ممبئی : انصاف نیوز آن لائن ؍ باراینڈ بنچ کے شکریہ کے ساتھ
بمبئی ہائی کورٹ نے آج پیر کو 2006 کے ممبئی ٹرین دھماکوں کے معاملے میں سزا یافتہ تمام 12 افراد کو بری کردیا ہے۔ ہائی کورٹ نے خصوصی مکوکاعدالت کے 2015 کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا ہے۔مکوکا عدالت نے پانچ ملزمان کو سزائے موت اور باقی سات کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ (ریاست مہاراشٹرا بمقابلہ کمال احمد محمد وکیل انصاری اور دیگر)۔11 جولائی 2006 کو شام6: 23بجے سے 6:29بجے کے درمیان سات لوکل ٹرینوں کے فرسٹ کلاس ڈبوں میں ہونے والے سلسلہ وار دھماکوں کے نتیجے میں 187 افراد ہلاک اور 800 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔عدالت نے تفتیش اور مقدمے کے عمل کو سنگین بے ضابطگیوں سے بھرپور قرار دیا اور کہا کہ استغاثہ کے دعوؤں نے عوام کو’’گمراہ کن حل‘‘ کا احساس دلایا جب کہ ’’اصل خطرہ اب بھی موجود ہے‘‘۔کسی جرم کے اصل مرتکب کو سزا دینا جرائم پر قابو پانے، قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے، اور شہریوں کی حفاظت و سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ایک ٹھوس اور ضروری قدم ہے۔ لیکن یہ جھوٹا تاثر دینا کہ ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا ہے، ایک گمراہ کن حل کا احساس دلاتا ہے۔ یہ فریب کاری عوامی اعتماد کو کمزور کرتی ہے اور معاشرے کو جھوٹی تسلی دیتی ہے، جبکہ حقیقت میں اصل خطرہ اب بھی موجود ہے‘‘ ۔جسٹس انیل کیلور اور جسٹس شیام چندک کی بنچ نے سزاؤں کو کالعدم قرار دینے کی کئی اہم وجوہات بیان کی ہیں۔ ان میں طریقہ کار کی خامیوں، غیر معتبر گواہوں کے بیانات، تشدد سے حاصل کردہ اعترافات، اور فرانزک شواہد کے غلط استعمال شامل ہیں۔
عدالت نے سزائیں منسوخ کرنے کی پانچ اہم وجوہات بتائی ہیں۔
تاخیر سے اور کمزور گواہوں کے بیانات
عدالت نے پایا کہ زیادہ تر گواہوں کے بیانات دھماکوں کے 100 دن بعد ریکارڈ کیے گئے، جبکہ شناخت کے پریڈ (ٹی آئی پی) میں تقریباً چار ماہ کی تاخیر ہوئی۔ ایسی تاخیر نے شناخت کی معتربیت کو کمزور کیا۔دو ٹیکسی ڈرائیوروں کے بیانات جنہوں نے مبینہ طور پر ملزمان کو چرچ گیٹ اسٹیشن پر چھوڑا تھا، کے بارے میں عدالت نے کہا کہ اتنے طویل وقفے کے بعد چہروں کو یاد رکھنے کی صلاحیت مشکوک ہے۔
’’شناخت کے پریڈ کے فقدان میں، ملزمان کی شناخت چار سال سے زائد عرصے بعد ہوئی۔ لہٰذا، ہم نے جانچ کی کیا کوئی خاص وجہ تھی جو گواہوں کی یادداشت کو متحرک کرتی اور ملزمان کے چہرے اور تفصیل کو یاد کرنے میں مدد دیتی۔ اس پر ہم نے دیکھا کہ دونوں گواہوں کو ملزمان کے چہرے کو دیکھنے، مشاہدہ کرنے اور یاد رکھنے کا کافی موقع نہیں ملا۔ لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا کہ ان کے شواہد سزا کی بنیاد کے لیے محفوظ نہیں ہیں۔
عدالت نے کہاکہ ایک گواہ جو بم بناتے ہوئے دیکھنے کا دعویٰ کرتا تھا، کراس ایگزامینیشن میں غیر معتبر پایا گیا۔ ایک اور گواہ کو غیر معتبر قرار دیا گیا کیونکہ وہ متعدد غیر متعلقہ مقدمات میں پنچ گواہ کے طور پر پیش ہوا تھا۔
اہم استغاثہ گواہوں کو طلب نہ کرنا
عدالت نے پولس انتظامیہ کی اس بات پر تنقید کی کہ اس نے کئی اہم گواہوں کو طلب نہیں کیا۔ ان میں ایک زخمی ٹرین مسافر بھی شامل تھا جس نے دھماکوں کے چند دنوں بعد پولیس کی مدد سے ملزمان کے خاکے بنائے تھے۔ اسے نہ تو ٹی آئی پی کے لیے بلایا گیا اور نہ ہی عدالت میں شناخت کے لیے پیش کیا گیا۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ پانچ دیگر زخمی مسافروں اور ایک دکاندار، جس نے مبینہ طور پر ملزمان کو پریشر کوکر فروخت کیا تھا کو بھی نہیں بلایا گیا۔
غیر مجاز افسر کے ذریعے ٹی آئی پی کا انعقاد
عدالت نے پایا کہ ملزمان کی شناخت کے لیے کیے گئے ٹسٹ شناخت پریڈ (ٹی آئی پی) طریقہ کار کے مطابق نہیں تھے۔ یہ 7 نومبر 2006 کو ایس ای او باروے نے کیے۔ جن کا بطور اسپیشل ایگزیکٹو آفیسر تقرر 7 مئی 2005 کو ختم ہوچکا تھا اور 15 نومبر 2006 کو دوبارہ بحال کیا گیا۔ چونکہ باروے کے پاس ٹی آئی پی کے وقت قانونی اختیار نہیں تھا۔ عدالت نے ان پریڈز کے ذریعے ملزمان کی شناخت کو ناقابل قبول قرار دیا۔
تشدد سے متاثرہ اعترافی بیانات
11 ملزمان سے حاصل کردہ اعترافی بیانات، جو استغاثہ کے شواہد کا بنیادی حصہ تھے، کو عدالت نے حراست میں تشدد کے ثبوتوں کی وجہ سے مسترد کردیا۔ عدالت نے پایا کہ متعدد اعترافات میں ایک جیسے الفاظ اور شریک ملزمان کے نام ایک ہی ترتیب میں درج تھے، جس سے ان کی صداقت پر سنگین سوالات اٹھاتے ہیں ۔
عدالت نے کہا کہ یہ معقول تصور سے باہر ہے کہ دو الگ الگ اعترافی بیانات میں ناموں کی ترتیب بالکل ایک جیسی ہے۔ اگرچہ یہ ممکن ہے کہ شریک ملزمان کے نام متعدد اعترافات میں آئی ۔ لیکن ان ناموں کی ترتیب کا ہر بیان میں مختلف ہونا فطری ہے۔
عدالت نے کہا کہ کے ای ایم اور بھابھا اسپتالوں کے طبی شواہد نے حراست میں جسمانی تشدد کے دعوؤں کی تائید کرتے ہیں۔ ملزمان نے الزام لگایا کہ انہیں مارا پیٹا گیا، الٹا لٹکایا گیا، کپڑے اتارے گئے، بھوکا رکھا گیا، نیند سے محروم کیا گیا اور کیمیکلز کے انجیکشن لگائے گئے۔ عدالت نے اس سلوک کو ’’وحشیانہ اور غیر انسانی‘‘ قرار دیا۔
دھماکہ خیز مواد سے متعلق شواہد غیر اہم
عدالت نے تفتیش کے دوران برآمد ہونے والے دھماکہ خیز مواد کے ہینڈلنگ میں بھی سنگین خامیاں پائی ہیں۔ ان میں آر ڈی ایکس، گرینولز، ڈیٹونیٹرز، پریشر کوکرز، سرکٹ بورڈز اور سولڈرنگ کا سامان شامل تھا۔ عدالت نے فیصلہ کیا کہ استغاثہ ان اشیاء کی مناسب سگ ماہی اور محفوظ تحویل کو ثابت کرنے میں ناکام رہا۔
عدالت نے کہا کہ ہم نے دیکھا کہ ان برآمدات کی ثبوتی قدر کوئی اہمیت نہیں کی گئی۔ کیونکہ استغاثہ مناسب تحویل اور مناسب سگ ماہی کو ثابت کرنے میں ناکام رہا، جو کہ ایف ایس ایل تک اشیاء کی ترسیل تک برقرار رہنی چاہیے تھی۔نتیجتاً، برآمد شدہ دھماکہ خیز مواد کو ملزمان یا دھماکوں سے قابل اعتماد طور پر جوڑا نہیں جا سکا۔
وکلاء کی نمائندگی:
ریاست مہاراشٹرا کی جانب سے سینئر ایڈووکیٹ راجہ ٹھاکرے، اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر اے ایم چمالکر، ایڈووکیٹس سدھارتھ جاگوشٹے، آکاش کاویڈ، ایشوریہ شرما، درشتی گالا، توشار سی نیربھاون، ایڈیشنل پبلک پراسیکیوٹرز ایم ایم دیشمکھ، جی پی مولکر، آر ایس ٹنڈولکر، اے ڈی کامکھیڈکر، پی ایچ گائیکواڈ، اور اے آر میٹکری نے پیشی کی۔
ملزمان کی جانب سے ایڈووکیٹ یوگ موہت چودھری، ایڈووکیٹ پیوشی رائے، حسان نظامی، انوش شیٹی، سدھارتھ شرما، اور دشرتھ گائیکواڈ پیش ہوئے۔ سینئر ایڈووکیٹ نتیا راماکرشنن، ایڈووکیٹ اسٹوٹی رائے، انصار تمبولی کے ساتھ ملزم تنویر انصاری اور نوید خان کی نمائندگی کی۔ سینئر ایڈووکیٹ ایس ناگاموتھو، ایڈووکیٹس پیوشی رائے، سدھارتھ شرما نے ملزم محمد فیصل شیخ اور شیخ عالم شیخ کی نمائندگی کی۔ سینئر ایڈووکیٹ ایس مرلی دھر، ایڈووکیٹس ننی سوسن تھامس، میتریہ سبرامنیم، اور انصار تمبولی نے ملزم مزمل شیخ اور زمیر شیخ کی نمائندگی کی۔ ایڈووکیٹ گورو بھاونانی نے ملزم محمد شیخ اور سہیل محمود شیخ کی نمائندگی کی۔ ایڈووکیٹ ہیتالی شیٹھ نے ملزم احتشام صدیقی کی نمائندگی کی۔ ایڈووکیٹ خان عشرت عذر علی نے ملزم محمد انصاری اور محمد شفیع کی نمائندگی کی۔ ایڈووکیٹ ادتیہ مہتا نے ملزم عاصف خان بشیر خان اور شیخ محمد علی عالم شیخ کی نمائندگی کی۔
ملزمان کے بری ہونے پراڈیشہ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور اب سینئر وکیل ڈاکٹر ایس مرلی دھر بنگلور کے رہنے والے مزمل عطا الرحمن شیخ او رورلی ممبئی کے رہنے والے ضمیرا حمد لطیف الرحمن شیخ کیلئے پیش ہوئے ۔دونوں نے اپنی عمر قید کو چیلنج کیا تھا۔اپنی تفصیلی گزارشات میں مرلی دھر نے تفتیش اور ٹرائل میں ہونے والی خامیوں کو بھی اجاگر کیا۔کیس میں ملزمین کے اقبالی بیانات حاصل کرنے میں تفتیشی افسران کی طرف سے کی گئی کوتاہیوں اور اس طرح کے دہشت گردی یا ہائی پروفائل کیسوں میں میڈیا ٹرائل اور عدالتوں کے طرز عمل کے بارے میں بھی بتایا۔مرلی دھر کے مطابق اس معاملے میں ’’جانبدارانہ تحقیقات ‘‘ ہوئی ہیں۔
بے گناہ لوگوں کو جیل بھیجاجاتا ہے اور پھر برسوں بعد جب وہ جیل سے رہا ہوتے ہیں تو ان کی زندگیوں کی تعمیر نو کا کوئی امکان نہیں ہوتا ہے یہ ملزمان گزشتہ 17سالوں سے جیل میں ہیں ۔ایک دن بھی باہر نہیں نکلے ہیں ۔ان کی بنیادی زندگی کا بیشتر حصہ گزرگیا ہے۔پولس کا رویہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ پہلے ایسے مقدمات میں پولس افسران کو گمراہ کرنے اور پھر وہاں سے پریس کانفرنس کرنے کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔جس طرح سے میڈیا اس کیس کی کوریج کرتا ہے ، وہ اس طرح سے کسی شخص کے قصور کا فیصلہ کرتا ہے۔یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ 12افراد بغیر کسی مناسب ثبوت کے پچھلے 18برسوں سے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔مرلی دھرنے دلیل دی کہ ان دھماکوں میں پہلے ہی بہت سی جانیں ضائع ہوچکی ہیں ۔جو ممبئی کے ویسٹرن ریلوے کی لوکل لائن میں پھٹ گئے اور پھر ان بے گناہوں کو گرفتار کیا گیااور پھر برسوں بعد ملزمان بری ہوجاتے ہیں اور پھر کوئی بند نہیں ہوتا۔’’دہشت گردی کے مقدمات کی تحقیقات میں ہماری ناکامیوں کی تاریخ ہے۔لیکن اب زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے۔عدالت سے درست کرسکتی ہے۔
مرلی دھر نے دن کیلئے اپنے دلائل کا اختتام کرتے ہوئے ججوں پر زور دیا کہ وہ اس بدنا می عنصر پر غور کریں جو نہ صرف ملزم بلکہ اس کے خاندان اور رشتہ داروں کو بھی متاثر کرتا ہے۔یہ صرف ملزم ہی نہیں بلکہ اس کے بچے ، والدین ،رشتہ دار بھی داغدار ہوجاتے ہیں۔اور ایک بار داغدار ہوجائیں ، یہ معاشرہ ان کے ساتھ بہت ظالم ہے۔کوئی بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرے گا ۔برائے کرم اس عنصر پر بھی غورکریں ۔