Saturday, November 15, 2025
homeاہم خبریںکبھی لاکھوں کی تعداد میں احتجاج کرنے والے سیمانچل کےمسلمانوں نے کشن...

کبھی لاکھوں کی تعداد میں احتجاج کرنے والے سیمانچل کےمسلمانوں نے کشن گنج اے ایم یو سنٹر کو کیوں فراموش کردیا

نور اللہ جاوید

تاریخ 9اکتوبر2011تھی جب کشن گنج ۔گوہاٹی ہائی وے اور کشن گنج اور کلکتہ ریلوے لائن پر لاکھوںافراد دھرنے پر بیٹھے تھے۔مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ بہار حکومت جلد سے جلدعلی گڑھ مسلم یونیوسٹی کے کشن گنج سنٹر کیلئے زمین الاٹ منٹ کرے ۔آزاد بھارت کی تاریخ میںیہ پہلا موقع تھا جب مسلمانوں نے تعلیم کے مطالبہ پر لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوئے تھے ۔مظاہرے کے بعد بہار حکومت نے وعدے کے مطابق کشن گنج کے دیہی علاقہ چکلہ جو مہانندا ندی کے قریب ہے 228ایکڑ زمین دینے کا اعلان کردیا ۔

اس واقعہ کو 14برس گزرگئے ہیں مگر 220ایکڑ زمین کا یہ ٹکڑا خالی اور ویران ہے۔مقامی لوگوںکیلئےجانوروں کا چراگاہ بناہوا ہے ۔انتخابی موسم میں اے ایم یو سنٹر کی تعمیر کا مطالبہ بہت ہی سنائی دے رہی ہے۔سیمانچل میں مسلم قیادت کے سوال انتخاب لڑرہی ایم آئی اے ایم اور اس کے سربراہ اسدالدین اویسی اور ان کے پارٹی کے جلسوںمیںبھی اے ایم یو سنٹر کی گونج نہیںسنائی دیتی ہے۔


سچر کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد مسلمانوںکی تعلیمی پسماندگی کے خاتمے کیلئے یوپی اے حکومت نے 2008میںپانچ ریاستوںمیںاے ایم یو سنٹر قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔بہار کا سیمانچل علاقہ جہاںسب سے زیادہ مسلمانوںکی آبادی ہے مگر انتہائی پسماندگی کا شکار ہے۔مرکزی حکومت نے کشن گنج میںاے ایم یو سنٹر قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔چناںچہ اے ایم یو (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) کے وائس چانسلر نے 26 نومبر 2008 کو بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو ریاست میں اسپیشل سینٹر کھولنے کی تجویز کا خط بھیجا۔ اپنی تجویز میں اے ایم یو کے وائس چانسلر پروفیسر پی کے عبد العزیز نے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے مطالبہ کیا کہ اے ایم یو سنٹر کے لیے مفت میں 250-300 ایکڑ زمین فراہم کرنے کی درخواست کی اور یونیورسٹی کے اصولوں کے مطابق کچھ ضروریات کا ذکر کیا جیسے کیمپس کو قریب ترین سرکاری یا نیشنل ہائی وے سے جوڑنے والی 30 میٹر چوڑی سڑک، اور بلا تعطل بجلی اور پینے کا پانی۔ جیسے ہی بہار حکومت زمین فراہم کر دے گی، کیمپس کے اندر عمارتوں کی تعمیر جیسے دیگر اخراجات یونیورسٹی اور مرکزی حکومت برداشت کرے گی ۔

مگر نتیش کمار اس پر کوئی جواب نہیں دیا ۔اس کی وجہ سے مقامی لوگوں میںناراضگی پھیلتی چلی گئی ۔کئی مرتبہ نتیش کمارسے مطالبہ کیا گیا مگر وہ ان سنی کررہے تھے۔ 12 ستمبر 2011 کو کشن گنج ایجوکیشن موومنٹ فار اے ایم یو سینٹر نے اعلان کیا کہ اب حکومت کے خلاف احتجاج کیا جائے گا۔اس سے قبل وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے نام ایک یادداشت پیش کی گئی جس میں اے ایم یو سینٹر کشن گنج کے قیام کے لیے زمین کی منتقلی کا مسئلہ 15 دنوں کے اندر حل کرنے کی درخواست کی گئی۔ اے ایم یو سینٹر کے کارکنوں نے یادداشت میں واضح طور پر ذکر کیا کہ اگر حکومت مسئلہ حل نہ کرتی ہے تو 12 اکتوبر 2011 سے کشن گنج میںبڑا مظاہرہ کیا جائے گا۔

حکومت نے مجوزہ اے ایم یو اسپیشل سینٹر کی طرف اپنی لاپرواہی کی رویہ جاری رکھا۔اس کی وجہ سے 12 اکتوبر 2011 کو کشن گنج میںاحتجاجی مظاہرہ کیا گیا ۔جس میں3-4 لاکھ افراد نے کشن گنج میں جمع ہوئےکلکتہ ۔گوہاٹی ریل روٹ اور نیشنل ہائی وے 31پر بھیڑ جمع ہوگئی ۔دھرنا پورا دن چلا اور شام کو بہار حکومت کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملنے پر غیر معینہ مدت کے لیے بڑھا دیا گیا۔ تقریباً 10 بجےرات کے بعد قومی میڈیا میںبریکنگ نیوز چلنے لگی کہ ’’گوہاتی روٹ پر 20 سے زیادہ ٹرینیں پھنس گئی ہیں۔ مظاہرین کشن گنج میں اے ایم یو سینٹر کا مطالبہ کر رہے ہی۔ 11 بجے راتک یہ خبر ملک بھر میں پھیل گئی، اور تقریباً 11:30بجے اعلان کیا گیاکہ بہار حکومت کی طرف سے پروریا ڈویژن کےریڈنٹ کمشنر نے ایک ماہ کے اندر مسئلہ حل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ تقریباً 3لاکھ کے مجمع نے ’’اے ایم یو موومنٹ‘‘کے تاریخی لمحے کی خوشی منائی، اور دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیاگیا۔

یو پی اے حکومت نے 2008 سے 2013 کے درمیان سفارش پر عمل کرتے ہوئے، مالاپورم، مرشد آباد، اور کشن گنج میں سینٹرز کی منظوری دی۔ ریاستی حکومتیں نے زمین فراہم کی، مالاپورام میں 336 ایکڑ، مرشد آباد میں 288 ایکڑ، اور کشن گنج میں 224 ایکڑالاٹ منٹ کیا گیا۔مالا پورم اور مرشدآباد سنٹر کی کارروائی آگے بڑھ گئی مگر کشن گنج کا معالہ التوا کا شکار رہا۔زمین الاٹ منٹ کے چار سال بعد یواے پی کی چیرپرسن سونیا گاندھی نے جنوری 2014میں بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار ، مقامی ممبر پارلیمنٹ مولانا اسرارالحق قاسمی اور وائس چانسلر ضمیر الدین شاہ کی موجود گی میںسنگ بنیاد رکھا گیا ۔2014میںسنگ بنیاد کو 12برس بیت جانے کے بعد بھی آج بھی یہ زمین خالی ہے۔اب پروجیکٹ کو نیشنل گرین ٹریبیونل کی ماحولیاتی اعتراضات اور نیشنل مشن فار کلین گنگا کو ریفر نے پروجیکٹ پر اعتراض کردیا

2014 کے بعد، بی جے پی کی قیادت والی حکومت نے پروجیکٹ کو ترجیحی نہ دی۔اے ایم یو کشن گنج سینٹر (اے ایم یو-کے) ابھی تک مرکزی حکومت کی طرف سے 125 کروڑ روپے کی ریلیز کا انتظار کر رہا ہے۔ منظور شدہ 136.82 کروڑ روپے میں سے صرف 10 کروڑ روپے 2014 میں ریلیز ہوئے، اور اس کے بعد کوئی مزید فنڈز نہیں آئے۔اے ے ایم یو-کے کیمپس کو سیمانچل کے چار اضلاع، کشن گنج، کٹیہار، پورنیہ، اور ارریہ، اور ملحقہ مغربی بنگال کے حصوں کے لیے ایک تبدیلی لانے والا پروجیکٹ کے طور پرتصور کیا گیا تھا۔ علاقائی آبادی تقریباً ایک کروڑ ہے۔یہ خیال تھا کہ یہاں 25000طلبا تعلیم حاصل کریں گے۔

کشن گنج میں خواندگی کی شرح صرف 57فیصد ہے، جو بہار کی 64فیصد اوسط سے کم اور قومی اوسط 74سے بہت کم ہے۔یہی صورت حال سیمانچل کے دیگر اضلاع کا ہے۔

ابتدائی طور پر، سینٹر نے دو رہائشی کورسز پیش کیے، ایک سالہ بی ایڈ اور دو سالہ ایم بی اے پروگرام۔ تاہم، بی ایڈ کورس کو 2019 میں نیشنل کونسل فار ٹیچر ایجوکیشن (این سی ٹی ای) سے منظوری نہیں ملنے کی وجہ سے بند کردیا اور اس وقت صرف ایم بی اے پروگرام فعال رہ گیا۔فی الحال، ایم بی اے کورس میں 33 طلبہ داخلہ شدہ ہیں، پہلے سال میں 11 اور آخری سال میں 22۔ طلبہ کہتے ہیں کہ اگرچہ فیکلٹی تعلیمی طور پر مضبوط ہے، لیکن سینٹر میں دیگر اے ایم یو کیمپس کی نسبت بنیادی سہولیات کی کمی ہے۔

کشن گنج اور سیمانچل کے دیگر اضلاع میں انتخابی مہم کا کوریج کے دوران میں نے یہ سوال کئی لوگوںسے سوال پوچھا کہ آخر اے ایم سنٹر کا ایشو اس وقت کیوںنہیںاٹھایا جارہا ہے۔؟ مقامی ممبرپارلیمنٹ محمد جاوید آزاد کہتے ہیںکہ وہ مسلسل پارلیمنٹ میںآواز بلند کی ہے او ر وزیرتعلیم دھرمیندر سے ملاقات بھی کی ہے مگر وہ اس سنٹر کو قائم کرنا نہیں چاہتے ہیں ۔جب کہ اگر یہ سنٹر قائم ہوجاتا تو شاید اس علاقے کی تعلیمی پسماندگی ختم ہوجاتی ۔

ماسٹر مجاہد عالم جو کوچہ دھامن سے راشٹریہ جنتاد ل کے امیدوار ہیں ۔کہتے ہیںکہ اے ایم یو سنٹر ہمارے لئے بہت بڑا مسئلہ ہے۔ہم نے اے ایم یو کا مسئلہ پٹنہ سے دہلی تک اٹھایا ہے، ہر میٹنگ میں شرکت کی ہے، اور یونیورسٹی کے لیے زمین حاصل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ میں نے اے ایم یو کے تمام وائس چانسلرز سے ملاقات کی ہے۔

جب میںایے ایم یو سنٹر کیلئے الاٹ زمین کو دیکھنے پہنچا تو وہاں بڑی تعداد میں لوگوں ندی کنارے بیٹھے تھے ۔میں نے کئی نوجوانوںسے سوال کیا کہ وہ جانتے ہیںیہاں کیا تعمیر ہونے والا تھا ۔بیشتر نوجوانوںنے کہا کہ وہ نہیںجانتے ہیں۔ایک دو لڑکے نے بتایا کہ یہاںعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا سنٹر بننے والا تھا مگر اب شاید نہیںبنے گا ۔حکومت نہیںچاہتی ہے۔

اے ایم یو کشن گنج سینٹر (اے ایم یو-کے) کے لئے سابقہ حکومت نے 136.82کروڑ روپے مختص کیا تھا مگر اس میںسےصرف10 کروڑ روپے 2014 میں ریلیز ہوئے، اور اس کے بعد کوئی مزید فنڈز نہیں آیا۔

کئی لوگ یہ بھی بتاتے ہیںکہ خود علیگڑھ کی اشرافیہ نہیںچاہتی ہے کہ سنٹر بنے ۔وہ نہیںچاہتے ہیںکہ علی گڑھ میںغریب اور پسماندہ بچے تعلیم حاصل کریں۔اس لئے وہ بھی رخبہ ڈال رہے ہیں ۔

کشن گنج سنٹر کیلئے تحریک کو 15برس کا عرصہ بیت گیا ہے۔المیہ یہ نہیں ہے کہ حکومت نا انصافی کررہی ہے۔مسئلہ یہ نہیںہے کہ بڑی پارٹی کے سیاست داںاس کو فراموش کردیا ہے۔انتخابی مہم کے دوران تیجسوی یادو اور راشٹریہ جنتادل کیلئے مہم چلارہے اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے اے ایم سنٹر کے ایشو کو اٹھایا تھا ۔بلکہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ اب کشن گنج اور سیمانچل کے عام لوگوں کیلئے اے ایم یو سنٹر کا مسئلہ کوئی مسئلہ نہیںہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین