Monday, December 15, 2025
homeاہم خبریںبنگالی لسانی قوم پرستی -اوراردو کے ساتھ تعصب

بنگالی لسانی قوم پرستی -اوراردو کے ساتھ تعصب

اسماعیل صلاح الدین،محمد عاقب
ترجمہ : نور اللہ جاوید

بنگالی میں بنگالی زبان کی تحریک اور بنگالی قوم پرستی آر ایس ایس کی ”قوم پرستی“ کے امکانات کو کھول رہی ہے۔ ٹیگور کی انسانیت پسندی اور قاضی نذرالاسلام کے بغاوتی نعروں کی روح ختم ہو رہی ہے۔ بنگالی مسلمان ”بنگلہ قوم پرستی“ کی تحریک میں اپنی مذہبی و ثقافتی شناخت سے محروم ہو رہے ہیں۔

بی جے پی کی ”جارحانہ قوم پرستی“ کی تحریک کے جواب میں ممتا بنرجی اور ترنمول کانگریس نے ”بنگلہ فخر اور بنگالی زبان کی تحریک“ کے ذریعے مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے اور گزشتہ اسمبلی و پارلیمانی انتخابات میں اس کے ذریعے انہیں کامیابی ملی ہے۔ مگر اس تحریک نے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ مشہور انگریزی میگزین ”دی کاروان“ میں اسماعیل صلاح الدین اور محمد عاقب نے اس تحریک کے عواقب اور مستقبل میں بنگال کی اردو آبادی اور بنگالی مسلمانوں پر ہونے والے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے نشاندہی کی ہے کہ جب جب ملک میں لسانی قوم پرستی کی تحریک شروع ہوئی ہے تو آخر میں اس کا سیاسی فائدہ کس کو ہوا ہے۔ نور اللہ جاوید نے اس تفصیلی مضمون کا خلاصہ مرتب کیا ہے۔

آج کل مغربی بنگال میں قوم پرستی ”زعفرانی چوغہ“ پہنے نظر آتی ہے۔ وہ بنگال جو کبھی رابندراناتھ ٹیگور کی انسانیت پسندی اور قاضی نذرالاسلام کے بغاوتی نعروں کی آواز اٹھاتا تھا، اب اسے ایک ہتھیار بنا دیا گیا ہے جو مسلمانوں پر، بالخصوص اردو بولنے والوں پر وار کرتا ہے۔ ”بنگلا پکھو“ جیسی مقامی نسل پرستانہ لسانی گروہ نے ”بنگالی محاذ“ کے نام پر ایک ایسی جنگ چھیڑ رکھی ہے جس کی زد میں بنگال میں آباد اردو بولنے والے مسلمان براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ مگر بنگالی دانشور طبقہ انہیں اپنی ثقافت کا محافظ سمجھ کر داد دے رہا ہے۔ یہ ایک خطرناک تضاد ہے۔ مرکزی حکومت کی ”ہندی۔ ہندو بالادستی“ کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے وہ خود اسی منطق کو دہرا رہے ہیں۔ بی جے پی کا ”ہندو، ہندوستان جو ہندی بولتا ہو“، کلکتہ میں بس اتنا ہی بدل گیا ہے کہ اب یہ ”ایک بنگال، ایک زبان اور ایک شناخت“ کا تصور بن گیا ہے۔

یہ تبدیلی اتفاقیہ نہیں ہے۔ یہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی سوچی سمجھی کاریگری ہے۔ آر ایس ایس کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاسی فتوحات کی ضرورت نہیں ہے، بس اسے اپنے نظریے اور آئیڈیالوجی کو پھیلانا اس کا بنیادی مقصد ہے۔ چاہے زعفرانی جھنڈوں تلے ہو یا ”جئے بنگلہ“ کے نعروں کے ذریعے، زمین ہموار کی جا رہی ہے ایک ایسے مستقبل کی جہاں بنگال کا کثیرالثقافتی دل خاموش ہو جائے گا۔ یہاں مسلمانوں کا خاتمہ نہ اچانک ہے نہ تماشائی؛ یہ خاموش، افسرشاہی اور بے رحم انداز میں ہو رہا ہے۔ اب سوال یہ نہیں کہ بنگالی قوم پرستی کثیرالثقافتی پن کا دفاع کر سکتی ہے یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ کیا وہ پہلے ہی ہندوتوا کا ایک اور نقاب بن چکا ہے؟

گزشتہ چند سالوں میں بی جے پی کا مغربی بنگال میں بنیادی ہتھکنڈہ رہا ہے کہ بنگالی مسلمانوں کو روہنگیا اور بنگلہ دیشی کہہ کر نشانہ بنایا جائے اور باقی ہندوستان میں انہیں شیطانی شکل دی جائے۔ یہ حکمت عملی ہندو ووٹوں کو متحد کرنے کے لیے تھی۔ مبینہ ”گھس بیٹھیوں“ مسلمانوں کے خلاف صف بندی کی جائے۔ مگر ریاست میں بی جے پی کی مضبوط قیادت نہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ الیکشن میں پارٹی پیچھے رہی اور اسے پیچھے ہٹنا پڑا۔

بی جے پی کو اس کے اپنے کھیل میں ہرانے کے لیے آل انڈیا ترنمول کانگریس کے لیڈروں نے بھی اسی سیاست کی بازگشت کو آواز دی۔ بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں بنگالی بولنے والے مہاجروں پر حملوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے انہوں نے ”لسانی تحریک“ شروع کی۔ بنگالی زبان اور شناخت کے تحفظ کے لیے مظاہرے کیے۔ غیر بنگالی قانون ساز اسمبلی لیڈر بھی کلکتہ کے مسلم غریب محلوں میں ایسے جلوس نکال رہے ہیں جہاں اکثریت اردو بولتی ہے۔

ایک خاص زبان کے حق میں یہ اجتماعی ہمدردی اور ایکشن—خواہ بولنے والے نہ ہوں—شاید بی جے پی کی سیاست کو دھچکا دے اور 2026 میں ترنمول کانگریس کی جیت کے امکانات بڑھا دے، مگر اس سے بنگالی قوم پرستی کا ایک نیا احیا بھی ہو گا۔ جو کچھ بی جے پی کی ہندی۔ ہندو بالادستی کے خلاف دفاع کا ہتھیار تھا، وہی جلد ہی حملے کا آسان ہتھیار بن جائے گا، جسے دوسرے گروہ استعمال کر کے وہی وائرس پھیلائیں گے جس نے پچاس سال قبل بنگلہ دیش کو عدم استحکام سے دوچار کیا تھا—بنگلہ بمقابلہ اردو کا تقسیم۔

اس دوران آر ایس ایس خوب پھل پھول رہا ہے۔ بی جے پی کی مدر تنظیم سمجھے جانے کے باوجود سنگھ نے ہمیشہ ایک طرح کی خود مختاری سے کام لیا ہے۔ ترنمول کانگریس کی حکومت میں بھی پورے مغربی بنگال میں، کلکتہ کے کئی علاقوں سمیت، آر ایس ایس کی شاکھائیں برسات کے کھمبوں کی طرح اضافہ ہو گئی ہیں۔ وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے کھل کر کہا ہے کہ آر ایس ایس میں سب برے نہیں، بہت سے لوگ بی جے پی کو سپورٹ بھی نہیں کرتے۔ سنگھ ان کا دشمن نہیں ہے۔ یہ صورت حال 2026 میں بی جے پی کے لیے آگے بڑھنا مشکل بنا سکتی ہے، مگر آر ایس ایس کے لیے ہوا کا جھونکا ہے۔ کیونکہ اسے مواقع مل رہے ہیں کہ عوام کس موضوع پر ووٹ ڈالے، وہ بیانیہ طے کر رہا ہے۔

آر ایس ایس نے مہاراشٹر، کرناٹک اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں میں نسلی اور لسانی قوم پرستی کی نسل پرستانہ نظریاتی بنیاد کو مضبوط کرنے میں خوب محنت کی ہے تاکہ برہمنیت اور ہندوتوا کا تقسیم در تقسیم والا جوہر عوام میں زندہ رہے۔ سنگھ کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پوری ریاست ترنمول کانگریس کے جھنڈے تلے متحد ہو جائے۔ وہ کسی بھی مین اسٹریم پارٹی سے اپنا کام لے سکتا ہے۔ اس کی حکمت عملی ہے۔

بنگلا پوکھو کے سربراہ گارگا چٹرجی کی سرگرمیاں اکثر لسانی بالادستی کے گرد گھومتی ہیں، اور جمہوری شمولیت کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ ان کی تحریریں ”بنگالی“ کے زمرے کو بار بار ایک جہت میں سمیٹتی ہیں یعنی ثقافتی طور پر ہندو، بالائی ذات اور یک زبانی۔ اس تصور میں بنگالی مسلمانوں، دلتوں، قبائلیوں اور اردو بولنے والی برادریوں کی متنوع حقیقتوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ بنگلا پوکھو نے سرکاری ملازمتوں میں بھرتی کے لیے ہندی اور اردو کے استعمال کے خلاف مہم چلائی ہے اور بنگالی کو لازمی قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

رواں سال کے شروع میں ریاستی حکومت نے اپنے سابقہ فیصلے کو واپس لیتے ہوئے مغربی بنگال سول سروسز امتحان میں ہندی اور اردو کو اختیاری پرچہ زبان کے طور پر شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سے مزدور طبقے کے اردو بولنے والے مسلمان سمیت زیادہ وسیع حلقے کے امیدواروں کو موقع ملتا۔ لیکن بنگلا پوکھو اور اس کے حلیف گروپوں نے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی اور بنگالی کو دوبارہ لازمی بنانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے صرف ہندی کے شامل کیے جانے کی مخالفت نہیں کی بلکہ اردو کی بھی، حالانکہ اس کے ہزاروں بولنے والے کئی نسلوں سے کلکتہ میں آباد ہیں۔ بنگلا پوکھو کا دعویٰ تھا کہ سرکاری ملازمت میں نیپالی اور سنتھالی (ریاست کی سب سے بڑی آدی واسی برادری کی زبان) کا استعمال تو ٹھیک ہے کیونکہ یہ زبانیں ”بنگال کی جڑوں“ سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ مطالبات اردو کو بنگالی شناخت سے بالکل بے تعلق قرار دیتے ہیں اور مہاراشٹر میں شیو سینا کے لسانی نسل پرستانہ رویے سے ملتی جلتی ہیں، حالانکہ پوکھو یہ کہتی رہی کہ اس کی تحریک شیو سینا کی ”لسانی نسل پرستانہ“ تحریک کی طرح نہیں ہے۔ بی جے پی مخالف لہجے کے باوجود، اس کے طریقہ کار وہی اخراج کی سیاست ہیں، بس زبان اور لہجہ مختلف ہے۔

”بنگالی شناخت“ کی تحریک کو آگے بڑھا کر اور لسانی اتحاد کے ہر سیاسی سوال کا حل سمجھ کر گارگا چٹرجی بالواسطہ مغربی بنگال کے ثقافتی دائرے میں ”ہندو فرسٹ“ ڈھانچے کو مضبوط بنا رہے ہیں، اور آر ایس ایس جو قومی سطح پر درجہ بندی کی سیاست کرتا ہے، اس کے لیے مقامی سکرپٹ مہیا کر رہے ہیں۔ ان کا کردار مغربی بنگال میں بی جے پی مخالف مزاحمت کے معنی کو پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ سوال یہ لازمی ہے کہ کیا ہندو قوم پرست ہتھیاروں سے بی جے پی سے لڑنا واقعی ریاست کی کثیرالثقافتی تاریخ کا تحفظ کرتا ہے؟

موجودہ بنگالی قوم پرستی کے عروج کا پوشیدہ شکار مغربی بنگال کی اردو بولنے والی مسلم آبادی ہے۔ کلکتہ میں یہ برادریاں تاریخی طور پر گارڈن ریچ، مٹیابرج، راجہ بازار، پارک سرکس اور شمالی کلکتہ کے کچھ حصوں میں آباد ہیں اور ریاست میں ان کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ حال ہی میں مرکزی ریلوے وزیر اشونی ویشنو نے پارک سرکس اسٹیشن پر تجاوزات ہٹانے میں ناکامی پر افسوس کا اظہار کیا اور ریاستی حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا۔ ان کے انداز سے ظاہر ہوا کہ ریاستی حکام شہری غریب مسلمانوں کو عوامی املاک اور وسائل پر قابض کیسے قرار دیتے ہیں۔ عوامی املاک کا یہ درد گزشتہ سال کمبھ میلے کے دوران نہیں جھلکا جب مختلف ریاستوں میں بھیڑ والے ٹرینوں پر حملے ہوئے، شدید نقصان ہوا اور لوگ زخمی بھی ہوئے۔ کوئی وزارتی غم و غصہ سامنے نہیں آیا کیونکہ مجرم ہندو زائرین تھے۔ یہی دوہرا معیار چٹرجی کے حالیہ سوشل میڈیا پوسٹ میں بھی نظر آیا جب انہوں نے گلشن کالونی (کلکتہ کی ایک اور مسلم اکثریتی بستی) کے بارے میں لکھا اور ”غیروں“ کے گھروں پر بلڈوزر چلانے کا مطالبہ کیا جو بنگالی نہیں بولتے۔ پارک سرکس اور گلشن کالونی دونوں نچلے متوسط طبقے کے اردو بولنے والے مسلمانوں کا گھر ہیں، اور دونوں جگہ قانونی زبان دراصل اخراج کی سیاست کا پردہ ہے۔

اردو کو بنگالی ثقافت کے مخالف سمجھنا تاریخی طور پر غلط ہے۔ 19ویں اور 20ویں صدی کے اوائل میں کلکتہ میں اردو ادب نے خوب ترقی کی۔ آخری نوابِ اودھ واجد علی شاہ نے مٹیابرج میں جلاوطنی گزاری۔ اردو شہر میں شاعری، درباری ثقافت اور مزدور طبقے کے رابطے کی زندہ زبان تھی۔ نوآبادیاتی بنگال میں اردو کبھی صرف مسلمانوں کی زبان نہیں رہی جیسا کہ ہندو احیا پسندوں نے کارٹون بنایا۔ پاپیا گپتا نے اپنی کتاب ”Language as Identity in Colonial India: Policies and Politics“ میں لکھا ہے کہ بہت سے شہری مراکز میں اردو شاعری، نثر اور صحافت بنگالی ادب کے ساتھ مکالمے میں پروان چڑھی ہے۔ انجمن ترقی اردو (ہند) جیسے ادارے جو 1882 میں قائم ہوا تھا، ادبی تبادلے اور تراجم کو فروغ دیتے رہے۔ 1947 کے بعد مشرقی پاکستان میں اردو کے مسلط کیے جانے کے برعکس جہاں وہ بنگالی شناخت کے خلاف ہتھیار بنا، مغربی بنگال میں اردو کی روایت بنگالی کے ساتھ ساتھ، اکثر ایک ہی فکری حلقوں میں پروان چڑھی۔

مغربی بنگال میں اردو نے کبھی غلبہ نہیں مانگا؛ وہ اشتراکِ زیست سے زندہ رہی۔ ریاست کے بہت سے مسلم شاعروں نے دونوں زبانوں میں لکھا اور نوآبادیاتی و قوم پرست ”مسلم اردو بمقابلہ ہندو بنگالی“ کی دوہری تقسیم تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ اور پھر بھی، جیسا کہ اے جی نورانی نے اپنی کتاب ”The RSS: A Menace to India“ میں لکھا ہے کہ ہندو دائیں بازو نے اردو کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا، اس کے حقیقی استعمال سے زیادہ اسے غیر کے طور پر دیکھا ہے۔

یہ اردو بولنے والے مسلمانوں کو سیاسی اور معاشی مرکزی دھارے سے الگ رکھنے کا عمل مزید مضبوط کرتا ہے۔ 2005 میں شائع ہونے والی سچر کمیٹی رپورٹ کے مطابق یہ پہلے ہی ریاست کے سب سے زیادہ معاشی پسماندہ گروہوں میں سے ہیں، تعلیم کے خراب نتائج، ملازمتوں تک محدود رسائی اور بڑھتی ہوئی ثقافتی مٹاؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔ بنگالی قوم پرست بیانیہ انہیں کوئی جگہ نہیں دیتا، تصوراتی بنگالی بولنے والوں کی برادری سے باہر نکال دیتا ہے۔ ان کی زبان محفوظ نہیں کی جاتی۔ ان کی تاریخ یاد نہیں رکھی جاتی۔

دوسری طرف بنگالی بولنے والے مسلمان خود کو ایک کٹھن صورتحال میں پاتے ہیں۔ وہ اپنی تعلقیت ثابت کرنے کے لیے حکمت عملی سے بنگالی قوم پرستی کو گلے لگاتے ہیں۔ مگر ایسا کرنے کے لیے انہیں اپنی شناخت کے کچھ حصوں کو چھپانا پڑ رہا ہے۔ ان کے ثقافتی انداز، مذہبی ضروریات اور سیاسی آوازیں برداشت تو کی جاتی ہیں مگر مرکز میں نہیں لائی جاتیں۔ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مسلسل اپنا ”بنگالی پن“ ثابت کرتے رہیں اور برادری سے متعلق کوئی مسئلہ نہ اٹھائیں جسے ”فرقہ وارانہ“ قرار دیا جا سکے۔

یہ حرکیات مجموعی طور پر مسلم سیاسی طاقت کو پارہ پارہ کر رہی ہیں۔ اردو بولنے والے اپنی نمائندگی کھو رہے ہیں۔ بنگالی بولنے والے مسلمان اپنی خود مختاری سے محروم ہو رہے ہیں۔ بنگالی شناخت ہی احتجاج کی واحد قابلِ قبول زبان بن کر رہ گئی ہے، چاہے وہ مغربی بنگال کے مسلمانوں کے حقیقی عدم مساوات کے مسائل کا حل پیش نہ کرے۔

سچائی تکلیف دہ ہے، مگر یہ کہنا لازمی ہے کہ ”اصل ہدف نہ تو بنگالی زبان ہے اور نہ ہی اس کے دفاع میں پکارے جانے والے ثقافتی آئیکون“۔ اصل ہدف بنگالی مسلمان ہیں، بالخصوص وہ جو زبان، مذہب، ذات اور طبقے کے نازک سنگم پر کھڑے ہیں۔ جب آسام میں بنگالی زبان کے استعمال کو مجرم قرار دیا جاتا ہے تو ٹیگور یا بوس کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا۔ جب دہلی میں شہریت پر سوال اٹھتا ہے تو بنگالی ہندو پروفیشنلز کو نہیں دیکھا جاتا۔ نشانہ غریب مسلم مزدور، مہاجر اور ”غیر قانونی“ کالونیوں کے رہائشی ہوتے ہیں۔

مغربی بنگال میں بنگالی قوم پرستی صرف ثقافتی احیا نہیں ہے۔ یہ ایک سیاسی حکمت عملی ہے جو ہندو اکثریتی سانچوں سے پانی پیتے ہوئے خود کو سیکولر ڈھال کے طور پر پیش کرتی ہے۔ یہ بنگالی مسلمانوں کو ایک نازک جگہ دیتی ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اختلافِ رائے کو خاموش کر دیا جائے۔ یہ ایسی شخصیات اور بیانیوں کو بلند کرتی ہے جو ہندوتوا کی فکری ساخت کی بازگشت ہیں، چاہے انہیں بی جے پی کے خلاف ہی استعمال کیا جائے۔ حالیہ حکومتی حکم میں مغربی بنگال کے ہر سنیما ہال میں روزانہ کم از کم ایک بنگالی فلم دکھانی لازمی ہے، ثقافتی تحفظ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، مگر حقیقت میں یہ ثقافتی پولیسنگ ہے۔ جو زبان کا جشن لگتا ہے، دراصل ایک واحد شناخت مسلط کرنے اور بنگال کی کثیر لسانی، کثیرالثقافتی روایتوں کو پسِ پشت ڈالنے کا طریقہ ہے۔

ہندی کے تسلط کے خلاف مزاحمت اس کے طریقوں کی نقل کر کے کامیاب نہیں ہو سکتی۔ بنگالی ثقافت کا دفاع اس کی تنوع کو کچل کر نہیں ہونا چاہیے۔ عوامی بیانیے میں جب بنگالی مسلمانوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، نگرانی میں رکھا جاتا ہے یا حراست میں لیا جاتا ہے تو غالب فریم ”بنگالیوں پر حملہ“ ہوتا ہے، نہ کہ ”مسلمانوں پر حملہ“۔ یہ فرق اہم ہے۔ اگر آپ دہلی یا آسام میں بنگالی ہندو ہیں تو آپ کو معمول کا تعصب کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اگر آپ بنگالی مسلمان ہیں تو آپ ”بنگلہ دیشی“ یا ”روہنگیا“ ہیں، چاہے کاغذات کتنے ہی مکمل ہوں۔ دشمنی کی جڑ زبان میں نہیں، مذہب میں ہے۔ مگر سیاسی کارندوں کے لیے زبان ایک محفوظ جھنڈا ہے جس کے نیچے جمع کیا جا سکتا ہے۔

ترنمول کانگریس یہ بات اچھی طرح سمجھتی ہے۔ متاثرین کو ”مسلمانوں“ کے بجائے ”بنگالیوں“ کہہ کر وہ ہندو ووٹروں کو ناراض نہیں کرنا چاہتی جو کھلی مسلم یکجہتی دیکھ کر برہم ہو سکتے ہیں۔ مگر یہ حکمت عملی دو دھاری تلوار ہے: یہ مسلم شناخت کے مٹاؤ کو مزید مضبوط کرتی ہے اور ہندوتوا کی قوتوں کو اجازت دیتی ہے کہ امتیازی سلوک کا اصل محور یعنی مذہب کو کھلم کھلا چھپایا جائے۔

خطرہ آخر کار یہ نہیں کہ مسلمانوں کو خارج کیا جا رہا ہے، بلکہ یہ ہے کہ ان کا اخراج پردے میں ہو رہا ہے، ثقافتی فخر اور علاقائی خود داری کے بیانیے میں لپٹا ہوا ہے۔ جب حزبِ اختلاف کی سیاست بھی یہی زبان اپنائے تو کون اس تشدد کو اس کے اصل نام سے پکارے گا؟ اور اگر بنگالی قوم پرستی خود ہندوتوا کا نقاب بن جائے تو ٹیگور اور نذرالاسلام کے کثیرالثقافتی بنگال کا مستقبل کیا رہ جاتا ہے؟

متعلقہ خبریں

تازہ ترین