واشنگٹن (ایجنسیاں)
وزیرِ اعظم نریندر مودی کے دورۂ امریکہ کو لے کر بھارتی میڈیا پر اس طرح کا ماحول تیار کیا گیا تھا کہ گویا تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ یہ ہورہا ہے اور مودی امریکہ فتح کرنے والے ہیں۔جب کہ وائٹ ہائوس اپنے مفادات کےتحفظ کے اعتبار سے آئے دن غیر ملکی سربراہوں کا استقبال کرتا رہتا ہے۔مگر بھارت کی میڈیا کچھ بھی کرسکتی ہے۔تاہم مودی کے اس کامیاب ترین اور تاریخی دورے کا اختتام ایک ایسے سوال پر ہوگا اس کی امید مودی کا کیا بھارت کی گودی میڈیا نے بھی نہیں کی ہوگی۔
مودی بطور وزیر اعظم اگلے سال دس سال مکمل کرلیں گے ۔پاپولسٹکس سیاست کےلئے مشہور مودی اپنے ملک میں پریس کانفرنس سے گریز کرتے رہے ہیں ۔ وزیرِ اعظم مودی سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ لکھے بغیر بولنے اور صحافیوں کے سوالوں کا جواب دینے سے اجتناب کرتے ہیں۔
لیکن وائٹ ہاؤس میں سرخ قالین پر چلنے والے ہر ایک سربراہ کو مختصر ہی سہی کم سے کم پریس کے ایک سول کا جواب دینا ہی پڑتا ہے ۔کیوں کہ امریکہ دنیا بھر کو آزادی ، پریس کی آزادی جیسے اخلاقیات کا سبق پڑھاتارہتا ہے۔اگر وہ پریس کو مواقع نہیں دے گا تو پھر وہ دنیا کو کیسے سبق سکھا سکتا ہے۔
ٹھیک ایک سال پہلے وزیر اعظم مودی مئی 2022میں جب جرمنی کا دورہ کیا تھا اور دونوں ملکوں نے متعدد دو طرفہ معاہدوں پر دستخط کیے تھے جن میں 2030 تک بھارت کو صاف توانائی میں اضافے کے لیے 10.5ارب ڈالر امداد کا معاہدہ بھی شامل تھا۔اس دورے میں مودی نے میڈیا کے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے منع کردیا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس موقع پر صحافیوں کو سوال کرنے کی اجازت نہیں دی گئی حالانکہ جب کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی اور جرمن چانسلر اولف شولز نے مشترکہ تقریب میں خطاب بھی کیا جبکہ ایسے اعلیٰ سطحی دوروں میں صحافیوں کو کم از کم چارسوال کرنے کی اجازت تو ہوتی ہی ہے۔
اسی پس منظر میں جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں صدر جو بائیڈن کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں مودی کے صحافیوں کے سوالوں کے جواب دینے کوغیر معمولی خیال کیا جا رہا ہے۔لیکن نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ نیوز کانفرنس اس سے کہیں مختصر تھی جو عموماً صدر بائیڈن غیر ملکی مہمانوں کے ساتھ منعقد کیا کرتے ہیں۔
عہدیداروں کے مطابق مودی کے سلسلے میں اتنا بھی ممکن نظر نہیں آرہا تھا مگرچونکہ امریکہ میں کوئی اسٹیٹ وزٹ جیسا کہ نریندر مودی کا ہے، اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اس لیے امریکی انتظامیہ کے عہدیداروں نے مودی کے معاونین کو صاف بتا دیا کہ صحافیوں کے سوالوں کے جواب دینا ایک معیار ہے۔چنانچہ ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے پی کو بتایا کہ نیوز کانفرنس سے صرف ایک روز پہلے، بھارتی عہدیدار اس پر رضامند ہوئے۔
مشترکہ نیوز کانفرنس میں ایک امریکی رپورٹر نے مودی سے بھارت میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کے بارے میں سوال کیا جبکہ ایک بھارتی رپورٹر کا سوال ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق تھا۔ دونوں ہی بھارت کے لیے نازک موضوعات ہیں۔مودی نے انسانی حقوق کو جمہوریت کا حصہ قرار دیا اور بھارت کا دفاع کرتے ہوئے کہاکہ جمہوریت ہماری رگوں میں بستی ہےاور یہ کہ جمہوریت میں کسی امتیاز کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
دراصل گجرات کے وزیرا علیٰ کی حیثیت سے اور پھر وزیر اعظم کی حیثیت سے مودی کا بھارت کے آئین اور ملک کی اقلیتوں کے تئیں جو رویہ اور کردار رہا ہے ۔وہ دنیا کے سامنے آچکا ہے۔مودی ایک طرف چاہتے ہیں کہ وہ دنیا کے لیڈر بن کر ابھریں ۔یہ الگ بات ہے کہ مودی میڈیا رات دن یہ خبر سناتی ہے کہ دنیا نے مودی کو اپنا لیڈر تسلیم کرلیا ہے۔دوسری طرف مودی اپنی سیاسی نظریات اور سیاسی وابستگی سے پیچھا بھی نہیں چھوڑا پارہے ہیں ۔مودی کے ناقدین ہی نہیں بلکہ شروعاتی دور میں مودی کی مدح سرائی میں رطب اللسان ہمہ وقت رہنے والے دانشور اور غیر ملکی میڈیا نے ادراک کرلیا ہے کہ مودی کا دور حکومت جمہوریت اور سیکولر روایات کے اعتبار سے انتہائی نازک ترین ہے۔اب تو مودی کے دوست باراک اوبا مانے بھی اپنے تشویش سے دنیا کو آگاہ کردیا ہے۔
9سال پہلے بھارت کے وزیر اعظمکا منصب سنبھالنے کے بعد سے 72 سالہ مودی نے بہت کم انٹرویو دیے ہیں۔ تاہم وہ سوشل میڈیا پر ایکٹیو ہیں جہاں ان کےکروڑوں فالوورز ہیں۔ وہ ایک ماہانہ ریڈیو پروگرام بھی کرتے ہیں جس میں وہ اپنی حکومت کے منصوبوں کے بارے میں سامعین سے براہِ راست بات کرتے ہیں۔لیکن ملک میں کسی امتیاز کی بنا پر پیش آنے والے واقعات پر مودی کبھی بات نہیں کرتے ۔ انہوں نے اس وقت بھی خاموشی اختیار کیے رکھی جب مذہبی اقلیتوں کو ہندو قوم پرستوں کے حملوں کا سامنا ہوا۔وہ بھارت کے دور دراز شمال مشرق میں حالیہ تشدد پر بھی خاموش رہے جس میں مئی کے مہینے سے کم از کم 100 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
آزادئ صحافت کی تو مودی کے صحافیوں سے گریز کو بعض ناقدین ان کے پریس کو اہمیت نہ دینے سے تعبیر کرتے ہیں۔بھارت میں اگرچہ پریس کی آزادی میں انحطاط مودی اور ان کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے دور میں شروع نہیں ہوا تاہم اس میں اضافہ ضرور ہوا ہے۔ اس سال رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز کے شائع ہونے والے پریس فریڈم انڈیکس میں دنیا کے 180 ممالک میں بھارت گیارہ درجے نیچے آکر اب 161 ویں نمبر پر ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر سال بھارت میں اوسطً تین یا چار صحافی اپنے کام کے دوران ہلاک ہوجاتے ہیں اور بھارت میڈیا کے لیے دنیا کے سب سے خطرناک ممالک میں سے ایک ہو گیا ہے۔
ایسے میں یہ سوال کیا جارہا ہے کہ کیا اسی طرح کے سوالات کا سامنا کے خوف سے مودی پریس کانفرنس سے خطاب کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔امریکی صحافی کے سوال کے جواب میں مودی ہندی میں جوکچھ کہا وہ ملک کی صحیح صورت حال کی عکاسی نہیں کرتی ہے۔مگر مودی یہ بات سمجھنی ہوگی کہ گلوبلائزیشن کے دور میں میں کوئی راز پردہ اخفا میں نہیں رہتا ہے۔ایک نہ دن مودی کو سوالوں کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔یہ الگ بات ہے کہ اس کا فیصلہ وہ خود کریںگے وہ کب اور کیسے سوالات کا سامنا کریں گے