آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما اپنے دو سالہ دور اقتدار میں آسام کی ترقی کے ایجنڈے پر بات کرنے کی بجائے ہمیشہ مسلم مخالف ایشوز اور گاندھی پریوار مخالف بیانات کی وجہ سے ہی سرخیوں میں رہے ہیں۔ بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ مسلم دشمنی کی ہوڑ میں وہ پہلے مقام پر پہنچنے کے لیے ماورائے قوانین اور آئین مخالف اقدامات سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں۔وزیرا علیٰ کی حیثیت سے ریاست کے ہر ایک شہری کی ترقی اور ان کی فلاح بہبود ان کی آئینی ذمہ داری ہے۔ آسام میں اساتذہ کی قلت کی وجہ سے اسکول بند ہو رہے ہیں مگر وہ مدرسوں پر بلڈوزر چلا کر سرخیوں میں رہنے کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ سیلاب کے دوران عوام کو بھگوان کے حوالے کر کے مہاراشٹر میں منتخب حکومت کو گرانے کی مہم میں مصرف رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ سیلاب سے متاثرین کی مدد اور ریلیف کی فراہمی میں ناکامی و نامرادی کو چھپانے کے لیے ’سیلاب جہاد‘ کا شوشہ چھوڑ کر میڈیا میں چھا جاتے ہیں۔ ریاست کی زراعت کو کارپوریٹ کلچر کے حوالے کرنے کی راہ آسان بنانے کے لیے ’زمین جہاد‘ کا شوشہ چھوڑ کر مسلمانوں کے گھروں کو اجاڑنے کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔ اور اب انہوں نے ’فرٹیلائزر جہاد‘ کا ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی آڑ میں کوئی بڑی کارروائی ان کے پیش نظر ہے۔
19 مئی کو ہیمنت بسوا سرما نے ’قدرتی کاشتکاری‘ پر ایک کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے اس میں کھاد کے استعمال کی کثرت پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاست میں مختلف غذائی اشیاء میں کھادوں کے زیادہ استعمال کی وجہ سے دل اور گردے کی بیماریوں کے مریضوں میں اضافہ ہوا ہے۔ دراصل اس وقت ریاست میں ’کھاد جہاد‘ چل رہا ہے۔ ہماری حکومت اس جہاد کو ناکام بنا کر رہے گی۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب انہوں نے اس طرح کے الزامات عائد کیے ہیں۔ 2021 میں اسمبلی کے انتخابات سے قبل ضلع ڈارنگ کے سبزیوں کے کاشتکاروں کے ایک پروگرام میں الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی پیداوار کے ذریعے’’کیمیائی اور حیاتیاتی حملہ‘‘ کر رہے ہیں، اس کے نتیجے میں گردے اور جگر کی بیماریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ سرما کے اس الزام کے بعد کئی سوالات کھڑے ہوئے ہیں کہ کیا آسام میں صرف مسلم کاشتکار ہی سبزی اگاتے ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا دوسری ریاستوں میں دیگر کاشتکار فرٹیلائزر کا استعمال نہیں کرتے؟
آسام میں بنگالی نژاد مسلمانوں کی آبادی 35 فیصد ہے۔ ان میں زیادہ تر افراد زراعت سے وابستہ ہیں۔ آسام میں بنگالی مسلمانوں کا خوراک کی فراہمی میں اہم کردار ہے۔ اس کے باوجود بنگالی نژاد مسلمانوں کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ انہیں آسامی ثقافت کے لیے بڑے خطرے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ آل آسام مائناریٹیز اسٹوڈنٹس یونین کے صدر راجا الکریم سرکار نے کہا کہ دراصل یہ آسام کی سیاست سے بنگالی مسلمانوں کو خارج کرنے کی سازش ہے۔ یہ ایک سیاسی کھیل کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ مسلمانوں کو نشانہ بنائیں تو اس سے پولرائزیشن میں مدد ملے گی اور سیاسی طور پر ان کی پوزیشن مضبوط ہو گی۔ نلباری کے ایک کسان اور محقق بونوجیت حسین کہتے ہیں کہ آسام میں صنعتی پیمانے پر تجارتی کھیتی یا زراعت میں مسلمانوں کی حصہ داری زیادہ ہے اور یہ وہی کمیونیٹی یے جس کی شناخت کو ہمیشہ نشانہ بنایا گیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حد سے زیادہ کیمیکلز بالخصوص کیڑے مارنے کی دوائیوں کا استعمال خطرناک ہے اور ملک میں زراعت کی شعبہ میں یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ کیڑے مارنے والی دوائیوں کا حد سے زیادہ چھڑکاو صحت کے لیے نقصان دہ ہے اور ملک بیشتر حصوں میں اس کا استعال کیا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ صرف آسام کا نہیں ہے بلکہ مغربی بنگال، تلنگانہ اور دیگر ریاستوں میں بھی کاشت کار ان دواوں کا زیادہ استعمال کرتے ہیں، تو کیا بنگال اور تلنگانہ کے کسان بھی فرٹیلائزر جہاد کر رہے ہیں؟ اگر ان ریاستوں میں ہندو کسان فرٹیلائزر کا استعمال کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ہیمنت بسوا سرما کے نزدیک یہ جہاد نہیں ہے تو آسام کے مسلم کاشت کار اگر اس کا استعمال کرتے ہیں تو یہ فرٹیلائزر جہاد کیسے ہوا؟ دراں حالیکہ وہ خود ان سبزیوں کا استعمال کرتے ہیں؟-
مارچ 2018 میں گوہاٹی ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ سیما بھویان نے مفاد عامہ کی عرضی دائر کرتے ہوئے آسام میں کاشتکاری، چائے کی کاشت اور یہاں تک کہ مچھلی کی کھیتی میں کیڑے مار ادویات کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔ ہائی کورٹ نے اس کی جانچ کے لیے ماہرین کی کمیٹی تشکیل کرتے ہوئے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ سبزیوں اور دیگر فصلوں میں آلودہ کیمیکل حد سے زیادہ پائے گئے ہیں ۔اس کے بعد عدالت نے ریاستی حکومت کو آلودہ اور زہریلے کیمکل زدہ سبزیوں کو مارکیٹ میں آنے سے روکنے کے لیے اقدامات سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔
سوال یہ بھی ہے کہ آخر کاشت کار کیمیکل کا استعمال کیوں کرتے ہیں، کیا اس کے بغیر زراعت ممکن نہیں ہے؟ کاشت کار اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ کیمیکلز کے استعمال کے بغیر تجارتی کھیتی ممکن نہیں ہے۔ ایک کاشت کار نے بتایا کہ اس نے اس سیزن میں 60 تا 65 کنٹل ٹماٹر فروخت کیے لیکن اگر کیڑے مار ادویات کا استعمال نہیں کیا گیا تو بمشکل 10 کونٹل پیداوار ہو سکے گی۔ اس نے مزید کہا کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم اندھا دھند کیمیکلز کا استعمال کرتے ہیں بلکہ ہم زمین پر ہل چلانے سے قبل کیمیکل کا استعمال کرتے ہیں تاکہ کیڑے مر جائیں اور فصلوں کو نقصان نہ پہنچاسکیں ۔یہ برسوں سے ہو رہا ہے۔ اگر متبادل انتظامات کیے بغیر اچانک اس پر پابندی عائد کردی جائے تو کسانوں کو لاکھوں کا نقصان ہو گا۔ کیڑوں کے حملوں سے فصلیں تباہ ہو جائیں گی، علاوہ ازیں وقت پر مارکیٹ میں سبزیاں پہنچانا بھی مشکل ہو جائے گا۔