https://www.youtube.com/watch?v=2uDjQoUYvWk&t=159s
کلکتہ :
مغربی بنگال میں اقلیتوں کی تعلیمی ترقی کےلئے قائم عالیہ یونیورسٹی میں جاری بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دانشوروں کے ایک گروپ نے مطالبہ کیا ہے کہ یونیورسٹی کو سیاست کا اکھاڑہ بنانے کے بجائے سہ فریقی وزارت اقلیتی امور،یونیورسٹی انتظامیہ اور مسلم سول سوسائٹی کی میٹنگ منعقد کی جائے اور اس میں بحران سے نکلنے کی راہیں نکالی جائیں ۔
خیال رہے کہ 2007میں سابق بائیں محاذ حکومت نے’’ کلکتہ مدرسہ‘‘(مدرسہ عالیہ) جسے برطانوی گورنر ہسٹنگر نے 1765میں مسلمانوں میں تعلیم کے فروغ کےلئے قائم کیا تھا کو یونیورسٹی کا درجہ ددیا۔تاہم یونیورسٹی اپنے قیام کے پہلے دن سے ہی مختلف تنازعات کا شکار رہا ہے مگر اس وقت یونیورسٹی انتظامیہ اور وزارت اقلیتی امور کے مابین رسہ کشی نے سنگین صورت حال اختیار کرلیا ہے۔ایک طرف وزارت اقلیتی امور نے یونیورسٹی انتظامیہ پر بدعنوانی اور لاپرواہی جیسے سنگین الزامات عاید کئے ہیں وہیں یونیورسٹی انتظامیہ بالخصوص اساتذہ کی یونین نے وزیر اقلیتی امور کے نام کھلا خط لکھتے ہوئے وزارت اقلیتی امور پر الزام عاید کیا ہے کہ بیوروکریٹ نے یونیورسٹی کا ناطقہ بند کردیا ہے ۔اس کی وجہ سے یونیورسٹی مالی بحران کا شکار ہے۔گزشتہ ایک سال یونیورسٹی کے پارک سرکس کیمپس میں انٹر نیٹ کی سہولیت نہیں ہے، گیسٹ اساتذہ کی تنخواہ نہیں دی جارہی ہے اور دیگر مالی پریشانیوں کا سامنا ہے۔ریاستی بجٹ میں یونیورسٹی کےلئے مختص بجٹ بھی جاری نہیں کیا جارہا ہے۔ان بحران کا سیدھا اثر طلبا کے تعلیم پر بھی پڑرہا ہے۔
پینل ڈسکشن میں حصہ لیتے ہوئے عالیہ یونیورسٹی میں بنگلہ شعبہ کے صدر پروفیسر سیف اللہ نے یونیورسٹی انتظامیہ کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ اساتذہ یونین جانچ کے خلاف ہرگز نہیں ہے، مگر جانچ کے لئے جو طریقے کار اختیار کئے گئے ہیں وہ غیر قانونی ہے۔جانچ کمیٹی میں یونیورسٹی کے فیکلٹی کے کسی بھی ممبر کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔دوسرے یہ کہ جانچ کے نام پر یونیورسٹی کے فنڈ کو روک دینے کا جوا ز کہا ں تک ہے۔انہوں نے وزارت اقلیتی امور جس کے تحت عالیہ یونیورسٹی ہے پر سنگین الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وزارت جان بوجھ کر یونیورسٹی کو بحران کی طرف ڈھکیل رہی ہے ۔
سینٹ زیورس کالج میں شعبہ ریاضی کے پروفیسر ربیع الاسلام جنہوں نے یونیورسٹی کو بحران سے نکالنے کےلئے ایک وفد کے ساتھ وزارت اقلیتی امور کے وزیر اور افسران سے ملاقات کی تھی نے واضح لفظوں میں کہا کہ وزارت اقلیتی امور کو جانچ کرنےکے اختیارات ہیں مگر عام طور پر یہ روایت رہی ہے کہ تعلیمی ادارے میں ہونے والی جانچ کمیٹیوں میں ایجوکیشن سے شعبہ سے تعلق رکھنے والی کسی ایک شخصیت کو بھی شامل نہیں کیا جاسکتا ہے۔جو یہاں نہیں کیا گیاہے۔انہوں نے کہا کہ وزارت اقلیتی امور کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی میں فائنس آفیسر نہیں ہونے کی وجہ سے انتظامیہ کو فنڈ کے استعمال کا طریقہ نہیں ہے۔ماضی میں یونیورسٹی کو جو فنڈ دئیے گئے وہ استعمال نہیں ہونے کی وجہ سے واپس ہوگئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ وزارت کا الزام ہے کہ فنڈ کےلئے یونیورسٹی انتظامیہ جو درخواست کرتی ہے وہ صرف ایک سطری ہوتا ہے۔ربیع الاسلام نے کہا کہ ضرورت ہے اس بات کی ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ اور وزارت اقلیتی امور کام کاج کے طریقے کو اختیار کرے۔
جادو پور یونیورسٹی میں پولیٹکل سائنس کے پروفیسر عبد المتین نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ گزشتہ ایک دہائی سے مغربی بنگال کی سول سوسائٹی عالیہ یونیورسٹی سے لاپرواہ ہوگئی ۔اس درمیان حکومت عالیہ یونیورسٹی کے نام پر سیاست تو کرتی رہی مگر اندرون خانہ یونیورسٹی کا نظام درہم برہم ہوتا چلا گیا۔انہوں گزشتہ کئی مہینوں سے یونیورسٹی بحران کی شکار ہے مگر وائس چانسلر اس مسئلے پر ایک پریس کانفرنس نہیں ہے ۔نہ انہوں نے سول سوسائٹی سے ملاقات کی ۔عبد المتین نے کہا کہ حالیہ برسوں میں جس طریقے سے فیکلٹی ممبران کی بحالی ہوئی ہے اس سے یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بھی خطر ے میں پڑگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس پورے مسئلے پر سیاست سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔سہ فریقی میٹنگ ہونی چاہیے جس میں وزارت اقلیتی امور، یونیورسٹی انتظامیہ اور سول سوسائٹی کی ایک میٹنگ ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ رجسٹرار جیسے عہدے کو مذاق بنادیا گیا ہے۔اس پرزیادہ گفتگو کی گنجائش نہیں ہے چوںکہ یہ معاملہ عدالت میں زیر غور ہے۔
فجی یونیورسٹی میں اسکول آف میڈیسن کے پروفیسر غوث الاعظم خان نے یونیورسٹی انتظامیہ کی سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی کے قیام کے وقت ’’کلکتہ مدرسہ کے کردار ‘‘ کی حفاظت کا وعدہ کیا گیا تھا اور یونیورسٹی کے دستور میں بھی اس کو تحریر کیا گیا تھا مگر اب اس کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اس وقت 40فیصد اساتذہ غیر اقلیتی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اس سے یونیورسٹی کے قیام کا مقصد فوت ہوتا جارہاہے۔
سماجی کارکن حسین رضوی نے کہا کہ ہم لوگ اس مسئلے پر وائس چانسلر سے ملاقات کی تھی مگر انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی، بلکہ ہمارے خطکا کوئی جواب نہیں دیا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کس طرح سنجید ہے۔انہوں نے کہا کہ جہاں تک وزارت اقلیتی امور کے افسران بدعنوانی کی بات کررہے ہیں تو سوال یہ ہے کہ فیکٹ فائنڈنگ کی رپورٹ 2016میں آگئی تھی ۔سوال یہ ہے کہ اس وقت کارروائی کیوں نہیں کی گئی ؟
پروفیسرعبد المتین نے کہا کہ ایک طرف وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کہتی ہیں کہ عالیہ یونیورسٹی ان کا ڈریم پروجیکٹ ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ڈریم پروجیکٹ ان کا کبھی نہیں رہا ہے ۔ہاں ان کے دور میں توسیع ہوئی ہے مگر سوال یہ ہے کہ انہوں نے شمالی بنگال میں یونیورسٹی کے کیمپس کے قیام کا وعدہ کیا تھا ۔میڈیکل کالج کھولنے کا وعدہ کیا تھا مگر سوال یہ ہے کہ دس سالوں تک وزارت اقلیتی امورکی وزیر رہتے ہوئے ممتا بنرجی نے کبھی عالیہ یونیورسٹی کی ترقی کےلئے میٹنگ کی اورکیا یونیورسٹی کے وائس چانسلر حکومت کے ان وعدوں پر عمل کرانے کےلئے حکومت اور وزارت اقلیتی امور سے رابطہ کیا۔