دمشق : ایجنسی
برسوں تک پس پردہ رہ کر سرگرم رہنے والے ابو محمد الجولانی کی قیادت میں باغی گروپ نے ایک شاندار بجلی سے تیز کارروائی کے ذریعہ 13 سال سے زیادہ کی وحشیانہ خانہ جنگی کے بعد شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
42 سالہ مسٹر الجولانی حیات تحریر الشام کے رہنما ہیںایک اسلامی گروپ جو کبھی القاعدہ سے منسلک تھا جس نے تنازع میں طویل تعطل کے دوران، شمال مغربی شام میں، ادلب صوبے کے بیشتر حصے پر کنٹرول قائم رکھا ۔انٹرنیشنل کرائسز گروپ میں جہاد اور جدید تنازعات کے ایک سینئر تجزیہ کار جیروم ڈریون کہتے ہیں کہ اب تک وہ شام میں زمین پر سب سے اہم کھلاڑی ہیں۔
جیروم ڈریون گزشتہ پانچ سالوں میں کئی بار الجولانی سے مل چکے ہیں۔
نومبر کے آخر میں، حیات تحریر الشام نے ایک دہائی میں مسٹر الاسد کی حکمرانی کے لیے سب سے اہم چیلنج کا آغاز کیا، شام کے سب سے بڑے شہر حلب سے گزرتے ہوئے جنوب سے چارج کرنے سے پہلے بہت زیادہ مزاحمت کا سامنا کیے بغیر کئی صوبوں کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔اتوار تک باغی شام کے دارالحکومت دمشق میں جشن منا رہے تھے اور اسے بشار الاسد سے آزاد ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ روس کی وزارت خارجہ کے مطابق شام کے دیرینہ رہنما نے ’’مسلح تنازع کے متعدد فریقوں‘‘ کے ساتھ بات چیت کے بعد ملک چھوڑ دیا تھا۔ اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ مسٹر الاسد کہاں ہو سکتے ہیں۔
عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق، احمد حسین الشعرا سعودی عرب میں پیدا ہوئے، مسٹر الجولانی شامی جلاوطن کے بچے ہیں۔ 1980 کی دہائی کے آخر میں ان کا خاندان واپس شام چلا گیا، اور 2003 میں، وہ القاعدہ میں شامل ہونے اور امریکی قبضے کے خلاف لڑنے کے لیے پڑوسی ملک عراق گئے۔
عرب میڈیا رپورٹس اور امریکی حکام کے مطابق اس نے کئی سال عراق میں امریکی جیل میں گزارے۔بعد میں وہ خانہ جنگی کے آغاز کے آس پاس شام میں ابھر کر سامنے آئے اور القاعدہ سے وابستہ النصرہ فرنٹ تشکیل دیا، جو بالآخر حیات تحریر الشام میں تبدیل ہوگیا۔ اسی زمانے میں انہوں نے اپنا نامابو محمد الجولانی کا نام لیا تھا۔
القاعدہ سے تعلقات توڑنے کے بعد سے، مسٹر الجولانی اور ان کے گروپ نے عالمی جہادی عزائم کو ترک کرکے اور شام میں منظم طرز حکمرانی پر توجہ مرکوز کرکے بین الاقوامی قانونی حیثیت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ برسوں میں مسٹر الجولانی اور ان کے گروپ نے اپنی حکومت کے علاقے میں ایک انتظامیہ بنائی ہے، ٹیکس اکٹھا کیا ہے، محدود عوامی خدمات فراہم کی ہیں، اور یہاں تک کہ رہائشیوں کو شناختی کارڈ بھی جاری کیے ہیں۔ وہ آمرانہ ہتھکنڈے استعمال کرنے اور اختلاف رائے پر کریک ڈاؤن کرنے پر ملک کے اندر اور باہر سے تنقید کی زد میں بھی آئے ہیں۔
سوالات ابھرے ہیں کہ مسٹر الجولانی کس قسم کی حکومت کی حمایت کریں گے اور کیا شامی اسے قبول کریں گے۔ ادلب میں، حیات تحریر الشام نے ایک ایسی حکومت کی حمایت کی ہے جس کی رہنمائی ایک قدامت پسند اور بعض اوقات سخت گیر سنی اسلام پسند نظریے کی تھی۔
جب سے باغی حملہ شروع ہوا، مسٹر الجولانی نے دیگر فرقوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والی اقلیتی برادریوں کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں نے کہا کہ اب اسے اپنی زندگی کے امتحان کا سامنا ہے: آیا وہ شامیوں کو متحد کر سکتا ہے۔مسٹر ڈریون نے مسٹر الجولانی کو درپیش صورتحال کا موازنہ ان دیگر رہنماؤں سے کیا جنہوں نے جنگ کے دوران زیادہ اہمیت اختیار کی، جیسے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلن سکی۔ایک طرح سے،یہ اس کا زیلینسکی لمحہ ہے،” مسٹر ڈریون نے کہا۔ “زیلینسکی کو یوکرین کی جنگ سے پہلے تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور پھر وہ ایک سیاستدان بن گئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا جولانی بھی وہی تبدیلی لا سکتے ہیں؟
بشار الاسد کے خلاف لڑنے والے جنگجو 10 دن کی تیز ترین پیش قدمی کے بعد شام کے دارالحکومت دمشق میں داخل ہوئے جس کے ساتھ ہی اسد خاندان کا 50 سالہ دورِ اقتدار بھی اختتام ہوگیا ہے۔ شامی اپوزیشن کا کہنا ہے کہ صدر بشار الاسد ملک سے فرار ہوگئے ہیں اور کسی نامعلوم مقام پر چلے گئے ہیں۔
دمشق کی جانب باغیوں کی پیش قدمی کے بعد اتوار کو یہاں سے بھی شامی فورسز پسپا ہوگئی تھیں۔
باغی فورسز اور مسلح اتحادیوں نے گزشتہ دنوں شامی حکومت کے خلاف غیر معمولی حملوں کا آغاز کیا تھا جس میں حلب پر قبضے کے بعد وہ تیزی سے شامی فوج کو پسپا کرتے ہوئے حما، حمص اور پھر دمشق پہنچ گئے ہیں۔
امریکہ کے ’واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی‘ کے سینئر فیلو ایرون زیلین کے مطابق اس گروپ کے موجودہ اہداف عالمی نہیں بلکہ مقامی نوعیت کے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’میرے خیال میں وہ شدت پسند ہیں۔ ان کی صفوں میں آج بھی غیر ملکی جنگجو شامل ہیں اور انہوں نے اسرائیل پر حماس کے سات اکتوبر کے حملوں میں بھی اس کا ساتھ دیا ہے۔‘‘
حماس کے 2023 میں کیے گئے اس حملے میں اسرائیل کے 1200 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور جس کے بعد غزہ میں اسرائیل کی جوابی کارروائی سے شروع ہونے والی جنگ ایک سال بعد بھی جاری ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ایچ ٹی ایس کے پاس 30 ہزار جنگجو ہیں جن میں سے زیادہ تر شمال مغربی شام میں موجود ہیں۔
زیلین کے مطابق ایچ ٹی ایس ان کے نزدیک ان سیاسی جہادیوں میں شامل ہیں جو داعش اور القاعدہ کی طرح ہر اقدام اپنی عقائد و نظریات کے تحت نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ یہ گروپس اپنے فیصلوں میں سیاسی اہداف کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں لیکن وہ اس کے باوجود جہاد کرنے میں دل چسپی رکھتے ہیں اور اس طرزِ عمل کی جھلک حالیہ لڑائی میں بھی نظر آتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’میں جس انداز سے اس معاملے کو دیکھتا ہو تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ واضح طور پر یہ عالمی جہاد سے ہٹ کر مقامی تنظیم بن گئی ہے۔‘‘
ترکیہ کے حمایت یافتہ باغی
شامی حکومت کا تختہ الٹنے والوں میں شامل دیگر گروپس میں سے ایک سیریئن نیشنل آرمی یا ایس این اے شامل ہے۔ یہ ترکیہ کے حمایت یافتہ مختلف مسلح گروپس کی سرپرست تنطیم ہے۔
ایس این اے دراصل شمال مغربی شام میں 2017 میں ترکیہ کی حمایت سے قائم ہونے والی عبوری حکومت کی مسلح فورس کے طور پر قائم ہوئی تھی۔ ایس این اے 2018 اور 2019 میں ترکیہ کی مدد سے کرد فورسز پر حملوں میں شریک ہوئی تھی۔
‘ایس این اے’ کے ساتھ منسلک کئی گروپس سخت گیر مذہبی نظریات رکھتے ہیں۔ گزشتہ برس، امریکہ کے محکمۂ خزانہ ایس این اے میں شامل دو اہم گروپس سلیمان شاہ بریگیڈ اور حمزہ ڈویژن پر پابندیاں عائد کر چکا ہے۔
ان گروپس کے خلاف یہ اقدام شمالی شام کے عفرین خطے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔
واشنگٹن میں قائم نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ سے منسلک کیرولائن روز کا کہنا ہے کہ ایچ ٹی ایس اور ایس این اے کے درمیان موجودہ تعاون بہت ٹھوس نہیں ہے۔
وی او اے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ترکیہ نے شمال مغربی شام میں پیدا ہونے والے حالات کے پس منظر میں شروع ہونے والی لڑائی میں دیر سے مداخلت کی ہے۔
تاہم یہ واضح ہے کہ شامی میں ہونے والی پیش قدمیبکے لیے انقرہ نے ایچ ٹی ایس اور این ایس اے کے درمیان مضبوط شراکت داری پیدا کرنے کے لیے سرمایہ کاری کی ہے۔
حلب پر حملے کے بعد سے ایس این اے نے امریکہ کے حمایت یافتہ کرد قیادت میں منظم سرین ڈیموکریٹک فورسز یا ایس ڈی ایف کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تھا۔ ایس ڈی ایف صوبۂ حلب کے شمالی مضافات میں خاص طور پر تل رفعت کے آس پاس موجود ہے۔ ترکیہ ایس ڈی ایف کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔
کیرولائن روز کا کہنا ہے کہ مختلف ترجیحات ہی اس بات کا تعین کریں گی کہ ایچ ٹی ایس اور ایس این اے کے درمیان شراکت داری برقرار رہتی ہے یا نہیں۔
شام میں حکومت کے خلاف لڑنے والے کئی دیگر گروپس بھی موجود ہیں۔ ان میں احرار الشام بھی شامل ہے جو اسلامسٹ گروپس کا ایک اتحاد ہے جو شام کی خانہ جنگی کی ابتدا ہی میں قائم ہو گیا تھا۔
ایک اور اسلامسٹ گروپ ‘نور الدین زنگی موومنٹ’ بھی ان حملوں میں شریک ہے۔ یہ گروپ 2014 میں حلب میں قائم ہوا تھا اور ایچ ٹی ایس سے قربی تعلقات رکھتا ہے۔