Friday, May 9, 2025
homeاہم خبریںجہاں نماز جرم ہے، دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت کا عمل ہے

جہاں نماز جرم ہے، دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت کا عمل ہے

تحریر: جناب ہرش مندر صاحب–ترجمہ: خورشید عالم داؤد قاسمی

سن2022 کے موسم خزاں میں، ایک خاتون نے اتر پردیش کے پریاگراج (جو پہلے الہ آباد کے نام سے جانا جاتا تھا) کے ایک عوامی اسپتال کے وارڈ کے باہر، نماز کے لیے چٹائی بچھایا۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ اسپتال کے وارڈ میں موجود مریض اس کا شوہر ، بیٹا، بھائی یا والد تھا۔ لیکن یہ ہم جانتے ہیں کہ اسے ڈینگو کی تشخیص ہوئی تھی اور وہ اس کی زندگی کے لیے پریشان تھی۔ اس نے خاموشی سے اپنا سر اسپتال کے فرش پر جھکا کر، نماز پڑھا۔

کچھ لوگوں نے اسے دیکھ لیا۔ انھوں نے نماز پڑھتے ہوئے اس کی تصویر کھینچی اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دی۔ (لوگوں میں) فورا غصہ بھڑک گیا؛ کیوں کہ بہت سے لوگوں نے یہ شور مچایا کہ “عوامی مقامات پر نماز پڑھنا غیر قانونی ہے”۔ حکومت کے زیر انتظام “تیج بہادر سپرو اسپتال” کے چیف میڈیکل آفیسر نے اپنی غصے کا اظہار کیا۔ “ہم نے وارڈ میں ایسی سرگرمیوں کے خلاف سخت انتباہ جاری کیا ہے،” انھوں نے رپورٹرز سے کہا۔ “یہ ایک عوامی مقام ہے۔ ہم نے تمام وارڈ ذمےداران کو ہدایت دی ہے کہ وہ ایسی کسی چیز کی اجازت نہ دیں۔ ہم نے خاتون کو بھی کہا کہ وہ دوبارہ ایسا نہ کرے۔ ہم اپنے تفتیشی رپورٹ کے بعد مزید کارروائی کا فیصلہ کریں گے۔”

پولیس نے بھی تحقیقات کی۔ خوش قسمتی سے، بعد میں انھوں نے بتایا کہ ان کی تفتیش میں”یہ پایا گیا ہے کہ ویڈیو میں موجود خاتون، بغیر کسی غلط نیت کے، نماز پڑھ رہی تھی اور نہ ہی (اس کی نماز سے) کسی کام یا ٹریفک میں خلل پڑا ہے۔ محض مریض کی جلد صحت یابی کے لیے (وہ نماز پڑھ رہی تھی)۔ یہ عمل کسی بھی قسم کے جرم میں شامل نہیں ہوتا۔”

لیکن ملک بھر میں بہت سے دوسرے لوگ اتنے خوش قسمت نہیں ہیں۔ اگر آپ “نئے ہندوستان” میں مسلمان ہیں؛ تو نماز پڑھنا تیزی سے جرم بنتا جا رہا ہے۔ اس کی ایک مثال وہ ویڈیو ہے جو سن 2024 کے موسم بہار میں، دہلی کے “اِندرلوک” سے سامنے آئی ہے۔ مرد حضرات “اِندرلوک” کی کسی مسجد میں، جمعہ کی نماز کے لیے جمع ہوئے۔ مسجد بھر گئی؛ تو کچھ مرد حضرات مسجد کے باہر سڑک پر نماز پڑھ رہے تھے۔

ویڈیو میں دہلی پولیس کا ایک اہلکار نماز میں سجدہ کر رہے مردوں کو لات مارتے اور لاٹھی سے پیٹتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ کانگریس کے راجیہ سبھا کے رکن پارلیمنٹ، جناب عمران پرتاب گڑھی نے دکھ اور غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا: “یہ دہلی پولیس کا ایک سپاہی جو ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے لات مار رہا ہے، شاید انسانیت کے بنیادی اصولوں کو نہیں سمجھتا۔ یہ کیا نفرت ہے جو اس سپاہی کے دل میں بھری ہوئی ہے؟”

لکھنؤ کے “لولو مال” میں، جو حال ہی میں وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ہاتھوں افتتاح کیا گیا تھا، سن 2022 کے موسم گرما میں، جب ایک اور ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں کچھ مرد مال کے کونے میں نماز پڑھ رہے تھے؛ تو کچھ ہندوتوا گروپوں کے کارکنوں نے ہنگامہ برپا کر دیا۔ (ان) کارکنوں نے نماز میں خلل ڈالا اور مسلمانوں کی نماز کا مقابلے میں بلند آواز سے “ہنومان چالیسہ” پڑھنے لگے۔

اتر پردیش پولیس نے ان مردوں کے خلاف، جو نماز پڑھ رہے تھے، تعزیراتِ ہند کی دفعات 153A (مذہب کی بنیاد پر مختلف گروپوں کے درمیان دشمنی بڑھانا)، 341 (غلط طور پر روکنے کی سزا)، 505 (عوامی فساد پیدا کرنے کے لیے بیانات دینا)، اور 295A (جان بوجھ کر اور بدنیتی سے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لیے اقدامات کرنا) کے تحت فوجداری مقدمات درج کیا۔ درجنوں پولیس اہلکاروں نے رات کے درمیانی حصہ میں ، ان نوجوانوں میں سے ایک، جو نماز پڑھ رہے تھے( ریحان، جو کہ ایک فارماکالوجی کے طالب علم تھے)، کے گھر پر دھاوا بول کر، انھیں حراست میں لے لیا۔ انھوں نے ریحان کے دو دوستوں: لقمان اور نعمان، جو کہ چھوٹے چائے فروش تھے، کو بھی گرفتار کر لیا۔

اسی موسم گرما میں، تین مرد، جن میں سے دو حیدرآباد سے اور ایک اعظم گڑھ سے تھا، نے نماز کے لیے تاج محل کے احاطے میں واقع مسجد کا انتخاب کیا۔ پولیس نے انھیں گرفتار کیا اور ایک بار پھر ان پر تعزیراتِ ہند کی دفعہ 153 اےکے تحت مذہبی گروپوں کے درمیان دشمنی بڑھانے کا الزام عائد کیا۔

سن2022 کی عید کی نماز کی وجہہ سے، سترہ سو افراد کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے گئے؛ کیوں کہ انھوں نے کان پور کے تین مختلف علاقوں میں، مساجد کے باہر سڑکوں پر پولیس کی اجازت کے بغیر نماز پڑھی تھی۔ یہ شکایت ایک سینئر پولیس سب انسپکٹر نے درج کرائی تھی۔ مقدمات تعزیراتِ ہند کی دفعات 186 (عوامی ملازم کو اس کے فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالنا)، 188 (عوامی ملازم کے جاری کردہ حکم کی نافرمانی)، 283 (عوامی راستے میں خطرہ پیدا کرنا)، 341 (غلط طور پر روکنے کی سزا)، اور 353 (عوامی ملازم کو اس کے فرائض کی انجام دہی سے روکنے کے لیے مجرمانہ طاقت کا استعمال) کے تحت تھے۔

ہندوتوا کارکنان کبھی کبھار تشدد کے ساتھ، مساجد میں بھی جماعت کے ساتھ نماز کو روکنے کا کام کرتے ہیں۔ سن 2022 کے اوائل میں، گجرات کے ضلع: سورت کے ایک گاؤں: مورہ میں “جے شری رام” کے نعرے لگاتے ہوئے، مردوں نے ایک مسجد پر دھاوا بول دیا، وہ اپنے جوتے پہنے ہوئے بے ادبی سے مسجد میں داخل ہوئے اور نمازیوں کو باہر نکال دیا۔ مسجد کے امام عاقب انصاری نے بعد میں “کلیریئن انڈیا” کو بتایا کہ کیا ہوا۔ تقریباً سو افراد پر مشتمل ہجوم نے مطالبہ کیا، “مسجد بند کر دو، یہاں نماز نہیں ہوگی۔” انھوں جائے نمازوں کو پھینکنا شروع کر دیا، جس پرنمازی لوگ بیٹھے تھے۔ “انھوں نے ہمیں جمعہ کی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی”، انھوں نے کہا، اور “تب سے مسجد میں نماز دوبارہ شروع نہیں ہو سکی۔ ہم نے اپنی شکایت مقامی پولیس اسٹیشن میں کی۔ وہاں ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں نے ہندو مردوں کے جرم کو ہلکے میں لینےکی کوشش کی…”

شب برات کے مبارک دن، 18/ مارچ 2022 کو، دہلی پولیس نے اچانک، بغیر کسی تحریری حکم کے، سولہ مساجد میں جمعہ کی نماز روک دی، جن میں سے کئی تاریخی مساجد ہیں جہاں مسلمان سیکڑوں سال سے عبادت کرتے آرہے ہیں۔

مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید رمضان کے مبارک مہینے میں پیغمبر (محمد صلی اللہ علیہ وسلم)پر نازل ہوا تھا۔ اس مہینے میں ترایح کی نماز پڑھنا ایک معمول ہے، جس میں قرآن کے بڑے حصے[بلکہ عام طور پر پورے قرآن کریم] کو رمضان کے دوران پڑھا جاتا ہے۔ مذہبی اسکالر رانا صفوی کے مطابق یہ روایت سترہ [تقریبا چودہ۔ مترجم]صدی پرانی ہے۔ یہ نمازیں گھر پر، اکیلے، جماعت کے ساتھ یا مسجد میں پڑھی جا سکتی ہیں۔ عموماً یہ نمازیں ایک ساتھ پڑھی جاتی ہیں؛ کیوں کہ مسلمان رمضان کے دوران پورےقرآن مجید کو[تراویح میں] پڑھنا چاہتے ہیں۔ ترایح کی نماز نسلوں سے چین و سکون کے ساتھ ہندوستان میں پڑھی جا رہی ہے۔ لوگ اکثر ان اجتماعی نماز کے لیے گھروں، مساجد، ہال؛ تا آں کہ کیفے میں جمع ہوتے ہیں۔ تاہم، خاص طور پر 2022 کے بعدسے، ہندوتوا ہجوم اور پولیس کی طرف سے ایسے اجتماعات کو بھی مداخلت کا سامنا ہے ، جو ان اجتماعات کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اتر پردیش پولیس نے سن 2022 میں، مراد آباد میں دو نجی گھروں میں ترایح کی نماز کے لیے جمع ہونے والے 26 مسلمانوں کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ ان 26 افراد پر، تعزیراتِ ہند کی دفعہ 505 (2) (عوامی فساد پیدا کرنے کے لیے بیانات دینا) کے تحت، مقدمہ درج کیا گیا کہ وہ “دو مقامی افراد کے گھروں میں بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اکٹھے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے”؛ جب کہ “یہ اعتراضات ایک دوسری کمیونٹی کے پڑوسیوں کی طرف سے اٹھائے گئے تھے”۔

اگلے سال، ایک مسلم تاجر، ذاکر حسین، جو “ذاکر آئرن اسٹور” کے مالک تھے، کو مراد آباد پولیس نے نماز پڑھنے کے جرم میں گرفتار کیا۔ وہ اپنے خاندان کے درجن بھر سے زائد افراد کے ساتھ، مراد آباد کے لاجپت نگر علاقے میں، اپنے ایک گودام میں ترایح کی نماز پڑھنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ اچانک، بجرنگ دل کے لوگوں نے دھاوا بول دیا اور پرزور مطالبہ کیا کہ وہ اپنی نماز ختم کریں۔ پولیس اہلکاروں کا ایک گروپ آیا اور بجرنگ دل کے ارکان کو منتشر کر دیا، جس کے بعد ان لوگوں نے اس رات اپنی نماز مکمل کی۔ تاہم، پولیس نے انھیں ہدایت دی کہ وہ آئندہ ترایح کی نماز صرف مخصوص مذہبی مقامات یا اپنے گھروں میں پڑھیں۔

حسین نے کہا: “یہ ہمارا ذاتی انتظام تھا کہ ہم اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ، نماز پڑھیں اور ہم یہ اپنی جائیداد کی حدود میں کر رہے تھے۔ یہ کسی کے لیے مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔” انھیں مزید حیرت اس وقت ہوئی جب چند دن بعد، ایک ایڈیشنل سٹی مجسٹریٹ نے حسین اور ان کے خاندان کے نو افراد کو دفعہ 111 کے تحت نوٹس جاری کی، جس میں کہا گیا کہ ان کی نماز پڑھنے سے علاقے میں “امن خراب” ہو سکتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک سے پانچ لاکھ روپے کے مچلکہ پر دستخط کرایا گیا، جس میں یہ اظہار کرایا گیا کہ اگر علاقے میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے؛ تو وہ ذمہ دار ہوں گے۔ انھیں جاری کردہ نوٹس میں لکھا تھا: “یہ خدشہ ہے کہ آپ امن خراب کر سکتے ہیں اور اس لیے میری رائے میں آپ کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے کافی جواز موجود ہے۔”

سپریم کورٹ کی وکیل شاہرخ عالم نے اس صورتحال کو “ہیکلر کا ویٹو”(کسی شخص کی تقریر یا اظہار رائے کو اس لیے روک دیا جائے کہ دوسرے لوگ اس پر شور مچاتے ہیں۔) قرار دیا۔ انھوں نے کہا، “اب کسی کے اپنے گھر میں بھی نماز پڑھنے کا عمل لوگوں کو اشتعال دلا سکتا ہے۔ مسلمانوں کا محض وجود ہی لوگوں کو اشتعال دلانے کا سبب بن رہا ہے۔” انھوں نے کہا: “یہ نوٹس ذاکر حسین کو کیوں دیا گیا؟ امن کون خراب کرے گا؟ دوسری پارٹی امن خراب کرے گی؛ لیکن یہ ذمہ داری بھی حسین پر ڈال دی گئی ہے۔ یہ ایسے ہے جیسے کہا جا رہا ہو ‘براہ کرم ایسا کچھ نہ کریں جس سے دوسرا شخص کچھ غلط کرے’۔ تشدد کا الزام اصل مجرموں کو چھوڑ کر، ان پر ڈال دیا گیا ہے جو ان لوگوں کو تشدد کرنے پر بظاہر اُکساتے ہیں،” عالم نے آرٹیکل 14 سے بات کرتے ہوئے کہا۔

رمضان 2023 کے دوران، پڑوسیوں کی طرف سے ترایح کی نماز کے اجتماعات پر اعتراضات میں اضافہ ہوا؛ یہاں تک کہ مشترکہ ملکیت والے اپارٹمنٹ میں بھی، جو گریٹر نوئیڈا اور نوئیڈا، جو اتر پردیش کا حصہ ہیں اور قومی راجدھانی کے علاقے میں ہیں۔ آرٹیکل 14 کی رپورٹ کے مطابق، 24/ مارچ 2023 کو نوئیڈا کے سیکٹر 137 میں واقع سپرٹیک ایکوسٹی میں، رہائشی سوسائٹی کے آٹھ یا دس افراد نے زور زبردستی کر کے، ترایح کی نماز کو روکا، جو کہ سوسائٹی کی پہلی منزل کے ایک چھوٹے سے پارٹی ہال میں پڑھی جا رہی تھی۔

پولیس نے بعد میں کہا کہ ترایح نماز قانون کی خلاف ورزی تھی؛ کیوں کہ ضلع میں، فوجداری کی دفعہ 144 جو کہ چار یا اس سے زیادہ افراد کے اجتماع پر پابندی عائد کرتی ہے، نافذ تھی۔ وکیل عالم نے وضاحت کی کہ یہ بات غیر منطقی ہے۔ “جب دفعہ 144 نافذ ہو، تو میری رائے میں، یہ عوامی مقامات جیسے: ریسٹورینٹ، مال یا سوسائٹی پر لاگو نہیں ہوتی۔ ان افراد نے سوسائٹی سے ترایح پڑھنے کی اجازت لی تھی۔ آپ کسی کو مجاز عوامی مقامات پر اجتماع کرنے سے نہیں روک سکتے۔ کیا آپ لوگوں سے یہ بھی کہیں گے کہ وہ ریسٹورینٹ میں پانچ سے زیادہ افراد کے گروپ میں کھانا نہ کھائیں؟”

چند دن بعد، گریٹر نوئیڈا کے سپرٹیک ایکو ولیج-2 میں، سوسائٹی کے رہائشیوں نے ایک بار پھر دوسرے سوسائٹی کے کچھ مسلمان جو سوسائٹی کی تیسری منزل پر، تجارتی مارکیٹ کے اوپر، ایک خالی کمرے میں نماز پڑھ کے لیے آئے تھے، ان پر اعتراض کیا۔ اس کے بعد ان مسلمانوں نے (وہاں)نماز پڑھنا چھوڑ دیا۔

دہلی یونیورسٹی کے ہندی کے پروفیسر اپوروانند شدت جذبات سے یاد کرتے ہیں کہ منشی پریم چند، جو کہ بر صغیر ہندو پاک کے، بیسویں صدی کے مشہور ترین قلم کاروں میں سے ایک تھے، مسلمانوں کی اجتماعی نماز سے بہت متاثر تھے۔ اپنی کلاسیکل کہانی “عیدگاہ” میں مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ نماز کی پُراثر منظرکشی کرتے ہوئے، منشی پریم چند لکھتے ہیں: “یہاں کوئی رُتبہ اور عہدہ نہیں دیکھتا۔ اسلام کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ [دہقانوں نے بھی وضو کیا اور جماعت میں شامل ہو گئے۔ یہ جملہ مضمون میں شامل نہیں ہے۔] کتنی باقاعدہ منظم جماعت ہے، لاکھوں آدمی ایک ساتھ جھکتے ہیں، ایک ساتھ دو زانو بیٹھ جاتے ہیں اور یہ عمل بار بار ہوتا ہے ایسا معلوم ہو رہا ہے گویا بجلی کی لاکھوں بتیاں ایک ساتھ روشن ہو جائیں اور ایک ساتھ بجھ جائیں۔ کتنا پُر احترام رعب انگیز نظارہ ہے۔ جس کی ہم آہنگی اور وسعت اور تعداد دلوں پر ایک وجدانی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ گویا اخوت کا رشتہ ان تمام روحوں کو منسلک کئے ہوئے ہے۔”

ہمارے مسلمان بھائی اور بہنوں کی نمازوں نے منشی پریم چند کے دل کو عقیدت، فخر اور خوشی سے بھر دیا تھا۔ آج ہمارے دل اتنے تنگ کیوں ہو گئے ہیں کہ یہی نمازیں بہت سے ہندو دلوں میں ناراضگی، شکوہ اور بعض اوقات تشدد کو جنم دیتی ہیں؟

آج جب کنڈومینیمز میں چند غیر مطمئن افراد مسلمانوں کی اجتماعی نماز پر اعتراض کرتے ہیں اور اسے رکوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں؛ تو اسی رہائشی کمپلیکس کے ہزاروں دیگر مکین خاموش کیوں رہتے ہیں؟

ہندوستان کے کسی بھی اسپتال میں، یہ عام منظر ہوتا ہے کہ پریشان حال رشتہ داروں اور پیاروں کی صحت یابی کے لیے دل سے دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں۔ کئی اسپتالوں میں تو چھوٹے سے ہندو مندر بھی بنے ہوتے ہیں۔ پھر ایک اسپتال کا منیجر صرف کسی خاتون کو جو بظاہر مسلمان ہےنماز پڑھنے سے کیسے روک سکتا ہے؟

میرے بچپن کے ہندوستان میں، اگر کوئی شخص بھری ہوئی ٹرین میں نماز پڑھنا چاہتا؛تو دوسرے مسافر احترام سے اُس کے لیے جگہ بنا دیتے اور خاموشی اختیار کرتے؛ تاکہ اُس کی عبادت میں خلل نہ پڑے۔ آج، اگر کوئی مسلمان ٹرین میں نماز پڑھنے کا ارادہ کرے؛ تو اُسے ایک طرح کی “ہمت” کی ضرورت ہوتی ہے، اور اگر آپ ایسا کرتے ہیں؛ تو آپ خطرے میں پڑ سکتے ہیں کہ کچھ نوجوان شور شرابے کے ساتھ ہنومان چالیسہ پڑھ کر، آپ کو اشتعال دلانے کی کوشش کریں گے۔

اگر آپ مسلمان ہیں؛ تو نماز پڑھنے کا عمل مسلسل اس خطرے میں ہے کہ اُسے کسی جرم کے طور پر دیکھا جائے۔ یہ پوچھنے کے لیے بہت کم آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ کون سے قانونی یا انسانی اصول کے تحت عبادت کرنے والوں پر یہ الزام لگایا جا سکتا ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں؟

آج ایسا کیوں ہے کہ مسلمانوں کا سادہ سا نماز کا عمل، بہت سے لوگوں کو ناراضگی اور تشدد پر اُکسا دیتی ہے، اور پولیس کو اُنھیں مجرم ٹھہرانے کے لیے متحرک کر دیتی ہے؟ آج میں بمشکل ہندوستان کو پہچان پاتا ہوں۔ یہ ملک جس میں میری پرورش ہوئی تھی، اُس سے یکسر مختلف ہو چکا ہے۔

میں تحقیقی معاونت کے لیے سید روبیل حیدر زیدی شکرکا گزار ہوں۔

(مضمون نگار جناب ہرش مندر صاحب ہیں، جو انصاف اور امن کے لیے کام کرنے والے کارکن اور مصنف ہیں۔ “کارواںِ محبت” کے قائد ہیں۔ یہ ادارہ نفرت پر مبنی تشدد کے خلاف، محبت اور یکجہتی سے لڑنے والی ایک عوامی مہم ہے۔ آپ ایف اے یو یونیورسٹی، ایرلنگن-نورنبرگ، ہائیڈلبرگ یونیورسٹی، جرمنی، پبلک ریسرچ ویریئی یونیورسٹی، ایمسٹرڈیم، نیدرلینڈز اور مشہور مینیجمنٹ ادارہ: آئی آئی ایم، احمد آباد، ہندوستان میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔)

متعلقہ خبریں

تازہ ترین