Saturday, November 15, 2025
homeاہم خبریںنمائندگی یا فرقہ پرستوں کی شکست :بہار کے مسلمان دوراہے پر

نمائندگی یا فرقہ پرستوں کی شکست :بہار کے مسلمان دوراہے پر

بہار کی سیاسی جماعتوں کے رویے سے مسلمانوں میں مایوسی۔مسلم قیادت کافقدان۔ایم آئی ایم کی جذباتی سیاست کے سامنے مستقبل تاریک

نوراللہ جاوید

میں پٹنہ کے اس پریس کانفرنس میں موجود تھا جس میں راجستھان کے سابق وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے تیجسوی یادو کو پہلی مرتبہ انڈیا اتحاد کی جانب سے وزیر اعلیٰ کے امیدوار ہونے کا باضابطہ اعلان کیا۔ مکیش ساہنی کے نائب وزیر اعلیٰ کے امیدوار ہونے کا بھی اعلان کیا گیا۔اس اعلان کے بعد ہی سوشل میڈیا پر یہ سوال گردش کرنے لگا کہ دو فیصد ملاح آبادی والے لیڈر کو نائب وزیر اعلیٰ کا عہدہ اور 18فیصد والی مسلمانوں کو آبادی کے اعتبار سے ٹکٹ دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔حکم راں جماعت جنتادل یو نے بھی اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اے آئی کی مدد سے ایک ویڈیو جاری کی جس میں تیجسوی یادو اور مکیش ساہنی صوفے پر براجمان دکھائے گئے ہیں جبکہ ایک ٹوپی پہنا ہوا شخص ان کے سامنے قالین بچھا رہا ہے۔ یہ ویڈیو اگرچہ آر جے ڈی کو نشانہ بنانے کے لیے بنائی گئی ہے جبکہ خود جنتا دل (یو) کا مسلمانوں کو نمائندگی دینے کا ریکارڈ نہایت مایوس کن رہا ہے۔
این ڈی اے اتحاد نے صرف چار مسلم لیڈروں کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ بی جے پی نے ایک بھی مسلم امیدوار کو میدان میں نہیں اتارا ہے۔ مسلمانوں کو نمائندگی کا سوال اس وقت بہار کی سیاست اور سوشل میڈیا کا سب سے اہم موضوع ہے۔سوشل میڈیا پر اس فیصلے کی حمایت و مخالفت میں خوب لکھا جارہاہے۔مسلم نمائندگی کو لے کر جو سوالات کھڑے کیے جارہے ہیں اس کا کوئی معقول جواب انڈایا اتحاد کے پاس نہیں ہے۔

مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس آگے کی راہ کیا ہے؟کیا وہ اس اتحاد کو ووٹ دیں گے جن کی پالیسی اور بنیادی سوچ میں مسلم مخالف جذبات موجزن ہے۔جس کے لیڈر کھلے عام مسلم ووٹروں کو نمک حرام کا طعنہ دیتے ہیں یا پھر ایم آئی ایم کی قیادت والی گرینڈ الائنس کے ساتھ جائیں گے؟ تاہم، ایم آئی ایم اور اس کی اتحادی جماعتیں وسائل اور بوتھ لیول منیجمنٹ کے اعتبار سے انتہائی کمزور ہیں اور ایم آئی ایم کے پاس طاقتور دو اتحادیوں کا مقابلہ کرنے کی کوئی تنظیمی صلاحیت نہیں ہے۔انتخابات جذباتی نعروں کے ذریعہ نہیں جیتے جاتے۔ایم آئی ایم میں سیٹوں کی تقسیم کے معاملے میں جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ پارٹی کی تنظیمی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ایسے میں فرقہ وارانہ سیاست اور طاقت کو شکست دینے کے لیے ایک ہی انڈیا اتحادباقی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی دیگر ریاستوں کی طرح بہار کی سیاسی فضا بھی فرقہ وارانہ ہوگئی ہے۔چنانچہ 1990 کی دہائی میں مسلم اور یادو کے ووٹ بینک کی بدولت بہار کی سیاست کرنے والے لالو پرساد یادو کے بیٹے تیجسوی یادو کے لیے اس سیاست کو دہرانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔آج سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا یادو سماج جس کی سیاست راشٹریہ جنتادل کرتی ہے اس کے صدفیصد ووٹ راشٹریہ جنتادل کو آئیں گے؟ کیا مسلم ووٹ بھی مکمل طور پر آرجے ڈی اور انڈیا اتحاد کے ساتھ ہے۔

ان سوالوں کا جواب اس وقت مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے جب پرشانت کشور کی سیاسی جماعت جن سوراج نے 40مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے اور اسدالدین اویسی گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے ذریعہ متبادل پیش کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

بہار کے وزیرِاعلیٰ نتیش کمار کی شبیہ ایک سیکولر لیڈر کے طور پر رہی ہے اور بی جے پی کے ساتھ طویل رفاقت کے باوجود انہوں نے اپنی شناخت کو باقی رکھا ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ نتیش کمار کی گرتی ہوئی صحت اور پارٹی پر اپر کلاس لیڈروں کی بڑھتی ہوئی گرفت نے ان کی شبیہ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اب بہار میں بی جے پی کھل کر اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے بے چین ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کا ایجنڈا واضح ہے۔ چنانچہ بہار کی سِول سوسائٹی، سیکولر تنظیمیں اور مسلم تنظیموں کا احساس ہے کہ نتیش کمار کی ذاتی شبیہ کچھ بھی رہی ہو، اگر اس وقت سیکولر ووٹوں کی تقسیم ہوتی ہے تو اس کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔

مولانا رضوان اصلاحی، جماعتِ اسلامی بہار کے امیرِ حلقہ ہیں اور ان کی بہار کی سیاست پر گہری نظر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت ہماری ترجیح سیکولر فورسز کو کامیاب کروانا ہے۔ بلاشبہ نتیش کمار کی اپنی شبیہ ہے مگر اس وقت ان کی گرفت کمزور ہو چکی ہے اور بی جے پی کے اپنے عزائم ہیں۔ مولانا رضوان اصلاحی بتاتے ہیں کہ “بہار ڈیموکریٹک فورم” نے بہار کے تمام اسمبلی حلقوں اور امیدواروں کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے بعد ووٹروں کی رہنمائی کی ہے۔ چند سیٹوں پر ہم نے انڈیا اتحاد کے باہر بھی ایم آئی ایم اور جن سوراج کے امیدواروں کی حمایت کی ہے۔ مولانا نے بتایا کہ فورم نے سیاسی جماعتوں کے سامنے شہری منشور بھی پیش کیا ہے جس میں بہار کے تمام شہریوں کی ضروریات کو مدنظر رکھا گیا ہے۔

مسلم نمائندگی میں اضافے کی افادیت اور ضرورت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا اور سیاسی امپاورمنٹ کے بغیر مسلمانوں کی مجموعی صورتِ حال بہتر نہیں ہو سکتی۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے اس ماحول نے “ایم وائی” یا کسی بھی دوسرے سیاسی اتحاد کی حکمتِ عملی کو کاری ضرب پہنچائی ہے۔ اگر گزشتہ چھ انتخابات — جن میں تین پارلیمانی (2024، 2019، 2014) اور تین اسمبلی انتخابات (2020، 2015، 2010) شامل ہیں — کے نتائج کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سیاسی جماعتوں، بالخصوص راشٹریہ جنتا دل، کانگریس اور جنتا دل (یو) میں “ووٹ ٹرانسفر ایبیلیٹی” کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔ مسلم ووٹرز نظریاتی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں، وہ جب میدان میں ہوتے ہیں تو بیشتر اسمبلی حلقوں میں غیر مسلم ووٹرز مذہبی شناخت کی بنیاد پر ووٹنگ کرتے ہیں۔ 2020 کے سی ایس ڈی ایس–لوک نیتی پوسٹ پول سروے کے مطابق، ذات پات اور علاقے کی پروا کیے بغیر 76 فیصد مسلمانوں نے مہاگٹھ بندھن کو ووٹ دیا۔

2014 کا پارلیمانی انتخاب بہار میں مسلم امیدواروں کے لیے سب سے مشکل انتخاب ثابت ہوا۔ جیتنے والے زیادہ تر امیدوار وہ تھے جنہوں نے ان حلقوں سے کامیابی حاصل کی جہاں مسلم آبادی اچھی خاصی تھی۔ راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) نے چھ مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا۔ ان میں تین ایسے حلقے تھے جہاں مسلم آبادی 20 سے 30 فیصد کے درمیان تھی اور دو حلقے ایسے تھے جہاں مسلم ووٹرز 20 فیصد سے کم تھے۔ تاہم آر جے ڈی صرف ارریہ پارلیمانی حلقے میں کامیاب ہوئی جہاں مسلم آبادی تقریباً 44 فیصد ہے۔

جنتا دل (یونائیٹڈ) نے مختلف علاقوں میں پانچ مسلم امیدوار کھڑے کیے لیکن ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہ ہو سکا۔ کشن گنج حلقے میں جہاں مسلم آبادی 68 فیصد ہے کانگریس کے مولانا اسرارالحق قاسمی نے کامیابی حاصل کی۔ طارق انور نے این سی پی کے ٹکٹ پر کٹیہار سے جیت حاصل کی جہاں مسلمانوں کی آبادی 41 فیصد ہے۔ لوک جن شکتی پارٹی (ایل جے پی) کے محبوب علی قیصر نے گھگھریا، جہاں مسلم آبادی محض 11 فیصد ہے، سے کامیابی حاصل کی۔ یہ بہار کے لیے ایک نایاب مثال ہے کہ دلت برادری نے مکمل طور پر پارٹی وفاداری کی بنیاد پر لوک جن شکتی کے مسلم امیدوار کو ووٹ دیا۔ محبوب علی قیصر کے خاندان کی اس حلقے میں زمین داری رہی ہے اور مقامی آبادی سے ان کے گہرے تعلقات بھی رہے ہیں۔
بی جے پی کے واحد مسلم امیدوار شاہنواز حسین، بھاگلپور سے کامیاب نہ ہو سکے جہاں مسلم آبادی 20 فیصد سے کم ہے۔ مجموعی طور پر نتائج سے یہ ظاہر ہوا کہ مسلم امیدواروں نے وہیں کامیابی حاصل کی جہاں مسلمانوں کی آبادی اچھی خاصی تھی۔

2019 کے پارلیمانی انتخاب میں مسلم امیدواروں کی تعداد میں مزید کمی آئی۔ آر جے ڈی نے پانچ مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا جن میں مسلم اکثریتی سیٹیں جیسے ارریہ شامل تھیں مگر تمام امیدوار ہار گئے۔ کانگریس صرف کشن گنج حلقے میں جیت حاصل کر سکی جبکہ کٹیہار کی سیٹ پر اس کے امیدوار کو شکست ہوئی۔ گھگھریا سے لوک جن شکتی پارٹی کے ٹکٹ پر محبوب علی قیصر دوسری مرتبہ کامیاب ہوئے۔ ظاہر ہے کہ دونوں مرتبہ یہ نشست ایک استثنا تھی۔
2024 کے پارلیمانی انتخاب میں مسلم امیدواروں کے لیے گنجائش مزید سکڑ گئی۔ صرف پانچ امیدواروں کو سیاسی جماعتوں نے ٹکٹ دیا۔ آر جے ڈی نے دو، جنتا دل (یو) نے ایک اور کانگریس نے دو مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا۔ آر جے ڈی اور جنتا دل (یو) کے تمام امیدوار ہار گئے جب کہ کانگریس کے دونوں مسلم امیدوار کشن گنج اور کٹیہار سے کامیاب ہوئے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے مناسب نمائندگی حاصل کرنا اب بھی مشکل ہے۔ ان کی کامیابی تقریباً مکمل طور پر ان حلقوں تک محدود ہو چکی ہے جہاں مسلم آبادی 40 فیصد سے زیادہ ہے۔

مجموعی طور پر اگر تین پارلیمانی انتخابات میں جیتنے والے آٹھ مسلم امیدواروں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں سے چھ ایسے حلقوں سے منتخب ہوئے جہاں مسلم آبادی 40 فیصد سے زائد تھی۔ یہ واضح طور پر مسلم آبادی کی بلند شرح اور مسلم امیدواروں کی انتخابی کامیابی کے درمیان گہرے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔

2010 سے 2020 کے درمیان ہونے والے تین اسمبلی انتخابات میں مسلم امیدواروں کی کامیابی نے ڈرامائی اتار چڑھاؤ دیکھا جو پارٹی حکمتِ عملی اور مسلم ووٹروں کی بدلتی ہوئی سیاسی شناخت کے منظرنامے کو پیش کرتا ہے۔ 2010 میں آر جے ڈی نے سب سے زیادہ 30 مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا مگر کامیابی کی شرح صرف 20 فیصد رہی۔ کانگریس کی کارکردگی اس سے بھی کمزور تھی؛ اس کے 49 مسلم امیدواروں میں سے صرف تین کامیاب ہوئے یعنی کامیابی کی شرح 6.12 فیصد تھی۔ کانگریس کی یہ تین نشستیں کشن گنج، قصبہ اور بہادر گنج تھیں جہاں مسلم آبادی نمایاں تھی۔

جنتا دل (یو) اس انتخاب میں استثنا کے طور پر مسلم ووٹروں کے درمیان بہتر کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہی، جس کی کامیابی کی شرح 50 فیصد تھی۔ نتیش کمار کی ’’تقسیم کی سیاست‘‘ نے مختلف مسلم برادریوں میں کچھ حمایت حاصل کی جس کے نتیجے میں کم مسلم آبادی والے علاقوں میں بھی مسلم امیدوار کامیاب ہوئے۔

البتہ 2015 کے اسمبلی انتخابات میں آر جے ڈی، جنتا دل (یو) اور کانگریس کے درمیان بننے والے عظیم اتحاد نے مسلم امیدواروں کی کامیابی کی راہ ہموار کر دی۔ آر جے ڈی کے مسلم امیدواروں کی جیت کی شرح 75 فیصد تھی — 16 میں سے 12 امیدوار کامیاب ہوئے۔ ان میں کئی ایسی نشستیں بھی شامل تھیں جہاں مسلم ووٹروں کی شرح معمولی تھی۔ جنتا دل (یو) کے امیدواروں کی جیت کی شرح 71.42 فیصد اور کانگریس کے دس مسلم امیدواروں میں سے چھ کی کامیابی رہی۔

2015 کا انتخاب اس لحاظ سے منفرد تھا کہ بہار کی دو بڑی علاقائی جماعتیں — آر جے ڈی اور جنتا دل (یو) — کانگریس کے ساتھ متحد تھیں۔ مسلمانوں، پسماندہ طبقات اور دلت ووٹروں کا اتحاد مضبوط ہو کر ابھرا۔ یہ نتیجہ اس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ جب مسلمانوں کو دیگر برادریوں کی حمایت حاصل ہو جائے تو وہ اسمبلی میں بڑی تعداد میں پہنچ سکتے ہیں۔

تاہم 2020 کے اسمبلی انتخابات میں سماجی اتحاد کی فضا بدل گئی۔ عظیم اتحاد کمزور پڑ گیا اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سیمانچل میں ابھار نے بہار کی سیاست کو نئی سمت دے دی۔ محض 19 مسلم امیدوار کامیاب ہو سکے۔ آر جے ڈی کی کارکردگی مایوس کن رہی؛ اس کے 18 امیدواروں میں سے صرف آٹھ کامیاب ہوئے یعنی کامیابی کی شرح 44.44 فیصد رہی جبکہ کانگریس کی کامیابی مزید کم ہو کر 36.66 فیصد رہ گئی۔ نتیش کمار کی قیادت والی جنتا دل (یو) ایک بھی مسلم امیدوار کو کامیاب نہ کرا سکی، حالاں کہ اس نے آٹھ امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا۔

جنتا دل (یو) کی ناکامی کی دو بڑی وجوہ تھیں: اول، اس کا بی جے پی کے ساتھ اتحاد؛ دوم، مسلم حلقوں میں پارٹی کی مقبولیت کا خاتمہ۔ ایم آئی ایم نے بہار میں اپنے پہلے اسمبلی انتخاب میں 15 امیدواروں کو ٹکٹ دیا جن میں سے پانچ کامیاب ہوئے — اور یہ تمام مسلم اکثریتی حلقوں سے تھے۔ یہ ایم آئی ایم کے اثر و رسوخ کے ساتھ اس کی محدودیت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

2020 کے انتخاب میں مسلم ووٹوں کی تقسیم اتحادی حکمتِ عملی کے بجائے مذہبی شناخت پر مبنی سیاست اور مشترکہ سیاسی لائحہ عمل کی کمی نے مسلم نمائندگی کو مزید محدود کر دیا۔ یہی وہ صورتحال ہے جس کی وجہ سے سیاسی جماعتیں مسلم امیدواروں کو آبادی کے تناسب سے ٹکٹ دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں اور عموماً صرف انہی حلقوں سے امیدوار نامزد کرتی ہیں جہاں مسلم آبادی 40 فیصد سے زائد ہو یا جہاں مضبوط اتحاد موجود ہو۔

بہار کے مگدھ خطے میں، جہاں اسمبلی کی کل 30 نشستیں ہیں صرف تین مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا گیا حالاں کہ یہاں مسلمانوں کی مجموعی آبادی 12 سے 13 فیصد کے درمیان ہے۔

“مسلم ہیریٹیج آف بہار” کے بانی محمد عمر اشرف کے مطابق مسلم نمائندگی میں کمی 1990 کے بعد کانگریس کے زوال کا نتیجہ ہے۔ 1990 سے قبل مگدھ کے علاقے سے مسلمانوں کو نمائندگی حاصل تھی مگر اب نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فرقہ وارانہ پولرائزیشن کا عذر ناقابلِ قبول ہے۔ اگر ہندو ووٹروں نے واقعی مسلمانوں کو ووٹ دینا بند کر دیا ہوتا تو کسی حلقے سے ایک بھی مسلم امیدوار کامیاب نہ ہوتا۔ پولرائزیشن موجود ضرور ہے مگر جب بڑی پارٹیاں مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیتی ہیں تو اس کا اثر محدود رہتا ہے۔

نوادہ کے گووندپور کی مثال دیتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ یہاں مسلم آبادی صرف 14 فیصد ہے اس کے باوجود آر جے ڈی کے محمد کامران نے گزشتہ انتخاب میں کامیابی حاصل کی تھی — ظاہر ہے کہ یہ جیت اپر کاسٹ اور یادو طبقے کی حمایت کے بغیر ممکن نہ تھی۔ اسی طرح 2015 میں سی پی آئی (ایم ایل) کے انور حسین نے پالی سے 19,438 ووٹ حاصل کیے لیکن 2020 میں جب سی پی آئی (ایم ایل) اتحاد میں شامل ہوئی تو ان کا ٹکٹ کاٹ کر ساندیپ سورو کو دیا گیا جو کامیاب ہوئے۔

اس مرتبہ آر جے ڈی نے محمد کامران کا ٹکٹ منسوخ کر کے ایک یادو امیدوار کو نامزد کیا جس کی وفاداری خود پارٹی کے نزدیک مشکوک ہے۔ عمر اشرف کا استدلال ہے کہ کانگریس نے اپنی مسلم نمائندگی کو سیمانچل تک محدود کر دیا ہے، جب کہ آر جے ڈی ذات پات کے توازن کے لیے مسلم ٹکٹوں کی قربانی دیتی ہے۔ شیرگھاٹی جہاں 52 ہزار مسلم ووٹر ہیں اور بیلا گنج میں 60 ہزار، وہاں 2010 کے بعد سے کسی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔
گیا ٹاؤن سے کانگریس کے ٹکٹ پر ماضی میں کئی مسلم امیدوار کامیاب ہو چکے ہیں۔ کم و بیش یہی صورتحال متھلانچل کے علاقے میں بھی ہے۔ باجپٹی اور جالے جیسی نشستیں جہاں مسلم آبادی 30 سے 40 فیصد کے درمیان ہے وہاں بھی انڈیا اتحاد نے کسی مسلم امیدوار کو نامزد نہیں کیا۔

بہار کانگریس کے سابق صدر وہاب قادری کے مطابق “1952 سے 2000 تک ہر ضلع میں کم از کم ایک یا دو مسلم ممبر اسمبلی ہوا کرتے تھے لیکن اب کانگریس نے مسلم امیدواروں کو صرف سیمانچل تک محدود کر دیا ہے۔ مگدھ، پٹنہ، سارن، مونگیر اور بھاگلپور ڈویژنوں میں کانگریس کی مسلم قیادت تقریباً غائب ہو چکی ہے۔”

اس صورتِ حال نے مسلم ووٹروں میں مایوسی پیدا کر دی ہے۔ آج بہار کے مسلمان ایک طرف ذات پات پر مبنی مردم شماری کے بعد اپنی سماجی شناخت کے ابھار کو دیکھ رہے ہیں اور دوسری طرف مسلم نمائندگی میں اضافے کی خواہش بھی بڑھ رہی ہے۔ ایم آئی ایم کا اثر اگرچہ سیمانچل کے چند مسلم اکثریتی حلقوں تک محدود ہے لیکن اس نے ریاست بھر میں مسلم قیادت کے جذبے کو ابھارا ہے — جس کا نقصان بہرحال انڈیا اتحاد کو ہی پہنچنا ہے۔
جے ڈی (یو) اور بی جے پی کی مشترکہ حکمتِ عملی ہندو ووٹوں کو متحد اور اقلیتوں میں ذات کی بنیاد پر تقسیم پیدا کرنے پر مرکوز ہے۔ چنانچہ آزاد مسلم امیدواروں میں زیادہ تر کا تعلق پسماندہ مسلم برادریوں سے ہوتا ہے۔ بہار کے تقریباً ایک تہائی حلقوں میں مسلم ووٹرز فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں اور انہی کا اتحاد یا تقسیم ریاست کی سیاست کی سمت متعین کرتا ہے۔

مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ پولرائزیشن کی بنیاد پر مسلمانوں کو کم نمائندگی دینا کہاں تک درست ہے؟ اگر ماضی میں غیر مسلم اکثریتی حلقوں سے مسلم امیدوار انہی سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر کامیاب ہو سکتے تھے تو اب کیوں نہیں ہو سکتے؟ اس کا واضح جواب یہی ہے کہ آج ووٹ ٹرانسفر کی صلاحیت کمزور ہو چکی ہے اور سماجی اتحاد کے دعوے داروں میں موقع پرستی نے جگہ لے لی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی جماعتیں ان کمزوریوں کو ختم کرنے اور سماجی اتحاد کو مستحکم کرنے کی سنجیدہ کوشش کر رہی ہیں؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہو رہا ہے۔

آر جے ڈی، کانگریس اور دیگر اتحادی جماعتوں نے مسلم اکثریتی حلقوں میں بھی ٹکٹوں کی تقسیم میں نمایاں کمی کی ہے جس سے ووٹروں کے درمیان مایوسی اور بے اعتمادی بڑھتی جا رہی ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ایک طرف مسلم قیادت کا فقدان ہے تو دوسری طرف ووٹوں کی تقسیم سے فرقہ پرست جماعتوں کو فائدہ پہنچنے کا اندیشہ بڑھ گیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ انتخابات بہار کے مسلمانوں کے لیے قیادت، اتحاد اور نمائندگی کے امتحان میں بدل گئے ہیں۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین