انصاف نیوز آن لائن ۔۔
دی آبزروپوسٹ کے شکریہ کے ساتھ
احمدآباد میونسپل کارپوریشن (اے ایم سی) کی طرف سےانہدامی کارروائی مہم میںچندولا تالاب کے قریب 7000سے زائد گھروں کو مسمار کر دیا گیا۔اس سے ہزاروں خاندان بے گھر ہو گئے اور ان کی زندگیاں اور روزگار تباہ ہو گئے۔ یہ انہدامی کارروائی 2.5لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ کے علاقے پر محیط تھی،یہ انہدامی کارروائی منگل کو گجرات ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد شروع ہوئی جس میں سرکاری زمین پر غیر قانونی ڈھانچوں کو ہٹانے کے ریاستی احکامات کی توثیق کی گئی۔
ہائی کورٹ کا فیصلہ اس اصرار کے بعد آیا کہ جس واٹر باڈی کے قریب یہ ماکانات واقع ہیںوہ سرکاری ملکیت ہے، اور اس کے اطراف بنے تمام مکانات غیر قانونی تجاوزات ہیں۔
انہدامی کارروائی 28 اپریل کو شروع ہوئی، جس میں سیاسات نگر اور بنگالی واس کے علاقوں میں 4,000سے زائد جھونپڑیوں کو مسمار کیا گیا، جہاں زیادہ تر مسلم خاندان رہتے تھے جو مزدور، کوڑا چننے والے، اور بنگال اور راجستھان سے آنے والے تارکین وطن تھے۔
اس علاقے میںایک مدت سےرہنے والے رہائشی رفیع نے بتایا کہ میں یہاں اپنی پوری زندگی رہا ہوں۔ میرے والدین نے اس کمیونٹی کو بنانے میں مدد کی۔ اچانک، انہوں نے بغیر مناسب نوٹس کے سب کچھ توڑ دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ‘بنگلہ دیشیوں اور غیر قانونی آباد کاروں کو ہٹا رہے ہیں۔ لیکن ہم باقی لوگوں کا کیا؟ ہمیں لگا کہ ہمیں متبادل رہائش ملے گی کیونکہ ہمیں ایسا بتایا گیا تھا۔
رفیع نے بتایا کہ اے ایم سی انتظامیہ نے رہائشیوں کو بتایا تھا کہ انہیں دوبارہ بسایا جائے گا، لیکن بعد میں نئے گھروں کے لئے 30,0000 اور 35,0000 روپے کے بھاری ڈپازٹ مانگے گئے۔ “ایک غریب آدمی اتنی رقم کیسے ادا کر سکتا ہے؟ ہم ہاتھ سے منہ تک کی زندگی گزارتے ہیں،” انہوں نے اپنے پانچ افراد پر مشتمل خاندان—خود، ان کی بیوی، والدین، اور بچوں—کا ذکر کرتے ہوئے کہا۔
1000سے زائد خاندان، جن میں بہت سے مسلم شامل ہیں، بے گھر ہو گئے ہیں، اور کرایہ کی قیمتیں ان کی استطاعت سے باہر ہوگئی ہیں۔ رفیع نے کہاکہ یہاں تقریباً 500 سے۱1000گھر تھے۔ ہم یہاں 40 سال سے رہ رہے تھے۔ میری ماں شادی کے بعد یہاں آئی تھیں، اور سرکار نے کبھی ہم سے کاغذات نہیں مانگے۔ انہیں ہمارے گھروں کو قانونی حیثیت دینی چاہیے تھی، نہ کہ بغیر وارننگ کے بلڈوزر چلانا چاہیے تھا۔”
اس انہدامی کارروائی کے فیصلے پر رواں سال کے شروع میں پہلگام حملے کے بعد کی صورتحال نے اثر ڈالا۔ حکام نے الزام لگایا کہ بستی میں بہت سے لوگ “بنگلہ دیشی درانداز” تھے، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن ہوا اور شہریت کی تصدیق کے لیے 6,500سے زائد لوگوں کو حراست میں لیا گیا۔ اس کے باوجود، حراست میں لیے گئے بہت سے لوگ—جن میں خواتین اور بچے شامل تھے—بعد میں ہندوستانی شہری پائے گئے اور رہا کر دیے گئے۔
ایک رہائشی نے اپنی مایوسی کا اظہار کیا، “ہم بچپن سے یہاں رہ رہے ہیں۔ ہمارے بچوں نے یہاں تعلیم حاصل کی ہے۔ یہ پہلے جنگل تھا، اب شہر ہے۔ لیکن اچانک وہ ہمیں بنگلہ دیشی کہتے ہیں اور ہمیں ہٹانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے صرف چار دن کا نوٹس دیا۔ ہم چار دن میں کیا کر سکتے ہیں؟ کوئی ہمیں گھر ڈھونڈنے میں مدد نہیں کر رہا، نہ ہی پانی دے رہا ہے۔”
ایک خاتون نے آنسو روکتے ہوئے کہا کہ کمیونٹی کی خواتین نے چار مساجد کی تباہی اور ملبے میں دفن ہونے والے قرآن پاک اور کفن کے کپڑوں کا ذکر کیا۔ “انہوں نے کہا تھا کہ وہ مساجد نہیں توڑیں گے، لیکن صبح وہ آئے اور تین مساجد کو توڑ دیا۔ نہ پانی، نہ کھانا، نہ عبادت کی جگہ ہے۔
بزرگ رہائشیوں نے سرکار کے دعووں پر سخت اعتراضات اٹھائے۔ “ہم بنگلہ دیش سے نہیں ہیں۔ ہم مقامی ہیں، دہائیوں سے یہاں رہ رہے ہیں،ایک بزرگ شخص نے کہاکہ اگر ہم واقعی غیر قانونی تارکین وطن ہوتے، تو پولیس ہمیں پہلے کیوں نہ پکڑتی؟ وہ غریبوں کو نکال کر جگہ خالی کر رہے ہیں۔ وہ پارکس اور اسٹیڈیم بنانا چاہتے ہیں، لیکن ہمارا کیا؟ کیا غریب اس ملک کا حصہ نہیں ہیں؟انہوں نے مزید کہاکہ ہم نے محنت کی ہے۔رکشہ کھینچا، مزدوری کی۔ ہمارے گھر یہاں 45 سال سے زیادہ عرصے سے ہیں۔ میرے بچے یہاں پیدا ہوئے۔ ہمیں خدا پر بھروسہ ہے کہ کوئی دوبارہ ہماری مدد کرے گا۔ لیکن اب وہ نئے گھروں کے لیے بھاری ڈپازٹ مانگ رہے ہیں، جو ہم برداشت نہیں کر سکتے۔”
ایک اور شخص نے اپنی کمیونٹی کے ہندوؤں کے ساتھ دہائیوں سے پرامن بقائے باہمی کو یاد کیا۔ “ہمارا گھر اس لیے توڑ دیا گیا کیونکہ انہوں نے کہا کہ یہ بنگلہ دیشی گھر ہے۔ ہم یہاں 60 سال سے رہ رہے ہیں۔ سڑک کے پار ایک مندر ہے جہاں بجلی اور پانی ہے، لیکن ہمارے گھروں کو تالا لگا کر توڑ دیا گیا۔ ہم ہندوؤں کے ساتھ بھائیوں کی طرح رہتے ہیں۔ کوئی ہماری بات نہیں سنتا۔ کوئی ہماری حمایت نہیں کرتا۔”
انہوں نے اپیل کی، “اگر سرکار منصفانہ ہوتی، تو وہ ہمیں اس طرح باہر نہ پھینکتی۔ ہم نے کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا۔ جو لوگ مزاحمت کرتے ہیں یا ہماری مدد کے لیے آتے ہیں، انہیں مارا جاتا ہے۔ ہمارے پاس کچھ نہیں بچا، نہ پانی، نہ بجلی، نہ گھر۔انہدامی کارروائی مہم نے بہت سے خاندانوں کو بڑھتے ہوئے کرایوں اور واضح امداد کے بغیر پناہ کے لیے جدوجہد کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں اور مقامی رہنماؤں نے فوری سرکاری مداخلت کا مطالبہ کیا ہے تاکہ سستی رہائش فراہم کی جائے اور مزید بے دخلیوں کو روکا جائے۔
گجرات میں قائم اقلیتی فلاح و بہبود کمیٹی نے اس عمل کو ‘غیر انسانی قرار دیتے ہوئے بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔