Monday, December 8, 2025
homeاہم خبریںدہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ہنی بابو کو بھیما کورے گاؤں کیس میں...

دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ہنی بابو کو بھیما کورے گاؤں کیس میں 1955جیل کے بعد ضمانت ملی

بمبئی : انصاف نیوز آن لائن

بمبئی ہائی کورٹ نے جمعرات کو دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اور معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر ہنی بابو کو ضمانت دے دی ہے۔ وہ 2020 سے بھیما گوڑے گاؤں کیس میں گرفتار تھے اور ان پر سخت گیر یو اے پی اے (Unlawful Activities (Prevention) Act) کے تحت الزام لگایا گیا تھا۔

جسٹس اے ایس گڈکری اور جسٹس رنجیت سنہا راجہ بھونسلے کی ڈویژن بنچ نے انہیں ضمانت دی ہے۔ تفصیلی حکم نامہ ابھی موصول ہونا باقی ہے۔

28 جولائی 2020 کو نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے ہنی بابو کو گرفتار کیا تھا۔ وہ ذات پات مخالف کارکن اور سماجی انصاف کے پرجوش حامی ہیں۔

ہنی بابو پر الزام لگایا گیا کہ وہ کئی دیگر معروف دلت اور آدی واسی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ مل کر 31 دسمبر 2017 کو اپنی تقریروں سے ذات پات پر مبنی تشدد بھڑکا رہے تھے، جس کے نتیجے میں اگلے دن مہاراشٹر کے بھیما کورے گاؤں اور آس پاس کے دیہاتوں میں پرتشدد جھڑپیں ہوئیں۔ حکام نے ان پر یہ بھی الزام لگایا کہ ان کے ممنوعہ ماؤسٹ گروہوں سے رابطے تھے۔ ان پر آئی پی سی کی متعدد دفعات اور یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

فی الحال ہنی بابو نوئی ممبئی کی تالوجہ سینٹرل جیل میں ہیں۔

2021 میں ان کے اہل خانہ اور وکلاء نے الزام لگایا تھا کہ آنکھوں میں شدید انفیکشن، درد اور بینائی کمزور ہونے کی شکایت کے باوجود انہیں علاج سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

ہنی بابو کی اہلیہ جینی روینا نے کہا تھا کہ
”یہ واقعی خوفناک بات ہے کہ ایک یونیورسٹی پروفیسر بغیر ٹرائل کے، بغیر کسی مخصوص جرم کے (چارج شیٹ کے مطابق بھی)، صرف اپنے کمپیوٹر میں ملنے والے دستاویزات کی بنیاد پر اتنے سالوں سے جیل میں پڑا ہے۔ وہ کمپیوٹر گرفتاری سے پہلے پولیس نے چھاپے میں ضبط کیا تھا، اور وہ بھی بغیر کسی قانونی طریقہ کار کے۔“

جینی روینا خود بھی دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کہ
”یہ دکھاتا ہے کہ سماجی بہتری کے لیے کام کرنے والا اور حکومت کی لکیر سے ہٹ کر چلنے والا کوئی بھی شخص اس طرح پھنسایا جا سکتا ہے۔ اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اس کی مذمت کی جانی چاہیے“

متعلقہ خبریں

تازہ ترین