Tuesday, January 21, 2025
homeاہم خبریںجنگ بندی معاہدہ طے ہوچکا لیکن دنیا کو اسرائیلی مظالم بھولنے نہیں...

جنگ بندی معاہدہ طے ہوچکا لیکن دنیا کو اسرائیلی مظالم بھولنے نہیں چاہئیں

بلآخر 15 ماہ بعد غزہ میں جاری نسل کشی کو روک دیا گیا ہے۔ اب یہ معاہدہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں مستقل جنگ بندی کا باعث بنتا ہے یا نہیں، اس حوالے سے یقین سے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔

فی الحال فلسطینیوں کو اتنا وقفہ ملا ہے کہ وہ اپنے شہدا کا غم منا سکیں جن کی تعداد 46 ہزار سے بھی زائد ہے جبکہ زیادہ تر کی میتیں اب بھی ملبے تلے دبی ہیں۔ وہ اپنے زخموں پر مرہم رکھ سکتے ہیں اور اس دوران یہ مستقل ڈر نہیں ہوگا کہ وہ کسی وقت بھی اسرائیلی بمباری کا نشانہ بن سکتے ہیں۔

تین مراحل پر مشتمل جنگ بندی کا معاہدہ قطر، مصر اور امریکا کی ثالثی میں بدھ کے روز طے پایا جس میں حماس اور اسرائیل کے درمیان یرغمالیوں کے تبادلے کی شرط شامل ہے، غزہ کے عوام کو امداد کی فراہمی بحال جبکہ غزہ کی پٹی سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا بھی معاہدے کا حصہ ہے۔

اب یہ تل ابیب کی سنجیدگی پر منحصر ہے کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے کی پاس داری کیسے کرتے ہیں۔ البتہ جنگ بندی کا اعلان ہونے کے باوجود (جس کا اطلاق اتوار سے ہوگا) اسرائیل کی جانب سے غزہ میں قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ حماس کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔ تاہم ایسا نہیں ہوا اور تل ابیب نے فلسطینی مسلح گروہ سے معاہدہ کرلیا۔ اس نے ظاہر کیا کہ جدید امریکی ہتھیاروں سے لیس دنیا کی سب سے مسلح افواج بھی قابض لوگوں کے جذبے کو توڑ نہیں پائیں جنہوں نے ہزاروں جانیں قربان کردیں لیکن اپنی زمین سے دستبردار ہونے سے انکار کردیا۔

جہاں یہ امید کی جارہی ہے کہ یہ امن معاہدہ مستقل جنگ بندی میں تبدیل ہوگا اور غزہ کے عوام کو جلد از جلد امداد کی فراہمی ہوگی وہیں دنیا کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اسرائیل نے اس چھوٹی سی ساحلی پٹی میں ان 15 ماہ میں کیا مظالم ڈھائے ہیں۔

ہزاروں افراد شہید ہوگئے، قیدیوں کے ریپ اور ان کے استحصال سے متعلق رپورٹس سامنے آئیں، کمسن بچوں کی سردی سے جم کر اموات ہوئیں، آبادی کے ایک بڑے حصے نے بھوک و افلاس کا سامنا کیا جبکہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں صاف پانی کی رسائی بھی منقطع کردی گئی تھی۔ ان تمام جرائم کی مکمل تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے اور مجرمان کو احتساب کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔

انٹرنیشنل کرمنل کورٹ (آئی سی سی) میں جنگی جرائم کے مقدمات کی سماعت اور جنوبی افریقہ کی جانب سے عالمی عدالت (آئی سی جے) میں دائر نسل کشی کے مقدمات کی مکمل طور پر پیروی ہونی چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ اسرائیل دوبارہ فلسطینی عوام کو ان بہیمانہ جنگی جرائم کا نشانہ نہ بنا سکے۔

جنگ کے بعد کیا ہوگا، اس حوالے سے بہت سی تجاویز دی جاتی ہیں لیکن قضیہ فلسطین کا پائیدار حل آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔ ایسا کرنے کے لیے سب سے پہلے اسرائیل کو تمام مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے قبضہ ختم کرنا ہوگا جبکہ ایک خود مختار عرب ریاست کے قیام کے لیے اتفاق کرنا ہوگا۔

ٹکڑوں میں تقسیم فلسطینی آبادی جنہیں اسرائیل باآسانی اپنی جارحانہ کارروائیوں کا نشانہ بنا سکتا ہے، مسئلے کا حل نہیں ہے۔ غزہ کی نسل کشی نے فلسطینی اتھارٹی کی مکمل بے بسی کو بھی آشکار کیا کہ کس طرح وہ عالمی سطح پر فلسطین کا مقدمہ لڑنے میں ناکام رہی۔ تمام فلسطینی تنظیمیں بالخصوص حماس اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کو متحد ہوکر قابض قوت کا یکجہتی سے مقابلہ کرنا ہوگا۔

اگر اسرائیل ایک بار پھر اپنے قریبی ساتھی واشنگٹن کا سہارا لے کر اپنی جارحانہ روش پر واپس آتا ہے تو فلسطینیوں کے پاس مزاحمت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

قطر کی وزارت خارجہ نے ہفتے کو بتایا کہ غزہ میں سیز فائر معاہدے پر عمل درآمد اتوار کو ساڑھے چھ بجے (جی ایم ٹی) ہو گا۔

قطری وزارت خارجہ کے ترجمان نے آج ایکس پر اپنی ٹویٹ میں معاہدے کے نافذ العمل ہونے کا وقت شیئر کیا۔ پاکستانی وقت کے مطابق یہ معاہدہ صبح 11:30 پر نافذ ہو گا۔

ادھراسرائیلی کابینہ نے آج صبح غزہ میں فائر بندی کے معاہدے کی منظوری دے دی، جس کے تحت وہاں سے درجنوں اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا اور حماس کے ساتھ 15 ماہ سے جاری لڑائی روک دی جائے گی۔

اسرائیلی حکومت نے یہ اعلان مقبوضہ بیت المقدس کے مقامی وقت کے مطابق رات ایک بجے کے بعد کیا اور تصدیق کی کہ فائر بندی اتوار کو نافذ العمل ہو گی۔

کابینہ کا طویل اجلاس یہودی سبّت کے آغاز کے بعد بھی جاری رہا۔ سبت یہودی مذہبی عقائد کے مطابق ہفتہ وار مقدس دن ہے، جو جمعے کی شام سورج غروب ہونے سے لے کر ہفتے کی شام سورج غروب ہونے تک جاری رہتا ہے۔

یہودی قانون کے مطابق اسرائیلی حکومت عام طور پر سبّت کے دوران تمام کاروباری سرگرمیاں بند رکھتی ہے سوائے ہنگامی معاملات کے۔

مذاکرات کار قطر اور امریکہ نے بدھ کو فائر بندی کا اعلان کیا تھا لیکن وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے مطابق حماس کی جانب سے آخری لمحات کی پیچیدگیوں کی وجہ سے معاہدہ ایک دن سے زائد معطل رہا۔

فائر بندی کے حوالے سے کئی اہم سوالات باقی ہیں، جن میں پہلے چھ ہفتوں کے دوران رہا کیے جانے والے 33 اسرائیلی قیدیوں کے نام اور ان کی موجودہ صورت حال شامل ہیں۔

نتن یاہو نے ایک خصوصی ٹیم کی تشکیل کا حکم دیا ہے جو قیدی وصول کرے گی۔ ان 33 قیدیوں میں خواتین، بچے، 50 سال سے زائد عمر کے مرد، اور بیمار یا زخمی افراد شامل ہیں۔

حماس نے معاہدے کے پہلے دن تین خواتین قیدیوں کو رہا کرنے اور ساتویں دن مزید چار کو چھوڑنے کا عہد کیا ہے، جبکہ باقی 26 افراد کو اگلے پانچ ہفتوں میں رہا کیا جائے گا۔

قطر کی وزارت خارجہ نے ہفتے کو بتایا کہ غزہ میں سیز فائر معاہدے پر عمل درآمد اتوار کو ساڑھے چھ بجے (جی ایم ٹی) ہو گا۔

قطری وزارت خارجہ کے ترجمان نے آج ایکس پر اپنی ٹویٹ میں معاہدے کے نافذ العمل ہونے کا وقت شیئر کیا۔ پاکستانی وقت کے مطابق یہ معاہدہ صبح 11:30 پر نافذ ہو گا۔

ادھراسرائیلی کابینہ نے آج صبح غزہ میں فائر بندی کے معاہدے کی منظوری دے دی، جس کے تحت وہاں سے درجنوں اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا اور حماس کے ساتھ 15 ماہ سے جاری لڑائی روک دی جائے گی۔

اسرائیلی حکومت نے یہ اعلان مقبوضہ بیت المقدس کے مقامی وقت کے مطابق رات ایک بجے کے بعد کیا اور تصدیق کی کہ فائر بندی اتوار کو نافذ العمل ہو گی۔

کابینہ کا طویل اجلاس یہودی سبّت کے آغاز کے بعد بھی جاری رہا۔ سبت یہودی مذہبی عقائد کے مطابق ہفتہ وار مقدس دن ہے، جو جمعے کی شام سورج غروب ہونے سے لے کر ہفتے کی شام سورج غروب ہونے تک جاری رہتا ہے۔

یہودی قانون کے مطابق اسرائیلی حکومت عام طور پر سبّت کے دوران تمام کاروباری سرگرمیاں بند رکھتی ہے سوائے ہنگامی معاملات کے۔

مذاکرات کار قطر اور امریکہ نے بدھ کو فائر بندی کا اعلان کیا تھا لیکن وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے مطابق حماس کی جانب سے آخری لمحات کی پیچیدگیوں کی وجہ سے معاہدہ ایک دن سے زائد معطل رہا۔

فائر بندی کے حوالے سے کئی اہم سوالات باقی ہیں، جن میں پہلے چھ ہفتوں کے دوران رہا کیے جانے والے 33 اسرائیلی قیدیوں کے نام اور ان کی موجودہ صورت حال شامل ہیں۔

نتن یاہو نے ایک خصوصی ٹیم کی تشکیل کا حکم دیا ہے جو قیدی وصول کرے گی۔ ان 33 قیدیوں میں خواتین، بچے، 50 سال سے زائد عمر کے مرد، اور بیمار یا زخمی افراد شامل ہیں۔

حماس نے معاہدے کے پہلے دن تین خواتین قیدیوں کو رہا کرنے اور ساتویں دن مزید چار کو چھوڑنے کا عہد کیا ہے، جبکہ باقی 26 افراد کو اگلے پانچ ہفتوں میں رہا کیا جائے گا۔

فلسطینی قیدیوں کو بھی رہا کیا جائے گا۔ اسرائیل کی وزارت انصاف نے معاہدے کے پہلے مرحلے میں رہا کیے جانے والے 700 قیدیوں کی فہرست شائع کرتے ہوئے کہا کہ یہ رہائی اتوار کو شام چار بجے سے پہلے شروع نہیں ہو گی۔ فہرست میں شامل تمام افراد یا تو کم عمر ہیں یا خواتین۔

اسرائیلی جیل انتظامیہ نے اعلان کیا کہ قیدیوں کو بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کی بجائے وہ خود منتقل کرے گی۔

قیدیوں پر الزامات میں اکسانا، توڑ پھوڑ، دہشت گردی کی حمایت، دہشت گردی کی سرگرمیاں، قتل کی کوشش یا پتھر یا آتش گیر بوتل پھینکنا شامل ہیں۔

توقع ہے کہ غزہ، جو بڑی حد تک تباہ ہو چکا ہے، کو انسانی امداد کی فراہمی میں اضافہ ہوگا۔ امدادی سامان لے جانے والے ٹرک جمعے کو رفح کے سرحدی راستے پر مصر کی جانب کھڑے تھے۔

ایک مصری اہلکار نے بتایا کہ اسرائیلی فوج اور اسرائیل کی اندرونی سکیورٹی ایجنسی شین بیٹ کے وفد نے جمعے کو قاہرہ پہنچ کر سرحدی گزرگاہ کو دوبارہ کھولنے پر بات چیت کی۔

ایک اور اسرائیلی اہلکار نے بھی وفد کے قاہرہ جانے کی تصدیق کی۔ دونوں اہلکاروں نے بات چیت کی نجی نوعیت کے باعث نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ معلومات فراہم کیں۔

فائر بندی کے پہلے مرحلے کے دوران اسرائیلی افواج غزہ کے کئی علاقوں سے پیچھے ہٹ جائیں گی، جس کے باعث لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں کو واپس جا سکیں گے، جو کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔

اسرائیلی کابینہ کے فیصلے کے منتظر غزہ کے ایک بے گھر شخص اخلاص الکافرنا نے کہا کہ ’اتوار آنے پر، ان شااللہ، ہم زیادہ خوش ہوں گے۔‘

پچھلے مہینوں میں فائر بندی کے مذاکرات بار بار تعطل کا شکار ہوتے رہے، لیکن بائیڈن انتظامیہ اور نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دباؤ کے باعث اسرائیل اور حماس کو ایک معاہدے پر پہنچنے کے لیے مجبور کیا گیا۔

فائر بندی کے اعلان کے باوجود غزہ میں اسرائیلی جارحیت جاری ہے اور غزہ کی وزارت صحت کے مطابق گذشتہ 24 گھنٹوں میں 88 لاشیں ہسپتالوں میں لائی گئیں۔

گذشتہ تنازعات میں فائر بندی سے پہلے کے آخری گھنٹوں میں دونوں فریق اپنی طاقت دکھانے کے لیے حملوں میں شدت لاتے رہے ہیں۔

فائر بندی کا دوسرا اور زیادہ پیچیدہ مرحلہ پہلے مرحلے کے دوران طے کیا جانا ہے۔ باقی قیدیوں کو، جن میں مرد فوجی بھی شامل ہیں، اس مرحلے میں رہا کیا جانا ہے۔

لیکن حماس کا کہنا ہے کہ وہ باقی قیدیوں کو اس وقت تک رہا نہیں کرے گی جب تک مکمل فائر بندی اور اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا نہیں ہوتا، جبکہ اسرائیل نے حماس کو ختم کرنے اور علاقے پر غیر معینہ مدت تک سیکورٹی کنٹرول برقرار رکھنے کا عہد کیا ہے۔

فائر بندی کے بعد غزہ کے مستقبل کے حوالے سے طویل مدتی سوالات باقی ہیں، جن میں یہ شامل ہیں کہ اس علاقے پر کون حکمرانی کرے گا یا تعمیر نو کے مشکل کام کی نگرانی کون کرے گا۔

جمعرات کو اسرائیل کے سخت گیر قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن غفیر نے دھمکی دی تھی کہ اگر اسرائیل نے فائر بندی کی منظوری دی تو وہ حکومت چھوڑ دیں گے۔

انہوں نے جمعے کو یہ دھمکی دوبارہ دی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا: ’اگر یہ معاہدہ منظور ہو گیا تو ہم بھاری دل کے ساتھ حکومت چھوڑ دیں گے۔‘

ہفتے کی صبح تک ان کے مستعفی ہونے کا کوئی اشارہ نہیں تھا۔ ایتمار بن غفیر کے استعفے سے حکومت ختم نہیں ہو گی یا فائر بندی کے معاہدے پر اثر نہیں پڑے گا، لیکن یہ اقدام حکومت کو ایک نازک لمحے میں غیر مستحکم کر سکتا ہے اور اگر بن غفیر کے ساتھ نتن یاہو کے دیگر اہم اتحادی بھی شامل ہو جائیں تو بالآخر اس کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین