گوہاٹی : انصاف نیوز آن لائن
8جولائی کو آسام کے دھوبری ضلع انتظامیہ نے چپر ریونیو سرکل کے بیلاسی پارہ علاقے میں مجوزہ تھرمل پاور پلانٹ کیلئے بنگالی مسلمانوںکے ہزاروںافراد کے گھر منہدم کردیا گیا ہے۔بنگالی مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ کم سے کم 2000گھروں پر بلڈوزر چلادیا گیا تھا ۔جب کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ 1,400کے گھروں کو مسمار کیا گیا ہے۔
15 جولائی کو ایک پریس کانفرنس کے دوران وزیر اعلیٰ ہیمانتا بسوا سرما نے کہاکہ جس کو بھی ہم نے بے دخل کیا ہے ہم نے ان کے نام ووٹر لسٹ سے ہٹا دیے ہیں۔ڈپٹی کمشنر نے یقیناً ان کے نام ووٹر لسٹ سے ہٹا دیے ہوں گے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ وسیع پیمانے پر بے دخلی کی مہم ’’زمین جہاد‘‘ کے خلاف ہے –۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’زمین جہاد‘‘جیسے اصطلاحات کی آڑ میں ہیمانتا بسوا سرما کارپوریٹ ہاتھوں میںفروخت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔سرما نے کہا کہ بے دخلیاں ’’جاتی، مٹی اور بھٹی – نسل، زمین اور وطن‘‘ کو بچانے کے لیے ہیں۔
اب جن لوگو ںکے گھروںکو اجاڑ دیا گیا ہے انہیںالیکشن کمیشن کی جانب سے پیغا م موصول ہورہے ہیںکہ ان کے نام فارم 7کی وجہ سے ووٹر لسٹ سے خارج کردیا گیا ہے۔دراصل فارم 7کے تحت کوئی شخص شکایت کرسکتا ہے اس کے نام ووٹر لسٹ سے خارج کردیا جائے ۔
آسام حکومت ایک طرف سرکاری زمین کو خالی کرانے کے نام پر مسلمانوںکے گھر کو اجاڑ رہی ہے۔دوسری طرف معاوضے کے طور پر 50,000روپے دینے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔ اتھانی ریونیو سرکل کے بویجر الگا پارٹ 2 گاؤں میں آبادکاری کا وعدہ کیا گیا ہے۔
مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ کئی معاوضے کے چیک ان بڑے خاندانوں کے سربراہوں کے نام پر جاری کیے گئے جو یا تو فوت ہو چکے ہیں یا اب تمام افراد کے ذمہ دار نہیں ہیں، کیونکہ خاندان وقت کے ساتھ الگ الگ گھرانوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔
اس کے علاوہ، حکومت کی طرف سے یہ دعویٰ ہے کہ 600 کم گھرانوں کو بے دخل کیا گیا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جبکہ سرکل آفیسر نے کہا کہ 1,080خاندانوں کو چیک ملے – جو کہ سرکاری دعوے کے 1400 سے کافی کم ہے – حقیقت میں صرف 800 خاندانوں کو چیک ملے ہیں۔رہائشیوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے موصول ہونے والے کئی چیکوں پر اپنے ناموں میں غلطیاں پائی گئی ہیں۔
آسام پاور ڈسٹری بیوشن کمپنی لمیٹڈ (اے پی ڈی سی ایل) نے پاور پلانٹ کے لیے 3500بگھوں سے زیادہ کا علاقہ مختص کیا ہے اور پورے علاقے میں ہواڑنگز لگائے ہیں، جن پر لکھا ہے کہ’’یہ زمین اے پی ڈی سی ایل کی ملکیت ہے اور بغیر اجازت داخلہ ایک قابل سزا جرم ہے‘‘۔ اکثر ایکسکیویٹرز کو پہاڑیوں کو ہموار کرتے دیکھا جاتا ہے۔
میادی پٹہ زمینوں – مستقل تصفیہ کے تحت ملکیتی زمین – پر رہنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں ڈسٹرکٹ کلکٹر کے دفتر سے نوٹس مل رہے ہیں کہ زمین کو آسام تھرمل پاور جنریشن پروموشن پالیسی، 2025 کے تحت اے پی ڈی سی ایل کے لیے قبضے میں لیا جائے گا۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں 15 دن دیے گئے ہیں کہ وہ تحریری طور پر یہ بتائیں کہ ان کی زمین کیوں نہ لی جائے۔
ایک میادی پٹہ ہولڈر نے کہاکہ ہم اپنی زمین اے پی ڈی سی ایل کو نہیں دینا چاہتے۔ اس کے بعد ہم کہاں جائیں گے؟ وہ جو معاوضہ پیش کر رہے ہیں وہ کافی نہیں ہے جو چیراکوٹا پارٹ 1 میں رہتا ہے اور اسے ایسا نوٹس موصول ہوا۔دریں اثنا، عارضی خیموں میں رہنے والے بے دخل لوگوں نے کہا کہ پولیس نے ان کے ساتھ سخت رویہ اپنایا ہے۔بے دخل مقامی لوگوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ پولیس نے ان کے خیموں کو آگ لگائی ہے اور ان کا سامان لے جا رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بے دخلی مہم کے بعد انہیں دو بار ڈی سی آفس طلب کیا گیا اور کلکٹر کے دفتر سے ان پر منتقل ہونے کے لیے دباؤ ہے۔
گاؤں والوں کے ذریعہ انٹیگریٹڈ لینڈ ریکارڈز مینجمنٹ سسٹم (آئی ایل آر ایم ایس) سے ڈاؤن لوڈ کیے گئے کچھ زمینی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ اے پی ڈی سی ایل کے مختص کردہ علاقے میں کئی بگھوں کی سرکاری زمین کو ‘کوچ اور ‘بوڈو جیسے ناموں والے لوگوں کو میادی زمین کے طور پر الاٹ کیا گیا ہے۔ لیکن گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس علاقے میں ایسی کنیتوں والے کسی کو رہتے ہوئے کبھی نہیں سنا۔ انہیں شبہ ہے کہ حکومت ان زمینوں کو یہ دعویٰ کر کے منتقل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے کہ یہ زمین ان مبینہ جھوٹے مالکان سے انہیں دی گئی تھی۔
ریپریزنٹیشن آف دی پیپل ایکٹ1950 کی دفعہ 22 کے مطابق الیکٹورل رجسٹریشن آفیسر (ای آر او) کو ووٹر لسٹ میں اندراجات کو درست کرنے کا اختیار ہے اگر کوئی شخص اب حلقہ کا عام رہائشی نہیں ہے۔ تاہم، یہ صرف اس شخص کو “مناسب موقع دیے جانے” کے بعد کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی بات رکھ سکے۔
اس شق کے باوجود، چاروابکھرا اور سنتوش پور کے بہت سے بے دخل رہائشیوں کا کہنا ہے کہ انہیں پیشگی کوئی سرکاری نوٹس نہیں ملا ہے۔ان کا دعویٰ ہے کہ انہیں صرف ایس ایم ایس الرٹس ملے – جو انگریزی میں لکھے گئے ہیں، ایک ایسی زبان جو ان میں سے زیادہ تر کو نہیں آتی – اور ان درخواستوں کے لیے جو ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی جمع نہیں کیں۔
رجسٹریشن آف ایلیکٹرز رولز، 1960 کے رول 21A کے تحت، الیکٹورل آفیسر کو ووٹر لسٹ کی نظرثانی کے دوران مناسب عمل کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے – بشمول فیلڈ تصدیق اور عوامی نوٹس۔ لیکن بہت سے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ انہیں الیکشن آفس سے کوئی نوٹس نہیں ملا۔
اس کے علاوہ، الیکشن کمیشن آف انڈیا کا ای آر اوز کے لیے مینوئل بے گھر افراد کے ووٹر کے طور پر رجسٹر ہونے کے حقوق کو تسلیم کرتا ہے۔ مینوئل میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ بے گھر درخواست دہندگان کے لیے رہائش کا کوئی دستاویزی ثبوت درکار نہیں ہے۔ مینوئل میں لکھا ہے، “ایسے معاملے میں بوتھ لیول آفیسر فارم 6 میں دیے گئے پتے پر ایک سے زیادہ راتوں کے لیے جائے گا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ بے گھر شخص واقعی اس جگہ پر سوتا ہے۔
دھوبری ضلع کے الیکشن آفیسر سوگتا سدھارتھا گوسوامی نے دی وائر کو بتایاکہ ہم نے ابتدائی طور پر ‘فارم 7’ اپ لوڈ کیا تھا کیونکہ وہاں اب کوئی پولنگ اسٹیشن نہیں رہے گا۔ ایک بار جب لوگ نئی جگہ منتقل ہو جائیں اور نئے پتے فراہم کریں، ہم رسمی نوٹسز جاری کریں گے اور انہیں ان کے نئے حلقوں کے مطابق دوبارہ رجسٹر کریں گے۔انہوں نے مزید کہاکہ شکایات موصول ہونے کے بعد ہم نے مزید نوٹیفکیشنز بھیجنا بند کر دیا ہے۔
وکلاء کا کہنا ہے کہ یہ عمل الیکٹورل اور دیگر قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ گوہاٹی ہائی کورٹ کے وکیل امان ودود کہتے ہیںکہ پہلے اس علاقے کے رہائشیوں کو زبردستی بے دخل کیا گیا، اور فوراً ان کے نام ووٹر لسٹ سے ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگر یہ لوگ یہ ثابت نہیں کر سکے کہ وہ ‘عام رہائشی’ہیں، تو ان کے نام ووٹر لسٹ سے ہٹائے جا سکتے ہیں۔ یہ سب اسمبلی انتخابات سے چند ماہ قبل کیا جا رہا ہے۔ یہ واضح ہے کہ انہیں صرف تھرمل پاور پلانٹ کے لیے بے دخل نہیں کیا گیا، بلکہ کئی آئینی حقوق کو چھیننے کی منظم کوشش کی جا رہی ہے۔