Friday, May 23, 2025
homeادب و ثقافتکنڑ زبان کی ادیبہ بانو مشتاق کو ادب کا بوکر انعام مل...

کنڑ زبان کی ادیبہ بانو مشتاق کو ادب کا بوکر انعام مل گیا

محمد عامر حسینی
مشتاق بانو کنڑ زبان میں کہانیاں لکھتی ہیں ۔ ان کی 12 کہانیوں کا انگریزی ترجمہ دیبا بھاستھی نے کیا جو Lamp Hesrt چراغ دل کے نام سے پنگوئن رینڈم پبلشنگ ہاؤس انڈیا سے شایع ہوا – کہانیوں کے اس مجموعے کو بکر ایوارڈ 2025 ملا ہے۔

مشتاق بانو عالمی ادب کے منظر نامے پر اس وقت نمایاں ہوئیں جب ان کی ایک کہانی کا انگریزی ترجمہ پیرس ریویوز میں Red Lungi / سرخ لنگی کے نام سے شایع ہوا ۔
کنڑ زبان میں 1990 سے 2023 کے درمیان شائع ہونے والی یہ تحریریں — جو اپنی خشک اور نرم مزاح نگاری کے لیے سراہی گئی ہیں — خاندان اور معاشرتی کشمکش کی ایسی تصویریں پیش کرتی ہیں جو مصنفہ بانو مشتاق کی بطور صحافی اور وکیل برسوں کی جدوجہد کا ثبوت ہیں۔ ان تحریروں میں وہ نہ تھکنے والی خواتین کے حقوق کی علمبردار کے طور پر ابھرتی ہیں، جو ذات پات اور مذہبی جبر کی ہر شکل کے خلاف سراپا احتجاج بنی رہیں۔

ان کی نثر ایک ساتھ پرکاشندہ، جاذب، عام فہم، پراثر اور طنز سے بھرپور ہے۔ مگر وہ جگہ جہاں مشتاق بطور ایک غیرمعمولی فنکار اور انسانی فطرت کی گہری ناظرہ سامنے آتی ہیں، وہ ان کے کردار ہیں:
• چمکتے دمکتے بچے،
• بے باک دادیائیں،
• مسخرہ مولوی اور غنڈہ بھائی،
• اکثر بےبس شوہر،
• اور سب سے بڑھ کر مائیں —
جو اپنی گہری جذباتی کیفیتوں کو بڑی قیمت پر جھیلتی ہیں۔
ان کی بول چال کی امیر زبان میں لپٹے یہ کردار ہمیں ایسی جذباتی بلندیوں تک لے جاتے ہیں جو چونکاتی بھی ہیں، اور ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔

روزنامہ انقلاب ممبئی نے ان کے حوالے سے گزشتہ روز جو مضمون شایع کیا، اس میں ان کے بارے میں لکھا:
[خود کو مکمل طور پر افسانہ نگاری اور تصنیفی سرگرمیوں کے حوالے کرنے سے پہلے انہوں نے ایک اخبار میں رپورٹر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں ۔ وہ آل انڈیا ریڈیو بنگلور سے بھی وابستہ رہیں اور وکالت کا پیشہ بھی اختیار کیا۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے سماجی سطح پر ایک سرگرم زندگی گزاری ہے۔ عورتوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والی بانو مشتاق نے اگر مساجد میں عورتوں کو نماز ادا کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا تو مسلم طالبات کو حجاب کے ساتھ اسکول جانے کی حمایت بھی کی۔ بانو مشتاق کو سماجی سطح پر بائیکاٹ کا سامنا بھی کرنا پڑا]
[بانو مشتاق نے یو گیندر سکند سے ایک مکالمہ (new age Islam.com) میں کہا ہے کہ انہیں ان کے والد بیٹی نہیں بلکہ بیٹا کہا کرتے تھے۔ جس وقت اُن کی والدہ کی شادی ہوئی ہے،ان کی عمر محض ۱۲؍ سال تھی۔۱۴؍سال کی عمر میں انہوں نے بانو مشتاق کو جنم دیا۔ شادی کے وقت والدہ اور والد کی عمر کیا تھی، اس کا ذکر کرنا ان کی ایک ایسی فکرمندی کا اظہار ہے جس کا تعلق معاشرے سے بہت گہرا ہے۔ ابتدا ہی سے بانو مشتاق کو زندگی کے مختلف معاملات کے سلسلے میں والد کی حمایت حاصل رہی۔

والد کے حوصلہ افزا رویے نے بانو مشتاق کو زندگی اور سماج کے تعلق سے ترقی پسندانہ رویہ اختیار کرنے کا حوصلہ عطا کیا۔ اُن کے والد سینئر ہیلتھ انسپکٹرتھے، مختلف شہر وں میں ان کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ انٹرویو میں بانو مشتاق نے اپنے والد کے تعلق سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ بہت کشادہ ذہن اور مشترکہ تہذیب کے حامی تھے۔ بانو مشتاق کے بقول ان کے خاندان میں تصوف کی روایت بھی رہی ہے۔انہوں نے انٹرویو میں یہ اطلاع بھی فراہم کی ہے کہ ان کے دادا ایک گاؤں کے قاضی تھے اور اُردو اسکول میں پڑھاتے تھے۔ بانو مشتاق چھ بہنوں اور دو بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں ۔

مشتاق بانو کی زندگی اور ادبی زندگی کے درمیان بہت گہرا رشتہ ہے۔ کمال فن یہ ہے کہ اپنی زندگی کو فن کے سانچے میں کچھ اس طرح ڈھالا جائے کی یہ دوسروں کیلئے بھی اہم اور بامعنی ہو۔ عورتوں نے عورتوں کے مسائل کو اگر شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے تو اسے کسی اصطلاح کے بغیر بھی دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے خاص طور پر وہ اصطلاح جسے ہم تانیثی نقطہ نظر یا تانیثیت کا نام دیتے ہیں ۔ فرانسیسی مصنفہ اینی انراکس کو جب نوبیل پرائز دینے کا اعلان کیا گیا تو اس میں عورتوں کے مسائل کا خاصا ذکر تھا۔شادی کے بعد کی زندگی جن آزمائشوں سے گزرتی ہے اس کے بارے میں کوئی نئی بات کہنا بہت مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زندگی کے بارے میں ہر خاص و عام کچھ نہ کچھ جانتا اور محسوس کرتا ہے۔بانو مشتاق نے کس کی زندگی کے سیاق میں کہانی پیش کی ہے اگر اس بارے میں کچھ نہ بتایا جائے تو بھی یہ کہانی ایک حساس،مظلوم اور ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹنے والی عورت کی کہانی معلوم ہوتی ہے۔

بانو مشتاق نے انٹرویو میں اپنی سسرال کا حال بھی بیان کیا ہے۔اُن کے سسرالی عزیز بہت کشادہ ذہن نہیں تھے مگر شوہر نے بڑی فراخدلی کا مظاہرہ کیا اور سوچتا ہوا ذہن رکھنے والی بانو مشتاق کو ایک قلم کار کی زندگی گزارنے اور اس طرح سماجی منفعت کا ذریعہ بننے کی اجازت دی۔ مگر گھر کے لوگ اس بات کے لیے راضی نہیں تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ سماجی سطح پر کوئی ایسی زندگی گزاری جائے جسے احتجاج اور ترقی پسندانہ رویے کا نام دیا جاتا ہے۔ آخر کار بانو مشتاق کو گھر سے نکلنا پڑا۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہاسن نام کے ایک قصبے میں منتقل ہو گئیں ۔ یہ وقت دونوں کے لیے بہت مشکل تھا۔ اُن کے شوہر نے گھڑی سازی کا کام بھی کیا جبکہ وہ خود گھر میں سلائی کا کام کرتی تھیں ۔ جب کچھ پیسے جمع ہو گئے تو گھڑی کی دکان کھول لی۔]

[ بانو مشتاق کی تخلیقات اردو، ہندی،تمل اور ملیالم میں بھی شائع ہو چکی ہیں ۔یہ تمام تفصیلات بتاتی ہیں کہ بانومشتاق کی کہانیوں کے مسائل کیا ہیں ۔شادی شدہ عورت کی زندگی روایتی طور پر وفاداری اور گھریلو زندگی سے وابستہ سمجھی جاتی ہے۔ ان کی کہانیوں کے اہم موضوعات کا رشتہ عورت کی ازدواجی زندگی سے ہے۔ ازدواجی زندگی کے مسائل کو عورت ہی کی ذات سے وابستہ کر کے دیکھا جاتا ہے۔ مرد اِن مسائل کے ساتھ کہیں دور کھڑا دکھائی دیتا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ جنہیں ہم ازدواجی زندگی کے مسائل کہتے ہیں ان کا براہ راست رشتہ مردوں سے ہے۔ بانو مشتاق نے پہلی اولاد کی ولادت کے بعد ان مسائل پر نئے سرے سے غور کرنا شروع کیا۔

یوں دیکھیں تو یہ کوئی اہم واقعہ نہیں مگر ایک خاتون کے قلم سے وجود میں آنے والی یہ کہانیاں دل کا چراغ بن گئی ہیں ۔ یہ مدھم اور تیز روشنی کب سے سینے میں روشن ہے۔ یہی وہ روشنی ہے جو سینے کے داغ کو دکھاتی بھی ہے اور روشن بھی کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ زمانہ ناول کا ہے اور ناول ہی اس وقت کے آشوب کو پیش کر سکتا ہے۔ کہانیاں بہت دور جا پڑی ہیں ۔ لیکن بانو مشتاق کی کہانیوں کے مجموعے کا شارٹ لسٹ کیا جانا اس بات کی علامت ہے کہ کہانیاں ابھی اتنی دور نہیں گئی ہیں جتنا کہ بتایا جا رہا ہے۔]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہانیوں سے اقتباسات
“مذہب کوئی بھی ہو، روایت کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی عورت کو شوہر کی سب سے وفادار خدمت گزار، اس کے حکم کی خاموش پیروکار، اور زندگی بھر کی اجرت کے بغیر کام کرنے والی مزدور سمجھا جاتا ہے۔”
شائستہ محل کے لیے پتھریلی سلیں
مصنفہ مشتاق بانو
انگریزی ترجمہ : دیبا بھا ستھی
اردو ترجمہ : محمد عامر حسینی
‘ہمم… نہیں۔ لیکن یہ سب بہت فلمی باتیں ہیں، بھائی۔ اگر تمہاری ماں مر جائے، تو اس کے ساتھ ماں کی محبت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ وہ محبت تمہیں پھر کسی اور سے نہیں ملے گی۔ ہاں، لیکن اگر بیوی مر جائے، تو بات الگ ہے، کیونکہ دوسری بیوی مل سکتی ہے۔’
مجاہد کی یہ بات سن کر میں حیرت زدہ رہ گئی۔
شائستہ کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔ وہ جھٹ سے اٹھ کھڑی ہوئیں اور بولیں:
‘ہاں، میری نانی کہتی تھیں کہ اگر بیوی مر جائے، تو شوہر کے لیے وہ صرف کہنی پر چوٹ جیسا ہوتا ہے۔ جانتی ہو زینت، اگر کہنی پر چوٹ لگے، تو ایک لمحے کو درد ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ لیکن چند سیکنڈ کے بعد نہ زخم رہتا ہے، نہ خون، نہ نشان، نہ درد۔۔۔’

مجھے اس بات چیت کا رخ بالکل پسند نہ آیا۔ لیکن اچانک افتخار غصے سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے شائستہ کے ہاتھ تھام لیے اور بولے:
‘شائستہ، یہ کیا کہہ رہی ہو؟ میرے جسم کے ہر خلیے میں جو زندگی ہے، وہ تمہارے نام کی طاقت سے ہے۔ میرے دل کی ہر دھڑکن تمہاری توانائی سے ہے۔ تم — جو ابھی کہا — کیا وہ تمہارے دل سے نکلا؟ کیا واقعی تم ایسا ہی سوچتی ہو؟’

مجھے اپنی ہنسی روکنے میں بڑی مشکل ہوئی۔ مجھے یاد آیا کہ شائستہ نے بتایا تھا افتخار ان سے دس سال بڑے ہیں۔ ایک پچاس سال کے قریب کا مرد، یوں محبت کی جاودانی کا اعلان کرتے ہوئے، اور سامنے شائستہ، رانیوں کی طرح بیٹھی، جیسے ہر غلطی معاف کر دینے کو تیار ہو — یہ منظر شاید دوبارہ دیکھنے کو نہ ملتا۔
مجاہد آخرکار مسکرا دیے۔ شائستہ شرما کر ہنس پڑیں۔
ہم جلد ہی وہاں سے چل پڑے۔
چونکہ شائستہ کے گھر ہم بہت کھا چکے تھے، مجاہد نے کہا کہ اسے رات کے کھانے کی ضرورت نہیں، صرف ایک گلاس دودھ کافی ہے۔ مجھے بھی کچھ بھوک نہیں تھی، اس لیے کھانا پکانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا۔ وہ کتاب لے کر بیٹھ گئے، اور میں بھی ایک “فیمنا” میگزین الٹ پلٹ رہی تھی، لیکن میرے خیالات شائستہ کے خاندان میں الجھے ہوئے تھے۔
‘مجھے معلوم ہے… تم بس یوں ہی میگزین دیکھ رہی ہو۔۔۔’
‘تو پھر بتاؤ، میں کیا سوچ رہی ہوں؟’
‘بتاؤں؟ تم شائستہ کے سب سے چھوٹے بچے کے بارے میں سوچ رہی ہو، جس کی آنکھیں کالی اور گال گلابی تھے۔’
‘شاید۔ لیکن اس سے زیادہ میں تمہاری اُس بات کے بارے میں سوچ رہی ہوں جو تم نے وہاں کہی تھی۔’
‘مجھے معلوم تھا۔ تم ضرور اس پر زیادہ سوچو گی۔ صاف بات کروں، زینت، تمہیں سمجھنا ہوگا: جس بادشاہ نے محبت کے مشہور زمانہ یادگار کو بنایا، وہ اپنی بیوی کے ساتھ نہیں مرا۔ اس کے حرم میں بے شمار عورتیں تھیں۔’
‘یہ بادشاہ کے بارے میں نہیں ہے۔’
‘اچھا ٹھیک ہے، شاہ جہاں کی بات چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن کیا اپنے دور کے بادشاہِ محبت افتخار کے بارے میں بات کروں؟ افتخار کو عورتوں کی صحبت کی عادت ہے۔ شائستہ کے لیے اس کے دل میں جگہ خاص ہے کیونکہ وہ سالوں سے ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں۔ لیکن شائستہ ہو یا نرگس یا مہرون۔۔۔’
‘بس کرو۔ خاموش رہو۔ تم دس جنم لے کر بھی مجھ سے اتنی محبت نہیں کر سکتے جتنی افتخار شائستہ سے کرتا ہے۔’
‘پہلی بات تو یہ کہ ہمارے ہاں دس جنم کا کوئی تصور نہیں ہے؛ میں ان باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ دوسری بات یہ کہ میں اسی لمحے تمہیں افتخار کی محبت سے سو گنا زیادہ محبت دکھانے کو تیار ہوں۔۔۔ چاہے تم کتنا بھی انکار کرو۔۔۔’
میں ابھی یہ سوچ بھی نہ پائی تھی کہ اس نے کتنی چالاکی سے بات کا رخ بدل دیا، کہ مجاہد نے مجھے زور سے گلے لگا لیا اور پاگلوں کی طرح پیار کرنے لگا — یہ انسان نہیں، جانور ہے!
اتوار کی صبح کے نو بجے تھے، اور مجاہد ابھی بھی بستر پر تھے جب افتخار اور شائستہ ہمارے گھر آ گئے۔ میں نے بتایا کہ مجاہد ابھی تک سو رہے ہیں، تو وہ بیٹھ کر مجھ سے باتیں کرنے لگے۔ میں ان کے لیے گرم گرم سموسے لائی، لیکن افتخار نے ایک بھی نہ کھایا۔ وہ اپنے حصے کے سب سموسے شائستہ کی پلیٹ میں ڈال دیے، صرف ایک کپ چائے پی، اور سبزی لینے بازار چلے گئے۔
شائستہ، جو مورنی رنگ کی ساڑھی اور تھوڑے سے زیورات میں ملبوس تھیں، خاص طور پر خوبصورت لگ رہی تھیں۔ میں نے ان کے ہاتھ میں ہماری شادی کا البم تھما دیا اور اندر چلی گئی۔ جب واپس آئی، وہ غور سے ایک تصویر دیکھ رہی تھیں۔ وہ میری گریجویشن کی تصویر تھی جس میں میں گاون پہنے کھڑی تھی۔ جب میں ان کے ساتھ بیٹھ گئی، تو انہوں نے کہا:
‘زینت، میری خواہش ہے کہ آصفہ بھی ایسا گاون پہن کر تصویر کھنچوائے۔ اس نے دسویں جماعت پہلی ہی بار میں پاس کر لی تھی۔ ہم نے اسے آگے پڑھنے نہیں دیا کیونکہ گھر اور بچوں کا کوئی اور خیال رکھنے والا نہیں تھا۔’
‘کوئی ملازمہ رکھ لیجیے، بھابھی۔’
‘ایک تھی، کہہ کر گئی کہ گاؤں جا رہی ہے، پھر واپس نہیں آئی۔ لگتا ہے کسی ایجنٹ نے اسے دمام بھیج دیا۔ اس کے بعد کوئی نہیں ملی۔’
‘چلو، اس سال نہ سہی، اگلے سال آصفہ کو کالج ضرور بھیج دیجیے گا۔’
‘کروں گی۔ محض اپنی سہولت کے لیے اس بےچاری بچی پر ظلم کیوں کریں؟ اوہ زینت، میں تو پوچھنا بھول گئی۔ بچوں سے بچنے کے لیے آپریشن کروانا خطرناک ہوتا ہے کیا؟’
‘اس میں کیا خطرہ ہے، بھابھی؟ میری ماں کے خاندان میں تین بھابھیاں اور دو بڑی بہنیں یہ آپریشن کرا چکی ہیں۔ سب ٹھیک ٹھاک ہیں۔’
‘اچھا؟ تو پھر میں بھی اس بار آپریشن کروا لوں گی۔ اگر تم ساتھ چلو گی تو میرا جو تھوڑا بہت ڈر ہے وہ بھی ختم ہو جائے گا۔’
اتنے میں مجاہد آنکھیں ملتے ہوئے باہر آئے اور ہنستے ہوئے بولے:
‘بھابھی، آج آپ کتنی خوبصورت لگ رہی ہیں! ذرا اس زینت کو بھی سکھا دیجیے، کیسے سجتی سنورتی ہیں آپ!’
‘چپ کرو، شرارتی آدمی! بھاگو یہاں سے، سست انسان!’ شائستہ نے ہنستے ہوئے اس کی پیٹھ پر ہلکی سی چپت لگائی۔
میں نے اصرار کیا کہ وہ دوپہر کا کھانا ہمارے ساتھ کھائیں۔ انہوں نے قبول کیا اور شام کو بیلگولا واپس گئے۔ اب میرے لیے کے آر ایس میں دن پہلے کی طرح تنہا نہیں رہے تھے۔ میں جب چاہتی، شائستہ کے گھر چلی جاتی۔ ان کے بچوں کے ساتھ کھیلتے وقت وقت کا پتا نہ چلتا۔ شائستہ بھی یہی چاہتی تھیں کہ ان کے بچوں کو اچھی تعلیم ملے، خاص طور پر آصفہ کو۔ وہ اسے گھریلو ذمہ داریوں سے نکال کر تعلیم دلوانا چاہتی تھیں۔ اس کے علاوہ انہیں کسی چیز کی خواہش نہ تھی۔ ان کا چہرہ تندرستی سے چمک رہا تھا۔
اس دن جس لیڈی ڈاکٹر نے شائستہ کا معائنہ کیا تھا، اس نے بتایا کہ ابھی پندرہ سے بیس دن باقی ہیں۔ اسی لیے میں نے سب کو اتوار کے دن اپنے گھر بلایا، اور خاص طور پر کہا کہ آصفہ کو بھی لائیں۔ وہ ایک خوشی بھرا دن تھا؛ بہت کام تھا اور فرصت کا کوئی لمحہ نہ تھا۔ حسبِ معمول، شائستہ اور مجاہد ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے؛ افتخار اپنی ابدی محبت کا یقین دلا رہے تھے؛ بچے شور مچا رہے تھے؛ آصفہ خاموش تھی، تنہا۔ ہم سب نے خوب دعوت اڑائی اور جب انہیں رخصت کیا، تو رات کے نو بج چکے تھے۔
اگرچہ میں نے صبح پانچ بجے الارم پر آنکھ کھولی، مگر دل چاہ رہا تھا کہ کمبل اور مضبوطی سے اوڑھ کر پھر سے سو جاؤں۔ تبھی دروازے کی گھنٹی بجی۔ اب اٹھنا مجبوری تھا۔ میں شال لپیٹے باہر آئی تو دیکھا، افتخار دروازے پر کھڑے ہیں۔

‘ارے، افتخار بھائی! آئیے، آئیے، آپ اس وقت صبح صبح کیسے آ گئے؟’
‘بھابھی، بیٹھنے کا وقت نہیں ہے۔ ہم جب یہاں سے گئے، تو رات تقریباً ایک بجے شائستہ کو دردِ زہ شروع ہو گیا۔ میں فوراً فیکٹری کی جیپ میں اُسے میسور لے گیا۔ وہ شلپا میٹرنٹی ہوم میں ہے۔ تین بجے اس نے بچے کو جنم دیا۔ بیٹا ہوا ہے۔’
مجھے لگا جیسے افتخار یہ کہتے ہوئے کچھ شرما گئے ہوں۔
مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اوہ! کتنے سال ہو گئے کہ میں نے کوئی نومولود بچہ نہیں دیکھا، نہ ہی اُس خوشی میں شریک ہوئی جو ایک نئے بچے کی آمد پر ہوتی ہے۔ میں وہیں افتخار کو چھوڑ کر بھاگی اور مجاہد — وہ سویا ہوا کمبھ کرن — کے پاس پہنچی۔ میں نے کمبل ایک طرف پھینکا اور اسے جھنجھوڑ کر جگانے لگی۔
‘اٹھو — جلدی اٹھو، پلیز — شائستہ کے ہاں بیٹا ہوا ہے، اور تم اب تک سو رہے ہو!’
مجاہد نے مجھے اپنی بانہوں میں لپیٹ لیا اور آہستہ سے بولا:
‘زینت، وعدہ کرتا ہوں، چاہے بیٹا ہو یا بیٹی، جب تم ماں بنو گی، میں ساری رات نہیں سوؤں گا۔ بس تمہارے بچے کو دیکھتا رہوں گا۔’
‘تُھو! کتنے بے شرم ہو تم۔ افتخار بھائی باہر کھڑے ہیں۔ اٹھو اور ان سے بات کرو۔’
جب میں چائے کا کپ لے کر آئی، تو افتخار چار پانچ سگریٹ پی چکے تھے۔ میں نے ان کے ہاتھ میں چائے دی اور پوچھا:
‘شائستہ بھابھی خیریت سے ہیں، ہے نا؟’
‘ہمم۔ بس ٹھیک ہی ہے۔ کچھ مسئلہ ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ خون چڑھانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ لیکن بعد میں ضرورت نہیں پڑی۔ شائستہ بہت کمزور ہو گئی ہے۔ میں اب چلتا ہوں،’ افتخار نے کپ رکھ دیا اور مجاہد کے باہر آنے سے پہلے ہی رخصت ہو گئے۔
مجاہد اور میں میسور کے لیے روانہ ہو گئے۔ راستے بھر وہ مجھے چھیڑتا رہا، کہ اگر بچہ ہمارا ہوتا تو وہ یہ کرتا، وہ کرتا، خود پالتا، وغیرہ۔
جب ہم نرسنگ ہوم پہنچے، تو افتخار کا پورا خاندان وہاں موجود تھا۔ آسیفہ نے بچوں کو باہر اکٹھا کر رکھا تھا کیونکہ وہ اندر شور مچا رہے تھے۔ اس نے ہمیں دیکھ کر مسکراہٹ سے استقبال کیا۔ جب میں نے پوچھا:
‘آج تم اتنی خوش کیوں لگ رہی ہو؟’
تو وہ بولی:
‘بچہ بہت پیارا ہے، بھابھی۔ جب آپ دیکھیں گی تو آپ بھی بہت خوش ہوں گی۔’
واقعی، بچہ بہت خوبصورت تھا — نرم، گلابی، بالکل گلاب کے پھول کی مانند۔ وہ آنکھیں بند کیے سو رہا تھا۔ شائستہ کے ہونٹوں کا رنگ اڑ چکا تھا، اور وہ کمزوری سے مسکرا رہی تھیں۔ میں ان کے پاس بیٹھ گئی اور بچے کو گود میں اٹھا لیا۔
‘شائستہ بھابھی، بچے کو نظر لگ جائے گی۔ تمہارے یہاں اتنے خوبصورت بچے کیسے ہو جاتے ہیں؟’ میں نے چھیڑا۔
وہ ہنستے ہوئے بولیں:
‘فکر نہ کرو۔ اگر تم مجاہد سے کہو، تو وہ تمہارے ہاتھ میں اس سے بھی زیادہ پیارا بچہ لا کر رکھ دے گا۔’
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرخ لنگی
گرمیوں کی چھٹیوں کا آنا، ماؤں کے لیے گویا ایک نہ ختم ہونے والی آزمائش کا آغاز ہوتا ہے۔ سارے بچے گھر میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ اگر ٹی وی کے سامنے نہ ہوں، تو کبھی آنگن کے امرود کے درخت پر چڑھے ہوتے ہیں یا کبھی compoundکی دیوار پر بیٹھے ہوتے ہیں۔ کوئی گر کر ہاتھ پیر توڑ بیٹھے تو؟ پھر رونا، ہنسنا، چیخنا، اور ان کی آپس کی خود ساختہ “انصاف” پر مبنی سزائیں… انہی چھٹیوں کے آغاز کے ساتھ ہی رضیہ کے سر درد بڑھنے لگتے۔ کنپٹیوں کی نسیں پھڑکنے لگتیں، دماغ تپ جاتا، گردن کی رگیں جیسے کسی بھی لمحے ٹوٹ جائیں گی۔ ایک کے بعد ایک بچہ روتے، چیختے، اپنی شکایتیں لے کر آتا۔۔۔ اور ان کے “کھیل”۔۔۔ ابببببببببببا۔۔۔ تلواروں اور مشین گنوں کی لڑائیاں، بم دھماکے۔۔۔!
رضیہ نے تنگ آ کر سوچا: بس بہت ہو گیا۔ وہ ہال میں پڑے دیوان پر لیٹ گئی، سر پر کپڑا کس کر باندھ لیا۔ شور برداشت سے باہر ہو چکا تھا۔ ٹی وی چل رہا تھا، لیکن آواز کم رکھی گئی تھی۔ بچوں کو سختی سے تنبیہ کی جا چکی تھی، اور ابھی وہ ذرا سستانے ہی لگی تھی کہ ایک آواز آئی:
“ڈوڈ امماااااا۔۔۔ وہ مجھے چٹکی کاٹ رہی ہے!”
رضیہ غصے سے اُچھلی اور دل ہی دل میں سب کو کوسنے لگی۔
اسی وقت اس کا شوہر، لطیف احمد کمرے میں داخل ہوا۔ رضیہ سوچ رہی تھی: “چھ بچے پہلے سے یہاں ہیں۔ ہر دیور کے دو دو۔۔۔ تین تین۔۔۔ سب چھٹیوں پر چلے آئے۔ اور میری دو چھوٹی بہنوں کے بچے بھی آ گئے۔۔۔ یا اللہ، میں کیا کروں؟”
لطیف احمد نے بیوی کا حال دیکھا تو چونک گیا۔ اسے معلوم تھا کہ رضیہ کو بچوں سے الرجی ہے۔ سر درد کی تو شروعات ہی بچوں سے ہوتی تھی، جو اس درد پر نمک مرچ چھڑک دیتے تھے۔ اس نے نظر بچا کر کمرے کا جائزہ لیا: ایک، دو، تین، چار۔۔۔ پورے اٹھارہ بچے، تین سے بارہ سال کے درمیان۔
رضیہ کچھ کہتی اس سے پہلے ہی لطیف احمد نے بچوں کو جھڑک دیا:
“اوئے! سب خاموشی سے بیٹھ جاؤ، جو شور مچائے گا اسے کچھ نہیں ملے گا!”
اسی وقت حسین باغ سے آموں کی ٹوکری لیے آ گیا۔ بچے چیختے ہوئے آموں پر جھپٹ پڑے۔ لطیف احمد سہم گیا، بیوی کو بے بسی سے دیکھا اور باتھ روم کی راہ لی۔
رضیہ کا سر پھٹنے کو تھا، اس نے ایک دو قریبی بچوں کو دبوچ کر پٹ پٹ پٹ پٹ پٹ۔۔۔ کر دیا۔
اس نے فیصلہ کر لیا: کچھ بچوں کو “بیڈ ریسٹ” پر بھیجنا ہی پڑے گا۔ حل نکلا — ختنہ۔
رضیہ کے حساب سے اٹھارہ بچوں میں سے آٹھ لڑکیاں تھیں — وہ بچ گئیں۔ باقی دس میں سے چار کی عمر جفت تھی — چار، چھ، آٹھ — وہ بھی بچ گئے۔ باقی بچے چھ لڑکے — جن پر ختنہ فرض ہو گیا۔
لطیف احمد نے بنا کسی سوال کے رضامندی دے دی۔
یہ خاندان ضلع مرکز کے متمول خاندانوں میں شمار ہوتا تھا۔ لطیف احمد کے چار چھوٹے بھائی سرکاری ملازمتوں میں تھے، مگر خاندان کے تمام رسومات بڑے بھائی کے گھر ہی انجام پاتے تھے۔ رضیہ، بطور میزبان، کوئی کسر نہیں چھوڑتی تھی۔ خوشی کی بات یہ تھی کہ ختنہ ہونے والے چھ لڑکوں میں سے دو اس کی بہنوں کے بیٹے بھی تھے۔
رضیہ نے نگرانی سنبھال لی۔ سرخ “الوان” کپڑا کئی میٹر خریدا گیا۔ بچے، خاص طور پر لڑکیاں، رضیہ (ڈوڈ امّما) کے ساتھ شوق سے کام میں لگ گئیں۔ کپڑا ناپ کر “لنگیاں” تیار کی گئیں۔ لڑکیوں نے ان پر رنگ و روغن کیا، چمکدار ستارے اور زری کا کام کیا۔ چھ بچوں کے لیے لونگی تیار ہونے کے بعد بھی کپڑا بچ گیا۔
رضیہ کو ایک خیال آیا:
“ارے، اماں کی کوک عارف، اور کھیت پر کام کرنے والے فرید کا بیٹا بھی ہے۔۔۔ کیوں نہ غریب بچوں کے لیے بھی ختنہ کروایا جائے؟”
وہ فوراً منصوبہ بندی میں لگ گئی۔
شہر میں پانچ مساجد تھیں: جامع مسجد، مسجدِ نور، وغیرہ۔ جمعہ کی نماز کے بعد، تمام مسجدوں کے سیکریٹری حضرات نے اعلان کیا:
“اللہ کی راہ میں نذر کے طور پر، لطیف احمد صاحب نے آئندہ جمعہ ظہر کے بعد، اجتماعی سنتِ ابراہیمی کا انتظام کیا ہے۔ والدین سے گزارش ہے کہ شرکت کے لیے پہلے رجسٹریشن کروائیں۔”
لفظ “ختنہ” کہہ دینا آسان تھا، مگر مائیک اور اسٹیج سے دیے گئے اعلان کو شائستگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ گویا حضرت ابراہیمؑ کی یاد میں ایک رسمی تقریب بن گئی۔ انجام بہرحال وہی ہونا تھا — بچے خوشی میں شریک ہوئے، اور بعد میں چیخنے لگے۔

سب کچھ منصوبے کے مطابق ہوا۔ کئی غریب خاندانوں نے اپنے بچوں کا اندراج کروا دیا۔ رضیہ ایک کے بعد ایک لنگی تیار کرتی گئی۔ خاندان کے بچوں کو زری، ستاروں اور نگینوں سے سجی ہوئی لنگیاں ملیں، جبکہ باقی بچوں کو سادہ کپڑے کی۔ رضیہ کے بیٹے سمّاد کی لونگی پر تو اتنے چمکدار ستارے چسپاں تھے کہ کپڑے کا اصل رنگ تک چھپ گیا تھا۔
گندم اور ناریل کے بورے، بادام، کشمش، کھجوریں اور گائے کے دودھ کا خالص گھی خریدا گیا۔ بچوں میں ایک عجیب سی بےچینی تھی، لیکن ماحول میں تہوار جیسی خوشی تھی۔ ہر طرف گہما گہمی تھی۔
جمعہ کا دن آ ہی گیا۔

ظہر کی نماز کے بعد، لطیف احمد جلدی سے دوپہر کا کھانا کھا کر مسجد کے پاس والے احاطے میں پہنچے۔ وہاں پہلے ہی بھیڑ جمع ہو چکی تھی۔ جن بچوں کا ختنہ ہونا تھا اور ان کے والدین ایک قطار میں کھڑے تھے۔ نوجوان رضاکاروں کی فوج سفید شلوار قمیض اور سفید ٹوپی یا پگڑی میں موجود تھی — سب نے نماز سے قبل غسل کیا تھا، آنکھوں میں سرمہ، اور جسم پر خوشبو چھڑکی گئی تھی۔ فضا خوشبودار ہو چکی تھی۔

ختنہ مدرسے کے اندر ہونا تھا۔ اور دن کی سب سے خاص شخصیت تھا:
ابراہیم — پہلوان جیسے جسم والا، سفید ململ کی چمکتی ہوئی قمیض میں اس کے بازوؤں کی مچھلیاں تن کر باہر آ رہی تھیں۔
ختنہ اس کے خاندان کا پرانا پیشہ تھا۔ باقی وقت میں وہ حجامت کرتا تھا۔ وہ مدرسے کے بڑے ہال کے ایک گوشے میں اپنی تیاریوں میں مصروف تھا۔
سب سے پہلے اس نے ایک پیتل کی بڑی پُرانی “بِندیگے” (برتن) الٹا رکھا — جو اس تقریب کے لیے مخصوص طور پر مانگا گیا تھا۔
بچوں کی قطار تھی۔ ہر ایک کے چہرے پر خوشی اور ڈر کا مرکب تھا۔ والدین، خاص طور پر مائیں، بچوں کو تسلی دے رہی تھیں۔ کئی کے ہاتھوں میں خوشبوئیں، قرآن، اور دعائیں تھیں۔
ابراہیم اپنی جگہ پر بیٹھا، ہاتھ میں پرانا لیکن چمکدار اوزار، سامنے جھکے ہوئے بچے، اور ہر ایک چیخ کے ساتھ ہوا میں ہلکی سی لرزش…
بچوں کی آنکھوں سے آنسو، مگر ساتھ میں ایک قہقہہ کسی بزرگ کا، جو کہتا ہے:
“مرد بنو، یہ تو مردانگی کی رسم ہے!”
رضیہ پردے سے یہ سب دیکھ رہی تھی۔ دل میں سکون تھا —
“چلو، کچھ تو سکون ملے گا اس موسم گرما میں۔”

متعلقہ خبریں

تازہ ترین