نئی دہلی(انصاف نیوز آن لاین)
امن ِانسانی زندگی کی ایسی بنیادی قدر ہے جس کے بغیر انسانیت اور کسی مہذب معاشرے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے کہا کہ جو لوگ علم و ادب سے تعلق رکھتے ہیں اور انسانی سماج کو صحت مند دیکھنے کے خواہشمند ہیں ان کا فرضِ اولیں ہے کہ امن کے قیام میں ہر طرح معاون ثابت ہوں۔ان خیا لات کا اظہار اردو اکادمی کےسابق وائس چیئرمین نے کیا۔ وہ یہاں غالب اکیڈیمی میں ’ایک شام عالمی امن‘ کے عنوان سے منعقد مشاعرے کی صدارت کر رہے تھے ۔انھوں نے کہا کہ یہ مشاعرہ قیام امن کی ایک بہترین کوشش ہے ۔اس مشاعرے کا اہتمام ڈریمس انڈیا ریسرچ فاؤنڈیشن اور ’عبارت پبلی کیشن‘ نے اردو اکادمی کے تعاون سےکیا تھا، جس کا افتتاح معروف سیاسی رہنما اورعوامی خدمت گارہدایت اللہ جینٹل نے کیا۔ہدایت اللہ جینٹ نے افتتاحی تقریر میں امن عالم کے قیام کے لئے انسانی حقوق کی پاسداری کو اولین شرط قرار دیا۔انھوں نے کہا کہ دنیا کی جو بڑی طاقتیں انسانی حقوق کے علمبردار ہیں وہی اس کی خلاف ورزی میں ملوث ہیں۔ ریٹائرڈ اسسٹنٹ کمشنر ، کمرسشیل ٹیکس رئیس اعظم خان رئیسؔ مظفرنگری تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے۔ نامور صحافی اسد رضا اور انجمن ترقی اردو ہند کے سیکشن آفیسر محمد ساجد مہمانِ ذی وقار اور قومی خواتین کمیشن میں ریسرچ اسٹنٹ آفیسر آبگینہ عارف اور سینئر صحافی و اینکر آسیہ خان مہمانِ ذی وقار کے طور پر موجود تھیں۔مشاعرے کی نظامت معروف شاعر و صحافی معین شاداب نے اپنے مخصوص انداز میں کی ۔ انھوں نے ابتدائی گفتگو میں موجودہ عالمی حالات میں قیام امن کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا جنگوں میں سب سےپہلاخون سچ کا ہوتا ہے قلم کاروں کو سچ کو بچانے کی ضرورت ہے۔ڈریمس انڈیا ریسرچ فاؤنڈیشن کے چیئرمین انبساط رانا نے خیر مقدمی کلمات پیش جبکہ سلام خاں نے اظہار تشکر کیا۔
اس موقع پر سابق کونسلر نثار احمد، اطہر عزیز، مظہر الاسلام اسکول کے پرنسپل صغیر اختر، لیاقت علی، سہیل اے صدیقی ، معین اختر جے پوریا، اشرف الہدیٰ ،مسعود ہاشمی،سعد اختر، ندیم چاولہ، جاوید مشیری، انس فیضی، شاکر دہلوی،ڈاکٹر خالد رضاخاں، نثار احمد، مونس رحمٰن ، جمال خاں،سمیّیہ مسعودی، ارجمند آرا ، سمیت شعرو ادب ، صحافت اور درس و تدریس سے وابستہ لوگ بڑی تعداد میں موجود تھے۔
جن شعرا نے کلام پیش کیا ان کےکے منتخب اشعار پیش خدمت ہیں:
میں نے بھی دیکھنے کی حد کردی
وہ بھی تصویر سے نکل آیا
پروفیسر شہپررسول
گہرائیوں کو ان کی سمجھنے کے واسطے
اونچائیوں پہ فکر کی جانا پڑا مجھے
اسد رضا
میں اِ دھر ہوتا ہوں اور روح اُدھر ہوتی ہے
زندگی یوں تو ترے بن بھی بسر ہوتی ہے
رئیس اعظم خاں رئیس ؔ مظفرنگری
کر لیا میری ضرورت نے خودی کا سودا
دوستو !آج تو کاندھوں پہ اٹھا لو مجھ کو
قاری فضل الرحمٰن انجمؔ
دل میں چاہت ہے محبت کریں شہزادی سے
جانِ جاں! جان سے جانا بھی نہیں چاہتے ہم
ڈاکٹر ایم آر قاسمی
بکھرے بکھرے سے ہیں ہر سمت مری قوم کے لوگ
ایک صف میں اگر آجائیں قیامت ہوجائے
ڈاکٹر ماجد دیوبندی
کچھ اور تباہی سے گذرے گی ابھی دنیا
زنجیر اگرتم نے پاگل کو نہ پہنائی
انا ؔدہلوی
پیرومرشد، مست، قلندرعشق میں سب جا رقص کریں
میں بھی پاگل، توبھی پاگل، آ پاگل آ،رقص کریں
سپنا احساسؔ
سب کبوتر چھت پہ ہیں سہمے ہوئے
آسماں میں اُڑ رہے باز دو
فرید احمد فرید
بڑا غرور تھا سیلاب کو مگر کل رات
وہ میرے کمرے میں آنکھوں کو دیکھنے آیا
سکندرؔ مرزا
عشق ہے ریگستان سے ،اس میں کیسے ساون بھادوں
کبھی کبھی آجاتے ہیںکچھ بادل بھولے بھٹکے
نادم ندیمؔ
آگے ہمارے دو زانوہیں رانجھا،مجنوں اور فرہاد
عشق نگر میں جیسے ہم نے تنہا رات گزاری ہے
شاہ رخ عبیرؔ
ہر طرف اک شور ہے امن واماں قائم رہے
پھربھی یہ کیا بات ہے جائے اماں کوئی نہ ہو
ڈاکٹر فرمان ؔچودھری
میں ترکِ تعلق کو پرواز اگر دیتا
نظروں سے اتر جاتا ، تنہائی میں مر جاتا
الف میم شاذؔ
ہمارےپرکھوں کی بخشی ہوئی وراثت ہے
ہمارے چہرے پہ جو آن بان دیکھتےہو
شارقہ ملک
ان کے علاوہ سرتاج امروہوی، اختر اعظمی، عمر اظہار، روی سولنکی اور احمد ولی پوری نے بھی کلام پیش کیا۔
قیام ِ امن کی کوششوں میں تعاون قلم کاروںکا اولین فرض : پروفیسر شہپر رسول
ڈریمس انڈیا ریسرچ فاؤنڈیشن کی جانب سےمشاعرہ برائے عالمی امن کا انعقاد