامیاب پی ایچ ڈی...

بی این منڈل یونیورسٹی میں مشہور صحافی محمدفاروق کاکامیاب پی ایچ ڈی کیلئے انٹرویو (اوپن وائیوا)

کلکتہ(پریس ریلیز)

بی این منڈل یونیورسٹی‘ مدھے پورہ کا شعبہ اردوروایتی تدریس کے ساتھ تحقیق کے شعبہ میں اپنی غیر معمولی سرگرمی کی وجہ سے ہندستان کی مشرقی ریاستوں میں نمایاں مقام کا حامل رہاہے۔موجودہ صدرشعبہ ڈاکٹر محمد احسان اور سابقہ صدور کی حسن کارکردگی کا فیض ہے کہ اس شعبہ سے درجنوں ریسرچ اسکالر زنے اردو ادب کے سلگتے اور غیر روایتی موضوعات پرتحقیق کے کوہ گراں سر کرتے ہوئے اردو ادب کے خزانہ میں کئی لعل و گوہر کا اضافہ کیا ہے ۔ نہ صرف تحقیق کے میدان میں اضافہ کا یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے بلکہ صدرشعبہ ڈاکٹر محمد احسان کی نگرانی میں ہونے والے ماہانہ ادبی و تحقیقی سمینار بھی اردو ادب میں اخلاق و اقدار کی سمت کے تعین میں غیر معمولی اہمیت کے حامل بن چکے ہیں۔


رواں نومبر کے مہینہ میں بھی شعبہ کے ریسرچ اسکالرمحمد فاروق کے جمع کردہ تحقیقی مقالہ پراوپین وائیوامنعقد ہوا جس میں یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات ‘ یونیورسٹی سے ملحق کالجوں کے پروفیسر حضرات اور مختلف شعبہ کے طلباو طالبات نے شرکت کی۔26نومبر2024منگل کو منعقد ہونے والے اس اوپن وائیوا میں ہیومینیٹیز کے ڈین آف فیکلٹی پروفیسر ڈاکٹر راجیو کمار ملک ‘ اکسٹرنل اکزمنیر کے طور پرعلی گڑھ سے تشریف لائے معروف ادیب و محقق پروفیسر ڈاکٹر محمد علی جوہر شامل ہوئے جب کہ اندرون یونیورسٹی ممتحن کی ذمہ داری ریسرچ اسکالر کے نگراں ڈاکٹر محمد عابد عثمانی تھے ۔اوپین وائیوا میں شریک ہونے والے دیگر اساتذہ میں ڈاکٹرامتیازانجم‘ ڈاکٹر محد ابوالفضل‘ ڈاکٹر اونکار ناتھ مشرا‘ ڈاکٹر سجاد‘ ڈاکٹر نظام الدین احمد‘ پروفیسرڈاکٹر سی پی سنگھ‘ ڈاکٹر سنیل کمار ‘ڈاکٹر یاسمین رشیدی اورڈاکٹرمحمد شہریار‘ ڈاکٹر امریندر‘ ڈاکٹر شیفالیکا شیکھر وپی جی تھڑد سیمسٹر کے طالب علم امتیاز احمد دیگر شامل تھے۔ محمد فاروق نے اپنے تحقیقی موضوع سے متعلق بیرونی ممتحن پروفیسر ڈاکٹر محمد علی جوہر اور دیگراساتذہ اصحاب کے سوالات کا تشفی بخش جواب دیا ۔

محمد فاروق کی تحقیق کا موضوع ”پروفیسرمناظر عاشق ہرگانوی کی طنزو مزاح نگاری“ کے نگراں ڈاکٹر عابد عثمانی تھے ۔ ریسرچ اسکالر محمد فاروق نے تحقیق کے دوران پیش آمدہ مشکلات و صعوبتوں کا ذکر کرتے ہوئے ان تمام معاونین کابھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے تحقیق کی اس راہ پرخار کو سہل بنانے میں ان کاہاتھ بٹایاتھا۔محمد فاروق نے خصوصی طور پر ڈاکٹر محمد رحمت اللہ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ تحقیقی کاوش کی تکمیل کے بعد یونیورسٹی کی رسمی کارروائیوں کی پیچیدگیوںکی گرہ کشائی میں اگر ڈاکٹر محمد رحمت اللہ نے ساتھ نہ دیاہوتا اس اوپن وائیواکا انعقاد مشکل تھا۔اوپین وائیوا کے اختتام پراکسٹرنل اکزامینرپروفیسر ڈاکٹر محمد علی جوہر ‘ ہیومنیٹیز کے ڈین آف فیکلٹیز پروفیسر ڈاکٹر راجیو کمار‘ صدرشعبہ اردو ڈاکٹر محمداحسان‘ نگراں ڈاکٹر محمد عابد عثمانی اور تمام شرکا نے محمد فاروق کو ڈاکٹرمحمد فاروق کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے انہیں مبارک باد دی ۔

اس سے قبل ڈاکٹر محمد احسان نے اکسٹرنل اکزامینر پروفیسر محمدعلی جوہر کی حیات و خدمات کا بھر پور انداز میں خلاصہ پیش کیااورمیدان ادب میں ان کی کاوشوں کی ستائش کرتے ہوئے کہاکہ پروفیسر محمد علی جوہر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سینئر پروفیسر اور اردو ادب کے ایک ممتاز محقق و نقاد ہیں۔ وہ شعبہ اردو کے سابق صدر اور سالنامہ ”رفتار“ کے مدیر ہیں، اور تعلیمی و ادبی خدمات میں 30 سال سے زائد کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کی اعلیٰ تعلیمی قابلیت کا مظہر ان کا ایم اے میں گولڈ میڈل اور شبلی انعام حاصل کرنا ہے۔ ان کی تحقیقی اور تصنیفی کاوشیں نمایاں ہیں، جن میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی موضوعات نے انہیں اردو ادب کے گہرے نقاد اور محقق کے طور پر متعارف کروایا۔ پروفیسر جوہر کا سب سے اہم تحقیقی کام لکھنو کے ادبی منظرنامے پر ہے، جسے انہوں نے اپنی کتاب ”لکھنوکا ادبی ماحول: بیسویں صدی کے نصف اول تک“ میں تفصیلی طور پر پیش کیا ہے۔

انہوں نے شاعری کے ساتھ نثر کے اہم پہلوئوں کو بھی زیر بحث لایا، جس میں دبستان لکھنوکے ادبی اور لسانی اسالیب کی خصوصیات، سیاسی محرکات، اور جدید ادبی رجحانات کا تفصیلی جائزہ شامل ہے۔ ان کی تنقیدی بصیرت نے لکھنوکے قدیم اور جدید ادبی منظرنامے کے درمیان فرق کو واضح کیا اور اس دور کی ادبی شخصیات کے اہم کارناموں کو اجاگر کیا۔ پروفیسر محمد علی جوہر کی خدمات اردو ادب میں کئی حوالوں سے قابل ذکر ہیں۔ان کی تحریریں بالخصوص لکھنوکے ادبی ماحول پر تحقیق اردو ادب میں ایک اہم اضافہ ہیں۔ انہوں نے شاعری کے ساتھ نثر کو شامل کرکے لکھنوکی ادبی تاریخ کو وسیع تر تناظر میں پیش کیا ہے۔ ان کی زیر نگرانی 15 سے زائد پی ایچ ڈی کے مقالے مکمل ہوئے، جو ان کی تعلیمی رہنمائی کی عمدہ مثال ہے۔ پروفیسر جوہر نے لکھنوی ادب میں سیاسی اور سماجی محرکات کو سمجھنے اور ان کے اثرات کو واضح کرنے میں غیر معمولی مہارت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے تنقیدی نظریات ادبی تاریخ کو نئی جہات فراہم کرتے ہیں۔ ان کی تحقیق نے دبستان لکھنو کی ادبی اقدار کو نکھارا اور ان غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جو اس دبستان کے حوالے سے پائی جاتی تھیں۔ پروفیسر محمد علی جوہر اردو ادب کے ایک ممتاز ادیب، محقق، اور استاد ہیں، جن کا کام ادب کے مختلف پہلوں کو سمجھنے کےلئے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ان کی تحقیقی کاوشیں اردو ادب کی تاریخ کے ایک اہم باب کی تکمیل ہیں اور ان کی علمی خدمات نئی نسل کےلئے مشعل راہ ہیں۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین