Friday, November 21, 2025
homeاہم خبریںبنگال او بی سی کی فہرست میں مسلمانوں کے حصہ میں کمی...

بنگال او بی سی کی فہرست میں مسلمانوں کے حصہ میں کمی کے خلاف ایس آئی او کا احتجاج

کلکتہ: انصاف نیوز آن لائن

بنگال میں مسلم اوبی سی کا ریزرویشن اپریل 2024سے ہی عدالتوں میں زیر التوا ہے۔طویل قانونی جنگ کے بعد ممتا حکومت نے از سر نو سروے کرانے کے بعد اوبی سی کی نئی فہرست شائع کی ہے۔اس معاملے میں ابھی سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔مگر اس فہرست کو لے کر مسلمانوں میں شدید ناراضگی ہے۔یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ رواں سال مئی اورجون میں نئے سروے کے بعد شائع کی گئی فہرست میں نہ صرف کئی بڑی مسلم برادریوں کو خارج کر دیا گیا ہے بلکہ کئی ہندو ذاتوں کو ”او بی سی اے“ (انتہائی پسماندہ) زمرے میں ڈال دیا گیا ہے اس سے سرکاری نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں 10 فیصد ریزرویشن ملتا ہے، جبکہ کئی مسلم گروہوں کو ”او بی سی اے سے نکال کر اوبی سی بی زمرے میں ڈال دیا گیا ہے۔ جس میں صرف 7 فیصد ریزرویشن ملتا ہے۔

جماعت اسلامی کی طلبا تنظیم ”ایس آئی او“ نے آج کلکتہ کے مولا علی سے اسمبلی تک احتجاجی مارچ کیا تھا۔طلبا نے الزام عائد کیا کہ ممتا حکومت نے نئے سروے میں مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ نہیں کیا گیا ہے۔

2010کی پہلی او بی سی فہرست میں ریاستی مسلم آبادی کے تقریباً 80 فیصد افراد شامل تھے، جو 2011 کی مردم شماری کے مطابق کل آبادی 27.1فیصد ہے۔جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ آبادی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

زمرہ
پرانی فہرست
نئی فہرست
او بی سی اے
80 گروہ (72 مسلم، 8 غیر مسلم)
49 گروہ (35 مسلم، 14 غیر مسلم)
اوبی سی
91 گروہ (40 مسلم، 51 غیر مسلم)
91 گروہ (41 مسلم، 50 غیر مسلم)

پروگریسو انٹلیکچولز آف بنگال کے صدر مناجت بسواس نے انصاف نیوز آن لائن کو بتایا کہ37مسلم برادریوں کو اوبی سی ریزرویشن سے نکال دیا گیا ہے۔جن میں سے 16 پہلے او بی سی اے میں اور 21 او بی سی بی میں تھے۔ ان میں سے کئی انتہائی پسماندہ برادری بھی شامل تھے۔ 34 مسلم اور 7 غیر مسلم ذاتیں او بی سی اے سے بی میں منتقل کر دی گئی ہیں۔
شیر شاہ آبادی، کھٹہ، ملک، راج مستری (راجگیری) جیسی انتہائی مسلم پسماندہ برادری کو اوبی سی اے سے نکال کر اوبی سی میں شامل کردیا گیا ہے۔جب کہ گولہ، گوپے، یادو، کمبھکار، یوگی ناتھ، تنتوبایا، چاسٹی جیسی بڑی ہندو آبادی والی ذاتوں کو اوبی سی بی سے نکال کر اے میں ڈال دیا گیا ہے۔مسلم مجھی برادری کو تو مکمل خارج کر دیا گیا ہے مگر اسی نام کی غیر مسلم برادری کو بی سے اے میں شامل کردیا گیا ہے۔

مظاہرین کے مطابق اس کی وجہ سے پسماندہ مسلم نوجوانوں کو رواں تعلیمی سال میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے سے محروم ہونا پڑ رہا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق کوچ بہار کی پنچانن برما یونیورسٹی میں انگریزی پی ایچ ڈی کے انٹرویو میں تین مسلم امیدوار صرف اس لیے داخلہ نہیں ملا کہ ان کی برادری کو اوبی سی اے سے نکال دیا گیا تھا۔

بانکوڑہ یونیورسٹی میں فزکس، ریاضی، جغرافیہ، تاریخ، فلسفہ اور جرنلزم جیسے مضامین میں ماسٹرز کے لیے او بی سی اے کوٹے سے مسلم طلبا کی تعداد نہیں ہونے کے برابر رہی۔

مغربی بنگال کالج سروس کمیشن نے کالج پرنسپل بھرتی کے لیے 87 امیدواروں کا انتخاب کیا، جن میں ایک بھی مسلم امیدوار کی تقرری نہیں ہوئی ہے۔

اوبی سی اے فہرست میں اصلاح نہیں کیا گیا تو دسمبر 31 تک مکمل ہونے والی اسکول سروس کمیشن کی بھرتی اور دیگر عمل بھی متاثر ہوں گے۔ کلکتہ ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل نے تمام ضلعی ججوں کو ہدایت کی ہے کہ او بی سی اے اور بی کی بھرتیاں فی الحال روک دی جائیں۔

‘یہ واضح نہیں کہ حکومت نے 37 مسلم گروہوں کو ریزرویشن کے لیے نااہل کیوں کیا۔، جن میں سے 16 تو او بی سی اے میں تھے، جبکہ 34 دیگر مسلم برادریوں کو اتنے ’مستحکم‘ سمجھا کہ انہیں بی میں ڈال دیا گیا۔

2010 میں بائیں محاذ کی حکومت نے 66 مسلم ذاتوں کو او بی سی میں شامل کرنے کا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا، جس سے ریاست کی 87 فیصد مسلمانوں کو ریزرویشن مل گیا تھا۔ مگر وہ آرڈر قانون نہ بن سکا اور اگلے سال ہی بائیں محاذ کی حکومت ختم ہوگئی۔

2012 میں ممتا حکومت نے 35 نئی ذاتیں (33 مسلم) شامل کرنے کا بل پاس کیا۔ اسی سال کلکتہ ہائی کورٹ میں اس کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا۔ گزشتہ سال جسٹس برتا چکربرتی اور راج شیکھر منتھا کی بنچ نے 2012 کا قانون کالعدم قرار دے دیا اور حکومت کو قومی ضابطوں کے مطابق نئی فہرست بنانے کا حکم دیا۔ تاہم 2010 کے 66 گروہوں پر یہ حکم نافذ نہیں ہوا۔ معاملہ اب سپریم کورٹ میں ہے۔

انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے ترنمول کانگریس کے ممبر اسمبلی مشرف حسین (جو بیک ورڈ کلاسز کمیشن کے رکن بھی ہیں) نے کہاکہ کچھ مسلمان نئی فہرست سے ناخوش ہیں، ہمیں معلوم ہے۔ مگر اس بار جو سروے ہوا وہ ٹھیک ہے، سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی۔ جنہیں شکایت ہے وہ عدالت جائیں۔

کمیشن کے ایک اور رکن کرشنا ڈے نے کہاکہ ہم نے 41 گروہوں (جن میں زیادہ تر مسلم ہیں) کی عرضیائیں وصول کی ہیں، ان کا جائزہ لے رہے ہیں، لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے۔ سروے اور فہرست قواعد کے مطابق ہی بنائی گئی ہے۔”

ویدیا ساگر یونیورسٹی کے سینئر پروفیسر سمہن بنرجی کہتے ہیں کہ یہ صرف ہندو۔مسلم کا معاملہ نہیں بلکہ پسماندہ طبقات تک فلاحی اسکیموں کو پہنچانے کا ہے۔ اس کے لیے سخت نسلیاتی (ethnographic) مطالعہ ضروری ہے کہ نمونے کس طرح چنے گئے، فیلڈ ورکرز کو تربیت دی گئی یا نہیں، ڈیٹا کیسے جمع اور تجزیہ کیا گیا یہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہے۔

مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ او بی سی کوٹہ 25 فیصد تک بڑھایا جائے تاکہ خارج کیے گئے گروہوں کے لیے جگہ بنے۔ پرانا توازن بحال کیا جائے۔ جو مسلم گروہ او بی سی اے سے خارج ہوئے انہیں واپس لایا جائے۔ ایک نیا، درست سروے ہو اور پرانی فہرست بحال کی جائے جو پسماندہ مسلمانوں کو موقع دیتی تھی۔

عظیم پریم جی یونیورسٹی کے سیاسی ماہر بشریات عادل حسین نے سروے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ محض نمونہ سروے ہے، مکمل مردم شماری نہیں کی گئی۔ سرکاری ملازمتوں اور یونیورسٹیوں میں ہر ذات کی نمائندگی کا مکمل جائزہ لے کر فہرست بنانی چاہیے تھی جیسا کہ بہار، تلنگانہ اور کرناٹک میں کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ لگتا ہے فہرست کچھ مسلم ذاتوں کو سیاسی طور پر خوش کرنے کے لیے دوبارہ ترتیب دی گئی ہے، پسماندہ مسلم برادریوں کو جان بوجھ کر خارج کیا گیا ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین